کھانے پینے کے آداب فراموش کیوں ہو گئے؟

زیک

مسافر
اب تو یہ عالم ہے کہ کچھ بدتمیز بچے ڈبل روٹی کا بیچ کا حصہ کھا جاتے ہیں اور کنارے چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کا حل ذہین حضرات نے یہ نکالا ہے کہ وہ دکان پر ہی خریدتے وقت ڈبل روٹی کے کنارے کٹوا دیتے ہیں۔ یوں کنارے چھوڑنے والا کام گھر والے کرنے سے بچ جاتے ہیں۔
پاکستان میں ریستوران وغیرہ میں سینڈوچ اکثر کنارے کاٹ کر ہی بنے دیکھے تھے۔
 

زیک

مسافر
شادیوں میں کچھ لوگ صرف بوٹیاں ہی کھاتے ہیں اور روٹی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ کچھ لوگ میٹھے میں سے میوے نکال کر کھا جاتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔
پاکستان میں جو بھی شادیاں اٹنڈ کیں سب میں ہمیشہ ایسا یا اس سے بھی برا حال ہی دیکھا
 

زیک

مسافر
بہت پہلے اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو دیکھا تھا۔۔۔
ایک بات یاد رہ گئی۔۔۔
کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے گھر میں سادگی رکھی ہے۔۔۔
کھانے پر جو بھی آجائے کھانا ہے۔۔۔
سوال ہی نہیں کوئی یہ کہہ سکے کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں!!!
یہاں “کوئی” سے مراد اندرا گاندھی کے علاوہ لی جائے۔ بچپن میں اکثر پاکستانی گھروں میں دیکھا کہ کسی رعب دار بڑے کی مرضی کے کھانے ہی پکتے ہیں ورنہ خاتون خانہ کی شامت۔

اب ان ایک صاحب کی بجائے ہر بڑا بچہ اپنی مرضی کا کھانا چاہتا ہے۔ بس یہی فرق ہے
 
محمداحمد نے ایک بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے
یہ دراصل ایک احساس ہے، ایک کیفیت ہے جو ہر اس ذی نفس پر طاری ہو سکتی ہے جو اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس سے کسی صورت ناتا نہیں توڑنا چاہتا، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ بھائی جس کا ایسا شاندار ماضی ہو، جس کی تہذیب ایسی ہو کہ بزرگ بچوں کو کھانے کے آداب میں یہ تک بتلائیں کہ اگر کسی گھر موت کا کھانا کھانا تو بیٹے، بس دو چار نوالے سے زیادہ مت لینا، اور دستر خوان بڑھنے تک بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔۔۔۔۔ یہاں ایک طویل اقتباس فیروز دہلوی صاحب کا، جو کہ ضروری ہے، ملاحظہ کیجئے،
"کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ''بیٹا چھوٹا نوالہ بنائو، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن/ شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھائو، آخر تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا''۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ''لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو''۔ "دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مْردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا)۔ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھائو۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں" ۔
جی، تو عرض یہ تھی کہ جہاں دستر خوان چننے سے بڑھنے تک بچوں کو ایک ایک بات، ادب آداب سمجھے جائیں، جہاں کی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہو کہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہو، وہاں اگر نئی تانتی برگر کھائے اور کولا مشروبات پئے اور نہ اپنا ماضی جانے نہ ہی جاننا چاہے تو بس اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صاحب قرآن و بے ذوق طلب،
العجب، ثم العجب، ثم العجب !!! !!!
 
اچھا موضوع ہے۔
بچپن سے ہی دسترخوان کے آداب سختی و نرمی دونوں طریقوں سے سکھائے گئے۔
1۔ بسم اللہ پڑھنے پر زور۔
2۔ پلیٹ بھرنے سے منع کیا گیا، تھوڑا نکالو، بعد میں اور نکال لو۔
3۔ نوالے چھوٹے رکھو۔
4۔ اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔
5۔ ایک طرف سے کھاؤ۔
6۔ کھانے کے دوران باتوں سے پرہیز۔
7۔ پلیٹ صاف کرو۔ ہم بہن بھائیوں میں پلیٹ چمکانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ :)
8۔ جو بھی پکا ہے، وہ کھاؤ۔ اگر کوئی چیز بالکل پسند نہ ہو تو خاموشی سے فریج میں رکھی کوئی اور چیز گرم کر کے کھا لو، کھانے کو برا نہ کہو۔ اور بالفرض کوئی چیز ہم میں سے زیادہ افراد نہیں کھاتے تھے تو دو ڈشز تیار ہوتی تھیں۔ مثلاً کریلے بنتے تھے تو ساتھ کوئی اور سبزی بھی۔ :)
9۔ پانی ہمیشہ گلاس میں نکال کر پیو۔ بوتل کو منہ لگا کر نہ پیو۔
10۔ پہلے بڑوں کو کھانا لینے دو۔ کوئی مہمان بیٹھا ہے تو پہلے اسے کھانا لینے دو۔
11۔ کھانے کے بعد کی دعا پڑھ کر اٹھو۔
12۔ جو بھی اٹھے، کچھ نہ کچھ برتن اٹھا کر کچن میں لے جا کر رکھے۔
13۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں اچھی طرح ہاتھ دھونا اور کلی کرنا۔
اور نہ صرف بچوں کو بتانا، بلکہ اپنے عمل سے بھی بچوں کو یہی آداب سکھانا۔
ہمارے گھر اب بھی یہی ریت جاری ہے۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محمداحمد نے ایک بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے
یہ دراصل ایک احساس ہے، ایک کیفیت ہے جو ہر اس ذی نفس پر طاری ہو سکتی ہے جو اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے اور اس سے کسی صورت ناتا نہیں توڑنا چاہتا، بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ بھائی جس کا ایسا شاندار ماضی ہو، جس کی تہذیب ایسی ہو کہ بزرگ بچوں کو کھانے کے آداب میں یہ تک بتلائیں کہ اگر کسی گھر موت کا کھانا کھانا تو بیٹے، بس دو چار نوالے سے زیادہ مت لینا، اور دستر خوان بڑھنے تک بچوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔۔۔۔۔ یہاں ایک طویل اقتباس فیروز دہلوی صاحب کا، جو کہ ضروری ہے، ملاحظہ کیجئے،
"کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا ''بیٹا چھوٹا نوالہ بنائو، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن/ شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھائو، آخر تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا''۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ''لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو''۔ "دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مْردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا)۔ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھائو۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آجائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں" ۔
جی، تو عرض یہ تھی کہ جہاں دستر خوان چننے سے بڑھنے تک بچوں کو ایک ایک بات، ادب آداب سمجھے جائیں، جہاں کی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہو کہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہو، وہاں اگر نئی تانتی برگر کھائے اور کولا مشروبات پئے اور نہ اپنا ماضی جانے نہ ہی جاننا چاہے تو بس اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صاحب قرآن و بے ذوق طلب،
العجب، ثم العجب، ثم العجب !!! !!!
اچھا موضوع ہے۔
بچپن سے ہی دسترخوان کے آداب سختی و نرمی دونوں طریقوں سے سکھائے گئے۔
1۔ بسم اللہ پڑھنے پر زور۔
2۔ پلیٹ بھرنے سے منع کیا گیا، تھوڑا نکالو، بعد میں اور نکال لو۔
3۔ نوالے چھوٹے رکھو۔
4۔ اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔
5۔ ایک طرف سے کھاؤ۔
6۔ کھانے کے دوران باتوں سے پرہیز۔
7۔ پلیٹ صاف کرو۔ ہم بہن بھائیوں میں پلیٹ چمکانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ :)
8۔ جو بھی پکا ہے، وہ کھاؤ۔ اگر کوئی چیز بالکل پسند نہ ہو تو خاموشی سے فریج میں رکھی کوئی اور چیز گرم کر کے کھا لو، کھانے کو برا نہ کہو۔ اور بالفرض کوئی چیز ہم میں سے زیادہ افراد نہیں کھاتے تھے تو دو ڈشز تیار ہوتی تھیں۔ مثلاً کریلے بنتے تھے تو ساتھ کوئی اور سبزی بھی۔ :)
9۔ پانی ہمیشہ گلاس میں نکال کر پیو۔ بوتل کو منہ لگا کر نہ پیو۔
10۔ پہلے بڑوں کو کھانا لینے دو۔ کوئی مہمان بیٹھا ہے تو پہلے اسے کھانا لینے دو۔
11۔ کھانے کے بعد کی دعا پڑھ کر اٹھو۔
12۔ جو بھی اٹھے، کچھ نہ کچھ برتن اٹھا کر کچن میں لے جا کر رکھے۔
13۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں اچھی طرح ہاتھ دھونا اور کلی کرنا۔
اور نہ صرف بچوں کو بتانا، بلکہ اپنے عمل سے بھی بچوں کو یہی آداب سکھانا۔
ہمارے گھر اب بھی یہی ریت جاری ہے۔ :)
بہت عمدہ۔ یہ آداب آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے ہر دور میں رہے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
10۔ پہلے بڑوں کو کھانا لینے دو۔ کوئی مہمان بیٹھا ہے تو پہلے اسے کھانا لینے دو۔
مہمان کی موجودگی سے قطع نظر۔ عمومی طور پر اگر کھانے کی بات کریں۔ تو یہ بات میں سنی ( کمی بیشی معاف۔۔۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔) ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ بچوں کو سب سے پہلے کھانے کی چیز دیتے۔ تو اس تناظر میں اگر میں دیکھوں تو مجھے بڑوں کا پہلے کھانا کچھ عجب نظر آتا ہے۔
 
مہمان کی موجودگی سے قطع نظر۔ عمومی طور پر اگر کھانے کی بات کریں۔ تو یہ بات میں سنی ( کمی بیشی معاف۔۔۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔) ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ بچوں کو سب سے پہلے کھانے کی چیز دیتے۔ تو اس تناظر میں اگر میں دیکھوں تو مجھے بڑوں کا پہلے کھانا کچھ عجب نظر آتا ہے۔
عن حذيفة، قال: كنا إذا حضرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم طعاما لم نضع أيدينا حتى يبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فيضع يده (صحيح مسلم حدیث نمبر: 2017)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم حضور اقدس ﷺ کے ساتھ کسی کھانے میں شریک ہوتے تو ہمارا معمول یہ تھا کہ جب تک حضور اقدس ﷺ کھانا شروع نہ فرماتے، اس وقت تک ہم لوگ کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے تھے بلکہ اس کاانتظار کرتے تھے کہ جب حضور اقدس ﷺ کھانے کی طرف ہاتھ بڑھائیں اس وقت ہم کھانا شروع کریں ۔
اس حدیث سے فقہاء کرام نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جب کوئی چھوٹا کسی بڑے کے ساتھ کھانا کھارہا ہوتو ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ چھوٹا خود پہلے شروع نہ کرے بلکہ بڑے کے شروع کرنے کا انتظار کرے۔
دیکھیے: (اسلام اور تربیت اولاد: ج1، ص433، اسلام اور ہماری زندگی: ج7، ص23)

اور جو روایت آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ عموم کے ساتھ منقول نہیں بلکہ خاص موقع کے متعلق ہے۔ نص یوں ہے:
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أتي بأول الثمرة قال: اللهم بارك لنا في مدينتنا، وفي ثمارنا، وفي مدنا، وفي صاعنا، بركة مع بركة، ثم يناوله أصغر من بحضرته من الولدان (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3329)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب موسم کا پہلا پھل آتا تو آپ ﷺ فرماتے اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَفِي ثِمَارِنَا وَفِي مُدِّنَا وَفِي صَاعِنَا بَرَکَةً مَعَ بَرَکَةٍ اے اللہ! برکت عطا فرما ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد اور صاع (پیمانوں) میں برکت در برکت پھر جو بچے حاضر ہوتے ان میں سب سے کم سن کو وہ پھل عطا فرماتے۔

دونوں روایتوں پر بیک وقت یوں عمل ہوسکتا ہے کہ عام معمول میں بڑوں کو مقدم رکھا جائے اور موسم کے پہلے پھل میں بچوں کو۔
 
Top