کچھ زباں سے بھی بولئے صاحب - رشی پال دِھمن رشی

کاشفی

محفلین
غزل
(رشی پال دِھمن رشی)

کچھ زباں سے بھی بولئے صاحب
یوں نہ نظروں سے تولئے صاحب

آپ شانہ پہ رولئے صاحب
ہم نے تکیے بھگو لئے صاحب

پیار ہی دے رہا نہ ہو دستک
دل کے دروازے کھولئے صاحب

من ہے ہلکا سا، درد کم سا ہے
جب سے جی بھر کے رو لئے صاحب

ناگ بن جائیں گے کسی دن بھی
خواہشوں کے سنپو لئے صاحب

شوق سے ہم کو بے وفا کہئے
اپنا دل بھی ٹٹولئے صاحب

دوار آنکھوں کے بند کر کے کبھی
دوار اُنس کے کھولئے صاحب

نام طوفاں کا ہے، سفینے تو
ہم نے خود ہی ڈبو لئے صاحب

چشم نم کی زمیں میں ہم نے
بیج خوابوں کے بو لئے صاحب
 

کاشفی

محفلین
الف عین صاحب!

شاہ حسین صاحب!

محمد وارث صاحب!

آپ تینوں اراکینِ محفل کا شکریہ ۔ خوش رہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کاشفی، اس شعر میں کچھ گڑبڑ ہے
دوار آنکھوں کے بند کر کے کبھی
دوار اُنس کے کھولئے صاحب
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ نقل کرنے میں تسامح؟
 

فاتح

لائبریرین
اچھا انتخاب ہے کاشفی صاحب۔
میں بھی یہی کہنے کے لیے مذکورہ شعر کاپی کر کے نیچے لایا تو اعجاز صاحب کا مراسلہ دیکھا۔
 
Top