گھر میں ہو گا کوئی زخموں کے سوا اور چراغ --- ظفر اقبال

نوید صادق

محفلین
غزل

گھر میں ہو گا کوئی زخموں کے سوا اور چراغ
شام گہری ہوئی جاتی ہے ، جلا اور چراغ

ہم ہی دونوں کا گزارہ وہاں کیوں کر نہ ہوا
جہاں رہتے رہے مل جل کے ہوا، اور، چراغ

رات بھر باغ میں ہلچل تھی کوئی چاروں طرف
جلتے بجھتے ہی رہے پھول، صبا، اور چراغ

لہر پر ایک چراغ، اور، پھر اُس لہر کے بعد
ایک لہر اور تھی، اُس لہر پہ تھا اور چراغ

ایک ہی رُخ پہ لرزتے رہے دونوں، لیکن
جب رکی موجِ ہوا کانپ گیا اور چراغ

ایک آواز کی آہٹ سی پھر آئی یک دم
اور، دیوارِ تماشا سے گرا اور چراغ

پھر بھی چھایا رہا کیوں اتنا اندھیرا ہر سمت
دونوں روشن تھے یہاں، میری صدا اور چراغ

یوں تو نادار بہت ہوں، مگر، اتنا بھی نہیں
ہیں ابھی تک میرے ہاتھوں میں دعا، اور چراغ

جل رہا ہے مرا دل بھی، مری آنکھیں بھی، ظفر
اِس چکا چوند میں اب چاہئے کیا اور چراغ

شاعر: ظفر اقبال
 
Top