کیا کِیا پُھول سے لمحوں کو گنوانے کے سِوا - قیصرالجعفری

کاشفی

محفلین
کیا کِیا پُھول سے لمحوں کو گنوانے کے سِوا
(قیصرالجعفری)

کیا کِیا پُھول سے لمحوں کو گَنوانے کے سِوا
پَتیاں نوچ کے پانی میں بہانے کے سِوا

رات، پل بھر کے لئے گھر میں ہَوا آئی تھی
کام ہی کیا تھا اُسے شمع بجھانے کے سِوا

زندگی! تُو مرے چہرے پہ ہنسے یا روئے
میں کہاں جاؤں ترے آئینہ خانے کے سِوا

کُوچہء یار! تری قدر شناسی تسلیم!
کرسکے کچھ نہ ہمِیں خاک اُڑانے کے سِوا

سب کے چہرے پہ رہیں پُشت کی جانب آنکھیں
کوئی رستہ نہ رہا ٹھوکریں کھانے کے سِوا

ہم نے اِنسان کی تاریخ پڑھی ہے قیصر
دل نہ پایا کہیں پتھر کے زمانے کے سِوا
 

فاتح

لائبریرین
رات، پل بھر کے لئے گھر میں ہَوا آئی تھی
کام ہی کیا تھا اُسے شمع بجھانے کے سِوا​
واہ! کاشفی صاحب، خوبصورت غزل شریکِ محفل کرنے پر شکریہ!
 
Top