کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں

نور وجدان

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ضمیر کے چھبے نشتر کہ ایک حمد کہوں
غمِ حیات نےچھوڑا کہیں کا جو نہ مجھے
ہوا جذب مجھے میسر کہ ایک حمد کہوں
لکھا جو پہلا میں نے حرفِ دل دمِ مستی
بپا جی میں ہوا محشر کہ ایک حمد کہوں
بدن کی قید میں مانند موم دل سلگا
ترے حضور میں جو حرف حرف دل کا جلا ۔
وصالِ شوق میں دل بے قرار بھی تھا بہت
تڑپ سے بڑھتا رہا ،اضطرار بھی تھا بہت
نمازِ عشق سے پہلے جو دیتا تھا آذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں
عملِ سیاہ کا میرا جو نامہ بر آیا
جھکا ہے سر بھی ندامت سے کہ حال ہے کیا
کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب تو نہیں
ہوں بے وفا جو خطاوارِ شرک بھی تو نہیں ۔
اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے
ملے اگر مجھے نشتر تو زخم بھی ہے کہاں
مرے وجود کا آسی جو ہے ربِ دو جہاں
کہا یہ ر ب نے کہ شہ رگ سے بھی قریں ہوں میں
یہ راز جان گئے خوش نصیب تر وہ ہیں
مٹائی آئینہِ دل سے گرد گر تم نے
تمھارا پھر ہو مقدر جمالِ یار کی مے
مری خودی میں چھپا جلوہ تیرا ہی تو ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے
ہے رنگ میرا تو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو قزح سی شبیہ کی ہو دمک​
 

نور وجدان

لائبریرین
بہترین کاوش !
چند اشعار نے تو دل موہ لِیا !!!!
مجھے یہ بتائیے کہ یہ نظم کی کون سی قسم ہے؟
شکریہ جناب. اس کو آزاد نظم کے زمرے میں رکھا ہے. جس میں قوافی و ردیف کی پابندی لازم نہیں ہے. جہاں ردائف یا قوافی ملے تو وہ بس اتفاق ہے
 

الف عین

لائبریرین
کاپی پیسٹ تو میں بھی کر را ہوں!!

کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ضمیر کے چھبے نشتر کہ ایک حمد کہوں
چبھے یا چھپے؟ شاید ’چبھے‘ ہو گا، اس صورت میں درست ہے۔

غمِ حیات نےچھوڑا کہیں کا جو نہ مجھے
ہوا جذب مجھے میسر کہ ایک حمد کہوں
÷÷÷دوسرا مصرع بحر سے خارج، پہلا روانی کا طالب۔
یوں کہو
غم حیات نے چھوڑا ہے ایک پل کے لئے
ہوا ہے وقت میسر کہ ایک ۔۔

لکھا جو پہلا میں نے حرفِ دل دمِ مستی
بپا جی میں ہوا محشر کہ ایک حمد کہوں
÷÷تمہارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اکثر بے موقع حروف گرا دیتی ہو۔ اس شعر میں ’میں نے‘ محض ’منے‘، اور ’جی میں‘ محض ’جمیں‘ باندھا گیا ہے جو غلط ہے
ایک حمد کہوں کا محل بھی نہیں یہاں، غزلیہ نعت یا حمد ہوتی تو چل بھی جاتا یہاں ردیف کی ضرورت؟

بدن کی قید میں مانند موم دل سلگا
ترے حضور میں جو حرف حرف دل کا جلا ۔
÷÷موم پگھلتا ہے، سلگتا نہیں۔

وصالِ شوق میں دل بے قرار بھی تھا بہت
تڑپ سے بڑھتا رہا ،اضطرار بھی تھا بہت
÷÷÷بھی تھا بہت‘ کی جگہ ’تھا کتنا‘ لاؤ تو بہتر ہو۔
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا

نمازِ عشق سے پہلے جو دیتا تھا آذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں
آزاں اذاں کی جمع ہے، یہاں اس کا محل نہیں۔ ’جو دے رہا تھا اذاں‘ کر دو

عملِ سیاہ کا میرا جو نامہ بر آیا
جھکا ہے سر بھی ندامت سے کہ حال ہے کیا
محض عمل سیاہ، اضافت کے بغر تقطیع ہوتا ہے، دوسرا بھی بحر سے خارج ہے دوسرا کہو۔

کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب تو نہیں
ہوں بے وفا جو خطاوارِ شرک بھی تو نہیں ۔
÷÷قافیہ؟

اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے
÷÷درست

ملے اگر مجھے نشتر تو زخم بھی ہے کہاں
مرے وجود کا آسی جو ہے ربِ دو جہاں
واضح نہیں۔

کہا یہ ر ب نے کہ شہ رگ سے بھی قریں ہوں میں۔
یہ راز جان گئے خوش نصیب تر وہ ہیں
÷÷درست

مٹائی آئینہِ دل سے گرد گر تم نے
تمھارا پھر ہو مقدر جمالِ یار کی مے۔
قافیہ غلط ہے، مَے کے ساتھ نے نہیں، نَے آنا چاہئے۔

مری خودی میں چھپا جلوہ تیرا ہی تو ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے
قافیہ؟

ہے رنگ میرا تو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو قزح سی شبیہ کی ہو دمک
دوسرا مصرع واضح نہیں۔
 
بہت خوبصورت۔ اصلاح کا کام تو اساتذہ ہی کریں گے۔
اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے
بے شک۔ اے اللہ تیری صفتِ غفاری ہی امید دیتی ہے۔
کہا یہ ر ب نے کہ شہ رگ سے بھی قریں ہوں میں
یہ راز جان گئے خوش نصیب تر وہ ہیں
بے شک۔
بہت عمدہ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اچھی کاوش ہے . . .

حاصل کلام شعر . . . مرے حساب سے ....

مٹائی آئینہِ دل سے گرد گر تم نے
تمھارا پھر ہو مقدر جمالِ یار کی مے
 

ابن رضا

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ضمیر کے چھبے نشتر کہ ایک حمد کہوں


پہلا مصرع تو لاجواب ہے البتہ دوسرے مصرع کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے

ایک تجویز شاید آپ کو پسند آئے

کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں
 

نور وجدان

لائبریرین
واہ۔
یہ تیرا اضطراب شوق رشک جنون قیس ہے۔
ایسا ہوجائے تو کمال انتہا ہوجائے ۔ حسن ظن کا شکریہ بے حد

واہ بہترین
میں اسے کاپی پیسٹ کرنے لگا ہوں آپکو کوئی اعتراض تو نئیں
جی کرلیجئے ۔۔ نام کے ساتھ

بہت خوبصورت۔ اصلاح کا کام تو اساتذہ ہی کریں گے۔

بے شک۔ اے اللہ تیری صفتِ غفاری ہی امید دیتی ہے۔

بے شک۔
بہت عمدہ۔
بہت شکریہ تابش بھائی حوصلہ افزائی پہ ۔۔۔۔۔ وہی کہ
ستار و ٍغفار تو ہی ہے
مالک و مختار تو ہی
تری ثنا سب کرتے ہیں ملائک
ایک تو ہی ہے عبادت کے لائق
راج ترا ہے دونوں جہاں پر ۔۔۔۔

اچھی کاوش ہے . . .

حاصل کلام شعر . . . مرے حساب سے ....

مٹائی آئینہِ دل سے گرد گر تم نے
تمھارا پھر ہو مقدر جمالِ یار کی مے

بہت شکریہ پسند آواری پر ۔۔۔

ماشاءاللہ بہت عمدہ حمد کہی آپ نے بہت سی داد قبول کیجیے

رضا بھائی حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں ۔۔ بہت شکریہ
پہلا مصرع تو لاجواب ہے البتہ دوسرے مصرع کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے

ایک تجویز شاید آپ کو پسند آئے

کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں

آپ کی صلاح قبول کی ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھیے ۔۔ اگلی پوسٹ میں
 

نور وجدان

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں

غمِ حیات نے چھوڑا ہے ایک پل کے لئے
ہوا ہے وقت میسر کہ ایک حمد کہوں

جو لکھ دیا دمِ مستی میں پہلا حرفِ دل
تو پھر بپا ہوا محشر لگی یوں ضربِ دل

بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
ترے حضور میں جو حرف حرف دل کا جلا ۔

وصالِ شوق میں دل بے قرار تھا کتنا
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا

نمازِ عشق سے پہلے جو دے رہا تھا اذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں

مرے سبھی سیہ اعمال کا ملا نامہ
جھکا ہے شرم سے سر اب کہ میرا کیا ہو گا

کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب ہی نہیں
کہ بے وفا ہوں خطاوارِ شرک میں بھی نہیں

اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے

ملے اگر مجھے نشتر تو فکر بھی ہے کہاں
مرے وجود کا شافی جو ہے ربِ دو جہاں

مٹائی آئینہِ دل سے گرد جو تم نَے
تمھارا کیا ہو مقدر جمالِ یار کی مَے

مری خودی میں چھپا جلوہ بھی تو تیرا ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے

ہے رنگ میرا جو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو کہ خورشید سی ہو مجھ میں دمک

 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں

غمِ حیات نے چھوڑا ہے ایک پل کے لئے
ہوا ہے وقت میسر کہ ایک حمد کہوں

جو لکھ دیا دمِ مستی میں پہلا حرفِ دل
تو پھر بپا ہوا محشر لگی یوں ضربِ دل

بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
ترے حضور میں جو حرف حرف دل کا جلا ۔

وصالِ شوق میں دل بے قرار تھا کتنا
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا

نمازِ عشق سے پہلے جو دے رہا تھا اذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں

عمل سیاہ کا میرا جو نامہ بر آیا
جھکا ہے شرم سے سر اب کہ میرا ہو گا کیا

کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب ہی نہیں
کہ بے وفا ہوں خطاوارِ شرک میں بھی نہیں

اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے

ملے اگر مجھے نشتر تو فکر بھی ہے کہاں
مرے وجود کا شافی جو ہے ربِ دو جہاں

مٹائی آئینہِ دل سے گرد جو تم نَے
تمھارا کیا ہو مقدر جمالِ یار کی مَے

مری خودی میں چھپا جلوہ بھی تو تیرا ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے

ہے رنگ میرا جو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو کہ خورشید سی ہو مجھ میں دمک

اب ایک اور چیز بتانا بھی ضروری ہے کہ موجودہ فارمیٹ مثنوی کا ہے سوائے دوسرے شعر کے۔ جبکہ تیسرے شعر میں بھی صوتی قوافی ہیں جو عموما" قبول کر لیے جاتے ہیں
 
حمد اور نعت لکھنا کوئی بچوں کا شغل نہیں۔ جب تک نظم اور غزل کے روائیتی موضوعات ، زبان و بیاں ، بحور اور اوزان پر دسترس نہ ہو، حمد اور نعت لکھنے سے اجتناب ہی اچھا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اب ایک اور چیز بتانا بھی ضروری ہے کہ موجودہ فارمیٹ مثنوی کا ہے سوائے دوسرے شعر کے۔ جبکہ تیسرے شعر میں بھی صوتی قوافی ہیں جو عموما" قبول کر لیے جاتے ہیں
رضا بھائی ۔۔مثنوی کا مجھے علم تھا چونکہ میں نے تمہید حمد کی باندھی تھی اس لیے سوچا کہ اس کو آزاد نظم ہی رہنے دوں ۔۔۔۔ پھر اوپر قوافی کی بات ہوئی تو اس کو بدل دیا ۔ ۔۔ آپ کی معلومات بہت گراں قدر اور حوصلہ افزا ہوتی ہیں ۔۔ اب کیا دوسرا شعر نکال دوں یا تبدیلی ضروری ہے ؟ پہلے تین اشعار غزل کے فارمیٹ پر تھے اور باقی نظم کے ۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
حمد اور نعت لکھنا کوئی بچوں کا شغل نہیں۔ جب تک نظم اور غزل کے روائیتی موضوعات ، زبان و بیاں ، بحور اور اوزان پر دسترس نہ ہو، حمد اور نعت لکھنے سے اجتناب ہی اچھا ہے۔
اب ایسے بھی حالات نہیں کوئی لکھنے کی کوشش نہیں کرے تو سیکھے گا کیسے بہتری کیسے لائے گا۔ اس لیے اپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ کہ اوپر موجود کلام اتنا گیا گزرا نہیں جو ایسا مشورہ وہ بھی مفت عنایت کیا جاسکے۔
 
کشف بہت بھاری بھر کم لفظ چن لیا صاحبہ۔ کشف تو مجذوبوں، قطبوں، ابدالوں ، ولیوں اور اللہ کی برگزیدہ ہستیوں کو ہوتا ہے۔
عمل سیاہ کا میرا جو نامہ بر آیا ۔ ایسے مجہول مصرعوں کو شاعری نہیں کہتے۔ اور وہ بھی حمد جیسی صنفِ سخن ۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
حمد اور نعت لکھنا کوئی بچوں کا شغل نہیں۔ جب تک نظم اور غزل کے روائیتی موضوعات ، زبان و بیاں ، بحور اور اوزان پر دسترس نہ ہو، حمد اور نعت لکھنے سے اجتناب ہی اچھا ہے۔
آپ کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتی یہ میرے اور اللہ کا معاملہ ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کشف بہت بھاری بھر کم لفظ چن لیا صاحبہ۔ کشف تو مجذوبوں، قطبوں، ابدالوں ، ولیوں اور اللہ کی برگزیدہ ہستیوں کو ہوتا ہے۔
عمل سیاہ کا میرا جو نامہ بر آیا ۔ ایسے مجہول مصرعوں کو شاعری نہیں کہتے۔ اور وہ بھی حمد جیسی صنفِ سخن ۔​
اللہ زبان مبارک کرے آپ کی کہ اس بات میں بلا تردد کوئی شک نہیں آج تک جتنا لکھا ہے وہ کشف ہی ہوا ہے میں اس لیے یہ یقین رکھتی ہوں کہ میرے ہر شعر کا خیال عمدہ ہوتا ہے سوائے زبان کی کم علمی کے ۔
 
حمد اور نعت لکھنا کوئی بچوں کا شغل نہیں۔ جب تک نظم اور غزل کے روائیتی موضوعات ، زبان و بیاں ، بحور اور اوزان پر دسترس نہ ہو، حمد اور نعت لکھنے سے اجتناب ہی اچھا ہے۔
میری رائے میں اگر حمد میں کوئی ایسی بات ہو اللہ تعالٰی کے رتبہ کو کم کر رہی ہو یا نعت میں کوئی ایسی بات ہو جو نبی ﷺ کے رتبے کے شایانِ شان نہ ہو، تو پھر اعتراض بنتا ہے. جب کہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہے.

حمد و نعت میں احتیاط صرف اس بات کی ہے کہ کہیں انجانے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے.
 
Top