امجد اسلام امجد کہو مجھ سے محبت ہے - امجد اسلام امجد

پاکستانی

محفلین
محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھاہے !
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ‘ لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ‘ حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے !
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری ‘ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ‘ ہوا ئوں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں ‘ وفا کے استعار ے ہیں ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہر ا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے ‘ زمانہ ساتھ چلتا ہے ‘‘
کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمیوں میں
کہ جو اہل محبت کی سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پاراکہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے ‘
گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا !
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے ‘
محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے ‘ وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تمہیں مجھ سے محبت ہے
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
’’یہ سچ ہے نا !
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی !
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے !!‘‘
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے !


امجد اسلام امجد
 

جیا راؤ

محفلین
"کہو مجھ سے محبت ہے !" امجد اسلام امجد

محبت کی طبیعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو
ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے !

محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بارہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے !

محبت کی طبیعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے

"کہو مجھ سے محبت ہے !"
"کہو مجھ سے محبت ہے !"
"تمہیں مجھ سے محبت ہے !"

کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سر زمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارہ،
کہ جیسے شام کا تارہ !

محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کی شاخچوں پر آشیاں بنتا ہے الفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے

محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے، وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے

" یہ سچ ہے ناں !
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
یہ دھندلکا سا جو نگاہوں سے قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے !

تمہیں مجھ سے محبت تھی !
تمہیں مجھ سے محبت ہے !"

محبت کی طبیعیت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے !


امجد اسلام امجد
 

زونی

محفلین
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کی شاخچوں پر آشیاں بنتا ہے الفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے

محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے، وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے


خوبصورت نظم ھے !


بہت شکریہ جیا شئیر کرنے کیلئے۔
 

جیا راؤ

محفلین
جی واقعی یہ نظم جب پڑھی جائے پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔
آپ تمام خواتین و حضرات کی پسندیدگی کا بے حد شکریہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے​
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے​
محبت مانگتی ہے یُوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے
اور شب میں اُٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے؟؟؟​
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خَو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری
ستاروں سے سوا روشن
ہواؤں کی طرح دائم
پہاڑوں کی طرح قائم​
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُمنام کے شاخوں میں آشیانہ بناتی ہے اُلفت کا
یہ عین وصال میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے​
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہ گزر کی آخری سرحد پہ رُکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
کہ یہ سچ ہے نا
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے​
شاعر “امجد اسلام امجد”​
 

مہ جبین

محفلین
محبت کی طبیعت میں​
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے​
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے​
اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے​
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو​
ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو​
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے​
محبت مانگتی ہے یُوں گواہی اپنے ہونے کی​
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے​
اور شب میں اُٹھے​
زمیں کو کھود کر دیکھے​
کہ پودا اب کہاں تک ہے؟؟؟​
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خَو ہے​
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی​
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو​
اسے بس ایک ہی دھن ہے​
کہو مجھ سے محبت ہے​
کہو مجھ سے محبت ہے​
تمھیں مجھ سے محبت ہے​
سمندر سے کہیں گہری​
ستاروں سے سوا روشن​
ہواؤں کی طرح دائم​
پہاڑوں کی طرح قائم​
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں​
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے​
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تارا​
کہ جیسے شام کا تارا​
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے​
گُمنام کے شاخوں میں آشیانہ بناتی ہے اُلفت کا​
یہ عین وصال میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے​
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں​
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنے​
سمے کی راہ گزر کی آخری سرحد پہ رُکتے ہیں​
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر​
دھیرے سے کہتا ہے​
کہ یہ سچ ہے نا​
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی​
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے​
اسی کا نام چاہت ہے​
تمھیں مجھ سے محبت ہے​
تمھیں مجھ سے محبت ہے​
شاعر “امجد اسلام امجد”​
لاجواب اور بے مثال نظم ہے
کیا خوبصورت نظم کہی ہے امجد اسلام امجد نے ، بہت زبردست، میری پسندیدہ نظم ہے
 

نایاب

لائبریرین
یہ میری ڈائری کب سے چرا لی بٹیا
عجب تاثر عجب گہرائی
کوئی بھی لفظ بے معنی نہیں لگتا ۔
اک نظم مسلسل ہے جو کہ قاری کو سحرزدہ کیئے جاتی ہے ۔
منظر تشکیل کیئے جاتی ہے ۔
 
Top