طارق شاہ
محفلین

غزل
کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤکُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ
اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ
جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی
بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ
ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب
جو بتدریج اب اِس دِل سے اُترتے جاؤ
بے سبب بھی تو کبھی کوئی کہیں جاتا ہے
بن کے انجان گلی سے ہی گُزرتے جاؤ
پِھر سرِ راہ مُلاقات کا اِمکان رہے
ممکنہ، ذکرِ مقامات تو کرتے جاؤ
ہیں طِلسمات سے کامِل ہی سب ایّامِ شباب
ہر گھڑی جس کے توسُّط سے سنورتے جاؤ
روز افزوں یُوں مِلی اُن کو جوانی پہ خلشؔ
دِن بہ دِن تم بھی تو کُچھ اور نِکھرتے جاؤ
شفیق خلشؔ