ہجر تو روح کا موسم ہے - بانی

الف عین

لائبریرین
ہوائیں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا
میں سنّاٹے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا
وہی اک موسمِ سفّاک تھا، اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا
ہم اپنی چُپ کو افسوں خانۂ معنی سمجھتے تھے
کہاں دل کو خبر تھی، امتحاں حرف و صدا کا تھا
غلط تھی راہ لیکن کس کو دم لینے کی فرصت تھی
قدم جس سمت اٹھّے تھے، ادھر ہی رخ ہوا کا تھا
ہمارے دوست بننے کو ضرورت حادثے کی تھی
عجب اک مرحلہ سا درمیاں میں ابتدا کا تھا
ہم اپنے ذہن میں کیا کیا تعلّق ا سے رکھتے تھے
وہاں سارا کرشمہ ایک بے معنی ادا کا تھا
مسافر تنہا تنہا لوٹ آئے راہ سے آخر
سمجھتے تھے جسے رہبر، وہ اک جھونکا کا تھا

وہاں ٹھنڈی سماعت تھی سمندر کی طرح بانیؔ
یہاں الفاظ پر سایہ کسی بنجر صدا کا تھا
 

الف عین

لائبریرین
آج کیا لَوٹتے لمحات میسّر آئے
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے
آشنائی ترے جلووں سے مگر کیا تھی ضرور
اک نظر دیکھ لیں ہم رونقیں، جی بھر آئے
کیا خبر ترکِ تعلّق ہی اسے ہو منظور
اب گِلہ کرتے بھی اِس جی کو بہت ڈر آئے
تو ہی کچھ کہہ کہ ترے عہدِ وفا سے پہلے
غم وہ کیا تھا کہ ہم اک عمر بسر کر آئے
تیرے قصّے نہیں کم یوں تو رلانے کے لیے
اک اچٹتا سا تعلّق بھی میسّر آئے
اپنی خاموش نگاہی کو نہ اک راز سمجھ
غم زدوں تک ترے پیغام برابر آئے

کس نے دیکھی ہے مگر جنّتِ فردا بانیؔ
یہ وہ دنیا ہے کہ بس دھیان میں اکثر آئے
 

الف عین

لائبریرین
وہ،۔۔۔ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھّر۔۔۔ سامنے تھا
اک پگھلتی موم کا سیّال پیکر سامنے تھا
میں نے چاہا آنے والے وقت کا اک عکس دیکھوں
بیکراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر سامنے تھا
اپنی اک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اس نے
آج وہ اپنے تعلّق سے بی بڑھ کر سامنے تھا
میں یہ سمجھا تھا کہ سرگرمِ سفر ہے کوئی طائر
جب رکی آندھی تو اک ٹٹا ہوا پر سامنے تھا
میں نے کتنی بار چاہا خود کو لاؤں راستے پر
میں نے پھر کوشش بھی کی، لیکن مقدّر سامنے تھا
سرد جنگل کی سیاہی پاٹ کر نکلے ہی تھے ہم
آخری کرنوں کو تہہ کرتا سمندر سامنے تھا
ٹٹنا تھا کچھ عجب قہرِ سفر پہلے قدم پر
مُڑ گئی تھی آنکھ، ہنستا کھیلتا گھر سامنے تھا
پُشت پر یاروں کی پسپائی کا نظّارہ تھا شاہد
دشمنوں کا مسکراتا ایک لشکر سامنے تھا

آنکھ میں اترا ہوا تھا شام کا پہلا ستارہ
رات کالی سر پہ تھی۔۔۔ اور سرد بستر سامنے تھا
 

الف عین

لائبریرین
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے
تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے
مجھے بچھڑبے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جُدا ہے میرے لیے
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب ایک سلسلہ ہے میرے لیے
عجیب در گزری کا شکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے
گزر سکوں گا نہ اس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹی بھی زنجیر پا ہے میرے لیے
اب آپ جاؤں تو جا کر اسے سمیتوں میں
تمام سلسلہ بکھرا پڑا ہے میرے لیے
یہ حسنِ ختمِ سفر۔۔ یہ طلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیٓ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
اِدھر کی آئے گی اک رو، اُدھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹّی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں۔۔۔ کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اُس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دکھ مرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی
ابھی بلند رکھو یارو آخری مشعل
اِدھر تو پہلی کرن کیا سحر کی آئے گی

کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانیٓ
صدا، نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی
 

الف عین

لائبریرین
رنگ لپک سے عاری۔۔۔ جسم، ادا سے خالی
یہ کیسی بستی ہے، عکسِ ہوا سے خالی
ہم سے پہلے شاید کوئی آیا نہ گیا
اک اک راہ پڑی ہے نقشِ پا سے خالی
یوں نکلا ہوں گھر سے، گھر کے ہر منظر سے
کچھ ٹوٹے اوپر سے، ہونٹ دعا سے خالی
پچھلے پہر نے بڑھ کر میری چیخ سمیٹی
کاسۂ شب تھا شاید ایک صدا سے خالی

اب کے چلی وہ آندھی، لمحۂ روشن غائب
دن سنگھرش سے عاری،،، رات۔۔ خدا سے خالی
 

الف عین

لائبریرین
وہ مناظر ہیں یہاں، جن میں کوئی رنگ نہ بو۔۔۔۔ بھاگ چلو
جاتے موسم کی فجا ہے، کہیں مانگے نہ لہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
کوئی آواز پسِ در ہے، نہ آۃت سرِ کُو۔۔۔۔ بھاگ چلو
بے صدائی کا وہ عالم ہے کہ جم جائے لہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
یہ وہ بستی ہے جہاں شام سے سو جاتے ہیں سب اہلِ وفا
شب کا سنّاٹا دکھائے گا عجب عالمِ ہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
کیا عجب منظرِ بے چہرگی ہع سمت نظر آتا ہے
ہر کوئی اور کوئی اور ہے، نہ یہاں میں ہے نہ توٗ۔۔۔۔ بھاگ چلو
پھر کسی حرفِ تمنٓا کو اُڑا دے گا دھوئیں کے مانند
وقت بیٹھا ہے یہاں بن کے کوئی شعبدہ جو۔۔۔۔ بھاگ چلو
دوستو شکر کرو چاکِ جگر تک نہیں بات آئی ابھی
یہ گریبان تو ہو جائے گا سَو بار رفُو۔۔۔۔ بھاگ چلو

کسی تصویر کے پیچھے نہیں یاں کوئی تصوّر بانیؔ
ایک اک چیز ہے بیگانۂ ادراکِ نمو۔۔۔۔ بھاگ چلو
 

الف عین

لائبریرین
جادو گری اس پر کسی صورت نہ چلے گی
اے عشق، تری سعیِ متانت نہ چلے گی
مجھ سا ترا دشمن بھی یہاں کون ہے، کچھ سوچ
دو روز بھی اپنی یہ عداوت نہ چلے گی
خوابیدہ سے لہجے میں سنا لے ابھی قصّے
وہ درد اٹھے گا کہ نزاکت نہ چلے گی
تو اپنے غمِ ذات کو کیسے ہی بیاں کر
اَوروٕ کی تراشیدہ عبارت نہ چلے گی
جھلسی ہوئی اک راہ پہ آنے کی ہے بس دیر
پھر ساتھ ترے گردِ مسافت نہ چلے گی
بستی ہے مری جاں یہ عجب بند گھروں کی
چل دے کہ یہاں رسمِ محبّت نہ چلے گی
میں ترکِ وفا کر لوں، مگر مجھ کو بتا دو
اس حادثے سے کوئی روایت نہ چلے گی
جو آئے ترے دھیان میں دل باختہ کہہ دے
بے ساختہ کہہ دے۔۔۔ کہ حکایت نہ چلے گی

ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ درماں نہیں بانیؔ
شب بھر ترے پینے کی یہ عادت نہ چلے گی
 

الف عین

لائبریرین
تیرگی بلا کی ہے، میں کوئی صدا لگاؤں
ایک شخص ساتھ تھا، اُس کا کچھ پتا لگاؤں
بہتے جانے کے سوا، بس میں کچھ نہیں تو کیا
دشمنوں کے گھاٹ ہیں، ناؤ کیسے جا لگاؤں
وہ تمام رنگ ہے، اس سے بات کیا کروں
وہ تمام خواب ہے، اُس کو ہاتھ کیا لگاؤں
کچھ نہ بن پڑے تو پھر ایک ایک دوست پر
بات بات شک کروں، تہمتیں جُدا لگاؤں
منظر آس پاس کا دوبتا دکھائی دے
میں کبھی جو دور کی بات کا پتا لگاؤں
ایسی تیری بزم کیا۔۔۔ ایسا نظم و ضبط کیا!
میرے جی میں آئی ہے آج قہقہہ لگاؤں

یہ ہے کیا جگہ میاں، کہہ رہے ہیں سب کہ یاں
کچھ کشاں کشاں رہوں، دل ذرا ذرا لگاؤں
 

الف عین

لائبریرین
گِرد میرے نہ فصیلیں ترے کام آئیں گی
کچھ ہوائیں تو مری سمت مدام آئیں گی
یہ مسافت کہ چلی جائے گی رستہ رستہ
منزلیں یوں تو نئی گام بہ گام آئیں گی
کچھ تو دل آپ ہی بجھتا سا چلا جاتا ہے
اورکیا کیا نہ ہوائیں سرِ شام آئیں گی
اِس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو
اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی

بین کرتی ہوئی سمتوں سے نہ ڈرنا بانیؔ
اتنی آوازیں تو اس راہ میں عام آئیں گی
 

الف عین

لائبریرین
پی چکے تھے زہرِ غم۔۔۔ خستہ جاں پڑے تھے ہم۔۔ چین تھا
پھر کسی تمنّا نے، سانپ کی طرح ہم کو ڈس لیا
میرے گھر تک آتے ہی، کیوں جدا پوئ تجھ سے، کچھ بتا
ایک اور آہٹ بھی ساتھ ساتھ تھی تیرے، اے صبا!
سر میں جو بھی تھا سودا، اُڑ گیا خلاؤں میں مثلِ گرد
ہم پڑے ہیں رستے میں، نیم جاں۔۔۔۔ سکچتہ دل۔۔۔ خستہ پا
سب کھڑے تھے آنگن میں اور مجھ کو تکتے تھے، بار بار
گھر سے جب میں نکلا تھا، مجھ کو روکنے والا کون تھا؟

جوش گھٹتاجاتا تھا، ٹوٹتے سے جاتے تھے حوصلے
اور سامنے۔۔ بانی۔۔۔ دوڑتا سا جاتا تھا راستہ!
 

الف عین

لائبریرین
میں چپ کھڑا تھا تعلّق میں اختصار جو تھا
اُسی نے بات بنائ، وہ ہوشیار جو تھا
پٹخ دیا کسی جھونکے نے لا کے منزل پر
ہوا کے سر ہپہ کوئ دیر سے سوار جو تھا
محبّتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لئے
مگر وہ ملتا تھا ہنس کر، کہ وضع دار جو تھا
عجب غرور میں آکر برس پڑا بادل
کہ پھیلتا ہوا چاروں طرف غبار جو تھا

قدم قدم رمِ پامال سے میں تنگ آ کر
ترے ہی سامنے آیا، ترا شکار جو تھا
 

الف عین

لائبریرین
سر بسر ایک چمکتی ہوئ تلوار تھا میں
موجِ دریا سے مگر بر سرِ پیکار تھا میں
میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا
یا کسی حرفِ تہی اسم کا اظہار تھا میں
ایک اک موج پٹخ دیتی تھی باہر مجھ کو
کبھی اِس پار تھا میں، اور کبھی اُس پار تھا میں
اُس نے پھر ترکِ تعلّق کا بھی موقع نہ دیا
گھٹتے رشتوں سے کہ ہر چند خبردار تھا میں

اس تماشے میں تاثّر کوئ لانے کے لئے
قتل، بانی، جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
 

الف عین

لائبریرین
شب چاند تھا جہاں ۔۔ وہیں اب آفتاب ہے
در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے
آواز کوئ سر سے گزرتی چلی گئی
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے
ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری
ہاں کچھ بھی جو کہے۔۔۔ جو یہاں کامیاب ہے
شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا
اب کوئ موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ
بانی ابھی وہ اپنے لئے خود عذاب ہے
 

الف عین

لائبریرین
شعلہ ادھر اُدھر۔۔۔ کبھی سایا یہیں کہیں
ہو گا وہ برق جسم، سبک پا، یہیں کہیں!
کن پانیوں کا زور اسے کاٹ لے گیا
دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں
منسوب جس سے ہو نہ سکا کوئ حادثہ
گم ہو کے رہ گیا ہے وہ لمحہ یہیں کہیں
آوارگی کا ڈر، نہ کوئ ڈوبنے کا خوف
صحرا ہی آس پاس۔۔۔ نہ دریا یہیں کہیں
وہ چاہتا یہ ہوگا کہ میں ہی اُسے بلاؤں
میری طرح وہ پھرتا ہے تنہا یہیں کہیں!

بانی ذرا سنبھل کے محبّت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
 

الف عین

لائبریرین
تنہا تھا۔۔ مثلِ آئینہ۔۔۔ تارہ، سرِ اُفق
اُٹھتی نہ تھی نگاہ دوبارہ، سرِ افق
سب دم بخود پڑے تھے خسِ جسم و جاں لیے
لہرا رہا تھا کوئ شرارہ سرِ افق
اک موجِ بے پناہ میں ہم یوں اُڑے پھرے
جیسے کوئ طلسمی غبارہ سرِ افق
کب سے پڑے ہیں بند زمان و مکاں کے در
کوئ صدا نہ کوئ اشارہ سرِ افق

سب کچھ سمیٹ کر مرے اندر سے لے گیا
اک ٹوٹتی کرن کا نظارہ سرِ افق
 

الف عین

لائبریرین
منا لینا اُس کو ہنر ہے مرا
بہانہ ہر اک کارگر ہے مرا
ہوا ہم سفر ہو گئ ہے مری
قدم ہیں مرے، اب نہ سر ہے مرا
مجھے کیا خبر تھی تری آنکھ میں
عجب ایک رکسِ دِگر ہے مرا
مجھے آسماں کر رہا ہے تلاش
گھنے جنگلوں سے گزر ہے مرا
میں دو دن میں خود تُجھ سے کٹ جاؤں گا
کہ ہر سلسلہ مختصر ہے مرا
زمانے۔۔۔ تری رہبری کے لیے
بہت یہ غبارِ سفر ہے مرا

ترے سامنے کچھ نہ ہونے کا عکس
مرے سامنے کوئ ڈر ہے مرا
 

الف عین

لائبریرین
سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف
مری ایک ذاتِ دگر کی طرف
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف
مرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئ ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف
کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی
پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح
کوئ درمیاں سے نکلتا گیا
نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف
تری دشمنی خود ہی مائل رہی
کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف

رہی دل میں حسترت کہ بانی چلیں
کسی منزلِ پُر خطر کی طرف
 

الف عین

لائبریرین
او ستم گور تو بڑا سشمنِ جاں ہے ۔۔۔ سب کا
کوئ بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے ۔۔۔ سب کا
ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم
شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے ۔۔۔ سب کا
آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے
اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے ۔۔۔ سب کا
اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں
حسن کے باب میں ادراک جواں ہے ۔۔۔ سب کا
ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں
کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے ۔۔۔ سب کا
کوئ سر پھوڑنا چاہے تو نہ اک سنگ ملے
اب تو اس شہر میں شیشے کا مکاں ہے ۔۔۔ سب کا

خیمۂ گرد جو راہوں میں تنا ہے بانی
اب یہی سب کا پتہ ہے، یہ نشاں ہے ۔۔۔ سب کا
 
Top