عبیداللہ علیم کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

شمشاد

لائبریرین
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا

میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
(عبید اللہ علیم)​
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا

بہت خوب شمشاد بھائی!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک۔ بہت شکریہ شمشاد بھائی
میں نے یہ غزل شاید فریدہ خانم کی آواز میں سنی بھی ہے۔
 

باباجی

محفلین
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا​
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا​
اک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی​
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا​
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں​
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا​
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں​
میں نے کن لوگوں کو نفرت دی اور کن لوگوں کو پیار دیا​
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی​
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا​
 

سید زبیر

محفلین
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
بہت شکریہ​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہ
خوب غزل ہے شمشاد بھائی اور بابا جی

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
 
Top