سب ڈھکوسلہ ہے نقیبی صاحب۔ آپ کن زمانوں کی بات کرتے ہیں، مختلف اقوام کی آپس میں اتنی شادیاں ہو چکی ہیں کہ سب مل جل چکے ہیں۔ لیکن ابھی بھی کچھ ایسے خاندان یا برادریاں موجود ہیں جو چچا خالہ پھوپھی ماموں سے باہر شادی نہیں کرتے، نتیجہ: خاندانوں میں معذور افراد کی بہتات۔ میں خود گواہ ہوں ان باتوں کا۔
جزاک اللہ خیرا اجر کثیرا ،
درست فرمایا قبلہ ۔
یعنی للکار و جھنکار صرف نام نہاد قوم پرستی کی آڑ میں اپنے نام کا سکہ چمکانا اور سیاسی اثر رسوخ بڑھنا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
58441121-2184898784927999-1152056326394740736-n.jpg
یہ اعوانوں کو رو رہے ہیں ادھر تمام تر وائے ہیپلوگروپ کے لوگ سیدزادے ہونے کے دعوے کرتے ہیں
 
میں تو چپ ہی تھا چوہدری صاحب، یہ اپنے نقیبی صاحب ایسے موقعوں پر "طالب علمانہ" کی آڑ لے کر آ دھمکتے ہیں۔:)
محترم ہم تو سارا دن آپ کے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کیا کرتے ہیں اور یہ نشان ہمیں علم و حکمت سے لبریز گفتگو تک پہنچا دیتے ہیں ۔
 

عباس اعوان

محفلین
ویسے ذات برادری کا معاملہ اب دیہی اور مضافاتی علاقوں تک محدود ہوکر رہے گیا ہے ۔ شہروں کی رواں زندگیوں میں اب ان جھمیلوں میں پڑنے کا تصور ہی لرزہ دیتا ہے ۔
پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں ہی رہتی ہے۔
 
اب یہ درست نہیں رہا
تین فیصد کے لگ بھگ فرق پڑا ہے۔
لیکن مُدعا یہ ہے کہ کیا شہروں میں رہنے والے ’تمام‘ افراد ذات برادری، حسب نسب وغیرہ کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے !۔۔۔ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ 36 فیصد شہری آبادی میں اب بھی ایک بہت بڑی تعداد کافی معاملات (خون کے عطیے کی وصولی کو چھوڑ کر ) میں سب سے پہلے اسی پر نظر رکھتے ہیں۔ :)
 

زیک

مسافر
تین فیصد کے لگ بھگ فرق پڑا ہے۔
لیکن مُدعا یہ ہے کہ کیا شہروں میں رہنے والے ’تمام‘ افراد ذات برادری، حسب نسب وغیرہ کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے !۔۔۔ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ 36 فیصد شہری آبادی میں اب بھی ایک بہت بڑی تعداد کافی معاملات (خون کے عطیے کی وصولی کو چھوڑ کر ) میں سب سے پہلے اسی پر نظر رکھتے ہیں۔ :)
ذات برادری کا چکر شہروں میں دیہی علاقوں کی نسبت کم لیکن موجود ہے۔

میرا فوکس پاکستان کی دیہی آبادی کے تناسب کی طرف تھا۔ پچھلی مردم شماری میں یہ 63 فیصد تھی۔ لیکن ہر سال اس میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پھر اس بات پر بھی کافی بحث آبادی کے شماریات دانوں میں جاری ہے کہ پاکستان حکومت کی شہری آبادی کی سرکاری تعریف میں کیا مسائل ہیں۔ اکثر کے مطابق سرکاری تعریف کم آبادی کو شہری تسلیم کرتی ہے
 
میرا فوکس پاکستان کی دیہی آبادی کے تناسب کی طرف تھا۔ پچھلی مردم شماری میں یہ 63 فیصد تھی۔ لیکن ہر سال اس میں کمی واقع ہو رہی ہے

یہ کمی صرف اس لیے ہے کہ دیہاتی آبادی شہروں کا رُخ کررہی ہے ، اس التزام کے ساتھ کہ ان کا دیہاتی انداز ان کے ساتھ شہروں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دوسرے معاشروں کی حد تک یہ بات درست ہوگی کہ وہاں دیہات کی Urbanization ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں شہروں کی
Ruralization
سے ہمارے شہر دیہات میں تبدیل ہوئے جاتے ہیں۔ لہٰذا شہری آبادی کے بڑھنے کے باوجود نتیجہ وہی صفر!
 
ذات برادری کا چکر شہروں میں دیہی علاقوں کی نسبت کم لیکن موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام میں ذات برادری (اونچ نیچ) کا فرق نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں میں یہ فرق بعینہ ہندوؤں کی ہی طرح ہے۔

انسانی تنوع وطبقاتی تقسیم کے باوجود اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو ایک اور برابر گردانا ہے اورآدمی آدمی کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا؛ بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کو برابر عزت وشرف سے نوازا ہے۔ اسلامی نقطئہ نظر سے محض رنگ ونسل اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر کسی انسان کو اعلی اور گھٹیا سمجھنا گوارہ نہیں کیا جاسکتا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ (سورہ الاسراء ۷۰) نیز اسلام کی نظر میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اِنَّمَا الْمُومِنُوْنَ اِخْوَةٌ (سورہ حجرات ۱۰) لہٰذا یہ اخوت باہمی اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی کو ذات برادری کی بنیاد پر حقیر سمجھ کر اور نسب ونسل اور زبان پر تفاخر کر کے صحن اخوت میں اونچ نیچ کی دیوار حائل نہ کی جائے۔

لیکن زندگی کے ہر شعبوں میں کیا آج کا مسلمان اخوت باہمی کے اس زریں اور اسلامی اصول پر کار بند رہتا ہے یا اس کے قدم ڈگمگاتے اور پاؤ ں پھسل جاتے ہیں؛ تو مشاہدہ یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے ہوا کرتے ہیں جہاں دھڑلے سے اس اصول کی پامالی ہوتی ہے۔ ان میں ایک موقع شادی بیاہ کا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں اچھے اچھے لوگ بھی ”انما المومنون اخوہ“ کے پیغام کو بھلا دیتے ہیں اور صرف اپنے ہی نسب ونسل اور برادری کو فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
 
Top