کون ہے جو محفل میں آیا ( 36)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زین

لائبریرین
کہاں اس میں تو صرف "بارش کی بوندیں گرنے سے پہلے ہی بجلی غائب" لکھا ہے بارش کی بوندیں تو یہان بھی گر رہی ہیں :rolleyes:
 

شمشاد

لائبریرین
کیوں بھئی زین تو پھر تم بارش کا بِل بھرنے کو تیار ہو؟ اللہ میاں سے خاص الخاص ڈسکاؤنٹ کی درخواست کریں گے۔
 

زین

لائبریرین
مصروف ہوں مچھ جیل کی سٹوری بنارہا ہوں میرے پاس فی الحال تمہاری "فالتو" باتوں کا جواب دینے کے لئے ٹائم نہیں :cool::grin:
 

زین

لائبریرین
اللہ نا کرے میں جیل جائوں‌
ایک دوست جو ٹی وی رپورٹر ہے وہ موقع پر گیا تھا اس سے فون پر معلومات حاصل کیں اور یہ سٹوری بنائی


بلوچستان کی تاریخی جیل مچھ میں ممنوعہ اشیاء کے خلا ف جیل انتظامیہ کے سرچ آپریشن کے بعد قیدیوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی‘ آٹھ اہلکاروں کو یرغمال ابناکر جیل کے اندر قائم فیکٹریوں، جیلر آفس ،راشن سٹور، کینٹین ،لائبریری اور تین برج کو آگ لگادی‘ سات گھنٹے تک جیل قیدیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد مذاکرات کرکے صوتحال پر قابو پالیا گیا

جیل انتظامیہ کے مطابق جمعرات کو انتظامیہہ نے موبائل سیٹ اور دیگر ممنوعہ اشیاء کی قیدیوں کے پاس موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی جس کے دوران قیدیوں سے موبائل فون اور منشیات برآمد ہوئی ۔کارروائی کے خلاف قیدی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور تلاشی لینے والے آٹھ اہلکاروں کو یرغمال بنالیا قیدیوں نے بیرکوں سے نقل کر جیل کے اندر قائم فیکٹریوں،راشن سٹور، کینٹین ،لائبریری ،جیلر کے آفس اور تین برج کو آگ لگادی جس کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں چھا گیا بڑی تعداد میں قیدی بیرکوں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے سیکورٹی اہلکاروں نے صورتحال پر قابو پانے کے لئے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جس سے متعدد قیدی بے ہوش ہوگئے تاہم صورتحال انتظامیہ کے قابو سے باہر رہی جس کے بعد پولیس کی اضافہ نفری اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کو طلب کیا گیا ۔ دن ایک بجے سے شروع ہونےوالی ہنگامہ آرائی رات آٹھ بجے تک جاری رہی اور اس دوران جیل مکمل طور پر قیدیوں کے کنٹرول میں رہا جبکہ سیکورٹی اہلکار جیل کے باہر کھڑے ہوائی فائرنگ کرتے رہے ۔قیدی احتجاج ختم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے خلاف ناروا سلوک پرجب تک اعلیٰ حکومتی اہلکار خود یہاں پہنچ کر ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر لیتا احتجاج جاری رہے گااور کسی قسم کے کوئی مذکرات نہیں کئے جائیں گے۔


واقعہ کی اطلاع ملتے ہی صوبائی وزیر جیل خانہ جات سلطان محمد ترین ،انسپکٹر جنرل خانہ جات شجاع الدین کانسی اور ڈی آئی جی سبی رینج شارق جمال بھاری پولیس ، ایف سی اور بلوچستان کانسٹیبلری کی نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے ۔جس کے بعدقیدیوں نے اپنے چار ساتھیوں کو نمائندے کے طور پر مذاکرات کے لئے بھیجاجنہوں نے تحریری طور پر حکام کو اپنے مطالبات پیش کئے ۔ قیدیوں کا کہنا تھا کہ انہیں جیل میں علاج کی سہولیات نہیں دی جارہی ،قیدیوں کو ناقص خوراک مہیا کی جاتی ہے ،1200قیدیوں کے لئے صرف ایک کینٹین موجود ہیں جس میں بھی قیدیوں کو مہنگے داموں اشیاء فروخت کی جارہی ہیں انہوں نے مطالبہ پیش کیا کہ ملاقات کے لئے جگہ مناسب نہیں ہے وہاں رش کی وجہ سے قیدی اپنے رشتہ داروں سے بات نہیں کرسکتے او رجیل کے باہر ملاقاتیوں کے لئے قائم انتظار گاہ بھی جیل انتظامیہ کے زیر استعمال ہے ملاقاتی سخت دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں ان کا مطالبہ تھا کہ جیل کے اندر ٹیلیفون بوتھ قائم کیا جائے تاکہ قیدی اپنے رشتہ داروں سے بات کرسکے انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سزائیں پوری کرنے والے قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ایسے قیدی بھی ہیں جنہیں جرمانے ادا کئے جانے کے باوجود رہا نہیں کیا گیا ۔ حکام کی جانب سے یقین دہانی کے بعد یرغمال بنائے گئے جیل اہلکاروں کو رہا کیا گیا اور قیدی واپس اپنے بیرکوں میں چلے گئے

۔ یاد رہے کہ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ سے65کلو میٹر دور بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے پہاڑی دامن میں واقع تاریخی مچھ جیل 1929ء میں انگریزوں نے بنائی تھی ۔اس جیل میں مختلف ادوار میں معروف سیاسی رہنماء و کارکنان قید رہ چکے ہیں۔


تم کو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں‌آتا :rolleyes:
 

شمشاد

لائبریرین
کافی غلطیاں ہیں اس رپورٹ میں اور یہ کیا لکھا ہے " غیر ممنوعہ اشیاء"

جب اشیاء غیر ممنوعہ ہیں تو جیل کی انتظامیہ کو کیا تکلیف ہے؟
 

فہیم

لائبریرین

السلام علیکم

فہیم مجھے سب سے بات کرنا اچھا لگتا ہے ، بعض وقت ایسا ممکن ہو جاتا ہے کہ ہم کسی دھیان میں ہوں یا ذہن کسی بات یا مصروفیت میں الجھا ہوا ہو تو سب سے الگ الگ بات نہیں ہوپاتی ، جتنے وقت کے لیے ہم سب انٹرنیٹ پر آتے ہیں اس میں کام ہی اتنے سارے ہوتے ہیں کرنے کے لیے کہ ناراضگی کی گنجائش نہیں نکل سکتی جتنی دیر ناراضگی نبھانے کے لیے چاہیے اتنی دیر میں کئی دوسرے کام ہو جاتے ہیں اور کیے جا سکتے ہیں تو میں اس طرح سے سوچتی ہوں اور عمل کرنے کی بھی کوشش کرتی ہوں ، سو ناراضگی نہیں ہے البتہ آپ کی کارگذاریاں ضرور اس قابل ہیں اور مستحق ہیں اور آپ کو بھی مستحق بناتی ہیں کہ ان پر لکھنے کا حق ادا کیا جانا چاہیے :tongue: اب اس کے لیے دعا کریں کہ مجھے وقت نہ ملے تاکہ میں لکھ ہی نہ سکوں :happy:

وعلیکم السلام
جیتی رہیں خوش رہیں:)
ویسے جب بھی لکھنے کا ارادہ ہوا تو میری تعریفیں ہی لکھیں گی نہ:nailbiting::grin:

اور ایک اچھا کام تو میرا یہی دیکھ لیں کہ میری وجہ سے آپ نے اس دھاگے میں اتنا کچھ لکھا:happy:
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top