ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

(نور سعدیہ شیخ کے ایک مراسلے پر کشتگانِ تمباکو کے ردِ عمل کے ردِ عمل میں آبدیدہ ہو کر لکھا گیا)
دنیائے منشیات میں سگرٹ کو جو امتیازی مقام حاصل ہے اس کی کچھ مسکت قسم کی وجوہ ہیں۔ لیکن پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ سگرٹ نوشی کیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سگرٹ نوشی کیا نہیں ہے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس بعض اوقات اپنی کوتاہ بینی کے باعث سگرٹ نوشوں اور چرسیوں کو ایک ہی قوم سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے پیدا ہونے والے خلطِ مبحث کا کوئی حل نہیں۔ پھر اگر اصیل قسم کے سگرٹ نوش مشتعل ہوں یا احتجاج کریں تو بدطینت مخالفین اسے گیس پر محمول کر کے ان کی باقی ماندہ براہینِ قاطعہ کو بھی یک قلم مسترد کر دیتے ہیں۔ اس درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کرنے سے شرفا کی عزتِ نفس کو جو ٹھیس پہنچتی ہے اسے کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔ نیز اس جذباتی استحصال کے ردِ عمل میں عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی چرس پینا شروع کر دیتے ہوں۔ لیکن خیر، چرس نہ بھی شروع کریں تو کم از کم جوتم پیزار کی تو کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ طے کر لینے ہی میں جانبین کا فائدہ ہے کہ سگرٹ نوشی کیا نہیں ہے۔
سب سے اہم معاملہ تو یہی سگرٹ اور چرس نوشوں کے مابین فرق کا ہے۔ اس فرق کو منطقی طور پر کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
ہر چرس نوش سگرٹ نوش ہوتا ہے۔
ہر سگرٹ نوش چرس نوش نہیں ہوتا۔
عوام پہلے قضیے کو تو خوب جانتے ہیں مگر دوسرے کی بابت کچھ مجرمانہ سی غفلت کا شکار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دانستہ غور نہ کرتے ہوں کیونکہ عوام کی خواص دشمنی بھی مشہور ہے۔ بہرحال، اتمامِ حجت کے لیے ہم کچھ زود فہم مگر اظہر من الشمس علامات نقل کرتے ہیں جن سے ہر دو گروہ کا فرق بادی النظر میں معلوم کیا جا سکے گا۔ گو کہ ہمیں خبر ہے کہ مکار دشمن پھر بھی اپنے مذموم عزائم سے باز نہیں آئے گا لیکن کم از کم انصاف پسند طبائع کی ہمدردیاں تو ہمارے ساتھ ہو ہی جائیں گی۔ ہم اسی پر قناعت کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!
تو صاحبو، پہلی بین علامت یہ سمجھ لیجیے کہ چرسی حضرات آپ کو کبھی اکیلے نظر نہیں آئیں گے۔ سیاستدان اکیلا تقریر کر سکتا ہے، سکھ اکیلا ڈیٹ پر جا سکتا ہے، بھانڈ اکیلا گا سکتا ہے مگر کوئی چرسی تنہا چرس نہیں پی سکتا۔ چرس مل بیٹھ کر اور مل بانٹ کر ہی پی جاتی ہے۔ زمانۂِ حال کے بعض آزاد بلکہ آزاد مصدر مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مارکس نے اشتراکیت کا تصور دراصل چرسیوں ہی سے مستعار لیا تھا۔ اس پر چرسی بھی مصر ہو گئے ہیں کہ مارکس کو فوت ہونے سے قبل دیانت دار لوگوں کی طرح یہ تصور ثابت و سالم واپس کرنا چاہیے تھا نیز یہ کہ اشتراکیت اسی بددیانتی کے متاثرین کی بددعاؤں کے طفیل ناکام ہوئی ہے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ چرسیوں کے ہاں تصور کا تصور غالباً کافی مختلف ہے۔ خیر، مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔
پھر یہ ہے کہ سلسلۂِ عالیہ چرسیہ عموماً نہایت مرنجاں مرنج قسم کے بزرگوں پر مشتمل ہے۔ بزرگ ہم نے اس لیے کہا کہ یہ شکل ہی سے زمانۂِ فراعین کے معلوم ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ ان کے اندر بلوغت اکثر و بیشتر منتہائے کمال کو پہنچی ہوئی پائی گئی ہے۔ یعنی پیروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ ایک صاحب کی مثال ہم آپ کی اور ان کی اپنی اجازت کے بغیر آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ صاحبِ موصوف جب پورے طور پر دھت ہو جاتے ہیں تو یک بیک ان کے ہونٹوں پر ایک گوتمی سی مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ بازیچۂِ اطفال ہے دنیا مرے آگے! اگر آپ اس وقت ان سے اس ناگہانی تبسم کی وجہ دریافت کرنے کی جسارت کریں گے تو یہ مسکراہٹ اور گہری ہو جائے گی۔ پھر وہ معاً اپنے انتہائی بائیں جانب بیٹھے کسی رفیق کے کان میں تقریباً داخل ہو جائیں گے، چھنگلی سے آپ کی جانب اشارہ کریں گے اور مدھر سی سرگوشی میں فرمائیں گے:
"ٹُن ہے!"
اس پر اگر آپ بھی ہماری طرح نجیب الطرفین واقع ہوئے ہیں تو لاجواب ہو جانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہیں۔ لیکن ابلاغ سے مایوس لوگوں کو مژدہ ہو کہ ایک قادر الکلام شاعر نے یہ کفر بھی توڑ دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے ٹُن ہو جاتا ہوں------
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، اُن ہو جاتا ہوں​
آپ کو ہدایت ہے کہ ایسے مواقع پر اس شعرِ ناب کا کثرت سے ورد کر کے اختلاجِ قلب سے فوری نجات پائیں۔ پریشانی کی ویسے بھی کوئی بات نہیں کیونکہ حشیشین بھی لڑائی جھگڑے سے عموماً دور ہی بھاگتے ہیں۔ آپ کسی چرسی کو برا بھلا کہہ بھی بیٹھیں تو وہ انشاءاللہ پلٹ کر جواب نہیں دے گا۔ زیرِ لب حساب چکتا کر دے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے!
اب آئیے بادہ و مینا کی جانب۔ سگرٹ نوش بفضلِ تعالیٰ دخترَ رز کے متوالوں سے بھی واضح امتیاز رکھتے ہیں۔ شراب نوشوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ خواہ بارہ برس دلی میں رہ کر بھاڑ ہی جھونکا کیے ہوں مگر پیتے ہی بلبلِ شیراز ہو جاتے ہیں۔ ایسے ایسے پرمغز اشعار سے آپ کی تواضع ہو گی کہ آپ کو سری پائے (اپنے بھی) بھول جائیں گے۔
مے خواروں کا جلال بھی مشہور ہے۔ ایک شادی پہ ہمیں خود اس کی تصدیق کا موقع میسر آیا۔ یادش بخیر، ایک مردِ حُر کو ہم نے دیکھا کہ پیتا جاتا ہے اور چلا چلا کر کہتا جاتا ہے:
یہ کوئی بات ہے بھلا؟ نہیں، یہ کوئی بات ہے بھلا؟
ایک اور مخمور جو اپنے تئیں اس سونامی کے آگے بند باندھے ہوئے تھا، نہات استقلال کے ساتھ ہر بارفقط اتنا عرض کرتا تھا:
نہیں۔ یہ کوئی بات نہیں!
اس دوران میں مردِ حُر اگلا گھونٹ لے لیتا تھا۔ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
معروف منشیات میں اب بھنگ، ہیروئن اور افیون وغیرہ کا بیان رہ گیا ہے۔ لیکن ان کی نشانیاں ہم بیان نہیں کر سکتے کیونکہ یہ مسکرات ہمارے اکثر دوستوں کے زیرِ استعمال نہیں رہیں۔ جن کے رہی ہیں وہ اکثر ہمارے بلکہ کسی کے بھی قابلِ استعمال نہیں رہے۔ اندازے سے رائے دی جا سکتی ہے لیکن اس سےخواہ مخواہ کسی بیچارے کی دلآزاری ہو جائے تو لعنت ہے۔ لہٰذا براہِ کرم عذر مسموع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
ہمارے خیال میں یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کہ الحمدللہ، ثم الحمدللہ سگرٹ نوشی مندرجہ بالا تمام علائق سے مکمل طور پر منزہ و مبراہے۔ کوئی صاحب مبدءِ فیض سے کوئی علت لے کر پیدا ہو گئے ہوں تو کہہ نہیں سکتے مگر سگرٹ نوشوں پر من حیث المجموع اس قسم کا کوئی رکیک الزام قطعاً عائد نہیں کیا جا سکتا۔
ہائے صاحبو، اب وقت تھا کہ ہم وعدے کے مطابق سگرٹ کے محاسن پر مفصل بحث کا آغاز کرتے۔ مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بقولِ غالبؔ:
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!​
شاید کوئی صاحب فساد کی راہ سے کہیں کہ بھئی باقی تو صرف مدح ہی رہ گئی۔ دشمنوں کے لتے تو سب لینے کا وقت مل گیا ، ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری رائے میں اعلائے کلمۃ الحق سے قبل شر کا مکمل استیصال اشد ضروری ہے۔ اگر آپ کو ہمارے مؤقف سے اتفاق نہیں تو ہمیں بھی آپ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ آپ کے لیے اتنی ہی سزا کافی ہے کہ آپ یہاں تک کا مضمون بلاوجہ پڑھ آئے ہیں۔ اب چاہیے کہ آپ زور زور سے کفِ افسوس ملیں اور پھر غالبؔ کی طرح اسے عہدِ تجدیدِ تمنا وغیرہ کا نام دے کر معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی مدد کو نکل کھڑے ہوں۔ گٹ آؤٹ!
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خبیث تھا!​
باقی ماندہ قارئین سے ہم استعارۃً دوزانو ہو کر عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے نہایت محترم ہیں۔ ہم خدانخواستہ ایسے آدمی نہیں کہ جذبات میں آ کر بھلے برے کی تمیز ہی بھول جائیں۔ اس بدمزگی پر شرمندہ ہونے کی آپ کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے کودن اور غبی لوگ بڑے بڑے شہروں میں بھی اپنی چراند پھیلانے سے باز نہیں آتے۔ اور وہ سعدیؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد​
یعنی حضرت عیسیٰؑ کا گدھا اگر مکے سے بھی ہو آئے تو گدھے کا گدھے ہی رہتا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ ہمارے اس ادنیٰ سے مضمون کی بھلا کیا مجال ہو گی کہ ان کوڑھ مغزوں کو سیدھا کر سکے؟
لیکن وقت اور اوراق کی قلت چونکہ ٹھوس مادی حقائق ہیں لہٰذا ان سے صرفِ نظر اچھی بات نہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سگرٹ نوشی کے تمام تر محاسن کو ایک حد درجہ بلیغ جملے میں بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ یعنی وہ جملہ ایسا ہو کہ اس کے بعد کسی اور خوبی کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہی سرے سے پیدا نہ ہو۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تاکہ بوقتِ ضرورت کسی اور موذی کو بھی رسید کی جا سکے۔ آہا، آپ چونکہ نہایت عالی فہم واقع ہوئے ہیں اس لیے شاید تاڑ گئے ہوں۔ جی ہاں، ہم سگرٹ کی بابت بس یہی کہنا چاہتے ہیں کہ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں​
گو کہ ہمارا اللہ کی قسم پھانکنے کو بڑی شدت سے جی چاہ رہا ہے لیکن شرفا کی محفل میں ایسی ببانگِ دہل غلطی کی ہم سے توقع عبث ہے۔ ہم تو بس آپ کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ آپ محولہ بالا مقولے پہ جوں جوں غور کرتے جائیں گے توں توں اس کی صداقت آشکارا ہوتی چلی جائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔ مروتاً ہی سہی!

جاسمن آپا، نمرہ ، نیرنگ خیال ، ادب دوست ، آوازِ دوست ، نایاب صاحبان وغیرہ سے رسید مطلوب ہے!
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
ہنستی مسکراتی تحریر
اللہ سوہنا دشمن کی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے ان جملہ منشیات کی اسیری سے ۔۔۔
نشے کی دنیا میں ہر برائی کا در کھلا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔
نشہ باز خود ساختہ آگہی میں ڈوبا دیمک کی مانند اپنے پیاروں کی سماجی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں محو رہتا ہے ۔
اور جب ہوش آتی ہے آگہی اپنا آپ دکھاتی ہے ۔ تو دیر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
بہت دعائیں
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ کی تحریر کا عنوان ہی بتا رہا تھا کہ ہم بھی متاثرین میں شامل ہیں پھر بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ دادا اور نانا حضور کے حُقّوں کی چلمیں بھرنے اور ابّا جی کی سگریٹ اور حقّہ نوشی دیکھنے سے آگے ناچیز کا اقبال کبھی رسائی نہ پا سکا اور تا دمِ تحریر اسی محرومی میں گرفتارہیں۔ بادہء و پیما کی اگر بات کریں تو یہ محرومی دوچند ہو جاتی ہے کہ اکثر یہی پڑھا اور سُنا کہ شاعری اور شراب کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور باوجود شاعری میں طبع آزمائی کے ہم اِس جل پری کی تمنا سے بھی محروم رہے اور ہمیں اِسی بدشگونی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اَب شاعری میں تو اپنا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بہرحال ہم نے شرابی غزلوں سے جس قدر اِس غم کا مداوا ہو سکتا تھا کیا۔ فلموں میں ہیرو لوگوں کو بڑے سٹائل سے سگریٹ پیتے دیکھا تو اپنی نا اہلی کا بڑا قلق ہوا چھُپ چھُپا کے کوشش بھی کی مگر وائے حسرت کہ سوائے کھانسی کے دورے اور چشمِ رواں کے کُچھ ہاتھ نہ آیا سو ایک دو کلاس فیلوز جو کہ اِس فن میں طاق تھے ہمارے لیے باعث ِ رشک و حسرت تھےاُن کی دیکھا دیکھی ہمیں اتنا ہُنر تو آگیا کہ دھواں مُنہ میں بھر کر ہوا میں بل دار لچھے بنانے کی کُچھ نہ کُچھ ترکیب ہو گئی لیکن یہ دھوئیں کی کُلی کرنے جیسا ہی تھا ہم اِسے ناک سے برآمد کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے یہاں تک کہ ہم نے اپنی ہرسعئی ناکام اور اِس سارے شُغل پر تین بلکہ تیس حروف بھیجے اور مزید تجربات سے کنارہ کش ہو گئے اور اَب تو لگتا کہ اِس معاملے میں ہمارا نجیب الطرفین ہونا بھی کسی کام نہ آئے گا اور یہ عظیم الشان وراثت بن وارث کے رہ جائے گی۔ باقی یہ ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں کے جواب میں جو دلیل ہم اپنے ضمیر کو دیتے آئے ہیں وہ آپ کی نظر اِس لیے نہیں کر سکتے کہ اِس کے لیے مخاطب کا حشرساماں نازنیں ہونا اشد ضروری ہے۔ خیر ہم اپنے تصور کی تصویر سے مُخاطب ہو لیتے ہیں آپ دِل پہ مت لیجئے گا: جام و ساغر سے پینا نہیں مُجھ کو گوارا ۔ ۔ ۔ اپنی آنکھوں سے پِلاؤ تو کوئی بات بنے :)
 

x boy

محفلین
بہت اعلی اور عمدہ پرمزاح بھی ،،، شکریہ راحیل فاروق

سگریٹ ، پان ، تمباکو اسطرح کی تمام فضولیات سے مجھے اللہ نے بچایا ہوا ہے ،، الحمدللہ
میرے رشتے کے نانا مرحوم چین اسموکر تھے ایک دن بیت اللہ کے سامنے عہد کیا کہ
آج سے میں سگریٹ نہیں پیونگا، وہ آخری سگریٹ تھی اس کے بعد نہیں پیا۔ تقریبا 40 سال
اس بات پر قائم رہے، اور وضوء کرتے ہوئے اٹیک آیا اور 80 سال کی عمر میں سفر آخرت پر
روانہ ہوگئے۔
نیت اور ارادے سے ہر مشکل کام پر بھی عمل درآمد ہوسکتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہماری تو حسرت رہی پینے کی ۔مداواء غم الفاظ میں ڈھال کر ایک نظم کہنے کی جسارت کرلی ۔ اس بات پر ہمیں سگریٹ پینے کے فوائد سننے کو ملے اور حسرت کی بھی حسرت نہیں رہی ۔ ہمارے گھر میں ایک نمانے حقے والے بزرگ ہوتے ہیں ۔ اللہ لوک بندے تھے ۔ اور ان کی واحد عیاشی حقہ پینا ہوتا تھا۔ ہم سب کزنز نے مل کر جی بھر کے کوشش کی کہ کسی طرح ان کی حقہ نوشی سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ ہمیں یاد ہے ہماری ایک کزن کو باقاعدہ پیٹ میں انجیکشن لگوانے کی تنبیہ کی گئی کہ حقہء پینے سے اس طرح کے نقصانات نے ہمیں اس کو پینے سے تو باز رکھا ۔ہم سب کزنز نے ایک تہیہ کر لیا کہ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں ۔ اس لیے ہم اس اللہ لوک بزرگ کا حقہء اکثر چھپا دیا کرتے یا اس کی ہڈی پسلی ایک کردیتے تھے (حقے کی ،بزرگ کی نہیں)۔ ایک عیاشی یاد ہے وہ بھی معصومانہ سی ہے ۔ ہم پینسل سے سگریٹ بنا کر پیا کرتے تھے ۔ یا پھر ماچس کی تیلی سے کش لگایا کرتے تھے ۔ یوں ہماری حسرت کو کچھ دلاسہ ہوا ۔

آپ نے اپنا وسیع و عریض تجربہ ہم جیسوں کو تھمایا ہے ۔ اس میں عربی لفظ کے نگینے جُڑے ہوئے ہیں ۔ تحریر کے اظہر من الشمس ہونے کا ثبوت ہے کہ یہاں پر تجرباتء نوشی شریک کیے جارہے ہیں اور جو پی نہیں سکے وہ حسرتء غم و آہ شریک کیے جارہے ہیں ۔ ہم نے اپنے قعرِ دریا تختہ بندم ہونے کے خدشے سے ہی خود کو پینسل سگریٹ تک محدود رکھا ۔اورپینے کی ہر دلیل مابعد دلیل کو براہین قاطعہ کر دیے جانے کے ڈر سے ہر دلیل کو تصور تک محدور رکھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یادش (بلکہ شاید یادشاں ) بخیر عزیز میاں اور صابری برادران کی قوالیوں کا ایک تذکرہ یاد آیا جس میں عزیز میاں صاحب نے فضائل مے نوشی پر "میں شرابی شرابی" کے دریا بہائے تھے اورقبول عام یا بالفاظ دیگر "مردود خواص" کے تمغات سمیٹے تھے ۔شاید اسی اثنا میں صابری صاحبان نے "پینا وینا چھوڑ شرابی" کی قوالی میں اپنے راگ سے اس منہ زور دریا کے بند باندھنے کی کوشش کی تو حضرت عزیز میاں صاحب نے حضرت داغ کے اسی مصرع کےطوفان سے سب کچھ بہا دیا تھا ۔ واللہ اعلم۔۔۔
بہر حال اللہ تعالی ان پاک طینت اصحاب عاشقاں پر رحمت کرے اور ان کے کنایات قبول فرمائے اور ہم جیسوں کو ان کے استمتاعِ سماع کی توفیق ِعمیق وشفیق بخشے ۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
ٹیگیانے کے لئے شکریہ واجب ہے۔ سو شکریہ۔
بہت ضرورت ہے اِس قسم کے ہلکے پھلکے مزاح کی۔ آپ نے نور کی ایک نظم سے جوجو ذہنی اِختراعات کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات کی کاک ٹیل بنائی ہے۔ بہت خوب!
نایاب بھائی کا کہنا بجا ہے کہ نشہ سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین!
 
بہت عمدہ۔
بس آخر میں ایک نوٹ رہ گیا۔
"سیگرٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے، وزارت صحت"
بہت شکریہ۔ یہ نوٹ آپ سگرٹ کی ہر ڈبیا پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں نظر نہ آئے تو فوراً متعلقہ اداروں کو خبر دیں کیونکہ وہ ڈبیا یقیناً سمگل شدہ ہے!
ہنستی مسکراتی تحریر
اللہ سوہنا دشمن کی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے ان جملہ منشیات کی اسیری سے ۔۔۔
نشے کی دنیا میں ہر برائی کا در کھلا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔
نشہ باز خود ساختہ آگہی میں ڈوبا دیمک کی مانند اپنے پیاروں کی سماجی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں محو رہتا ہے ۔
اور جب ہوش آتی ہے آگہی اپنا آپ دکھاتی ہے ۔ تو دیر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
بہت دعائیں
بہت شکریہ، نایاب بھائی۔ بہت پیارے الفاظ میں بہت سچی بات کہی آپ نے۔
آپ کی تحریر کا عنوان ہی بتا رہا تھا کہ ہم بھی متاثرین میں شامل ہیں پھر بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ دادا اور نانا حضور کے حُقّوں کی چلمیں بھرنے اور ابّا جی کی سگریٹ اور حقّہ نوشی دیکھنے سے آگے ناچیز کا اقبال کبھی رسائی نہ پا سکا اور تا دمِ تحریر اسی محرومی میں گرفتارہیں۔ بادہء و پیما کی اگر بات کریں تو یہ محرومی دوچند ہو جاتی ہے کہ اکثر یہی پڑھا اور سُنا کہ شاعری اور شراب کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور باوجود شاعری میں طبع آزمائی کے ہم اِس جل پری کی تمنا سے بھی محروم رہے اور ہمیں اِسی بدشگونی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اَب شاعری میں تو اپنا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بہرحال ہم نے شرابی غزلوں سے جس قدر اِس غم کا مداوا ہو سکتا تھا کیا۔ فلموں میں ہیرو لوگوں کو بڑے سٹائل سے سگریٹ پیتے دیکھا تو اپنی نا اہلی کا بڑا قلق ہوا چھُپ چھُپا کے کوشش بھی کی مگر وائے حسرت کہ سوائے کھانسی کے دورے اور چشمِ رواں کے کُچھ ہاتھ نہ آیا سو ایک دو کلاس فیلوز جو کہ اِس فن میں طاق تھے ہمارے لیے باعث ِ رشک و حسرت تھےاُن کی دیکھا دیکھی ہمیں اتنا ہُنر تو آگیا کہ دھواں مُنہ میں بھر کر ہوا میں بل دار لچھے بنانے کی کُچھ نہ کُچھ ترکیب ہو گئی لیکن یہ دھوئیں کی کُلی کرنے جیسا ہی تھا ہم اِسے ناک سے برآمد کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے یہاں تک کہ ہم نے اپنی ہرسعئی ناکام اور اِس سارے شُغل پر تین بلکہ تیس حروف بھیجے اور مزید تجربات سے کنارہ کش ہو گئے اور اَب تو لگتا کہ اِس معاملے میں ہمارا نجیب الطرفین ہونا بھی کسی کام نہ آئے گا اور یہ عظیم الشان وراثت بن وارث کے رہ جائے گی۔ باقی یہ ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں کے جواب میں جو دلیل ہم اپنے ضمیر کو دیتے آئے ہیں وہ آپ کی نظر اِس لیے نہیں کر سکتے کہ اِس کے لیے مخاطب کا حشرساماں نازنیں ہونا اشد ضروری ہے۔ خیر ہم اپنے تصور کی تصویر سے مُخاطب ہو لیتے ہیں آپ دِل پہ مت لیجئے گا: جام و ساغر سے پینا نہیں مُجھ کو گوارا ۔ ۔ ۔ اپنی آنکھوں سے پِلاؤ تو کوئی بات بنے :)
:) آپ شاعری چھوڑیں، نثر نگاری کا آغاز کریں!
بہت اعلی اور عمدہ پرمزاح بھی ،،، شکریہ راحیل فاروق

سگریٹ ، پان ، تمباکو اسطرح کی تمام فضولیات سے مجھے اللہ نے بچایا ہوا ہے ،، الحمدللہ
میرے رشتے کے نانا مرحوم چین اسموکر تھے ایک دن بیت اللہ کے سامنے عہد کیا کہ
آج سے میں سگریٹ نہیں پیونگا، وہ آخری سگریٹ تھی اس کے بعد نہیں پیا۔ تقریبا 40 سال
اس بات پر قائم رہے، اور وضوء کرتے ہوئے اٹیک آیا اور 80 سال کی عمر میں سفر آخرت پر
روانہ ہوگئے۔
نیت اور ارادے سے ہر مشکل کام پر بھی عمل درآمد ہوسکتا ہے۔
مارک ٹوین کا فرمان ہے:
تمباکو نوشی چھوڑنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ میں یہ اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے خود کوئی ہزار مرتبہ اسے ترک کیا ہے!
ہماری تو حسرت رہی پینے کی ۔مداواء غم الفاظ میں ڈھال کر ایک نظم کہنے کی جسارت کرلی ۔ اس بات پر ہمیں سگریٹ پینے کے فوائد سننے کو ملے اور حسرت کی بھی حسرت نہیں رہی ۔ ہمارے گھر میں ایک نمانے حقے والے بزرگ ہوتے ہیں ۔ اللہ لوک بندے تھے ۔ اور ان کی واحد عیاشی حقہ پینا ہوتا تھا۔ ہم سب کزنز نے مل کر جی بھر کے کوشش کی کہ کسی طرح ان کی حقہ نوشی سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ ہمیں یاد ہے ہماری ایک کزن کو باقاعدہ پیٹ میں انجیکشن لگوانے کی تنبیہ کی گئی کہ حقہء پینے سے اس طرح کے نقصانات نے ہمیں اس کو پینے سے تو باز رکھا ۔ہم سب کزنز نے ایک تہیہ کر لیا کہ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں ۔ اس لیے ہم اس اللہ لوک بزرگ کا حقہء اکثر چھپا دیا کرتے یا اس کی ہڈی پسلی ایک کردیتے تھے (حقے کی ،بزرگ کی نہیں)۔ ایک عیاشی یاد ہے وہ بھی معصومانہ سی ہے ۔ ہم پینسل سے سگریٹ بنا کر پیا کرتے تھے ۔ یا پھر ماچس کی تیلی سے کش لگایا کرتے تھے ۔ یوں ہماری حسرت کو کچھ دلاسہ ہوا ۔

آپ نے اپنا وسیع و عریض تجربہ ہم جیسوں کو تھمایا ہے ۔ اس میں عربی لفظ کے نگینے جُڑے ہوئے ہیں ۔ تحریر کے اظہر من الشمس ہونے کا ثبوت ہے کہ یہاں پر تجرباتء نوشی شریک کیے جارہے ہیں اور جو پی نہیں سکے وہ حسرتء غم و آہ شریک کیے جارہے ہیں ۔ ہم نے اپنے قعرِ دریا تختہ بندم ہونے کے خدشے سے ہی خود کو پینسل سگریٹ تک محدود رکھا ۔اورپینے کی ہر دلیل مابعد دلیل کو براہین قاطعہ کر دیے جانے کے ڈر سے ہر دلیل کو تصور تک محدور رکھا۔
ایک قدرِ مشترک تو آپ میں اور ہم میں نکلی۔ ہم نے بھی بچپن ہی سے اس قسم کے جگاڑ لگانے میں یدِ طولیٰ حاصل کر لیا تھا۔ نتائج کی بابت البتہ آپ نے شاید کچھ اخفا سے کام لیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ساتھ تو یہی ہوتا تھا کہ جب پکڑے جاتے تھے تو عرصہ تک زبانِ حال سے نصرت کی" میری توبہ، میری توبہ" والی قوالی گاتے رہتے تھےً۔
یادش (بلکہ شاید یادشاں ) بخیر عزیز میاں اور صابری برادران کی قوالیوں کا ایک تذکرہ یاد آیا جس میں عزیز میاں صاحب نے فضائل مے نوشی پر "میں شرابی شرابی" کے دریا بہائے تھے اورقبول عام یا بالفاظ دیگر "مردود خواص" کے تمغات سمیٹے تھے ۔شاید اسی اثنا میں صابری صاحبان نے "پینا وینا چھوڑ شرابی" کی قوالی میں اپنے راگ سے اس منہ زور دریا کے بند باندھنے کی کوشش کی تو حضرت عزیز میاں صاحب نے حضرت داغ کے اسی مصرع کےطوفان سے سب کچھ بہا دیا تھا ۔ واللہ اعلم۔۔۔
بہر حال اللہ تعالی ان پاک طینت اصحاب عاشقاں پر رحمت کرے اور ان کے کنایات قبول فرمائے اور ہم جیسوں کو ان کے استمتاعِ سماع کی توفیق ِعمیق وشفیق بخشے ۔:)
دونوں سے متمتع ہوئے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ کسی ایک سے بیعت کر لیں۔ ہماری رائے میں تو عزیز میاں کا حق زیادہ ہے!
دو تین دن سے وقت نہیں مل رہا بہت سے جوابات دینے ہیں مگر آپ کی تحریرپر تبصرہ واجب
اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا! ;)
ٹیگیانے کے لئے شکریہ واجب ہے۔ سو شکریہ۔
بہت ضرورت ہے اِس قسم کے ہلکے پھلکے مزاح کی۔ آپ نے نور کی ایک نظم سے جوجو ذہنی اِختراعات کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات کی کاک ٹیل بنائی ہے۔ بہت خوب!
نایاب بھائی کا کہنا بجا ہے کہ نشہ سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین!
ممنون ہو آپی۔ مجھے تو خوف تھا کہ مضمون مردانہ سا ہے۔ بلکہ مردُوانہ کہنا چاہیے۔ آپ کو کہیں برا نہ لگے۔ :)
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ۔ یہ نوٹ آپ سگرٹ کی ہر ڈبیا پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں نظر نہ آئے تو فوراً متعلقہ اداروں کو خبر دیں کیونکہ وہ ڈبیا یقیناً سمگل شدہ ہے!
جی، اسی خدشہ کے پیشِ نظر آپ کو متنبع کر دیا کہ کہیں آپ کا فن پارہ ان کی نظر میں نہ آ جائے۔ ;)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دونوں سے متمتع ہوئے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ کسی ایک سے بیعت کر لیں۔ ہماری رائے میں تو عزیز میاں کا حق زیادہ ہے!
بھائی راحیل ۔ ہمیں تو شفا چاہیے چاہے انجکشن سے ہو چاہے معجون سے ، سب کا اپنا اپنا رنگ و مزہ ہے ۔ جو جس وقت مزاج کے موافق ہو اختیار کیجیے۔;)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا کہنے۔۔۔ کیا ہی کہنے۔۔۔ لاجواب راحیل بھائی۔۔۔
چلتے چلتے یوں ہی یاد آگیا کہ وہ جو پنجاب میں ایک نعرہ مشہور ہے۔۔۔ "سوٹا چرس دا تے۔۔۔۔۔ "۔۔۔ اس میں بھی کچھ صداقت ہے یا اہل معاشرہ نے محض دل کے بہلانے کا منورنجن بنا رکھا ہے۔۔۔۔۔ برسبیل تذکرہ وہ بھی سگریٹ نوشی اور چرس نوشی کے درمیان بڑا واضح فرق بیان کرتا ہے۔۔۔۔ :D
 
Top