ہائر ایجوکیشن کمیشن ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

ہائر ایجوکیشن کمیشن ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ آپ کی کہتے ہیں؟


  • Total voters
    23

محمداحمد

لائبریرین
ہائر ایجوکیشن کمیشن ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا

اسلام آباد (رپورٹ: حنیف خالد) رضا ربانی کمیٹی نے سفارش کر دی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کمیٹی کی یہ سفارش حکومت نے منظور کر لی ہے۔ اس سرکاری فیصلے کے منٹس بھی تیار کرکے مجاز اتھارٹی کو بھجوائے گئے جس کی اتھارٹی نے منظوری دیدی ہے۔ اسی وجہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن جسے اہم قومی ادارے کے عہدیداران اور عملے کے ارکان سخت پریشانی سے دوچار ہو گئے بعض ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل نقوی کے علاوہ ایچ ای سی کو بچانے کیلئے اس کے سابق چیئرمین و وفاقی وزیر بلحاظ عہدہ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بھی کوشش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے علاوہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ادارے کا سوائے فنڈنگ کے اور کوئی کام نہیں اور فنڈنگ کا یہ کام کسی اور میکانزم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ چند دنوں میں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل نقوی چند وائس چانسلروں کی مدد سے اسی سرکاری فیصلے پر نظرثانی کرانے کی کوشش کریں گے۔ کمیشن کے خاتمے کے فیصلے سے ایم پی ون گریڈ میں ماہانہ لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات وصول کرنے والے سخت پریشان ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نقوی بھی ان میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں قائم کیا تھا۔ اس وجہ سے بھی کمیشن جمہوری قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

بشکریہ جنگ
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے میرے خیال سے یہ فیصلہ تعلیم اور معیارِ تعلیم کے لئے انتہائی مضر ثابت ہونے والا ہے۔ کیونکہ ایچ ای سی اپنا کام کسی نہ کسی حد تک بہت خوب انجام دے رہا تھا اب اگر اس کے اختیارات صوبائی سطح پر تفویض کردئے گئے تو معاملات کافی زیادہ گڑبڑ ہونے کا امکان ہے کیونکہ ہماری سیاسی قیادت اور اہلیت دو مختلف چیزیں ہیں۔
 

میم نون

محفلین
مجھے اس سارے عمل کا اچھی طرح سے علم نہیں لیکن یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ تعلیمی نظام کو صوبائی حکومتوں کے نیچے ہونا چاہئیے، بہت سے دوست میری اس رائے سے اختلاف کریں گے لیکن یہ میری اپنی سوچ ہے۔

ایک بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئیے کہ اگر ایک ادارے کو ختم کیا جائے تو اسکی جگہ پر دوسرا ادرہ ایسا موجود ہونا چاہئیے جو ان فرائض کو سمنبھال سکے۔

چونکہ میں نے اسکی زیادہ چھان بین نہیں کی اس لئیے میں ووٹ نہیں ڈال رہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے تو اس محکمے کے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ اتنے سالوں میں اس نے کتنے کارنامے انجام دیئے یا حکومتی خزانے پر بوجھ ہی ثابت ہوتا رہا ہے۔ اگر تو اس کی کارکردگی اچھی رہی ہے اور طالبعلموں کو اس سے فائدہ پہنچتا رہا ہے تو اسے ضرور قائم رہنا چاہیے، دوسرے لفظوں میں اگر ماہانہ کروڑں روپے تنخواہوں اور مراعات کی شکل میں خرچ ہوتے رہے ہیں تو اس بند ہونا ہی بہتر ہے۔

مزید یہ کہ آپ کو اس میں “معلوم نہیں“ کی سہولت رکھنی چاہیے تھی۔
 

دوست

محفلین
اس ادارے کا بڑا فائدہ تھا جی طلباء کو۔ سکالرشپس وغیرہ کرے لیے ایک ہی پلیٹ فارم پر سب کچھ ہوجاتا تھا۔ اس کو ختم کرنا سیاہ ستدانوں کی بے غ ی ر ت ی ہوگی۔
 

عثمان

محفلین
زیادہ تفصیل تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ لیکن وہ دوست جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سکالرشپ سے مستفید ہوئے ہیں ان سے اس کی بڑی تعریف سنی تھی۔ اس ادارے نے نہ صرف ہزاروں مستحق طلبا کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ پاکستان میں بھی بہت سے محققین کے لئے علم و تحقیق کے واسطے فنڈز مہیا کیے۔ اس ادارے کے دور میں کئی نئے تعلیمی ادارے کھلے ، اور کئی پرانے تعلیمی اداروں کی حالت بہتر ہوئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا مجھے معلوم ہے کہ وہاں ریاضی اور شماریات کے شعبوں میں اس ادارے کے توسط سے بہت ترقی ہوئی ہے۔ ریاضی میں بین الاقوامی معیار کی تحقیق کے واسطے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یورپ اور روس سے غیر ملکی ریاضی دان تحقیق کے واسطے بلوائے گئے۔ اس تمام کام کی مالی اور پیشہ ورانہ معاونت ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی انجام دیتا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ غیر ملکی فیکلٹی کا بڑا حصہ دہشت گردی کے ہاتھوں پریشان ہو کر چند سالوں بعد ہی واپس چلی گئی۔ اس ادارے سے اگرچہ کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں تاہم اس نے پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہت تقویت دی ہے۔ مشرف ہی کے دور میں اس کا قیام ہوا اور اس ادارے میں موجود افراد ہی کی مشاورت سے پاکستان کے تعلیمی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کیا گیا جو اب غالبا پھر کم کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں شائد رواج ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے تمام برے بھلے اقدامات پر پانی پھیرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن بلاشبہ مشرف حکومت کے چند اچھے اقدامات میں سے ایک تھا۔ لیکن چونکہ اس پر "مشرف" کا ٹھپہ لگا ہے اس لئے آنے والی حکومتیں کیونکر برداشت کریں۔۔ تو بس بوریا بستر لپیٹ ڈالا۔
پاکستانیوں کو دائروں کا سفر مبارک ہو!
 

شمشاد

لائبریرین
ٹی وی پر جو خبریں اس ادارے کے متعلق سُنی ہیں، ان کے مطابق تو یہ ادارہ بہت اچھے کام کر رہا ہے، خاص کر طلباء کو اس سے بہت سہولتیں میسر ہیں اس لیے اسے بند نہیں ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
معلوم ہوا ہے کہ یہ محکمہ جعلی ڈگری والوں کی وجہ سے سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ ساجد بھائی کا پوست کردہ یہ مراسلہ اور ویڈیو دیکھنے کے لائق ہے جو کہ انہوں نے ایک اور زمرے میں پوسٹ کیا ہے :

ہم کیا کہہ سکتے ہیں بیچ اس معاملہ کے کہ کپ اصلی ہے یا جعلی۔ حضرت ،ہم نے تو ایک جعلی ڈگری ہولڈر کو کھیل کی قائمہ کمیٹی کی سربراہی تھما رکھی تھی۔ اور ذیلی ویڈیو میں موجود نابغہ روزگار ہستی کے فرمودات سے بہرہ مند ہونے کے بعد کچھ کہنے کی جسارت حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔ آئی سی سی اور بھارت پر ٹرافی کا معاملہ موقوف کرتے ہوئے آئیے ان عالی کلام رہنما کے افکار سے فیض یاب ہوں۔
 

عثمان

محفلین
یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ سابقہ دور حکومت میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ (یا شائد ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ) تقریبا ۴۰ ارب روپے تھا جو اب گھٹ کر صرف ۱۱ ارب روپے رہ گیا ہے۔ :eek:
وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بنک رپٹ اور کرپٹ حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰں الرحیم
السلام علیکم

میرے اپنے ذاتی رائے میں بہت ہی اچھا فیصلہ ہوا ہے کیونکہ اس کو ورلڈ بینک سپورٹ کرتا ہے کہ دھڑا دھڑ پاکستان کو مقروض بنانا چاہتا ہے اور ورلڈ بینک ایسی جگہوں پر انوسٹمنٹ کرتا ہے جہاں سے مستقل فوائد نہ ہو ؟

دوسری جو لوگ ہائی کمیشن پر باہر جاتے ہیں وہ ملک ہی کا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنی صلاحیت دوسرے کے لیے استعمال کرتے ہیں

اللہ اکبر کبیرہ
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن ورلڈ بنک تو اس محکمے کی مد میں مدد دیتا تھا نہ کہ قرض دیتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مدد کو اپنے بڑے ہڑپ کر جاتے ہوں۔
 

ساجد

محفلین
انتہائی غلط اور غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے اور مستقبل میں اسے موجودہ حکومت کے اعلی تعلیم کے حوالے سے تباہ کن اقدام سے تعبیر کیا جائے گا۔
جو دوست رائے دینے میں تذبذب کا شکار ہیں وہ مشتے از خروارے نیچے دئیے گئے دو روابط کا بغور مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ کریں۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Higher_Education_Commission_of_Pakistan

http://www.hec.gov.pk/Pages/main.aspx
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ سابقہ دور حکومت میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ (یا شائد ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ) تقریبا ۴۰ ارب روپے تھا جو اب گھٹ کر صرف ۱۱ ارب روپے رہ گیا ہے۔ :eek:
وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بنک رپٹ اور کرپٹ حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں۔

پنجابی کی ایک مثال ہے “باندر کی جانے ادرک دا سواد“ مطلب کہ بندر کو کیا معلوم کہ ادرک کا کیا ذائقہ ہوتا ہے۔

موجودہ جعلی ڈگری یا بغیر ڈگری والی حکومت کو کیا معلوم کہ اعلٰی تعلیم کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک تو یہ محکمہ فضول ہی ہے۔
 
میں ایک پروفیسر ہوں اور جو کچھ ایچ ای سی کررہا ہے اسکا مجھے اچھی طرح پتہ ہے۔
مجموعی طور پر یہ اچھا کام کررہا تھا ڈاکٹر عطا الرحمان کے دور میں۔ مگر کچھ عرصے سے اس کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم متاثر بھی ہورہی تھی۔ خصوصا پی ایچ ڈی کا میعار بہت گرگیا ہے اور اسکالرز ریسرچ فنڈ کے حصول کے لیے نقل کے پیپرز شائع کرتے رہے ہیں۔ اس کی کی گئی یونی ورسٹی رینکنگ بھی مشکوک ہے مثلا سرگودھا یونی ورسٹی یا کوہاٹ یونی ورسٹی پہلے نمبر پر ہے جبکہ لمس (لاہور) کا نمبر نیچے ہے۔
اسکالر شپ کے معاملے میں یہ کچھ اچھا کام کررہی ہے۔ مگر اس سے پہلے سائنس و ٹیکنالوجی کی اسکالرشپ بھی حکومت افر کرتی رہی ہے جس کا سلیکشن کا معیار جی ار ای تھا۔

ڈگری کی تصدیق و مساویت بھی یونی گرانٹس کمیشن کے پاس تھا جس کو تحلیل کردیا گیا۔
پچھلے دنوں ایچ ای سی جانا ہوا تو بہت تلخ تجربات ہوئے ۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے رہے ہیں۔

بہرحال یہ معاملہ سیاسی زیادہ ہوگیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ُپاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور تعلیمی معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ قطعہ نظر اس بات کے کہ یہ ادارہ کون سی حکومت نے بنایا تھا ایچ ای سی کے اداراے کو ختم کرنے کا حکومتی اقدام تعلیم دشمنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
 

ساجد

محفلین
میں ایک پروفیسر ہوں اور جو کچھ ایچ ای سی کررہا ہے اسکا مجھے اچھی طرح پتہ ہے۔
مجموعی طور پر یہ اچھا کام کررہا تھا ڈاکٹر عطا الرحمان کے دور میں۔ مگر کچھ عرصے سے اس کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم متاثر بھی ہورہی تھی۔ خصوصا پی ایچ ڈی کا میعار بہت گرگیا ہے اور اسکالرز ریسرچ فنڈ کے حصول کے لیے نقل کے پیپرز شائع کرتے رہے ہیں۔ اس کی کی گئی یونی ورسٹی رینکنگ بھی مشکوک ہے مثلا سرگودھا یونی ورسٹی یا کوہاٹ یونی ورسٹی پہلے نمبر پر ہے جبکہ لمس (لاہور) کا نمبر نیچے ہے۔
اسکالر شپ کے معاملے میں یہ کچھ اچھا کام کررہی ہے۔ مگر اس سے پہلے سائنس و ٹیکنالوجی کی اسکالرشپ بھی حکومت افر کرتی رہی ہے جس کا سلیکشن کا معیار جی ار ای تھا۔

ڈگری کی تصدیق و مساویت بھی یونی گرانٹس کمیشن کے پاس تھا جس کو تحلیل کردیا گیا۔
پچھلے دنوں ایچ ای سی جانا ہوا تو بہت تلخ تجربات ہوئے ۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے رہے ہیں۔

بہرحال یہ معاملہ سیاسی زیادہ ہوگیا ہے۔
جی ہاں آپ درست فرما رہے ہیں ۔ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ تو ہر محکمہ میں ہوتی ہے لیکن ہماری حکومت کی مہربانی صرف اسی ادارے پہ ہونے جا رہی ہے جو بہت محکموں سے بہتر کام کر رہا ہے۔ کرپشن ایک مرض ہے اور اس کا علاج قوانین کے نفاذ کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے نہ کہ مریض کو مار کر مرض سے چھٹکارہ پایا جاتا ہے۔
سو فیصد اتفاق کہ یہ معاملہ انتظامی سے زیادہ سیاسی ہو گیا ہے۔
 
ُپاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور تعلیمی معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ قطعہ نظر اس بات کے کہ یہ ادارہ کون سی حکومت نے بنایا تھا ایچ ای سی کے اداراے کو ختم کرنے کا حکومتی اقدام تعلیم دشمنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

دیکھیے دو باتیں ہیں
پیپلزپارٹی کا یہ ادارہ صوبوں کومنتقل کرنے کا کام شاید اچھا نہ ہو۔ میں بھی حکومت کے اس اقدام سے کچھ خوش نہیں تھا
مگر
یہ ادارہ اپنی موجودہ حالت میں پاکستانی کی اعلیٰ تعلیم کو ترقی نہیں دے رہا ہے۔ اس کی کچھ مزید انتظامی تہطیر ہونی چاہیے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ انتظامی افسران جو کہ خود نان پی ایچ ڈی ہیں اعلیٰ تعلیم کا انتظام کرسکیں ۔
 
پنجابی کی ایک مثال ہے “باندر کی جانے ادرک دا سواد“ مطلب کہ بندر کو کیا معلوم کہ ادرک کا کیا ذائقہ ہوتا ہے۔

موجودہ جعلی ڈگری یا بغیر ڈگری والی حکومت کو کیا معلوم کہ اعلٰی تعلیم کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک تو یہ محکمہ فضول ہی ہے۔
فوزیہ وہاب نے شاید کہا تھا کہ ایچ ای سی کی مثال ایسی ہے جھونپڑے پر پنٹ ہاوس تعمیر کیا جائے
 

محمداحمد

لائبریرین
دیکھیے دو باتیں ہیں
پیپلزپارٹی کا یہ ادارہ صوبوں کومنتقل کرنے کا کام شاید اچھا نہ ہو۔ میں بھی حکومت کے اس اقدام سے کچھ خوش نہیں تھا
مگر
یہ ادارہ اپنی موجودہ حالت میں پاکستانی کی اعلیٰ تعلیم کو ترقی نہیں دے رہا ہے۔ اس کی کچھ مزید انتظامی تہطیر ہونی چاہیے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ انتظامی افسران جو کہ خود نان پی ایچ ڈی ہیں اعلیٰ تعلیم کا انتظام کرسکیں ۔

اس بات سے مجھ بھی اتفاق ہے کہ اگر ادارے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تو ضرور ہونی چاہیے بجائے اس کے ایک خود مختار ادارے کو اس سے بھی زیادہ ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے زیرِ سایہ دے دیا جائے۔
 
بسم اللہ الرحمٰں الرحیم
السلام علیکم

میرے اپنے ذاتی رائے میں بہت ہی اچھا فیصلہ ہوا ہے کیونکہ اس کو ورلڈ بینک سپورٹ کرتا ہے کہ دھڑا دھڑ پاکستان کو مقروض بنانا چاہتا ہے اور ورلڈ بینک ایسی جگہوں پر انوسٹمنٹ کرتا ہے جہاں سے مستقل فوائد نہ ہو ؟

دوسری جو لوگ ہائی کمیشن پر باہر جاتے ہیں وہ ملک ہی کا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنی صلاحیت دوسرے کے لیے استعمال کرتے ہیں

اللہ اکبر کبیرہ

پاکستانی یونی ورسٹیز کے بے شمار لوگ باہر کام کرتے مل جائیں گے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی یونی ورسٹیز سے تنخواہ، مراعات اور ترقی بھی حاصل کرتے ہیں اور اسی دوران باہرکی یونی ورسٹییز میں کام بھی کرتے رہتے ہیں۔
خصوصا پنجاب یونی ورسٹی، قائد اعظم یونی ورسٹی اس میں اگے اگے ہیں۔ پاکستان کا اوے کا اوا ہی بگڑا پڑا ہے۔
 
Top