کیونکہ ہم روشنی کے مارے ہیں ۔ ۔

صابرہ امین

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔



جتنے بھی آسماں میں تارے ہیں
اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں

ہم کو لگتا ہے اس نے چھوڑ دیا
اس کے لہجے میں وہ اشارے ہیں

ہو چکے ہم پہ وہ عیاں پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں

دوست ہی دوست ہیں مرے ہر سو
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں


ربط جتنا ہے تشنگی اتنی
ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں

اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں

بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں

جیتنا اس لیے تھا نا ممکن
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں

تیرگی سے نہیں گلہ کوئی
یا
تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
کیونکہ ہم روشنی کے مارے ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں
بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں

واہ، واہ! بہت خوب! بہت اعلیٰ !
بہت اچھی غزل ہے صابرہ امین! کئی اچھے اشعار ہیں ۔ یہ بات بنظرِ حوصلہ افزائی نہیں کہہ رہا بلکہ واقعتاً آپ کے کلام میں بہت بہتری آئی ہے ۔ پختگی کے آثار نظر آرہے ہیں ۔
کئی اشعار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ کئی اچھے اشعار میں بس ایک آنچ کی کمی ہے ۔ اس وقت مجھے کمپیوٹر سے اٹھنا پڑرہا ہے سو تفصیلی تجزیہ ممکن نہیں ۔ آج رات یا پھر کل ان شاء اللّٰہ ان پر رائے زنی کرتا ہوں ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے صابرہ بیٹی ماشاء اللہ
بس کچھ اشعار میں بقول ظہیر ایک آنچ کی کمی ہے
مطلع میں ہمارے کے ساتھ جمع کا صیغہ ہونا تھا، زخم واحد ہے، لیکن مطلع میں ایسی باریک غلطیاں نظر انداز کی جا سکتی ہیں

ہو چکے ہم پہ وہ عیاں پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں

دوست ہی دوست ہیں مرے ہر سو
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
ان اشعار میں عیاں اور ہر سو الفاظ پر غور کرو، کچھ بہتر متبادل شاید مل جائیں
تیرگی.... گلہ کوئی
مجھے بہتر متبادل لگا
 

صابرہ امین

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے صابرہ بیٹی ماشاء اللہ
بس کچھ اشعار میں بقول ظہیر ایک آنچ کی کمی ہے
مطلع میں ہمارے کے ساتھ جمع کا صیغہ ہونا تھا، زخم واحد ہے، لیکن مطلع میں ایسی باریک غلطیاں نظر انداز کی جا سکتی ہیں


ان اشعار میں عیاں اور ہر سو الفاظ پر غور کرو، کچھ بہتر متبادل شاید مل جائیں
تیرگی.... گلہ کوئی
مجھے بہتر متبادل لگا
شکریہ استادِ محترم، بہتری لانے کی کوشش کرتی ہوں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں
بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں

واہ، واہ! بہت خوب! بہت اعلیٰ !
بہت اچھی غزل ہے صابرہ امین! کئی اچھے اشعار ہیں ۔ یہ بات بنظرِ حوصلہ افزائی نہیں کہہ رہا بلکہ واقعتاً آپ کے کلام میں بہت بہتری آئی ہے ۔ پختگی کے آثار نظر آرہے ہیں ۔
کئی اشعار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ کئی اچھے اشعار میں بس ایک آنچ کی کمی ہے ۔ اس وقت مجھے کمپیوٹر سے اٹھنا پڑرہا ہے سو تفصیلی تجزیہ ممکن نہیں ۔ آج رات یا پھر کل ان شاء اللّٰہ ان پر رائے زنی کرتا ہوں ۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی ۔ استادِ محترم اور آپ کی رہنمائی نے ہی کمال کیا ہے کہ شاعری کی کچھ کچھ سمجھ بوجھ ہونے لگی ہے۔ رہنمائی کی منتظر ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کئی اشعار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ کئی اچھے اشعار میں بس ایک آنچ کی کمی ہے ۔ اس وقت مجھے کمپیوٹر سے اٹھنا پڑرہا ہے سو تفصیلی تجزیہ ممکن نہیں ۔ آج رات یا پھر کل ان شاء اللّٰہ ان پر رائے زنی کرتا ہوں ۔

استادِ محترم نے کچھ اشارات دے دیے ہیں ۔ کچھ معروضات میں پیش کردیتا ہوں۔ میں اصلاح کے بجائے رہنمائی کا قائل ہوں اس لیے کچھ رہنما نکات بیان کردیتا ہوں تاکہ آئندہ آپ خود ان کی روشنی میں اپنے اشعار سنوار سکیں۔ اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ شاعر کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے اور وہ کن رہنما نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اشعار کی نوک پلک درست کرتا ہے۔ مطلع کو دیکھیے:
جتنے بھی آسماں میں تارے ہیں
اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں
پہلے مصرع میں "بھی" کا کوئی محل نہیں ہے۔ نثر بناکر دیکھیے۔ ملک میں جتنے سیاستدان ہیں اتنے ہی لوگوں کے مسائل ہیں۔ اس فقرے میں سیاستدانوں سے پہلے "بھی" کا کوئی محل نہیں ہے۔ گرامر کےلحاظ سے غلط ہوگا۔ چنانچہ شاعر اس شعر کو یوں بدل دیتا ہے:
آسمانوں میں جتنے تارے ہیں ۔۔ اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں
لیکن اب دوسرا مسئلہ شعر میں یہ نظر آیا کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بیانیہ ہے کہ ہمارے دل کے زخم تاروں کی طرح بیشمار ہیں۔ یہ کوئی مکمل اور مربوط مضمون نہیں۔ آسمان کے تاروں کا زخمِ دل سے کوئی شاعرانہ ربط نہیں بن رہا۔ تاروں کی جگہ ریت کے ذرے یا سمندر کے قطرے یا کوئی بھی بے حد و بے شمار شے رکھ دی جائے تو شعر کے مطلب میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوگی۔ دونوں مصرعے بے ربط ہی رہیں گے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کی کوئی صورت پیدا کرنے کے لیے شعر میں توڑ پھوڑ یا ترمیم کرنی پڑے گی۔ مثلاً ، آسمان اور ستاروں کا تعلق قسمت اور مقدر سے نہایت معروف ہے۔ چنانچہ اگر اس طرح کی بات کی جائے کہ "آسمانوں میں جتنے تارے ہیں اتنے ہی زخمِ دل ہماری قسمت میں ہیں" تو شعر بن جائے گا۔ لیکن چھوٹی بحر کی وجہ سے "اتنے ، زخمِ دل اور قسمت" کے الفاظ کو قافیے کی پابندی کے ساتھ ایک مصرع میں موزوں کرنا ممکن نہیں ہورہا۔ چنانچہ شاعر اب ان الفاظ کے متبادلات کو دیکھتا ہے اور مصرع کو الفاظ کے ردو بدل سے مختلف صورتیں دے دے کر مضمون ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخرش کچھ اس طرح کی صورت بنتی ہے۔
آسمانوں میں جتنے تارے ہیں ۔۔ اتنے غم بخت میں ہمارے ہیں
اب اس طرح مصرع تو موزوں ہوگیا لیکن دوسرے مصرع میں اتنے کے بعد لفظ "ہی" نہ ہونے کی وجہ سے اس فقرے کی کی فصاحت میں کمی آگئی۔ فصیح تو یوں ہونا چاہیے کہ "اتنے ہی غم بخت میں ہمارے ہیں"۔ اس دوراہے پر پہنچ اب یہ شاعر کی صوابدید پر ہے کہ وہ یا تو اس مصرع کو اس چھوٹے سے سقم کے ساتھ یوں ہی قائم رکھے یا پھر اس خیال کو فی الحال ترک کردے اور نئے سرے سے نیا شعر کہے۔ بعض شاعر اپنے شعر میں چھوٹے سے سقم کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اسے مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ دردِ سر سے بچنے کے لئے اسی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے اگلے شعر کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی مضمون کی احسن ادائیگی کے لئے ذخیرۂ الفاظ ، انکے محلِ استعمال اور زبان کی صحت سے واقف ہونا کتنا ضروری ہے۔ یہ ساری چیزیں مطالعے سے آتی ہیں اور تربیت سے آتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو لگتا ہے اس نے چھوڑ دیا
اس کے لہجے میں وہ اشارے ہیں
پہلے مصرع میں تعقید ہے اور ابہامِ قبیح پیدا کررہی ہے۔ شاعر کا مدعا تو یہ ہے کہ "لگتا ہے اس نے ہم کو چھوڑ دیا" لیکن الفاظ کی بندش سے مطلب یہ پیدا ہورہا ہے"ہم کو لگتا ہے کہ اس نے چھوڑدیا"۔ اب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا چھوڑ دیا؟ بم یا پٹاخہ؟ اس شعر کو ازسرِ نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو چکے ہم پہ وہ عیاں پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں
بہت خوب! اچھاہے۔ ایک ذرا لطیف سا نکتہ اس میں لفظ کی اینوٹیشن اور کنوٹیشن کے فرق کا ہے۔ (یعنی لفظ کے لغوی معنی اور مفہوم کے درمیان جو فرق ہوتا ہے)۔ کسی کا عیاں ہوجانا عموماً منفی معنوں میں لیا جاتا ہے یعنی کسی کی اصلیت کھل جانا ، اصل شخصیت کا پتہ چل جانا۔چونکہ یہ شعر کسی سیاستدان کے بارے میں نہیں بلکہ محبوب کے بارے میں کہا جارہا ہے اور یہاں منفی پہلو مراد نہیں ہے اس لیے اگر کچھ اس طرح کی بات کی جائے کہ:
وہ گریزاں ہیں ہم سے پھر بھی مگر ۔۔ ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں
تو صورتحال کی لفظی منظر کشی بہتر ہوسکے گی۔ ایسا مرا خیال ہے۔ آپ اپنا مدعا بہتر طور پر واضح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست ہی دوست ہیں مرے ہر سو
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
اچھا شعر ہے۔ ہر سو یہاں مناسب ترین لفظ نہیں۔ چھوٹی بحر میں حشو و زوائد جس قدر کم ہوں بہتر ہے۔ ایسا لفظ لانا چاہیے جو معنی میں اضافہ کرے۔ چھوٹی بحر میں لفظی فضول خرچی کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ چونکہ شعر کا مضمون طنزیہ ہے اس لئے پہلا مصرع ایسے انداز میں کہنا بہترہے کہ دوسرے مصرع کا طنزیہ تاثر سوا ہوجائے۔ ایک مسئلہ جو شاعر کو اکثر پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے کوئی بات بیان کرتے وقت ذاتی یا اجتماعی پیرائے میں سے کوئی ایک چننا ہوتا ہے۔ یعنی بات اپنی ذات کے حوالے سے اپنے اوپر رکھ کر کہی جائے یا اجتماعی حوالے سے بغیر کسی تخصیص کے بیان کی جائے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ پہلے مصرع میں مرے دوست کہنا کتنا ضروری ہے۔ اپنی طرف اشارہ کیے بغیر بھی بات کی جائے تو مطلب ادا ہوجاتا ہے اِلّا یہ کہ یہاں واقعی اپنے ہی دوستوں کی طرف اشارہ مقصود ہو۔ اس طرز پر کوئی بات کہہ کر دیکھیے:
دوست ہی دوست رہ گئے باقی ۔ اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
اس طرح بات عام ہوجاتی ہے اور ہر قاری اس سے ریلیٹ کرسکتا ہے ۔ ( معذرت ، ریلیٹ مناسب ارد ومترادف اس وقت ذہن میں نہیں آرہا)
---------------------------------------------------------------------------------------------
ربط جتنا ہے تشنگی اتنی
ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
دریا کے دو کناروں کا استعارہ دوری اور وصالِ ناممکنہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تشنگی سے اس استعارے کا تعلق واضح نہیں۔ ایک عامیانہ سا مصرع یوں ہوگا:
پاس جتنے ہیں دور ہیں اُتنے ۔۔ ہم کہ دریا کہ دو کنارے ہیں
خیر، یہ تو ایک سامنے کی بات ہوگئی لیکن نکتے کی وضاحت کو کافی ہے۔ آپ اس شعر کو بہتر بناسکتی ہیں ۔ اس پر غور و فکر کیجیے۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے ۔
آمنے سامنے بھی ، دور بھی ہیں ۔۔ ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں
یہ مضمون مبہم اور نسبتاً پست ہے ۔ آگہی کے ماروں کے دشمن تو ہوتے ہیں لیکن سارے جہاں کا دشمن ہونا خلافِ واقعہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں مضمون بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں
بہت خوب! یہ شعر پسند آیا۔ اللّٰہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیتنا اس لیے تھا نا ممکن
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
دوسرا مصرع بہت خوب ہے۔ پسند آیا۔ حسبِ حال ہے! لیکن پہلا مصرع اس کا اثر زائل کررہا ہے۔ شاعرانہ انداز نہیں ۔ اسے بہتر بنائیے۔ اس طرح کی بات کیجئے کہ اس دفعہ ہم دشمنوں یا مخالفوں وغیرہ سے نہیں بلکہ منصفوں سے ہارے ہیں۔ یہ تجاویز دیکھیے:
ہمیں شکوہ نہیں وکیلوں سے ۔۔ اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
ہمیں شکوہ نہیں عدو سے کوئی ۔۔ اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
ہمیں شکوہ نہیں مخالف سے ۔۔ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرگی سے نہیں گلہ کوئی
یا
تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
کیونکہ ہم روشنی کے مارے ہیں
ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ چنانچہ اور کیونکہ سے مصرع شروع نہیں کرنا چاہیئے۔ عام طور پر شعر میں ان دو الفاظِ رابطہ کی ضرورت نہیں پڑتی اور انہیں بہت آسانی سے حذف کیا جاسکتا ہے۔ قاری ان کے بغیر بھی مطلب سمجھ جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ ان لفظوں کے بغیر ادائیگیِ مطلب ممکن نہ ہو تو مصرع کے درمیان یا آخر میں لانا بہتر ہوگا۔دوسری بات یہ کہ مصرع میں لفظوں کی نشست حتی الامکان نثری ترتیب یا فطری ترتیب کے قریب قریب رکھی جائے تو بہتر ہے اِلّا یہ کہ کسی لفظ پر زور دینا مقصود ہو۔ ایسی صورت میں اُس لفظ کو فقرے میں مقدم رکھنا چاہیئے ۔
تیرگی سے گلہ نہیں ہم کو ( گلہ کی نشست اس جگہ بہتر ہے)
تیرگی سے گلہ نہیں ہے ہمیں ( ہم کو سے ہمیں فصیح ترہے)
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں (کیونکہ حذف ہوگیا)
ہم تو بس روشنی کے مارے ہیں۔ ( بس بھرتی کا ہے۔ وزن پورا کرنے کے لیے لایا گیا۔ لیکن کیونکہ کی نسبت اک روشنی یا بس روشنی کے الفاظ پھر بہتر ہیں)۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے:
تیرگی سے گلہ نہیں ہے ہمیں ۔۔ ہم تو اِس روشنی کے مارے ہیں
اِس روشنی کا اشارہ بلیغ ہے اور مفہوم ادا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید ہے کہ یہ چند نکات آپ کی فکرِ سخن کے لیے کچھ روشنی فراہم کریں گے۔
آپ کے دعائیں اور نیک خواہشات!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس غزل میں جو معنوی شعریت ہے اس کے لحاظ سے لفظی شعریت پیچھے رہی نظر آتی ہے ۔
لب و لہجہ سپاٹ ہے اور اس معنوی اور تخیلاتی شعریت کا ساتھ نہیں دے پارہا جو شاعر بطور شعری تصور کنسیو کرتا ہے ۔لیکن ایسا کیوں ہے اس کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ غزل کا پیکر تیار ہوتے ہی پیش کر دیا جانا ہوتا ہے ۔ کیوں کہ عمومی قاعدوں کی رو سے کوئی نقص ظاہری طور پر باقی نہیں رہتا اور نئے شعراء اس کاوش سے وقتی طور پر تھکے ہو تے ہیں ، پیش کر دیتے ہیں ۔
اب اس طرح اس میں کمی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے کچھ وقت بعد نظر ثانی کے لیے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر نظر ثانی میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے مطالعے میں (اگر چہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو ) گہرائی نہیں ہے۔ اب آپ کو غور اور فکر اور کلاسیکی شاعری کو فوکس کر کے سمجھنا ہو گا۔لیکن نئے شعراء اگر نظر ثانی (بلکہ نظر ثالث ) میں اس کو محسوس کریں تو وہ اپنی تخلیقات میں بہت بہتری لا سکتے ہیں ۔
اس غزل میں کیوں کہ کا استعمال اسی سپاٹ لہجے کی علامت ہے جو شعری معنویت اور لفظی مطابقت کے ضعف کو ظاہر کر رہی ہے ۔

بس یہی باتیں ذہن میں رکھ کر ساری غزل کو مزید سنوارا جاسکتا ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترم ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی صاحبان!
اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ مطالعے سے متعلق مشورہ دیجیے تو آپ نئے اور پرانے شاعروں میں سے کس کس شاعر کو پڑھنے کی تجویز دیں گے۔
پرکھوں کو پڑھیے بھئی ، نئے تو آپ خود ہی ہیں ۔ :)
(ویسے اصل بات میرے خیال میں یہ ہے کہ دونوں کر پڑھنا چاہیئے لیکن مطالعے میں گہرائی اور غور و خوض ہونا چاہیئے ) ۔
جو نئے شعراء میں کو شعری روایتوں کو موثر اسلوب میں خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں ان میں میری اپنی مختصر لسٹ یہ ہو گی ۔ ترتیب آپ خود بنائیے پہلے کلاسیکی پھر جدید ۔آپ اس میں روایتوں اور اسلوب ، ڈھنگ اور ان کی تبدیلیاں محسوس کریں گے۔
قمر جلالوی خمار بارہ بنکوی قابل اجمیری کلیم عاجز
پھر جگر اصغر فانی حسرت جوش امیر داغ اقبال
پھر کلاسیکی
حالی شیفتہ غالب مومن ذوق نصیر نظیر
آتش مصحفی جرات ناسخ ۔
میر سودا درد
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کے علاوہ کچھ شعراء سے پرہیز بھی کرنا ہو گا۔ مثلاََ ۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑیئے بہت سوں کا دل ٹوٹ جائے گا ۔
ویسے دوا کا فائدہ پرہیز کے بغیر نہیں ہو تا۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس کے علاوہ کچھ شعراء سے پرہیز بھی کرنا ہو گا۔ مثلاََ ۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑیئے بہت سوں کا دل ٹوٹ جائے گا ۔
ویسے دوا کا فائدہ پرہیز کے بغیر نہیں ہو تا۔ :)
جب ہم تجویز پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے پرہیز تو اپنے آپ ہو جائے گا۔😊
ویسے تجویز کے لیے بہت شکریہ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی صاحبان!
اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ مطالعے سے متعلق مشورہ دیجیے تو آپ نئے اور پرانے شاعروں میں سے کس کس شاعر کو پڑھنے کی تجویز دیں گے۔
شاہ صاحب عاطف مفصل جواب دے چکے ۔
شاعری کے بارے میں میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ ابتدائی دور میں جب شعر و ادب کا نیا نیا شوق تھا اور زبان سیکھ رہا تھا تو کلاسیکی شعر ا کو پڑھا ۔ مشہور و معروف اور بڑے اساتذہ میں سے سب کا دستیاب کلام تقریباً ایک دفعہ تو ضرور پڑھا۔ اس کے بعد بس پھر انہی شعرا کو پڑھا کہ جو پسند آئے کہ اب مطالعہ سے مقصود شعر کا لطف لینا اور حظ اٹھانا تھا۔ اب بھی شاعری پڑھنے کے معاملے میں انتہائی تخصیص برتتا ہوں ۔ اگر آپ زبان اور شاعری سیکھنے کی غرض سے پڑھنا چاہتے ہیں تو داغ ، اقبال ، حسرت ، جگر ، اصغر وغیرہ کو ضرور پڑھیے ۔ اس لحاظ سے میر اور دیگر قدما کو پڑھنا اتنا فائدہ مند نہیں کہ ان کی زبان اور آج کی زبان میں بہت فرق ہے ۔ قدما کی زبان نہایت ناہموار اور اُس زمانے کے لسانی ارتقا کی عکاس ہے ۔ اس مطالعے سے لسانی تاریخ اور ارتقا کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن زبان سیکھنے میں اتنی مدد نہیں ملتی۔

میری ناقص رائے میں زبان سیکھنے کےلئے شاعری سے زیادہ نثر کا مطالعہ سود مند ہے ۔ اچھی اور کلاسیکی نثر ۔ روزمرہ اور محاورے جس قدر اور جس طرح نثر میں استعمال ہوتے ہیں شاعر ی میں نہیں ہوسکتے۔ نثر پڑھنے سے روزمرہ اور محاوروں کے درست محلِ استعمال کا پتہ چلتا ہے ۔ لفظ کا مفہوم معلوم ہوتا ہے ۔ نثر کی نسبت شاعری کی لغت بہت محدود ہے اور اس میں روز مرہ اور محاورے کا استعمال پابندیِ وزن کی وجہ سے عام روش سے ذرا ہٹ کر بھی ہوتا ہے۔ اچھی کلاسیکی نثر کا وسیع پیمانے پر مطالعہ گویا اس طرح ہے جیسے آپ اہلِ زبان کے درمیان رہ رہے ہوں۔ یوں فصیح زبان سیکھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

باقی رہی نئے شاعروں کو پڑھنے کی بات تو اس میں بھی اپنی اپنی پسند ہے ۔ عاطف بھائی کی پرہیز والی بات سے ایک سو ایک فیصد متفق ہوں ۔ نیز، اخبارات ، انٹ شنٹ رسائل و جرائد اور ویبگاہوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے ۔ اِلّا یہ کہ آپ کی اپنی زبان خود اس قدر مستحکم ہو کہ آپ فصیح اور غیر فصیح ، درست اور نادرست زبان میں تمیز کرسکیں ۔
ورنہ میری طرح آپ کو بھی سمجھ لگ جائے گی ۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شاہ صاحب عاطف مفصل جواب دے چکے ۔
شاعری کے بارے میں میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ ابتدائی دور میں جب شعر و ادب کا نیا نیا شوق تھا اور زبان سیکھ رہا تھا تو کلاسیکی شعر ا کو پڑھا ۔ مشہور و معروف اور بڑے اساتذہ میں سے سب کا دستیاب کلام تقریباً ایک دفعہ تو ضرور پڑھا۔ اس کے بعد بس پھر انہی شعرا کو پڑھا کہ جو پسند آئے کہ اب مطالعہ سے مقصود شعر کا لطف لینا اور حظ اٹھانا تھا۔ اب بھی شاعری پڑھنے کے معاملے میں انتہائی تخصیص برتتا ہوں ۔ اگر آپ زبان اور شاعری سیکھنے کی غرض سے پڑھنا چاہتے ہیں تو داغ ، اقبال ، حسرت ، جگر ، اصغر وغیرہ کو ضرور پڑھیے ۔ اس لحاظ سے میر اور دیگر قدما کو پڑھنا اتنا فائدہ مند نہیں کہ ان کی زبان اور آج کی زبان میں بہت فرق ہے ۔ قدما کی زبان نہایت ناہموار اور اُس زمانے کے لسانی ارتقا کی عکاس ہے ۔ اس مطالعے سے لسانی تاریخ اور ارتقا کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن زبان سیکھنے میں اتنی مدد نہیں ملتی۔

میری ناقص رائے میں زبان سیکھنے کےلئے شاعری سے زیادہ نثر کا مطالعہ سود مند ہے ۔ اچھی اور کلاسیکی نثر ۔ روزمرہ اور محاورے جس قدر اور جس طرح نثر میں استعمال ہوتے ہیں شاعر ی میں نہیں ہوسکتے۔ نثر پڑھنے سے روزمرہ اور محاوروں کے درست محلِ استعمال کا پتہ چلتا ہے ۔ لفظ کا مفہوم معلوم ہوتا ہے ۔ نثر کی نسبت شاعری کی لغت بہت محدود ہے اور اس میں روز مرہ اور محاورے کا استعمال پابندیِ وزن کی وجہ سے عام روش سے ذرا ہٹ کر بھی ہوتا ہے۔ اچھی کلاسیکی نثر کا وسیع پیمانے پر مطالعہ گویا اس طرح ہے جیسے آپ اہلِ زبان کے درمیان رہ رہے ہوں۔ یوں فصیح زبان سیکھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

باقی رہی نئے شاعروں کو پڑھنے کی بات تو اس میں بھی اپنی اپنی پسند ہے ۔ عاطف بھائی کی پرہیز والی بات سے ایک سو ایک فیصد متفق ہوں ۔ نیز، اخبارات ، انٹ شنٹ رسائل و جرائد اور ویبگاہوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے ۔ اِلّا یہ کہ آپ کی اپنی زبان خود اس قدر مستحکم ہو کہ آپ فصیح اور غیر فصیح ، درست اور نادرست زبان میں تمیز کرسکیں ۔
ورنہ میری طرح آپ کو بھی سمجھ لگ جائے گی ۔ :)
ان خوبصورت تجاویز پر بہت شکریہ۔
اور آپ نثر میں سے کس کس کو تجویز کرنا چاہیں گے۔😊
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جب ہم تجویز پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے پرہیز تو اپنے آپ ہو جائے گی۔😊
ویسے تجویز کے لیے بہت شکریہ
محمد عبدالرؤوف ، گمان اغلب ہے کہ آپ سے ٹائپو سرزد ہوگیا ۔ پرہیز مذکر ہے ، خواہ صاحب کریں یا صاحبہ ۔ :)
بس احتیاطاً نشاندہی کررہا ہوں تاکہ کوئی اور قاری گمراہ نہ ہوجائے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کلاسیکی نثر میں تو جو کچھ سامنے آئے پڑھتے جائیے۔ آپ کی دلچسپی پر ہے ۔ بچپن میں تو حکایتیں اور کہانیاں اچھی لگتی تھیں ۔ اب پرانے تذکرے اور سوانح پڑھنا اچھا لگتا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
Top