سید عمران

محفلین
کوئی مادیت پرستی نہیں۔ یہ ’بچوں‘ کو راغب کرنے کی ایک کوشش ہے اور نہایت مناسب ہے۔ :)
بچے ہی کیا بڑوں کو بھی دنیاوی لالچ دے کر نیکی کے کسی کام پر مائل کیا جائے تو بری بات نہیں بلکہ نہایت احسن اقدام ہے۔۔۔
ہم جانتے ہی نہیں کہ واسطہ کس مالک سے پڑا ہے۔۔۔
نجانے لالچ سے شروع کی گئی نماز میں انسان خدا کے قدموں پر کون سا سجدہ ایسا کردے جو اس کی دنیا و آخرت بنادے۔۔۔
نیکیوں کی طرف مائل کرنے کی یہ ترغیب خود اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں دے رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو مولفۃ القلوب کہا گیا کہ دنیاوی تحفے تحائف دے کر ان کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرو۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کے اس فرمان کی روشنی میں لوگوں کو بے تحاشہ نوازا۔۔۔
سیرت طیبہ میں سب واقعات محفوظ ہیں!!!
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
بچے ہی کیا بڑوں کو بھی دنیاوی لالچ دے کر نیکی کے کسی کام پر مائل کیا جائے تو بری بات نہیں بلکہ نہایت احسن اقدام ہے۔۔۔
بھیا آپ کی یہ بات مجھے بہت عجیب لگی -میں اپنی ناقص رائے پیش کر دیتا ہوں تاکہ آپ میری اصلاح کر دیں یا اپنی بات کو اور واضح کر دیں -دو چیزیں ہیں ایک تالیف قلب اور ایک لالچ دے کر کسی کو کار خیر پہ مائل کرنا -تالیف قلب نیک کام سے پہلے ہوتی ہے اور لالچ سے کار خیر پہ ابھارنے کا عمومی مطلب یہ ہے کہ کار خیر کو کسی دنیوی انعام سے مشروط کر دینا کہ فلاں کام کرو گے تو فلاں چیز دوں گا-میری ناقص رائے میں، کہ عالم تو میں ہوں نہیں، بالغ آدمی کی تالیف قلب تو کر سکتے ہیں لیکن دنیوی صلے کا لالچ دے کر اسے نیک کام کروانا ناجائز ہے -نابالغ بچوں کے ا عمال کا چونکہ خاص اعتبار نہیں اس لیے ان کی نماز کی عادت پختہ کرنے کے لیے سائیکل مہم چلائی جا رہی ہے -

اب آپ فرمائیے کہ اگر کسی بالغ کو آپ یہ لالچ دیتے ہیں کہ میاں چالیس دن تم نماز پڑھو تو تمھیں موٹر سائیکل انعام دوں گا-کیا یہ لالچ درست ہے -بالفرض اس لالچ کے تحت اگر وہ آدمی چالیس دن نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز کی کیا شرعی حیثیت ہے ؟اور ایسی لالچ دینے والے کو ثواب ملے گا یا گناہ ؟

آخر میں ایک درخواست ہے کہ جسے آپ غلط سمجھتے ہوں ضروری نہیں کہ اس کی ہر بات غلط بھی ہو اور جسے آپ صحیح سمجھتے ہوں ضروری نہیں کہ اس کی ہر بات صحیح بھی ہو لہٰذا بغیر عقل و علم کی کسوٹی پہ پرکھے کسی خاص آدمی کی ہر بات رد نہ کی جائے اور کسی خاص آدمی کی ہر بات قبول بھی نہ کی جائے -:)
 

جاسمن

لائبریرین
بچے ہی کیا بڑوں کو بھی دنیاوی لالچ دے کر نیکی کے کسی کام پر مائل کیا جائے تو بری بات نہیں بلکہ نہایت احسن اقدام ہے۔۔۔
ہم جانتے ہی نہیں کہ واسطہ کس مالک سے پڑا ہے۔۔۔
نجانے لالچ سے شروع کی گئی نماز میں انسان خدا کے قدموں پر کون سا سجدہ ایسا کردے جو اس کی دنیا و آخرت بنادے۔۔۔
نیکیوں کی طرف مائل کرنے کی یہ ترغیب خود اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں دے رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو مولفۃ القلوب کہا گیا کہ دنیاوی تحفے تحائف دے کر ان کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرو۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کے اس فرمان کی روشنی میں لوگوں کو بے تحاشہ نوازا۔۔۔
سیرت طیبہ میں سب واقعات محفوظ ہیں!!!

بھتیجوں کو قاری صاحب سے پڑھنے پہ میری طرف سے دس دس روپے ملتے ہیں اور انہیں اللہ کے پیسے کہتے ہیں وہ۔
ہم نے پڑھ لیا ہے اب ہمیں اللہ کے پیسے دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی مادیت پرستی نہیں۔ یہ ’بچوں‘ کو راغب کرنے کی ایک کوشش ہے اور نہایت مناسب ہے۔ :)
بچے ہی کیا بڑوں کو بھی دنیاوی لالچ دے کر نیکی کے کسی کام پر مائل کیا جائے تو بری بات نہیں بلکہ نہایت احسن اقدام ہے۔۔۔
تمام عبادات کا تعلق خالصتا روحانیات سے ہے۔ نماز و دعا محض دکھاوے کی ”رسم“نہیں ہے جس کی طرف عوام کو دنیاوی و مادی چیزوں کا لالچ دے کر ’راغب‘ کیا جا سکے۔
جب تک انسان عبادات کو ان کے روحانی مقاصد کے ساتھ سمجھ کر ادا نہیں کرتا۔ اس قسم کی ریاکاری پر مبنی نمازوں کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
 

فلسفی

محفلین
اس کی نماز کی کیا شرعی حیثیت ہے ؟
شاہ جی ظاہر کے اعتبار سے آپ کا اعتراض درست ہے۔ لیکن جس نے قبول کرنی ہے وہ ضابطوں کا پابند نہیں۔ کیونکہ۔۔۔
ایسی لالچ دینے والے کو ثواب ملے گا یا گناہ ؟
۔۔۔ اس کا انحصار لالچ دینے والے کی نیت پر بھی ہے۔ انسانی نفسیات کے مطابق اگر لالچ دیا جائے اور ساتھ دعا کی جائے کہ اے اللہ! تو نے مجھے اتنی استطاعت دی تھی کہ میں اپنے تئیں، اس کو لالچ دے کر تیرے در تک لے آؤں، لیکن مالک! تو بااختیار ہے کہ اس کو اپنے در سے بغیر لالچ کے وابستہ کرلے۔ غالبا اسی قسم کا ایک قصہ بھی مشہور ہے جس میں ایک بزرگ رندوں کو شراب کا لالچ دے کر وضو اور نماز کے انداز پر آمادہ کرتے ہیں اور سجدے میں جا کر اللہ سے گڑگڑاتے ہیں کہ یہاں تک لانا میرے اختیار میں تھا، لیکن ان کے دل بدلنا تیرے اختیار میں ہے، جس پر اللہ پاک ان رندوں کے دل بدل دیتا ہے (حوالہ یاد نہیں اس لیے صرف لب لباب بیان کیا ہے)۔

پھر بھی ضابطے کی بات وہی ہے جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔ لیکن مجھ ناقص کے خیال میں، ضرورت اور اخلاص کے ساتھ اگر کسی کی اصلاح کی خاطر ظاہری لالچ کا طریقہ کار بھی استعمال کیا جائے تو برا نہیں۔
 
ایک مولوی صاحب نے ایک دیہاتی کو نمازی بنانے کیلئے اسےلالچ دیاکہ اگر آپ 40 روز تک پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرو تو میں تمہیں ایک بھینس دونگا، دیہاتی بھائی ہر نماز میں سب سے پہلے پہنچ جاتا۔ چالیس روز کے بعد مولوی صاحب کے پاس جا کر دیہاتی نےکہا کہ مولوی صاحب! میں نے توجیسا آپ نے فرمایا کردیا اب آپ اپنا وعدہ پورا کریں اور ایک عدد بھینس عنایت فرما دیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے میاں میں تو تمہیں نمازی بنانےکیلئے ایسا کہا تھا تم تو جانتے ہو میں خود غریب آدمی ہوں بھینس کہاں سے دونگا۔ دیہاتی بھائی بہت مایوس ہوئےکہامولوی صاحب آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔چلو جو ہوا سو ہوا، خیر میں نے بھی سب نمازیں بغیر وضوکے ہی پڑھی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک مولوی صاحب نے ایک دیہاتی کو نمازی بنانے کیلئے اسےلالچ دیاکہ اگر آپ 40 روز تک پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرو تو میں تمہیں ایک بھینس دونگا، دیہاتی بھائی ہر نماز میں سب سے پہلے پہنچ جاتا۔ چالیس روز کے بعد مولوی صاحب کے پاس جا کر دیہاتی نےکہا کہ مولوی صاحب! میں نے توجیسا آپ نے فرمایا کردیا اب آپ اپنا وعدہ پورا کریں اور ایک عدد بھینس عنایت فرما دیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے میاں میں تو تمہیں نمازی بنانےکیلئے ایسا کہا تھا تم تو جانتے ہو میں خود غریب آدمی ہوں بھینس کہاں سے دونگا۔ دیہاتی بھائی بہت مایوس ہوئےکہامولوی صاحب آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔چلو جو ہوا سو ہوا، خیر میں نے بھی سب نمازیں بغیر وضوکے ہی پڑھی ہیں۔
ایک غریب کسان کو مولوی صاحب نے نماز پڑھنے کی تاکید کی۔ پہلے دن نماز پڑھی تو بھینس مر گئی۔ اگلے دن نماز پڑھی تو گائے فوت ہو گئی۔ تیسرے روز کٹا بہت شور کر رہا تو وہ جھنجھلا کر بولا: ابے چپ کر جا ، دو نفلاں دی مار اے!
 

یاسر شاہ

محفلین
شاہ جی ظاہر کے اعتبار سے آپ کا اعتراض درست ہے۔ لیکن جس نے قبول کرنی ہے وہ ضابطوں کا پابند نہیں
مجھے آپ کی رائے جان کر افسوس ہوا -پہلے عمران صاحب کی رائے جان لوں پھر شاید کچھ کہہ سکوں -
یہ فرما دیجیے پھر آپ سارے ضابطے ان بیچارے لبرلزکو کیوں پڑھا رہے ہوتے ہیں ؟ -کیا یہی جہنّمی ہیں اور ہم جنّتی ؟
 

فلسفی

محفلین
تمام عبادات کا تعلق خالصتا روحانیات سے ہے۔ نماز و دعا محض دکھاوے کی ”رسم“نہیں ہے
متفق
جب تک انسان عبادات کو ان کے روحانی مقاصد کے ساتھ سمجھ کر ادا نہیں کرتا۔ اس قسم کی ریاکاری پر مبنی نمازوں کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
غیر متفق، کسی بڑے کا سہارا نہ ہو تو انسان دلائل کے ظاہری شکنجے میں بہت بری طرح پھنس جاتا ہے۔ خود کو بھی برباد کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔

میں نے اپنے موجودہ شیخ سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ حضرت نماز میں دل نہیں لگتا۔ بظاہر اٹھک بیٹھک ہی معلوم ہوتی ہے۔ شیخ نے فرمایا نماز دل لگانے کے لیے نہیں بلکہ حکم خدا کو پورا کرنے کے لیے ہیں۔ دل نہ لگے تب بھی آپ کو پڑھنی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہی سوال کسی نے (غالبا اگر صحیح طرح یاد ہے) مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے تمام عمر نماز میں لذت نہ ملے لیکن وہ اپنے نفس پر جبر کر کے حکم خدا کے آگے سر جھکاتا رہے۔ کیونکہ جس کو لذت مل رہی ہے اس کے پیش نظر حکم خدا کے علاوہ ایک اور عنصر شامل ہے جسے "لذت" کہتے ہیں جبکہ دوسرے شخص کے نزدیک حکم خدا کی اہمیت زیادہ ہے۔

شیخ کے ان الفاظ کا جو اثر دل پر ہوا اس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ بڑوں کی راہنمائی کا یہ فائدہ ہوتا ہے، ورنہ مجھ جیسا نکما بھی یہ سوچتا کہ جب دل ہی نہیں لگتا تو ظاہری اٹھک بیٹھک کا کیا فائدہ۔
 

فلسفی

محفلین
مجھے آپ کی رائے جان کر افسوس ہوا -پہلے عمران صاحب کی رائے جان لوں پھر شاید کچھ کہہ سکوں -
شاہ جی آپ کی مرضی۔ میں اپنے تئیں وضاحت کرچکا ہوں۔
یہ فرما دیجیے پھر آپ سارے ضابطے ان بیچارے لبرلزکو کیوں پڑھا رہے ہوتے ہیں ؟ -کیا یہی جہنّمی ہیں اور ہم جنّتی ؟
یہ آپ کی اپنی اختراع ہے۔ میرے الفاظ میں ایسا کچھ نہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
غیر متفق، کسی بڑے کا سہارا نہ ہو تو انسان دلائل کے ظاہری شکنجے میں بہت بری طرح پھنس جاتا ہے۔ خود کو بھی برباد کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔
آپ اپنے بڑوں کے سامنے ہی یہ اپنی رائے پیش کر دیجیے،دیکھیے کیا کہتے ہیں اور یہ بھی فرما دیجیے گا کہ یہ رائے میں نے اس سوال پہ پیش کی ہے کہ کیا کسی بالغ کو موٹرسائیکل کا لالچ دے کر چالیس دن نماز پڑھائی جا سکتی ہے -

شاہ جی ظاہر کے اعتبار سے آپ کا اعتراض درست ہے۔ لیکن جس نے قبول کرنی ہے وہ ضابطوں کا پابند نہیں۔ کیونکہ۔۔۔

۔۔۔ اس کا انحصار لالچ دینے والے کی نیت پر بھی ہے۔ انسانی نفسیات کے مطابق اگر لالچ دیا جائے اور ساتھ دعا کی جائے کہ اے اللہ! تو نے مجھے اتنی استطاعت دی تھی کہ میں اپنے تئیں، اس کو لالچ دے کر تیرے در تک لے آؤں، لیکن مالک! تو بااختیار ہے کہ اس کو اپنے در سے بغیر لالچ کے وابستہ کرلے۔ غالبا اسی قسم کا ایک قصہ بھی مشہور ہے جس میں ایک بزرگ رندوں کو شراب کا لالچ دے کر وضو اور نماز کے انداز پر آمادہ کرتے ہیں اور سجدے میں جا کر اللہ سے گڑگڑاتے ہیں کہ یہاں تک لانا میرے اختیار میں تھا، لیکن ان کے دل بدلنا تیرے اختیار میں ہے، جس پر اللہ پاک ان رندوں کے دل بدل دیتا ہے (حوالہ یاد نہیں اس لیے صرف لب لباب بیان کیا ہے)۔

پھر بھی ضابطے کی بات وہی ہے جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔ لیکن مجھ ناقص کے خیال میں، ضرورت اور اخلاص کے ساتھ اگر کسی کی اصلاح کی خاطر ظاہری لالچ کا طریقہ کار بھی استعمال کیا جائے تو برا نہیں۔
 

فلسفی

محفلین
آپ اپنے بڑوں کے سامنے ہی یہ اپنی رائے پیش کر دیجیے،دیکھیے کیا کہتے ہیں اور یہ بھی فرما دیجیے گا کہ یہ رائے میں نے اس سوال پہ پیش کی ہے کہ کیا کسی بالغ کو موٹرسائیکل کا لالچ دے کر چالیس دن نماز پڑھائی جا سکتی ہے -
ضرور شاہ جی ضرور پیش کروں گا۔ ممکن ہے میری اصلاح کا پہلو نکل آئے۔ فی الحال آپ ختمے "۔" والی تحریر کو ملا کر دوبارہ پڑھیے۔ ختمے اسی لیے لگائے تھے کہ غلط مطلب اخذ نہ کیا جائے۔
 

فلسفی

محفلین
چلیں درست کر لیا -آپ بھی اقتباس ہٹا لیں ویسے بھی یہاں ناشائستگی سے پرہیز کرنے کا سوچا ہے -
رہنے دیتے شاہ جی، میں نے تو جملے کا بھرپور لطف لیا ہے (سنجیدگی سے ہٹ کر)۔ ویسے میں اقتباس سے ہٹاؤں تو میرا جملہ بالکل ناکارہ ہوجائے گا (دوسروں کو بھی لطف لینے دیجیے) :p
 

یاسر شاہ

محفلین
یہی تو مسٔلہ ہے- یار دوست ڈھنگ سے توبہ بھی نہیں کرنے دیتے -ورنہ میری تازہ غزل کا مطلع ہے :

دل وہ دلِ نازک ہے ،دل آزاری نہ کیجو
حرکت تو کجا ،بات بھی بازاری نہ کیجو
 

فلسفی

محفلین
یہی تو مسٔلہ ہے- یار دوست ڈھنگ سے توبہ بھی نہیں کرنے دیتے -ورنہ میری تازہ غزل کا مطلع ہے :

دل وہ دلِ نازک ہے ،دل آزاری نہ کیجو
حرکت تو کجا ،بات بھی بازاری نہ کیجو
واہ شاہ جی بہت خوب، مکمل غزل شئیر کریں تو ٹیگ ضرور کیجیے گا۔

ویسے توبہ کرنے دیں تو دوست کاہے کے ہوئے، وہ کمبخت تو ناصح ہوئے ناصح۔ شکر کریں آپ کو ایسے دوست ملے:p، غالب کا تو یہی غم تھا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
 

جاسمن

لائبریرین
کوئی مادیت پرستی نہیں۔ یہ ’بچوں‘ کو راغب کرنے کی ایک کوشش ہے اور نہایت مناسب ہے۔ :)
رمضان شریف میں مجھے یہ بہتر لگتا ہے کہ افطاری سادہ ہو۔ زیادہ وقت عبادت کو دیا جائے۔ اوٹ پٹانگ چیزوں سے پیٹ بھرنے کی بجائے سادہ اور غذائیت والی غذا لی جائے۔ لیکن بچوں کو روزے کی طرف راغب کرنے کے لیے افطاری پہ اہتمام کرتی ہوں۔
 
Top