مصطفیٰ زیدی کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا

اِک رشتہ ءِ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا
 

خوشی

محفلین
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا


واہ بہت خوب کلام ھے بہت عمدہ فاروقی جی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب علی صاحب۔ مصطفیٰ زیدی کی میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک۔ بہت شکریہ جناب! خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ :)
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے فاروقی صاحب ، بہت خوب

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

کیا جواب ہے واہ
 

محمداحمد

لائبریرین
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا
کیا خوبصورت غزل ہے۔ واہ
 
Top