ہجائی ترتیب کے مطابق بیت بازی (صرف علامہ اقبال کے اردو یا فارسی اشعار)

سیما علی

لائبریرین
ض
ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی
فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام

بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں
قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام

اگر قبول کرے، دین مصطفی ، انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
 

سیما علی

لائبریرین
ط
طریق اہل دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا
نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درویشی

یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا
کہ ہے ضبط فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
 

سیما علی

لائبریرین
ظ

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کر ے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

منصور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
 

سیما علی

لائبریرین
ع
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام

تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
 

سیما علی

لائبریرین
غ
غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن
انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر

پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر

آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے
'مسکیں ولکم ماندہ دریں کشمکش اندر'!
 

سیما علی

لائبریرین
ف
فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
 

سیما علی

لائبریرین
ق
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
 

سیما علی

لائبریرین
ک
کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار
اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امت کو؟
وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد عربی سے ہے عالم عربی

------------------------
 

سیما علی

لائبریرین
م

میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومیؔ کبھی پیچ و تاب رازیؔ
 

سیما علی

لائبریرین
ن
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی

نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی
 

سیما علی

لائبریرین
و
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی

میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی
 

سیما علی

لائبریرین
ھ

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے

غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ی

یا مری آہ میں ہی کوئی شرر زندہ نہیں
یا ذرا نم ابھی تیرے خس و خاشاک میں ہے

کیا عجب میری نوا ہائے سحر گاہی سے
زندہ ہو جائے وہ آتش جو تری خاک میں ہے

توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسم شب و روز
گرچہ الجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُٹھ کہ ان بزم جہاںکا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آباءوہ تمھارے ہی، مگرتم کیا ہو ؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ب
بہت رنگ بدلے سپہرِ بریں نے
خدایا یہ دنیا جہاں تھی، وہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برا نہ مان ، ذرا آزما کے ديکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری
 

سیما علی

لائبریرین
پ
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو

اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
 

سیما علی

لائبریرین
ت
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
 
Top