ہجر تو روح کا موسم ہے - بانی

الف عین

لائبریرین
دن کو دفتر میں اکیلا، شب۔۔۔ بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر، ایک ایک منظر میں اکیلا
اُڑ چلا وہ، اک جدا خاکہ لئے سر میں۔۔۔۔ اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا!!
کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنوئیں میں
کون اُترے۔۔۔ خواب سے محروم بستر میں ۔۔۔اکیلا
اُس کو تنہا کر گئ کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اُڑا بھاگا وہ سارا دن، نگر بھر میں اکیلا
ایک مدھّم آنچ سی آواز، سرگم سے الگ کچھ،
رنگ اک دبتا ہوا سا، سارے منظر میں اکیلا
بولتی تصویر میں اِک نقش، لیکن کچھ ہٹا سا،
ایک حرفِ معتبر لفظوں کے لشکر میں اکیلا
جاؤ موجو، میری منزل کا پتہ کیا پوچھتی ہو
اک جزیرہ ۔۔۔ دور افتادہ۔۔۔ سمندر میں اکیلا
جانے کس احساس نے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا
اب پڑا ہوں قید، میں رستے کے پتھّر میں اکیلا

ہوٗ بہوٗ میری طرح چپ چاپ مجھ کو دیکھتا ہے
اک لرزتا، خوبصورت عکس، ساغر میں اکیلا
 

الف عین

لائبریرین
ہر طرف سامنا کوتاہ کمالی کا ہے
عشق اب نام کسی قدرِ زوالی کا ہے
شہر کا شہر نمونہ ہے عجب وقتوں کا
ایک اک شخص یہاں وضعِ مثالی کا ہے
کوئ منظر ہے نہ عکس، اب کوئ خاکہ ہے نہ خواب
سامنا آج یہ کس لمحۂ خالی کا ہے
آ ملاؤں تجھے اک شخص سے آئینے میں
جس کا سر شاہ کا ہے، ہاتھ سوالی کا ہے

اب مرے سامنے بانی کوئ رستہ ہے نہ موڑ
عکس چاروں طرف اک شہرِ خیالی کا ہے

 

الف عین

لائبریرین
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
میں اُس سے مل کے نہ تھا خوش۔۔۔ جُدا بھی ہونا تھا
چلو کہ جذبۂ اظہار چیخ میں تو ڈھلا
کسی طرح اسے آخر ادا بھی ہونا تھا
بنا رہی تھی عجب چِتر ڈوبتی ہوئ شام
لہو کہیں کہیں شامل مرا بھی ہونا تھا
عجب سفر تھا کہ ہم راستوں میں کٹتے گئے
پھر اس کے بعد ہمیں لا پتا بھی ہونا تھا
میں تیرے پاس چلا آیا لے کے شکوے گِلے
کہاں خبر تھی کوئ فیصلہ بھی ہونا تھا
غُبار بن کے اُڑے تیز رَو، کہ ِان کے لئے
تو کیا ضرور کوئ راستہ بھی ہونا تھا
سرائے پر تھا دھواں جمع ساری بستی کا
کچھ اس طرح کہ کوئ سانحہ بھی ہوتا تھا

مجھے ذرا سا گماں بھی نہ تھا، اکیلا ہوں
کہ دشمنوں کا کہیں سامنا بھی ہونا تھا
 

الف عین

لائبریرین
گزر رہا ہوں سیہ، اندھے فاصلوں سےمیں
نہ اب ہوں رہ سے عبارت، نہ منزلوں سےمیں
کہاں کہاں سے الگ کر سکوگے تم مجھ کو
جُڑا ہوا ہوں یہاں لاکھ سلسلوں سےمیں
قدم ملانے میں سب کر رہے تھے قوّتیں صرف
مِلا ہوں راہ میں کتنے ہی قافلوں سےمیں
میں اس کے پاؤں کی زنجیر دیکھتاتھا بہت
کچھآشنا نہ تھا اپنی ہی مشکلوں سےمیں
عجیب لوگ ہیں، کچھ کہہ لو، مان لیتے ہیں!!
ہوا ہوں زیر بہت زوٗد قاتلوں سےمیں

کہو تو ساتھ بہا لے چلوں یہ دکھ بھرے شہر
الگ نہیں اِنھیں کھوٹے کھرے دلوں سےمیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھ سے اک اک قدم پر بچھڑتا ہوا کون تھا
ساتھ میرے، مجھے کیا خبر! دوسرا کون تھا
تا بہ منزل یہ بکھری ہوئ گردِ پا کس کی ہے
اے برابر قدم دوستو، وہ جُدا کون تھا؟
جانے کس خطرے نے بخش دی ہم کو ہمسائیگی
ورنہ اک دوسرے سے یہاں آشنا کون تھا
پہلے کس کی نظر میں خزانے تھے اُس پار کے
مثم میرے، حدوں سے اُدھر دیکھتا کون تھا
کون تھا، موسمِ صاف بھی جس کو آیا نہ راس
کچھ تو ہم سے کہو،وہ ہلاکِ ہوا کون تھا
کون تھا، میرے پر تولنے پر نظر جِس کی تھی
جَس نے سر پر مرے آسماں رکھ دیا کون تھا
کس کی بھیگی صدا جھانکتی تھی مری خاک سے
میں تھا اپنا کھنڈر، اس میں میرے سوا کون تھا

کون تھا۔۔ قائلِ قہر ہونا تھا جس کو ابھی،
ٹوٗٹ کر جس پہ برسی بھیانک گھٹا،کون تھا؟؟
 

الف عین

لائبریرین
عجیب تجربہ تھا بھیڑ سے گزرنے کا
اُسے بہانہ ملا مجھ سے بات کرنے کا
ھر ایک موج تہِ آب اُس کو کھینچ گئ
تماشہ ختم ہوا ڈوبنے اُبھرنے کا
مجھے خبر ہے کہ رستہ مزار چاہتا ہے
میں خستہ پا سہی، لیکن نہیں ٹھہرنے کا
تھما کے ایک بکھرتا گلاب میرے ہاتھ
تماشہ دیکھ رہا ہےوہ میرے ڈرنے کا
یہ آسماں میں سیاہی بکھیر دی کس نے
ہمیں تھا شوق بہت اس میں رنگ بھرنے کا
کھڑے ہوں دوست کہ دشمن صفیں سب ایک سی ہیں
وہ جانتا ہے ادھر سے نہیں گزرنے کا
نگاہ ہم سفروں پر رکھو سرِ منزل
کہ مرحلہ ہے یہ اک دوسرے سے ڈرنے کا
لپک لپک کے وہیں ڈھیر ہو گئے آخر
جتن کیا تو بہت سطح سے ابھرنے کا



(ق)

کراں کراں نہ سزا کوئی سیر کرنے کی
سفر سفر نہ کوئی حادثہ گزرنے کا
کسی مقام سے کوئی خبر نہ آنے کی
کوئی جہاز زمیں پر نہ اب اترنے کا
کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی
نہ کوئی عکس مری آنکھ میں ٹھہرنے کا
نہ ان ہوا مرے سینے میںن سنسنانے کی
نہ کوئی زہر مری روح میں اترنے کا
کوئی بھی بات نہ مجھ کو اداس کرنے کی
کوئی سلوک نہ مجھ پہ گراں گزرنے کا

بس ایک چیخ گری تھی پہاڑ سے یک لخت
عجب نظارہ تھا پھر دھند میں بکھرنے کا
 

الف عین

لائبریرین
وہاں سے اب کوئی آئے گا لوٹ کر بھی کیا!
حریف کیا ، مرے یارانِ معتبر بھی کیا!
نہ اب ہے آب میں موتی نہخاک میں سونا
مری طرح ہوئے خالی یہ بحر و بر بھی کیا؟
نہیں رہے گا یہ ہنگامہ کچھ قدم تک بھی
پھر اُس کے بعد مرے ساتھ ہم سفر بھی کیا!
خبر اُڑانے سے موقعے پہ چوکتا بھی نہیں
ہمارا دوست ہے لیکن ہے بے ضرر بھی کیا!
وہ فاصلے تھے کہ دونوں کو راس آتے گئے
کسی کو دوسرے کی پھر کوئی خبر بھی کیا!
ہمارے دل میں ہے کیا؟ سن تو کچھ تسلّی سے
کہ ٹوکنا یہ ترا بات بات پر بھی کیا!
کسی چٹان کے اندر اتر گیا ہوں میں
کہ اب مرے لیے طوفان بھی کیا، بھنور بھی کیا
عجب مثال ہے غم کی یہ قصّہ۔۔ پڑھیے اسے
کہیں کہیں سے بھی کیا، اور تمام تر بھی کیا!
چلو کہ چین سے بیٹھیں کہیں تو اے یارو!
نہیں ہے شہر سے باہر کوئی کھنڈر بھی کیا!
یہی کہ کالی سے لفظوں کو معنی دیتے پھریں
ہمارے پاس ہے اس کے سوا ہنر بھی کیا!
ذرا تو دیکھو کہ کس حال میں ہیں میرے رقیب
کہ اب نگاہ نہ ڈالو گے تم اُدھر بھی کیا؟
جواب دِہ نہ ہوئے ہم کہیں بھی تیرے بعد
کہ سچ تو یہ ہے ہمیں تھا کسی کا ڈر بھی کیا
تمام سلسلسے ان گیسوؤں کے ساتھ گئے
ردائے ابر بھی کیا، سایۂ شجر بھی کیا!
جھلستی خاک پہ تنہا پڑا ہے برگِ امید
ہوا کا اس لُٹے رستے سے اب گزر بھی کیا!
کھلے فراغ سے اک روز ہم سے آ مل بیٹھ
کبھی کبھی کی ملاقاتِ مختصر بھی کیا!
عجیب گھور سیاہی میں گم کھڑا ہوں میں
برونِ در بھی یہاں کیا، درونِ در بھی کیا!
اٹھائی خود ہی یہ دیوار۔۔ خود نہ پھاند سکے
وہ پہلی جست بھی کیا، کوششِ دگر بھی کیا!
کسی عجیب سی دھُن میں اداس پھرتا ہوں
مرے لیے یہ تماشائے رہگزر بھی کیا!
ہمارے آگے تو یوں بھی نہ تھے نشانِ راہ
ہوا نے چاٹ لی گردِ پسِ سفر بھی کیا؟
میں ہوں عجیب سی محرومیوں میں گم اس وقت
کہ مجھ پہ تیری محبّت بھی نظر بھی کیا!

یہ تم نے کس کے لئے شہر چھورا اے بانی
کہ اب نہ لوٹ کے آؤ گے اپنے گھر بھی کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے اُفق تا اُفق
ہر گھڑی اک سماں ڈوبتی شام کا ہے اُفق تا اُفق
کس کے دل سے اڑیں ہیں سلگتے ہوئے غم کی چنگاریاں
دوستو شب گئے یہ اجالا سا کیا ہے اُفق تا اُفق
ہجر تو روح کا ایک موسم سا ہے جانے کب آئے گا
سرد تنہائیوں کا عجب سلسلہ ہے اُفق تا اُفق
سینکڑوں وحشتیں چیختی پھر رہی تھیں کراں تا کراں
آسماں نیلی چادر سی تانے پڑا ہے اُفق تا اُفق
روتے روتے کوئی تھک کے چپ ہو گیا دو گھڑی کے لیے
ایک نمناک سنّاٹا اب چیختا ہے اُفق تا اُفق
ایک میں ہوں پرانا ہوا جا رہا ہوں نفس یک نفس
وہ سحر ہے شفق در شفق، وہ فضا ہے اُفق تا اُفق

میرے ذہنِ شگفتہ کی رنگینیوں کی طرح ہو بہو
ایک نظّارہ لمحہ بہ لمحہ نیا ہے اُفق تا اُفق
 

الف عین

لائبریرین
قدم زمیں پہ نہ تھے راہ ہم بدلتے کیا
ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر۔۔ سنبھلتے کیا
پھر اس کے ہاتھ ہمیں اپنا قتل بھی تھا قبول
کہ آ چکے تھے قریب اتنے، بچ نکلتے کیا
یہی سمجھ کے وہاں سے میں ہو لیا رخصت
وہ چلتے ساتھ، مگر دور تک تو چلتے کیا
تمام شہر تھا اک موم کا عجائب گھر
چڑھا جو دن تو یہ منظر نہ پھر پگھلتے کیا
وہ آسماں تھے کہ آنکھیں سمیٹتیں کیسے
وہ خواب تھے کہ مری زندگی میں ڈھلتے کیا
نباہنے کی اسے بھی تھی آرزو تو بہت
ہوا ہی تیز تھی اتنی۔۔ چراغ جلتے کیا
اُٹھے اور اٹھ کے اسے جا سنایا دُکھ اپنا
کہ ساری رات پڑے کروٹیں بدلتے کیا

نہ آبروئے تعلّق ہی جب رہی بانی
بغیر بات کیے ہم وہاں سے ٹلتے کیا
 

الف عین

لائبریرین
جو زہر ہے مرے اندر وہ دیکھنا چاہوں
عجب نہیں میں ترا بھی کبھی برا چاہوں
میں اپنے پیچھے عجب گرد چھوڑ آیا ہوں
مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں
وہ اک اشارۂ زیریں ہزار خوب سہی
میں اب صدا کے صِلے میں کوئی صدا چاہوں
مرے حروف کے آئینے میں نہ دیکھ مجھے
میںٕ اپنی بات کا مفہوم دوسرا چاہوں
کھُلی ہے دل پہ کچھ اس طرح غم کی بے سببی
تری خبر نہ کچھ اپنا ہی اب پتا چاہوں
کوئی پہاڑ، نہ دریا، نہ آگ رستے میں
عجب سپاٹ سفر ہے کہ حادثہ چاہوں

۔ق۔

نہ چاہوں دور سے آتی ہوئی کوئی آواز
نہ اپنے ساتھ میں اپنی صدائے پا چاہوں
نہ چاہوں سامنے اپنے کوئی بھی عکسِ سفر
نہ سر پہ راہ دکھاتی ہوئی ہوا چاہوں

وہ لائے تو کسی رنجش کو درمیاں بانیؔ
میں بات کرنے کو تھوڑا سا فاصلہ چاہوں
 

الف عین

لائبریرین
آج تو رونے کو جی ہو جیسے
پھر کوئی آس بندھی ہو جیسے
شہر میں پھرتا ہوں تنہا تنہا
آشنا ایک وہی ہو جیسے
ہر زمانے کی صدائے موعتوب
میرے سینے سے اٹھی ہو جیسے
خوش ہوئے ترکِ وفا کر کے ہم
اب مقدّر بھی یہی ہو جیسے
اس طرح شب گئے ٹوٹی ہے امید
کوئی دیوار گری ہو جیسے
یاس آلود ہے ایک ایک گھڑی
زرد پھولوں کی لڑی ہو جیسے
میں ہوں اور وعدۂ فردا تیرا
۔۔۔اور ۔۔۔ اک عمر پڑی ہو جیسے
بے کشش ہے وہ نگاہِ صد لطف
اِک محبّت کی کمی ہو جیسے

کیا عجب لمحۂ غم گزرا ہے۔۔۔
عمر اک بیت گئی ہو جیسے
 

الف عین

لائبریرین
بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
کہ میرے حق میں تری ’بے ضرر‘ دعا ہے بہت
تھی پاؤں میں کوئی زنجیر۔۔۔ بچ گئے، ورنہ
رمِ ہوا کا تماشہ یہاں رہا ہے بہت
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا علس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکانِ حادثہ ہے بہت
بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کر دے
معاملہ ہُنرِ حرف کا جدا ہے بہت
مری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت
تمام عمر جنھیں ہم نے ٹوٹ کر چاہا
ہمارے ہاتھوں انھیں پر ستم ہوا ہے بہت
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ ہر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت

یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانیؔ یہاں سزا ہے بہت
 

الف عین

لائبریرین
شب وہاں تذکرۂ کم ہنراں تھا کتنا
کیا چمکتا کوئی شعلہ کہ دھواں تھا کتنا
ہم کھنچے بیٹھے تھے شمشیرِ برہنہ کی طرح
ہم پہ اک پھول کا سایہ بھی گراں تھا کتنا
پھر نہ گنجائشِ یک صدمہ بھی ہم تم پہ رہی
ٹوٹتا سلسلہ دونوں پہ عیاں تھا کتنا
دیکھ لی تھی مرے اندر کی سیاہی اس نے
اِک ستارہ مری جانب نگراں تھا کتنا
آنکھ سورج نے چرا لی، تو جبیں پربت نے
کچھ ہوا لے اُڑی، سرمایۂ جاں تھا کتنا
ایک آواز کہ ہونتوں پہ جمی تھی کب سے
ایک زہراب کہ سینے میں رواں تھا کتنا

بن کے ہم رہ گئے یک قطرہ تلاطم کا ہی جھاگ
ہم کہ پی جائیں گے دریا ہی، گماں تھا کتنا
 

الف عین

لائبریرین
نہ حریفانہ مرے سامنے آ، میں کیا ہوں
تیرا ہی جھونکا ہوں اے تیز ہوا، میں کیا ہوں
رقصِ یک قطرۂ خوں، آپ کشش، آپ جنوں
اے کہ صد تشنگیِ حرف و صدا، میں کیا ہوں
ایک ٹہنی کا یہاں اپنا مقدّر کیسا
پیڑ کا پیڑ ہی گرتا ہے جدا۔۔۔۔ ، میں کیا ہوں
اک بکھرتی ہوئی ترتیبِ بدن ہو تم بھی
راکھ ہوتے ہوئے منظر کے سوا، میں کیا ہوں
تو بھی زنجیر بہ زنجیر بڑھا ہے مری سمت
ساتھ میرے بھی روایت ہے، نیا میں کیا ہوں
کون ہے جس کے سبب تجھ میں محبّت جاگی
مجھ میں کیا تجھ کو نظر آیا۔۔ بتا۔۔ میں کیا ہوں

ابھی ہونا ہے مجھے اور کہیں جا کے طلوع
ڈوبتے مہر کے ہمراہ بجھا میں کیا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اگر باقی کوئی رشتہ رہے گا
ترے جی کو بھی کچھ دکھ سا رہے گا
چلو رسمِ وفا ہم بھی اُٹھا دیں
کوئی دن شہر میں چرچا رہے گا
نہ جائے گا کبھی دل سے ترا غم
یہ جوگی دشت میں بیٹھا رہے گا
ترے خستہ مزاجوں کو ہمیشہ
جنوں ترکِ محبّت کا رہے گا
یہ دشتِ دل ہے، کوئی آئے یا جائے
برابر ایک سنّاٹا رہے گا
ہوائے یاس کا ہلکا سا جھونکا
ترے آنے سے پہلے آ رہے گا
ہم اک دن خود سے گافل ہو رہیں گے
ترا غم دل ہی میں رکھّا رہے گا
عدم کی سمت بڑھتا جائے گا دل
تجھے آواز بھی دیتا رہے گا

ابد تک ادھ کھلی آنکھوں میں تیری
کوئی جادو، کوئی دھوکا رہے گا
 

الف عین

لائبریرین
چھپی ہے تجھ میں کوئی شے، اسے نہ غارت کر
جو ہو سکے تو کہیں دل لگا، محبّت کر
ادا یہ کس کٹے پتّے سے تو نے سیکھی ہے
ستم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر
نہ ہو مخل مرے اندر کی ایک دنیا میں
بڑی خوشی سے بر و بحر پر حکومت کر
وہ اپنے آپ نہ سمجھے گا تیرے دل میں ہے کیا
خلش کو حرف بنا، حرف کو حکایت کر
مرے بنائے ہوئے بت میں روح پھونک دے اب
نہ ایک عمر کی محنت مری اکارت کر
کہاں سے آ گیا تو بزمِ کم یقیناں میں
یہاں نہ ہوگا کوئی خوش، ہزار خدمت کر
کچھ اور چیزیں ہیں دنیا کو جو بدلتی ہیں
کہ اپنے درد کو اپنے لیے عبارت کر
نہیں عجب اسی پَل کا ہو منتظر وہ بھی
کہ چھو لے اس کے بدن کو۔۔۔ ذرا سی ہمّت کر

خلوص تیرا بھی اب زد میں آ گیا بانیؔ
یہاں یہ روز کے قصّے ہیں، جی برا مت کر
 

الف عین

لائبریرین
ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا
میں سنّاٹے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا
وہی اک موسمِ سفّاک تھا، اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا
ہم اپنی چُپ کو افسوں خانۂ معنی سمجھتے تھے
کہاں دل کو خبر تھی، امتحاں حرف و صدا کا تھا
غلط تھی راہ لیکن کس کو دم لینے کی فرصت تھی
قدم جس سمت اٹھّے تھے، ادھر ہی رخ ہوا کا تھا
ہمارے دوست بننے کو ضرورت حادثے کی تھی
عجب اک مرحلہ سا درمیاں میں ابتدا کا تھا
ہم اپنے ذہن میں کیا کیا تعلّق ا سے رکھتے تھے
وہاں سارا کرشمہ ایک بے معنی ادا کا تھا
مسافر تنہا تنہا لوٹ آئے راہ سے آخر
سمجھتے تھے جسے رہبر، وہ اک جھونکا کا تھا

وہاں ٹھنڈی سماعت تھی سمندر کی طرح بانیؔ
یہاں الفاظ پر سایہ کسی بنجر صدا کا تھا
 

الف عین

لائبریرین
آج کیا لَوٹتے لمحات میسّر آئے
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے
آشنائی ترے جلووں سے مگر کیا تھی ضرور
اک نظر دیکھ لیں ہم رونقیں، جی بھر آئے
کیا خبر ترکِ تعلّق ہی اسے ہو منظور
اب گِلہ کرتے بھی اِس جی کو بہت ڈر آئے
تو ہی کچھ کہہ کہ ترے عہدِ وفا سے پہلے
غم وہ کیا تھا کہ ہم اک عمر بسر کر آئے
تیرے قصّے نہیں کم یوں تو رلانے کے لیے
اک اچٹتا سا تعلّق بھی میسّر آئے
اپنی خاموش نگاہی کو نہ اک راز سمجھ
غم زدوں تک ترے پیغام برابر آئے

کس نے دیکھی ہے مگر جنّتِ فردا بانیؔ
یہ وہ دنیا ہے کہ بس دھیان میں اکثر آئے
 

الف عین

لائبریرین
وہ،۔۔۔ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھّر۔۔۔ سامنے تھا
اک پگھلتی موم کا سیّال پیکر سامنے تھا
میں نے چاہا آنے والے وقت کا اک عکس دیکھوں
بیکراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر سامنے تھا
اپنی اک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اس نے
آج وہ اپنے تعلّق سے بی بڑھ کر سامنے تھا
میں یہ سمجھا تھا کہ سرگرمِ سفر ہے کوئی طائر
جب رکی آندھی تو اک ٹٹا ہوا پر سامنے تھا
میں نے کتنی بار چاہا خود کو لاؤں راستے پر
میں نے پھر کوشش بھی کی، لیکن مقدّر سامنے تھا
سرد جنگل کی سیاہی پاٹ کر نکلے ہی تھے ہم
آخری کرنوں کو تہہ کرتا سمندر سامنے تھا
ٹٹنا تھا کچھ عجب قہرِ سفر پہلے قدم پر
مُڑ گئی تھی آنکھ، ہنستا کھیلتا گھر سامنے تھا
پُشت پر یاروں کی پسپائی کا نظّارہ تھا شاہد
دشمنوں کا مسکراتا ایک لشکر سامنے تھا

آنکھ میں اترا ہوا تھا شام کا پہلا ستارہ
رات کالی سر پہ تھی۔۔۔ اور سرد بستر سامنے تھا
 
Top