کیونکہ ہم روشنی کے مارے ہیں ۔ ۔

صابرہ امین

لائبریرین
استادِ محترم نے کچھ اشارات دے دیے ہیں ۔ کچھ معروضات میں پیش کردیتا ہوں۔ میں اصلاح کے بجائے رہنمائی کا قائل ہوں اس لیے کچھ رہنما نکات بیان کردیتا ہوں تاکہ آئندہ آپ خود ان کی روشنی میں اپنے اشعار سنوار سکیں۔ اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ شاعر کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے اور وہ کن رہنما نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اشعار کی نوک پلک درست کرتا ہے۔ مطلع کو دیکھیے:
جتنے بھی آسماں میں تارے ہیں
اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں
پہلے مصرع میں "بھی" کا کوئی محل نہیں ہے۔ نثر بناکر دیکھیے۔ ملک میں جتنے سیاستدان ہیں اتنے ہی لوگوں کے مسائل ہیں۔ اس فقرے میں سیاستدانوں سے پہلے "بھی" کا کوئی محل نہیں ہے۔ گرامر کےلحاظ سے غلط ہوگا۔ چنانچہ شاعر اس شعر کو یوں بدل دیتا ہے:
آسمانوں میں جتنے تارے ہیں ۔۔ اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں
لیکن اب دوسرا مسئلہ شعر میں یہ نظر آیا کہ یہ تو ایک سیدھا سیدھا بیانیہ ہے کہ ہمارے دل کے زخم تاروں کی طرح بیشمار ہیں۔ یہ کوئی مکمل اور مربوط مضمون نہیں۔ آسمان کے تاروں کا زخمِ دل سے کوئی شاعرانہ ربط نہیں بن رہا۔ تاروں کی جگہ ریت کے ذرے یا سمندر کے قطرے یا کوئی بھی بے حد و بے شمار شے رکھ دی جائے تو شعر کے مطلب میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوگی۔ دونوں مصرعے بے ربط ہی رہیں گے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کی کوئی صورت پیدا کرنے کے لیے شعر میں توڑ پھوڑ یا ترمیم کرنی پڑے گی۔ مثلاً ، آسمان اور ستاروں کا تعلق قسمت اور مقدر سے نہایت معروف ہے۔ چنانچہ اگر اس طرح کی بات کی جائے کہ "آسمانوں میں جتنے تارے ہیں اتنے ہی زخمِ دل ہماری قسمت میں ہیں" تو شعر بن جائے گا۔ لیکن چھوٹی بحر کی وجہ سے "اتنے ، زخمِ دل اور قسمت" کے الفاظ کو قافیے کی پابندی کے ساتھ ایک مصرع میں موزوں کرنا ممکن نہیں ہورہا۔ چنانچہ شاعر اب ان الفاظ کے متبادلات کو دیکھتا ہے اور مصرع کو الفاظ کے ردو بدل سے مختلف صورتیں دے دے کر مضمون ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخرش کچھ اس طرح کی صورت بنتی ہے۔
آسمانوں میں جتنے تارے ہیں ۔۔ اتنے غم بخت میں ہمارے ہیں
اب اس طرح مصرع تو موزوں ہوگیا لیکن دوسرے مصرع میں اتنے کے بعد لفظ "ہی" نہ ہونے کی وجہ سے اس فقرے کی کی فصاحت میں کمی آگئی۔ فصیح تو یوں ہونا چاہیے کہ "اتنے ہی غم بخت میں ہمارے ہیں"۔ اس دوراہے پر پہنچ اب یہ شاعر کی صوابدید پر ہے کہ وہ یا تو اس مصرع کو اس چھوٹے سے سقم کے ساتھ یوں ہی قائم رکھے یا پھر اس خیال کو فی الحال ترک کردے اور نئے سرے سے نیا شعر کہے۔ بعض شاعر اپنے شعر میں چھوٹے سے سقم کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اسے مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ دردِ سر سے بچنے کے لئے اسی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے اگلے شعر کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی مضمون کی احسن ادائیگی کے لئے ذخیرۂ الفاظ ، انکے محلِ استعمال اور زبان کی صحت سے واقف ہونا کتنا ضروری ہے۔ یہ ساری چیزیں مطالعے سے آتی ہیں اور تربیت سے آتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو لگتا ہے اس نے چھوڑ دیا
اس کے لہجے میں وہ اشارے ہیں
پہلے مصرع میں تعقید ہے اور ابہامِ قبیح پیدا کررہی ہے۔ شاعر کا مدعا تو یہ ہے کہ "لگتا ہے اس نے ہم کو چھوڑ دیا" لیکن الفاظ کی بندش سے مطلب یہ پیدا ہورہا ہے"ہم کو لگتا ہے کہ اس نے چھوڑدیا"۔ اب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا چھوڑ دیا؟ بم یا پٹاخہ؟ اس شعر کو ازسرِ نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو چکے ہم پہ وہ عیاں پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں
بہت خوب! اچھاہے۔ ایک ذرا لطیف سا نکتہ اس میں لفظ کی اینوٹیشن اور کنوٹیشن کے فرق کا ہے۔ (یعنی لفظ کے لغوی معنی اور مفہوم کے درمیان جو فرق ہوتا ہے)۔ کسی کا عیاں ہوجانا عموماً منفی معنوں میں لیا جاتا ہے یعنی کسی کی اصلیت کھل جانا ، اصل شخصیت کا پتہ چل جانا۔چونکہ یہ شعر کسی سیاستدان کے بارے میں نہیں بلکہ محبوب کے بارے میں کہا جارہا ہے اور یہاں منفی پہلو مراد نہیں ہے اس لیے اگر کچھ اس طرح کی بات کی جائے کہ:
وہ گریزاں ہیں ہم سے پھر بھی مگر ۔۔ ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں
تو صورتحال کی لفظی منظر کشی بہتر ہوسکے گی۔ ایسا مرا خیال ہے۔ آپ اپنا مدعا بہتر طور پر واضح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست ہی دوست ہیں مرے ہر سو
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
اچھا شعر ہے۔ ہر سو یہاں مناسب ترین لفظ نہیں۔ چھوٹی بحر میں حشو و زوائد جس قدر کم ہوں بہتر ہے۔ ایسا لفظ لانا چاہیے جو معنی میں اضافہ کرے۔ چھوٹی بحر میں لفظی فضول خرچی کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ چونکہ شعر کا مضمون طنزیہ ہے اس لئے پہلا مصرع ایسے انداز میں کہنا بہترہے کہ دوسرے مصرع کا طنزیہ تاثر سوا ہوجائے۔ ایک مسئلہ جو شاعر کو اکثر پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے کوئی بات بیان کرتے وقت ذاتی یا اجتماعی پیرائے میں سے کوئی ایک چننا ہوتا ہے۔ یعنی بات اپنی ذات کے حوالے سے اپنے اوپر رکھ کر کہی جائے یا اجتماعی حوالے سے بغیر کسی تخصیص کے بیان کی جائے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ پہلے مصرع میں مرے دوست کہنا کتنا ضروری ہے۔ اپنی طرف اشارہ کیے بغیر بھی بات کی جائے تو مطلب ادا ہوجاتا ہے اِلّا یہ کہ یہاں واقعی اپنے ہی دوستوں کی طرف اشارہ مقصود ہو۔ اس طرز پر کوئی بات کہہ کر دیکھیے:
دوست ہی دوست رہ گئے باقی ۔ اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
اس طرح بات عام ہوجاتی ہے اور ہر قاری اس سے ریلیٹ کرسکتا ہے ۔ ( معذرت ، ریلیٹ مناسب ارد ومترادف اس وقت ذہن میں نہیں آرہا)
---------------------------------------------------------------------------------------------
ربط جتنا ہے تشنگی اتنی
ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
دریا کے دو کناروں کا استعارہ دوری اور وصالِ ناممکنہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تشنگی سے اس استعارے کا تعلق واضح نہیں۔ ایک عامیانہ سا مصرع یوں ہوگا:
پاس جتنے ہیں دور ہیں اُتنے ۔۔ ہم کہ دریا کہ دو کنارے ہیں
خیر، یہ تو ایک سامنے کی بات ہوگئی لیکن نکتے کی وضاحت کو کافی ہے۔ آپ اس شعر کو بہتر بناسکتی ہیں ۔ اس پر غور و فکر کیجیے۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے ۔
آمنے سامنے بھی ، دور بھی ہیں ۔۔ ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں
یہ مضمون مبہم اور نسبتاً پست ہے ۔ آگہی کے ماروں کے دشمن تو ہوتے ہیں لیکن سارے جہاں کا دشمن ہونا خلافِ واقعہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں مضمون بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں
بہت خوب! یہ شعر پسند آیا۔ اللّٰہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیتنا اس لیے تھا نا ممکن
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
دوسرا مصرع بہت خوب ہے۔ پسند آیا۔ حسبِ حال ہے! لیکن پہلا مصرع اس کا اثر زائل کررہا ہے۔ شاعرانہ انداز نہیں ۔ اسے بہتر بنائیے۔ اس طرح کی بات کیجئے کہ اس دفعہ ہم دشمنوں یا مخالفوں وغیرہ سے نہیں بلکہ منصفوں سے ہارے ہیں۔ یہ تجاویز دیکھیے:
ہمیں شکوہ نہیں وکیلوں سے ۔۔ اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
ہمیں شکوہ نہیں عدو سے کوئی ۔۔ اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
ہمیں شکوہ نہیں مخالف سے ۔۔ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرگی سے نہیں گلہ کوئی
یا
تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
کیونکہ ہم روشنی کے مارے ہیں
ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ چنانچہ اور کیونکہ سے مصرع شروع نہیں کرنا چاہیئے۔ عام طور پر شعر میں ان دو الفاظِ رابطہ کی ضرورت نہیں پڑتی اور انہیں بہت آسانی سے حذف کیا جاسکتا ہے۔ قاری ان کے بغیر بھی مطلب سمجھ جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ ان لفظوں کے بغیر ادائیگیِ مطلب ممکن نہ ہو تو مصرع کے درمیان یا آخر میں لانا بہتر ہوگا۔دوسری بات یہ کہ مصرع میں لفظوں کی نشست حتی الامکان نثری ترتیب یا فطری ترتیب کے قریب قریب رکھی جائے تو بہتر ہے اِلّا یہ کہ کسی لفظ پر زور دینا مقصود ہو۔ ایسی صورت میں اُس لفظ کو فقرے میں مقدم رکھنا چاہیئے ۔
تیرگی سے گلہ نہیں ہم کو ( گلہ کی نشست اس جگہ بہتر ہے)
تیرگی سے گلہ نہیں ہے ہمیں ( ہم کو سے ہمیں فصیح ترہے)
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں (کیونکہ حذف ہوگیا)
ہم تو بس روشنی کے مارے ہیں۔ ( بس بھرتی کا ہے۔ وزن پورا کرنے کے لیے لایا گیا۔ لیکن کیونکہ کی نسبت اک روشنی یا بس روشنی کے الفاظ پھر بہتر ہیں)۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے:
تیرگی سے گلہ نہیں ہے ہمیں ۔۔ ہم تو اِس روشنی کے مارے ہیں
اِس روشنی کا اشارہ بلیغ ہے اور مفہوم ادا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید ہے کہ یہ چند نکات آپ کی فکرِ سخن کے لیے کچھ روشنی فراہم کریں گے۔
آپ کے دعائیں اور نیک خواہشات!
آپ کی رہنمائی اور مدد کا بے حد شکریہ۔ تمام نکات کو سامنے رکھ کر بہتری کی کوشش کرتی ہوں۔ جزاک اللہ خیر
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس غزل میں جو معنوی شعریت ہے اس کے لحاظ سے لفظی شعریت پیچھے رہی نظر آتی ہے ۔
لب و لہجہ سپاٹ ہے اور اس معنوی اور تخیلاتی شعریت کا ساتھ نہیں دے پارہا جو شاعر بطور شعری تصور کنسیو کرتا ہے ۔لیکن ایسا کیوں ہے اس کیسے درست کیا جاسکتا ہے۔
میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ غزل کا پیکر تیار ہوتے ہی پیش کر دیا جانا ہوتا ہے ۔ کیوں کہ عمومی قاعدوں کی رو سے کوئی نقص ظاہری طور پر باقی نہیں رہتا اور نئے شعراء اس کاوش سے وقتی طور پر تھکے ہو تے ہیں ، پیش کر دیتے ہیں ۔
اب اس طرح اس میں کمی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے کچھ وقت بعد نظر ثانی کے لیے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر نظر ثانی میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے مطالعے میں (اگر چہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو ) گہرائی نہیں ہے۔ اب آپ کو غور اور فکر اور کلاسیکی شاعری کو فوکس کر کے سمجھنا ہو گا۔لیکن نئے شعراء اگر نظر ثانی (بلکہ نظر ثالث ) میں اس کو محسوس کریں تو وہ اپنی تخلیقات میں بہت بہتری لا سکتے ہیں ۔
اس غزل میں کیوں کہ کا استعمال اسی سپاٹ لہجے کی علامت ہے جو شعری معنویت اور لفظی مطابقت کے ضعف کو ظاہر کر رہی ہے ۔

بس یہی باتیں ذہن میں رکھ کر ساری غزل کو مزید سنوارا جاسکتا ہے ۔
آپ کی تمام باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔ تمام باتوں کو کئی بار پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ذہن نشین ہو جائیں۔ آپ کے قیمتی وقت کا بہت شکریہ۔ 🍁🍁🍁
 

یاسر شاہ

محفلین
وعلیکم السلام صابرہ بہن ماشاء اللہ آپ کے کلام میں خاصا نکھار آگیا ہے۔ماشاء اللہ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
میں نہ اصلاح کا قائل نہ رہنمائی کا میں ہوں قائل رنگ میں بھنگ ڈالنے کا سو میری بھنگ دیکھیے:😊


جتنے بھی آسماں میں تارے ہیں
اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں

یہاں میرے محبوب اور ہمارے ہردلعزیز ظہیر صاحب کی اصلاح فوراً قبول کر لیں
آسمانوں میں جتنے تارے ہیں ۔۔ اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں

شاعرانہ سامنے کا ربط تو یہ ہے کہ تارے اور زخم دونوں کا شمار ممکن نہیں اور دور کا ربط یہ ہے کہ شاعرہ شب ہجر میں جاگ کر تارے گنتی رہی ہے اور زخموں کو یاد کرتی رہی ہے نتیجے کے طور پر یہ شعر پیش کر رہی ہے۔

ہم کو لگتا ہے اس نے چھوڑ دیا
اس کے لہجے میں وہ اشارے ہیں

تعقید ختم کر کے پٹاخہ پھس کر دیں۔

اس نے لگتا ہے ہم کو چھوڑ دیا
لب و لہجے میں وہ اشارے ہیں

دوسرے مصرع میں اسی جگہ "اس" کی تکرار ختم کر دی گئی ۔

ہو چکے ہم پہ وہ عیاں پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں

یہ شعر مجھے تو پسند آیا۔پہلا مصرع طنز ہی سمجھا جائے تو آج کل کے محبوب کی طرف اشارہ ہے کہ مجھے معلوم ہے وہ فلرٹ ہے مگر ہم کیوں فلرٹ بنیں آج بھی یہی سمجھ کر خوش ہیں کہ وہ ہمارے ہیں۔
دوست ہی دوست ہیں مرے ہر سو
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
پہلے مصرع کو اس طرح کر دیں :
میری چاروں طرف ہیں دوست ہی دوست
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں

خوب بات کی گئی ہے۔ہر طرف دوستوں کا ہونا اور دوستوں کا باقی رہ جانا دو مختلف نوع کے خیال ہیں۔ہمارے کولیگ کی بات یاد آگئی وہ یہی کہتے ہیں جو یہاں بے وقوف نہیں بن سکتا اس کا کوئی دوست بھی نہیں ہوتا۔مجھے مکمل اتفاق تو نہیں مگر شہروں میں آج کل زیادہ تر یہی کچھ ہو رہا ہے بقول آٹو رکشا :
جیب میں اگر پیسا ہے ۔دوست پوچھتے ہیں کیسا ہے؟
ربط جتنا ہے تشنگی اتنی
ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں


پاس جتنے ہیں دور ہیں اُتنے ۔۔ ہم کہ دریا کہ دو کنارے ہیں

آمنے سامنے بھی ، دور بھی ہیں ۔۔ ہم کہ دریا کے دو کنارے ہیں
دونوں اصلاحیں غضب کی ہیں ۔کوئی ایک رکھ لیں ۔
۔۔۔
باقی آئندہ
 

یاسر شاہ

محفلین
اپنا دشمن ہوا ہے سارا جہاں
کیوں کہ ہم آگہی کے مارے ہیں
پہلے مصرع میں" سارا" کو "ایک" سے بدل دیں اور" کیونکہ" کو ہٹا دیں ۔"کیونکہ" اور "چونکہ" جیسے لفظ عموماً شاعری میں استعمال نہیں ہوتے کیونکہ" کہ" سے کام چل جاتا ہے۔یوں دیکھیں

اپنا دشمن ہوا ہے ایک جہاں
کہ ہم اس آگہی کے مارے ہیں
یا
اور ہم آگہی کے مارے ہیں

بے بسی، خوف ، نا امیدیِ دل
ڈوب جانے کے استعارے ہیں
بہت خوب ۔
ذوق البتہ چاہتا ہے کہ بے بسی ،خوف لفظوں کے ساتھ لفظ ہی ہوں بجائے مرکب "ناامیدی دل" کے
جیسے:

بے بسی ،خوف ،یاس ،محرومی
جیتنا اس لیے تھا نا ممکن
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
جس سیاسی تناظر میں غالباً یہ شعر لکھا گیا ہے ،ایک ممکنہ شکل دیکھیے:

دشمنوں کی کہاں مجال تھی یہ
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں
تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
کیونکہ ہم روشنی کے مارے
دوسرے مصرع کی یہ شکل خوب ہے:
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں ۔

خیر اندیش و طالب دعا
یاسر
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
پہلے مصرع میں" سارا" کو "ایک" سے بدل دیں اور" کیونکہ" کو ہٹا دیں ۔"کیونکہ" اور "چونکہ" جیسے لفظ عموماً شاعری میں استعمال نہیں ہوتے کیونکہ" کہ" سے کام چل جاتا ہے۔یوں دیکھیں

اپنا دشمن ہوا ہے ایک جہاں
کہ ہم اس آگہی کے مارے ہیں
یا
اور ہم آگہی کے مارے ہیں


بہت خوب ۔
ذوق البتہ چاہتا ہے کہ بے بسی ،خوف لفظوں کے ساتھ لفظ ہی ہوں بجائے مرکب "ناامیدی دل" کے
جیسے:

بے بسی ،خوف ،یاس ،محرومی

جس سیاسی تناظر میں غالباً یہ شعر لکھا گیا ہے ،ایک ممکنہ شکل دیکھیے:

دشمنوں کی کہاں مجال تھی یہ
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں

دوسرے مصرع کی یہ شکل خوب ہے:
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں ۔

خیر اندیش و طالب دعا
یاسر
شکریہ یاسر شاہ بھائی ۔ آپ کی ، آپ سب کی رہنمائی کو مد نظر رکھ کر کوشش کرتی ہوں۔ جزاک اللہ خیر
 

صابرہ امین

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

السلام علیکم،
دیر سے ٰآنے کی معذرت کہ کچھ اسائینمنٹس پر کام کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
آپ سب کی رہینمائی کا بہت شکریہ ۔ کچھ متبادلات پیشِ خدمت ہیں۔


آسمانوں میں جتنے تارے ہیں
اتنے ہی زخمِ دل ہمارے ہیں
یا
ہم نے اتنے ہی غم سہارے ہیں
یا
دل نے اتنے ہی غم سہارے ہیں
----------------------------------------
اس نے لگتا ہے ہم کو چھوڑ دیا
لب و لہجے میں وہ اشارے ہیں
یا
اس کی باتوں میں وہ اشارے ہیں
--------------------------------------

ہے یقین بے وفا ہیں وہ،لیکن
یا
ہے یقین بے وفا ہیں وہ،پھر بھی
ہم سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہیں

-------------------------------------
میری چاروں طرف ہیں دوست ہی دوست
اب تو حصے میں بس خسارے ہیں
--------------------------------
پاس جتنے ہیں دور ہیں اُتنے
ہم کہ دریا کہ دو کنارے ہیں
-------------------------------------
اپنا دشمن ہوا ہے ایک جہاں
کہ ہم اس آگہی کے مارے ہیں
------------------------------------
دشمنوں کی کہاں مجال تھی یہ

یا
ہومبارک ہمہیں شکست اپنی
اب کے ہم منصفوں سے ہارے ہیں

----------------------------------

تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
و علیکم السلام و رحمتہ اللّٰہ و برکاتہ
پاس جتنے ہیں دور ہیں اُتنے
ہم کہ دریا کہ دو کنارے
بہت خوووب

تیرگی سے نہیں گلہ ہم کو
ہم تو اک روشنی کے مارے ہیں
وااااہ
 
Top