کھانے پینے کے آداب فراموش کیوں ہو گئے؟

محمداحمد

لائبریرین
اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ہم نے الگ لڑی بنا لی ہے۔

نری تعلیم حاصل کرنے سے پیسہ تو کمایا جاسکتا ہے انسانیت نہیں۔۔۔
انسانیت کے حصول کا واحد ذریعہ صرف اور صرف تربیت ہے۔۔۔
دیکھیئے پہلے زمانہ کے لوگ صرف کھانا کھانے سے متعلق اپنے بچوں کی تربیت کس قدر خوش اسلوبی سے کیا کرتے تھے:

دلی میں متوسط طبقے کے مرد و خواتین دسترخوان پر اپنے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے کوئی غلط حرکت یا معیوب بات دیکھتے تو روکتے ٹوکتے۔ دلی ہو یا دلی سے باہر کسی بھی شہر یا قصبے میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے رہتے ہیں، مگر دلی والوں کا اس کا زیادہ احساس تھا، خاص طور پر طبقہ اشرافیہ زیادہ ہی چوکنا رہتا کہ دوسرے لوگ نام دھریں، تمیز و تہذیب پر حرف آئے کہ بچوں کو کیسا اٹھایا ہے؟ اس لیے وہ ہر پل نظر رکھتے

اور

مشترکہ خاندان میں سبھی مل جل کر رہتے، اپنے بچوں کے ساتھ بھائی بہنوں کے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر پوری پوری توجہ دیتے تھے۔ کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ ہمارے بچے کو کیوں ٹوکا، کیسے ڈانٹا۔ اگر کوئی بڑا تنبیہ کرتا یا سمجھاتا تو گھر کا دوسرا شخص خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا۔ درمیان میں کسی بات میں دخل نہ دیتا اور بعد میں سمجھاتے کہ تم غلط حرکت کرتے نہ وہ تمھیں ٹوکتے، آئندہ خیال رکھنا، ایسا نہ ہو کہ پھر کسی بات پر سخت سست کہیں اور چھوٹے بھی سنی اَن سنی نہ کرتے۔ خواتین گھروں میں بچوں، بالخصوص لڑکیوں پر نظر رکھتیں، مرد گلی کوچے میں آنے جانے والے لڑکوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ بری صحبت میں پڑ کر پیٹ سے پاؤں نکالے۔صبح سے رات تک ایک ہی وقت ایسا ہوتا، جب گھر کے سب بڑے چھوٹے دسترخوان پر یکجا ہوتے۔ دسترخوان چننے سے ‘‘بڑھانے ’’ تک گھر کے بڑے چھوٹوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے۔ جن گھروں میں ملازمہ یا خادمہ نہیں ہوتی، وہاں گھر کی بڑی لڑکی دسترخوان بچھاتی، دوسری لڑکیاں کھانے کے مطابق طشتریاں، غوریاں، پیالے، پیالیاں، طباق، چھوٹے بڑے چمچے لاکر سلیقہ سے دسترخوان سجانے اور کھانا چُننے میں مدد کرتیں۔ کھانے کی قابیں آنے سے پیشتر سفل دان اور مغزکش بھی چمچوں کے ساتھ رکھ دیے جاتے۔ آج کی تانتی ان سے واقف ہی نہیں۔ سفل دان ڈھکنے والا گول پیالے، کٹورے نما ایک برتن جس کے سرپوش پر برجی بنی ہوئی ہوتی، اس کا پیندہ سپاٹ ہوتا، عام طور پر تام چینی یا المونیم کے بنے ہوئے ہوتے۔ نوالے میں کوئی ہڈی کا ٹکڑا، گوشت کا ریشہ دانتوں میں پھنس جائے یا کالی مرچ وغیرہ جو چبائی نہ جائے تو اس کے رکھنے کے لیے استعمال میں آتا۔مغزکش سے نلی کا گودا نکالا جاتا تھا۔ یہ نالی دار چمچہ تھا، ایک ٹوتھ برش کی مانند سیدھا، آدھا حصہ پتلا اور آدھا چوڑا۔ اسے گودے کی نلی میں داخل کرکے آہستہ سے باہر کھینچتے تو نالی دار حصہ میں گودا یا مغز آجاتا۔ نلی کو جھاڑنے توڑنے یا ٹھونکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ اسٹیل یا چاندی کے بنائے جاتے تھے۔ اب نہ سفل دان ہیں اور نہ مغزکش، کوئی ان سے واقف بھی نہیں۔ دسترخوان کے لوازمات کے ساتھ ایک بڑی سینی میں پانی کا جگ، کٹورے، گلاس دسترخوان کے بائیں جانب آخری سرے پر رکھ دیے جاتے۔ جن گھروں میں بڑے بڑے دالان ہوتے، وہاں چوکیوں پر دسترخوان بچھا کر کھانے کا رواج تھا۔ پہلے گھر کا کوئی بزرگ (مرد) دسترخوان کے سامنے درمیان میں آکر بیٹھتا، ان کی دائیں جانب خواتین مراتب کے اعتبار سے بیٹھتیں اور اسی طرح مرد بائیں جانب۔ دسترخوان کے دوسری طرف گھر کے لڑکے لڑکیاں مؤدب انداز میں بیٹھتے۔ خواتین کے سامنے لڑکیاں، مردوں کے سامنے چھوٹے بڑے لڑکے ہوتے۔ گھر میں اگر مہمان آتے تو وہ بزرگ کے ساتھ بیٹھتے۔ مہمان زیادہ ہوں تو پہلے مہمانوں کی تواضع کی جاتی اور گھر کی خواتین بعد میں کھانا کھاتیں۔ گھر کی بڑی بہو یا لڑکی کشتی نما تانبے کی قلعی دار قابوں میں کھانے کی اشیا لاتیں۔ مردوں اور عورتوں کے سامنے علاحدہ علاحدہ قابیں پیش کی جاتیں۔ بعض گھروں میں تانبے کے برتنوں کے ساتھ چینی یا بلوری برتن بھی ہوتے اور کھانوں کی مناسبت سے اچار، چٹنی اور رائتے کی پیالیاں بھی۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے زانو پوش گھٹنوں پر ڈالتے۔ بچوں سے کہا جاتا کہ وہ بائیں جانب اپنا اپنا رومال رکھیں۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا۔ خواتین چنگیری سے روٹیاں نکال کر دیتیں۔ چنگیری، روٹی رکھنے کی ٹوکری تانبے کی قلعی دار، کھجوریا بید کی بنی ہوئی ہوتی اور اس میں بڑے رومال میں لپیٹ کر روٹیاں رکھتے۔ بڑے چھوثوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا : ‘‘ بیٹا چھوٹا نوالہ بناؤ، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاؤ، آخر کب تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا’’۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ’’لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو’’۔

بریانی، پلاؤ یا چاول عام طور پر چمچے کے بجائے ہاتھ سے کھاتے، انگلیاں چکنی ہو جاتیں۔ پانی پینے کی ضرورت پیش آتی تو بائیں ہاتھ سے گلاس یا کٹورا اٹھانے کی ہدایت دی جاتی اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا سہارا دے کر پانی پینے کے لیے کہتے، تاکہ دائیں ہاتھ میں لگی ہوئی چکنائی سے گلاس، کٹورہ خراب نہ ہو۔ جو بچہ نوالے سے زائد روٹی توڑتا اور پھر اس کے ٹکڑے کرتا، اسے بدتمیزی سمجھا جاتا۔ کھاتے کھاتے منھ میں ہڈی کا ٹکڑا، بوٹی کا ریشہ یا گرم مصالحے میں سے لونگ یا سیاہ مرچ آ جاتی تو بچوں سے کہتے، پہلے دایاں ہاتھ منھ کے سامنے لاؤ، پھر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور ساتھ کی انگلی سے اس شے کو نکالو، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی سے سفل دان کے سرپوش کی برجی پکڑ کر ڈھکنا اٹھاؤ اور آہستہ سے وہ شے ڈال کر سرپوش ڈھانک دو۔دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے مُردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لیے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا۔)ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آ جائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں۔


اور۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اب تو یہ عالم ہے کہ کچھ بدتمیز بچے ڈبل روٹی کا بیچ کا حصہ کھا جاتے ہیں اور کنارے چھوڑ دیتے ہیں۔

پزا کے اطراف کی موٹی ڈو (روٹی) نہیں کھاتے بلکہ بیچ بیچ کا کھا لیتےہیں۔

دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اچھی اچھی چیزیں نکال لیتے ہیں اور دال سبزی کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔

ڈش میں سے براہ راست بوٹی کو ہڈی سے جدا کرکے نکال لیتے ہیں اور ہڈی ڈش میں ہی پڑی رہتی ہے۔

شادیوں میں کچھ لوگ صرف بوٹیاں ہی کھاتے ہیں اور روٹی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ کچھ لوگ میٹھے میں سے میوے نکال کر کھا جاتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کے ادب و آداب تو کبھی نہیں چلیں گے۔ ادب و آداب ہونے چاہئیں لیکن ان کو جدید طور سے "لکھنے" کی ضرورت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
بہت پہلے اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو دیکھا تھا۔۔۔
ایک بات یاد رہ گئی۔۔۔
کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے گھر میں سادگی رکھی ہے۔۔۔
کھانے پر جو بھی آجائے کھانا ہے۔۔۔
سوال ہی نہیں کوئی یہ کہہ سکے کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
مثال کے طور پر ایک مقولہ تھا کہ "شرفا بازار میں کھڑے ہو کر (یا بیٹھ کر) نہیں کھاتے"، یہ دہلی و لکھنؤ مرحوم کی ایک دو صدیوں پرانی ثقافت کے لیے درست ہوگا لیکن آج اس پر عمل کریں تو کھانے پینے کے کاروبار سے منسلک آدھے افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت پہلے اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو دیکھا تھا۔۔۔
ایک بات یاد رہ گئی۔۔۔
کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے گھر میں سادگی رکھی ہے۔۔۔
کھانے پر جو بھی آجائے کھانا ہے۔۔۔
سوال ہی نہیں کوئی یہ کہہ سکے کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں!!!
اس فیملی کے کھانے کی ایک اور روایت مشہور تھی کہ کھانے کی میز پر بات ہمیشہ ہندی میں ہوتی تھی چاہے کچھ ہو جائے۔

لیکن آپ کی بات سے ایک واقعہ جو مجھے یاد آ گیا جو اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی اور بڑی بہو سونیا گاندھی، دونوں کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک بار سونیا گاندھی سنجے گاندھی کے لیے آملیٹ بنا کر لائی (کچن کا زیادہ کام سونیا کرتی تھی) تو سنجے کو وہ پسند نہیں آیا اور اس نے سارے خاندان (اندرا گاندھی، بڑے بھائی راجیو گاندھی، بڑی بھابھی سونیا گاندھی اور اپنی بیوی مانیکا گاندھی) کی موجودگی پلیٹ اٹھا کر فرش پر دے ماری۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرضی سخت ادب و آداب ہوں گھر میں ایک آدھ بندہ ایسا بھی ضرور ہوتا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس فیملی کے کھانے کی ایک اور روایت مشہور تھی کہ کھانے کی میز پر بات ہمیشہ ہندی میں ہوتی تھی چاہے کچھ ہو جائے۔

لیکن آپ کی بات سے ایک واقعہ جو مجھے یاد آ گیا جو اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی اور بڑی بہو سونیا گاندھی، دونوں کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک بار سونیا گاندھی سنجے گاندھی کے لیے آملیٹ بنا کر لائی (کچن کا زیادہ کام سونیا کرتی تھی) تو سنجے کو وہ پسند نہیں آیا اور اس نے سارے خاندان (اندرا گاندھی، بڑے بھائی راجیو گاندھی، بڑی بھابھی سونیا گاندھی اور اپنی بیوی مانیکا گاندھی) کی موجودگی پلیٹ اٹھا کر فرش پر دے ماری۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرضی سخت ادب و آداب ہوں گھر میں ایک آدھ بندہ ایسا بھی ضرور ہوتا ہے۔ :)

ہاہاہاہا۔۔۔!

ایک آدھ کی خیر ہے لیکن اب تو عمومی تربیت بھی اکثر گھرانوں میں مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ہم نے الگ لڑی بنا لی ہے۔
دوسرا پیراگراف تو کسی نواب کی حویلی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

گاوں وغیرہ میں تو بہت مختصر سے پیتل کے برتن ہوتے اور اکثر گھروں میں تو الگ پلیٹوں کا رواج ہی نہیں تھا۔ تمام گھر والے ایک تھال میں سے کھاتے تھے۔ کھانے کے آداب کا البتہ خیال رکھا جاتا تھا۔ میز پر کھانا، الگ پلیٹوں کا استعمال، چمچ سے کھانا وغیرہ تو حال ہی میں متعارف ہوئے ہیں اور اس کا تعلق urbanization سے بھی کسی حد تک ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
جب ایسی باتیں پڑھتا ہوں کہ فلاں چیز پاکستانی معاشرت سے مفقود ہو گئی ہے تو فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ ناسٹالجیا ہے یا پاکستانی معاشرے میں پچھلے بیس پچیس سال میں تبدیلی۔
 

سید ذیشان

محفلین
جب ایسی باتیں پڑھتا ہوں کہ فلاں چیز پاکستانی معاشرت سے مفقود ہو گئی ہے تو فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ ناسٹالجیا ہے یا پاکستانی معاشرے میں پچھلے بیس پچیس سال میں تبدیلی۔
تبدیلی۔

میرا بچپن ایک گاوں میں گزرا ہے اور یہ تبدیلیاں میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔
 
اب تو یہ عالم ہے کہ کچھ بدتمیز بچے ڈبل روٹی کا بیچ کا حصہ کھا جاتے ہیں اور کنارے چھوڑ دیتے ہیں۔
ایسا ہوتے ہم نے نہیں دیکھا ۔اس کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ڈبل روٹی کے کنارے سخت ہوتے ہوں ۔بچوں کے مسوڑے نرم ہوتے ہیں ۔انھیں چبھانے میں تکلیف ہوتی ہو ۔
پزا کے اطراف کی موٹی ڈو (روٹی) نہیں کھاتے بلکہ بیچ بیچ کا کھا لیتےہیں۔
اس کی بھی یہی وجہ نظر آتی ہے یا ہوسکتی ہے ۔
دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اچھی اچھی چیزیں نکال لیتے ہیں اور دال سبزی کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔
شاید اس میں کوئی حرج بھی نہیں ، جب پسندیدہ ڈش دسترخوان پر ہو تو انسان اس ہی کو ترجی دے گا ۔
ڈش میں سے براہ راست بوٹی کو ہڈی سے جدا کرکے نکال لیتے ہیں اور ہڈی ڈش میں ہی پڑی رہتی ہے۔
یہ طریقہ تو بہت غیر مناسب ہے ۔ایسا کرنے والےکو شائستہ انداز میں ٹوکا جاسکتا ہے ۔
شادیوں میں کچھ لوگ صرف بوٹیاں ہی کھاتے ہیں اور روٹی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ کچھ لوگ میٹھے میں سے میوے نکال کر کھا جاتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔
یہ تو سراسر بد اخلاقی اور بیہودگی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی قابل مذمت فعل دیکھنے میں آتے ہیں مگر وہ کہ تبلیغ تو سب کرتے ہیں پر عمل میں صفر ہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب تو یہ عالم ہے کہ کچھ بدتمیز بچے ڈبل روٹی کا بیچ کا حصہ کھا جاتے ہیں اور کنارے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس کا حل ذہین حضرات نے یہ نکالا ہے کہ وہ دکان پر ہی خریدتے وقت ڈبل روٹی کے کنارے کٹوا دیتے ہیں۔ یوں کنارے چھوڑنے والا کام گھر والے کرنے سے بچ جاتے ہیں۔

پزا کے اطراف کی موٹی ڈو (روٹی) نہیں کھاتے بلکہ بیچ بیچ کا کھا لیتےہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ نیویارکر سٹائل کے پزے ٹرائے کیے جائیں۔ امید ہے یہ مسئلہ بھی حل ہوجاوے گا۔ مین ہٹن بائٹ از بیسٹ ود تھن کریسٹ۔۔۔ اوسم ڈیوڈ۔۔۔ ;)

دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اچھی اچھی چیزیں نکال لیتے ہیں اور دال سبزی کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔
اس جملے میں جو آپ کا تعصب دال سبزی کے بارے میں چھپا ہے وہ قابل دید ہے۔ سدھر جاؤ مسلمانو۔۔۔۔ یعنی کہ دال سبزی کو اچھوں کو فہرست نکال باہر کیا۔۔۔ ظالمو۔۔۔ :grin::grin:

ڈش میں سے براہ راست بوٹی کو ہڈی سے جدا کرکے نکال لیتے ہیں اور ہڈی ڈش میں ہی پڑی رہتی ہے۔
یہ تو اس بات کی نشانی ہے کہ گوشت بہت اچھا پکا ہوا ہے اور بالکل نرم ہو چکا ہے۔ واہ واہ۔۔۔

شادیوں میں کچھ لوگ صرف بوٹیاں ہی کھاتے ہیں اور روٹی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ کچھ لوگ میٹھے میں سے میوے نکال کر کھا جاتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔
ہو سکتا ہے ڈاکٹر نے گندم منع کی ہو۔۔۔ آپ مانیں یا نہ بہرحال ایک دور تھا کہ آدم کو گندم منع تھی۔ :devil3:
میٹھے سے میوے نکال کر کھانا البتہ بری بات ہے۔ اوپر اوپر سے چوگا چاگی کی بات الگ ہے۔ :rollingonthefloor:
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاؤ۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے
اس پر ایک ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔ شادی کے شروع کے دن تھے، سسرال گیا تو ساس مرحومہ نے کہا کہ آج نجانے کتنے برس کے بعد کچن میں گئی ہوں اور خاص تمھارے لیے اپنے ہاتھوں سے فیرنی بنائی ہے۔ بڑے برادرِ نسبتی نے شکایت کی کہ امی سے کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے ہاتھ کی فیرنی کھلائیں لیکن آج تمھاری وجہ سے نصیب ہو رہی ہے۔ خیر، مہمان تھا، سب سے پہلے مجھے ہی پیش کی گئی، میں نے پہلا چمچ منہ میں رکھا اور پھر اس بات کے جواب میں کہ کیسی لگی تعریفیں کرتا رہا اور کھاتا رہا۔ دو چار منٹ کے بعد شور پڑ گیا کہ فیرنی میں چینی کی جگہ نمک ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے ساس مرحومہ آخری وقت تک اس بات کو یاد کر کے اپنے داماد کی "شرافت" کی داد دیتی تھیں۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ہم نے الگ لڑی بنا لی ہے۔
بہت اچھا کیا۔
اصل میں پہلے والدین کے پاس وقت بھی ہوتا تھا اور سوچ بھی۔
میں اگر اپنے بچپن اور اب کا موازنہ کروں تو
۔ والدین کے پاس وقت ہوتا تھا۔ صبح اور دوپہر کو اگرچہ تمام لوگوں کے کھانے کے اوقات بوجوہ مختلف ہوتے تھے لیکن ہر گھر میں یہی رواج دیکھا کہ جتنے لوگ موجود ہیں ، انھیں اکھٹے ہی کھانا کھانا ہے۔ رات کا کھانا سب کا اکھٹے کھانا ایک قسم کا لازمی ہوا کرتا تھا۔ اسی کھانے میں بچوں کی بہت سی عادتوں کی اصلاح ہو جایا کرتی تھی۔
۔اب والدین کے اپنے پاس وقت نہیں ہے۔ ایک ہی وقت میں گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی کسی کا موڈ نہیں تو کوئی کسی اور کام میں مصروف ہے تو دسترخوان پڑا رہتا ہے اور کھانا انتظار کرتا رہتا ہے۔ تربیت کا وقت ہی نہیں ہے۔
۔ کچھ گھروں میں ابھی بھی اور پہلے بھی کھانا کھانا ایک مکمل کام ہوتا ہے/تھا۔ اس وقت باقی سب کام چھوڑ دیے جاتے تھے۔
- اب ہم ٹی وی، موبائل فون و ٹیب دیکھتے کھانا کھاتے ہیں۔ بچوں کو بتانے یا ٹوکنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی بھی کام کے آداب میں کچھ نہ کچھ تبدیلی تو آتی ہے لیکن بنیادی چیز یعنی تمیز و تہذیب ہر دور میں اہم رہی ہے اور رہے گی۔ ہمیں چیزوں کو نئے سرے سے مرتب کرنے اور ان پر عمل کرنے و کروانے کی ضرورت ہے۔
 
Top