گلاب کی طرح بننا چاہیں تو کیا کریں

طالوت

محفلین
طیبّات کھانوں کی وہ قسم ہے جو زود ہضم ہو۔ مثلاً ترکاریاں‘ پھل‘ دالیں‘ دودھ‘ جو‘ گیہوں‘ انھیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا صحت کے لیے مفید ہے گوشت بھی کھاسکتے ہیں لیکن یہ سیکنڈ ہینڈ غذا ہے
خلیل شرف الدین

کسی شخص کو گلاب کے پھول کی طرح بننا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے! پہلے تو وہ یہ سوچے کہ گلاب کا پھول پھولوں کا بادشاہ کیوں تصور کیا جاتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ خوش نظر‘ خوش رنگ اور خوشبودار ہوتا ہے! گلاب کے پھول نے دوسرے پھولوں پر اپنی شہنشاہیت کا سکہ کس طرح بٹھایا۔ خوش رنگ بن کر‘ خوش منظر بن کر اور خوشبودار بن کر یا یہ اعلان کرکے کہ میں خوش نظر ہوں‘خوشبودار ہوں‘ خوش رنگ ہوں!

گلاب کا پھول اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتا نہیں کہ میں خوش رنگ ہوں پھر بھی ہم اسے خوش رنگ کہنے پر مجبور ہیں۔ یہی حال اس کی خوشبو کا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ اسے خوش نظر اور خوشبودار کہیں۔

وہ خاموش ہے اور ہم گویا! کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے وہ خوش منظر ہی رہتا ہے۔ کوئی اسے پہچانے یا نہ پہچانے وہ خوش رنگ ہی نظر آتا ہے۔ کوئی اسے سونگھے یا نہ سونگھے وہ خوشبودار ہی کہلاتا ہے‘ لیکن اس خاموش اور بے نیازی کے باوجود دنیا اس کی ثنا خوانی پر مجبور ہے۔ منظر ہو تو ایسا‘ رنگ ہو تو ایسا اور خوشبو ہو تو ایسی! بے نیاز‘ خاموش‘ مگر سب پر غالب۔ گلاب کا پھول تمام پھولوں پر غالب ہے۔ اسے خوش نظر کہنے‘ اسے خوش رنگ تسلیم کرنے اور خوشبو دار ماننے پر زمانہ مجبور ہے۔

جو شخص مجھے مجبور کردے کہ میں اس کی تعریف کروں وہ گلاب کے پھول کی طرح ہوگا۔ بے نیاز‘ خاموش اور غالب۔

گلاب کا پھول بے نیاز اس لیے ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اچھا ہے۔ اسے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے‘اس لیے وہ خاموش ہے اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے خودبخود قہار (غالب) ہوگیا ہے۔ اس نے دنیا بھر کے مصوروں کو مجبور کر رکھا ہے کہ کاغذ پر اس کا منظر پیش کریں۔ جرمنی کی کمپنیاں رنگین طباعت کی مشینوں کا پرچار گلاب کا پھول چھاپ کر کرتی ہیں۔ قنوج‘ شام اور پیرس کا عطر ساز اس کا عطر کشید کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ پبلک روحِ گلاب پر شیدا ہے۔

گلاب کا پھول قہار ہے‘ اسے دیکھیئے تو دل خوش ہوجائے۔ اسے سونگھیئے تو روح وجد میں آجائے۔ اس کا تصور کیجئے تو دماغ باغ باغ ہوجائے۔

گلاب کا پھول قابل فخر ہے جو شخص اس جیسا بن جائے وہ قابل فخر ہوگا لیکن قابل فخر بننے کے بعد اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ میں اچھا ہوں‘ میں قہار ہوں۔

دیکھیے گلاب کا پھول کچھ نہیں کہتا۔ وہ سراپا عمل رہتا ہے۔ دنیا اسے خوش نما سمجھتی ہے اور خوشبودار کہتی ہے اور میں اسے قہار کہتا ہوں‘ لیکن وہ نہ اتراتا ہے نہ گھمنڈ اس کے پاس پھٹکتا ہے‘ نہ فخر کا خیال اس کے دل میں آتا ہے۔ وہ تو سبک سیر رہتا ہے۔ وہ اپنے کام میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کی بلا سے دنیا اسے کیا کہتی ہے‘ کیا سمجھتی ہے۔ نہ اسے پروپیگنڈے کی ضرورت نہ تعریف کی حاجت۔ ٹی وی اور ریڈیووالوں پر وہ خندہ زن رہتا ہے۔

گلاب کے پھول کو یہ دولت قدرت نے عطا کی ہے۔ اسے خود کچھ حاصل نہیں کرنا پڑتا۔ وہ ”کن فیکون“ کا مرہون منت ہے۔ قدرت نے چاہا کہ وہ ایسا بنے تو وہ ایسا بن گیا۔

خدا اگر چاہتا تو انسان کو بھی کسی ایک رخ پر چلنے والا بنا سکتا تھا۔ کیا خدا نے گدھے نہیں پیدا کیے! سانپ اور بچھو نہیں بنائے! اور فرشتوں کی تخلیق نہیں کی؟ اگر خدا نے ہمیں گدھا پیدا کیا ہوتا تو ہم گلاب کے پھول پر اش اش نہ کرپاتے اور اللہ ہمیں سانپ اور بچھو کی صفت والا بناتا تو ہم ہمیشہ ڈسا ہی کرتے۔

گلاب کا پھول مجبور ہے کہ گلاب کا پھول بنا رہے۔ گلاب کے پھول میں صرف یہی استعداد رکھی گئی ہے کہ وہ گلاب کا پھول بنے۔ وہ چاہے کہ چنبیلی بنے تو نا ممکن ہے‘ موگرا بننا چاہے تو وہ بھی ناممکن‘ گدھا یا شیر بننا چاہے تو وہ بھی ناممکن۔ الوّ خیر سے الوّ ہی رہے گا‘ فرشتہ‘ فرشتہ اور شیطان‘ شیطان ہی رہے گا۔

صرف ایک انسان ہی کو ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ وہ جیسا چاہے بنے۔ کھانے پینے اور مرنے پر وہ مجبور ہے۔ ان دو باتوں کے علاوہ اسے مکمل آزادی ہے۔ اس کا دل چاہے تو فرشتہ صفت بن جائے اور دل چاہے تو شیطان صفت ہوجائے۔

اسے ذلیل و خوار رہنے کی بھی مکمل آزادی ہے اور معزز اور مکرم بننے کی بھی۔ ذلت سے وہ نکلنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ ذلت پر فخر کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت اسے حاصل ہے۔ اسے یہ پروانہ اور اختیار نہ ملا ہوتا تو مسلمانوں کی طرح ہر حالت پر فخر کرنے والی قومیں دیکھنے کے لیے آپ ترس جاتے۔

انسان کو آزاد رکھنے کے لیے قدرت کے لیے ضروری ہوا کہ وہ اسے جاہل پیدا کرے۔ دنیا کی کروڑوں مرغیاں انڈوں پر بیٹھنا اور بچے نکال کر جاں فشانی سے ان کی پرورش کرنا قدرت کی طرف سے سیکھ کر آتی ہیں۔ مرغی امریکن ہو یا انڈین‘ ماں بننے کی ایک ہی قسم کی صلاحیت اس میں موجود رہتی ہے۔ اس کے برخلاف عورت کو ماں بننے کے طریقے سیکھنا پڑتے ہیں۔

کروڑوں امریکن مائیں کروڑوں طریقوں پر اپنے بچوں کی پرورش ایشیائی مائوں سے مختلف طور پر کرتی ہیں۔ ان کے مزاج مختلف‘ ان کا ماحول الگ اور ان کا اندازِ تربیت جدا ہے۔

تربیت اور پرورش کا یہ تنوع اس لیے پیدا ہوا کہ قدرت چاہتی تھی کہ اس ایک مخلوق کو آزاد پیدا کرے۔ وہ اپنے طریقے خود سیکھے۔ طریقے سیکھنے کی صلاحیت عطا کرنے کے لیے اسے جاہل پیدا کرنا پڑا۔ جہالت اور لاعلمی نہ ہو تو آزادی میں فرق آجاتا ہے۔

اس جہالت اور آزادی کے ساتھ ساتھ انسان کو ایک اخذ کرنے والا اور بھلے برے کی تمیز کرنے والا دماغ دے دیا گیا ہے۔ وہ دماغ غور وفکر بھی کرسکتا ہے۔ اچھی اور بری باتوں کو دماغ میں محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔ جانور کے دماغ کو علم و حافظہ کی محدود صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ انسان کے دماغ کو جاہل لیکن لامحدود علم حاصل کرنے والا بنایا گیا ہے۔

انسان ہرے بھرے درخت سے آگ نکالنا سیکھ گیا لیکن اسے تشفی نہیں ہوئی۔ اس کے دماغ کی جستجو جاری رہی۔ اس نے زمین سے کوئلہ نکال کر جلانا سیکھا پھر بھی جستجو باقی رہی۔ یہ سب جہالت کی وجہ سے ہوا۔ اگر انسان ماں کے پیٹ سے لکڑی جلانا سیکھ کر آتا اور اس میں مزید سیکھنے کی صلاحیت جانوروں کی طرح محدود ہوتی تووہ ایٹم کی طاقت دریافت نہ کرسکتا۔ قرآن نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:

وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [16:78]

”اللہ نے تم لوگوں کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ جانتے نہ تھے۔ البتہ یہ کیا کہ تم کو سماعت دی‘بصارت دی اور دل دیئے“

ایک طرف انسان کو جاہل پیدا کیا اور دوسری طرف پوری کائنات کو ایک پلیٹ میں اس کے سامنے رکھ دیا کہ جتنا چاہو سیکھو۔ دماغ کی کبھی نہ ختم ہونے والی جستجو کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والا علم عطا کردیا گیا ہے۔

غور و فکر سے نئی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ نئی نئی دریافتیں ہوتی ہیں‘ نئی نئی ایجادات وجود میں آتی ہیں‘ کھوج دماغ کی غذا ہے اور ہر نئی دریافت سے دل کو جو خوشی ہوتی ہے وہ قابل رشک ہوتی ہے۔

یہی دماغ اس قابل بھی ہے کہ اپنے آپ کو جس سانچے میں پائے اسی میں پڑا رہنے دے یا جس نئے سانچے میں ڈھالنا چاہے ڈھال لے۔

اگر کوئی شخص گلاب کے پھول کی طرح دلکش اور اسی کی طرح غالب و پرکشش بننا چاہے تو کیا کرے؟ ایک ترکیب اس کی یہ ہے ڈینگیں مارے اور تیس مار خانیت کا اعلان ہر پلیٹ فارم سے کرے۔ اس ترکیب پر ہم مسلمان صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔ اب تک تو مجھے کوئی دل کشی ان میں نظر نہ آئی۔ وہ قہار (غالب و اثر آفریں) تو نہ بن پائے ہاں مقہور سب طرف سے ہیں۔ یہ نسخہ بہت استعمال ہوچکا ہے۔ اس سے مریض کو کیف تو ضرور آتا ہے‘ لیکن مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہ نہ سمجھئے کہ ہم نے ڈینگ مارنے میں کوئی کسر باقی رکھی ہے۔ ہم ایک طرف یہ اعلان کرتے ہیں۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اور دوسری طرف منہ کرکے کہتے ہیں:

چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا

دوسری ترکیب گلاب کے پھول کی طرح بننے کی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم گلابی کپڑے پہنیں اور پسینے کی بدبو دبانے کے لیے ہمیشہ گلاب کا عطر لگایا کریں اور ہمیشہ پیلے پیلے اور لال لال دانت نکال کر ہنسا کریں۔ کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ کیا ہورہا ہے تو ہم کہیں کہ مرنجاں مرنج کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ ہم صوفی ہیں۔

گلاب کے پھول کی طرح بننے کے لیے ڈینگ بھی بیکار ہے اور نقالی بھی۔ کسی شخص کو اس جیسا بننا ہو تو میں بتائوں اسے کیا کرنا چاہیئے۔
١
۔ صحت عمدہ رکھی جائے۔
اس کے لیے خود پر بھروسا زیادہ اور ڈاکٹر پر بھروسا کم رکھنا چاہئے۔ جہاں کھانسی ہوئی اور چلے ڈاکٹر کے پاس‘ ذراسا قبض ہو اور کھالی حکیم صاحب کی گولی۔ یہ سسٹم معقول نہیں ہے۔ مسٹر کے جسم میں ایک ڈاکٹر‘ مولوی کے جسم میں ایک حکیم اور پنڈت کے جسم میں ایک وید اللہ نے پہلے ہی رکھ دیا ہے۔ وہ جسم کو ٹھیک رکھنے اور بیمار ہوجائے تو اچھا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی خدمات کو ہمارا کوئی ڈاکٹر‘ کوئی حکیم اور کوئی وید نہیں پہنچ سکتا۔

اندرونی طبیب کا کہنا ہے کہ جسم کو بیماریوں سے بچائے رکھنے کے لیے کھانا کھانے میں بصیرت اور اعتدال ضروری ہے۔ کس طرح کھانا چاہیے اور کتنا کھانا ضروری ہے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے۔ جسم کو ہمیشہ مقفل بھی رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کا دروازہ بیماریوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے کہ جب چاہے مرض تشریف لے آئے۔ جسم کا قفل ہے پاکیزگی اور صحت و صفائی کے اصولوں پر عمل کرنا۔ صاف پانی استعمال کرنا‘ گلے سڑے پھلوں‘ ٹھیلے کی چیزوں سے اجتناب‘ ہاتھ دھونے کی عادت‘ غیر ضروری دوائوں سے پرہیز اور طیبات کا استعمال۔

”طیبات“ کھانوں کی وہ قسم کی ہے جو زود ہضم ہو۔ مثلاً ترکاریاں‘ پھل‘ میوے‘ دالیں‘ دودھ‘ جو‘ گیہوں ان کو اعتدال سے اورخوبصورتی سے کھانا صحت کے لیے مفید ہے۔

گوشت بھی کھا سکتے ہیںلیکن وہ سیکنڈ ہینڈ غذا ہے۔وہ جانور جن کا گوشت ہم کھاتے ہیں ”طیبات“ کھایا کرتے ہیں اور یہ طیبات دوسرے جسم کے استعمال کے بعد ہم تک پہنچتے ہیں یعنی سیکنڈ ہینڈ۔ اصل چیز بہرحال اصل ہوتی ہے۔ مستعمل چیز نفاست پسند لوگ پسند نہیں کیا کرتے۔ طیبات صحت کے لیے مفید ہیں۔

صحت بخش ورزش وہ ہے جو رگوں میں آکسیجن بھرا خون دوڑائے اور ہاضمہ درست رکھنے کے اوزار صحیح حالت میں رکھے۔

ایک انسان کے جسم میں جو موٹی اور بال سے زیادہ باریک رگیں ہیں‘ اگر ان سب کو ایک لائن میں رکھا جائے تو باسٹھ ہزار میل تک چلی جائیں گی۔ ان میں خون دوڑانے والی ورزش صحت بخش ورزش ہوگی۔

ہاضمے بڑے بڑے اوزار یہ ہیں:
جگر‘ پتہ‘ پھیپھڑا‘ مثانہ‘ معدہ‘آنتیں‘ کھال‘ان سب کی ورزش ہوجانی چاہئے۔ اس قسم کی ایک ورزش‘ جو خون کو دوڑانے اور ٹھیک رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔

اگر بے اعتدالی کی وجہ سے یا جہالت کی وجہ سے جسم میں کوئی خرابی آجائے تو اندر کا طبیب جسم کے مالک کو اس کی اطلاع دے دیتا ہے۔ سر کا درد‘ پیٹ کا درد‘ جگر کا ورم‘ بخار‘ کھانسی‘ زکام‘ بلڈ پریشر سب اطلاعات ہوتی ہیں تاکہ آدمی احتیاط کرے اور اندر کے طبیب کو جسم کی درستی کا موقع دے۔

٢۔ صفائی رکھی جائے:
طالب گلاب کو صاف ستھرا رہنا چاہئے۔ جسم اور جسم کے اندر کی صفائی کے ساتھ باہر کی صفائی بھی ضروری ہے۔ کپڑے صاف ہوں‘ کمرا صاف ہو‘ ماحول صاف ہو‘ منہ صاف ہو‘ دانت صاف ہوں۔ منہ خاص طور پر قابل توجہ ہے اس کے ذریعے جو غذا اندر جائے وہ ستھری ہو اور اس سے جو بات باہر نکلے وہ بھی صاف ستھری ہو۔ نکتہ چینی اور گھمنڈ کی باتوں سے اچھا خاصہ منہ قابل نفرت ہوجاتا ہے۔

٣۔ دماغ استعمال کیا جائے:
گلاب کا پھول بننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ دماغ استعمال کرکے ایٹم بم ہی بنائیں بلکہ روزمرہ کی باتوں میں اسے استعمال کریں۔ دیکھیے‘ پھول گندے ماحول میں بھی پھول ہی رہتا ہے۔ اردگرد کاماحول ماں بہن کی گالی کے سوا بات نہ کرتا ہو‘ لیکن آپ گالی نہ دیں۔ ماحول ضرر رساں ہو‘آپ ضرر نہ پہنچائیں۔ آپ کو کھرا آدمی پسند آتا ہے آپ بھی کھرے بنئے۔

آپ ایماندار آدمی ڈھونڈا کرتے ہیں لیکن خود بھی ایماندار بنئے۔
آپ محنتی آدمی کو چھوڑنا نہیں چاہتے پھر آپ محنتی کیوں نہ بنیں! باتیں بنانے والا لفّاظ آدمی آپ کو پسند نہیں آتا۔
آپ صاف گو اور کم گو بنئیے۔ آپ کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ آپ سے کوئی نفرت کرے لہٰذا آپ بھی نفرت نہ کریں۔
آپ بیمار ہوں تو دل چاہتا ہے کہ آپ کی کوئی تیمارداری کرے پھر آپ عمدہ تیماردار کیوں نہ بنیں!
آپ تنگ دست ہوںتو دل چاہتا ہے کہ کوئی اس تنگی کو دور کرنے والا آپ کو ملے‘ لہٰذا آپ تنگ دست کی تنگدستی دور کرنے کا سبب بنئے۔
گائے کو دیکھئے وہ اپنے بچے کو کس تڑپ اور کس محبت سے دودھ پلاتی ہے لیکن دوسری گائے کا بچہ اگر اس کا دودھ پینے آجائے تو اسے بے رحمی اور زور سے دھکا دے کر ہٹا دیتی ہے یہ طریقہ جانوروں کا ہے۔
خدانخواستہ آپ محتاج ہوجائیں تو کیا آپ پسند کریں گے کہ لوگ آپ کے ساتھ گائے والا برتائو کریں اور آپ کا بچہ یتیم ہوجائے تو آپ کا دل کیاچاہے گا۔ آپ کا دل یہی چاہے گا کہ کوئی آپ کے بچے کی نازبرداری کرے۔ کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا ہو۔ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔ تو پھر کیوں نہ آپ انسانیت کے اس جذبے کو کام میں لائیں اور یتیم کے ساتھ برادرانہ مشفقانہ برتائو کریں۔ دماغ کو کام میں لاکر ہر وہ بات جو آپ چاہتے ہوں کہ دوسرے لوگ آپ کے اور آپ کے بعد آپ کے بچوںکے ساتھ کریں‘ وہی آپ دوسروں کے ساتھ اور دوسروںکے بچوں کے ساتھ کریں۔

لیجئے آپ نے اوپر کی باتوں پر عمل کیا اور آپ گلاب کا پھول بن گئے۔ آپ بھروسے کے لائق بن گئے۔ اب آپ کی تلاش کی جائے گی۔ آپ کی نقل کی جائے گی۔ سوسائٹی آپ کو شیروانی میں ٹانکنا چاہے گی۔ آپ بھی خوش رہیں گے اور دوسرے بھی آپ سے خوش رہیں گے۔

مذہب کے لیے ایسے آدمیوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے آدمی سونا ہوتے ہیں۔ مذہب ان پر سہاگے کا کام کرے گا۔ اپنا کمال دکھائے گا۔ گلاب کے پھول جیسا انسان انسانیت سے لبریز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود لامذہب اور دہریہ رہ سکتا ہے‘ لیکن اگر اس میں مذہب کا اضافہ ہوجائے تو اس کی شان نرالی اور اس کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔

بشکریہ انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان

وسلام
 

طالوت

محفلین
گلاب ان کانٹوں بھری ٹہنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے اونچا براجمان ہوتا ہے تو بھلا بےچارے کانٹوں کی کیا بات ہو ۔
وسلام
 
Top