کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟؟

ابرار صاحب، اگر خبریں‌ دونوں‌طرف کی نہ ہوں‌تو صرف پراپیگنڈہ تصور کی جاتی ہیں۔ کسی مسجد میں بھی ‌اسلحے کی موجودگی یقیناَ‌نارمل نہیں‌ہے۔پھر گیس ماسک کی موجودگی بھی نارمل نہیں‌ہے۔ ان لوگوں کی خبریں‌کہان ہیں‌جو جدید اسلحے سے لیس تھے اور گیس ماسک والکی ٹالکی اور سٹیلائٹ فون سے لدے پھندے تھے؟‌ وہ کس راز اور کس تفصیل کی حفاظت کر رہے تھے کہ ان کو خوف تھا کہ کوئی اچانک نہ آن دبوچے، ان کی خبریں بھی ذرا تلاش کیجیئے۔ ورنہ یہ سوال اٹھے گا کہ خبریں متوازن نہیں ہیں اور ایک طرفہ ہیں۔

عام حالات میں اگر فوج یا پولیس کسی مسجد پر پہنچے تو لوگ فوراَ قانون اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ کیا تھا جس کی حفاظت کے لئے اسلحہ، گیس ماسک اور دن رات پہرہ داری کا نظام تھا؟ ہمارے ذہنوں میں‌پڑے ہوئے ان سوالات کو دور کرنے میں‌مدد کیجئے۔ اور ہمیں بتائیے کہ آپ ان خبروں کو یہاں اور کئی دوسرے فورمز میں‌کیوں پوسٹ کرتے ہیں؟ اس سے اپ کے اپنے کیا مقاصد ہیں؟ اور اس سے آُپ کو کیا ذاتی فائدہ پہنچتا ہے؟
 
ابرار صاحب، اگر خبریں‌ دونوں‌طرف کی نہ ہوں‌تو صرف پراپیگنڈہ تصور کی جاتی ہیں۔ کسی مسجد میں بھی ‌اسلحے کی موجودگی یقیناَ‌نارمل نہیں‌ہے۔پھر گیس ماسک کی موجودگی بھی نارمل نہیں‌ہے۔ ان لوگوں کی خبریں‌کہان ہیں‌جو جدید اسلحے سے لیس تھے اور گیس ماسک والکی ٹالکی اور سٹیلائٹ فون سے لدے پھندے تھے؟‌ وہ کس راز اور کس تفصیل کی حفاظت کر رہے تھے کہ ان کو خوف تھا کہ کوئی اچانک نہ آن دبوچے، ان کی خبریں بھی ذرا تلاش کیجیئے۔ ورنہ یہ سوال اٹھے گا کہ خبریں متوازن نہیں ہیں اور ایک طرفہ ہیں۔

عام حالات میں اگر فوج یا پولیس کسی مسجد پر پہنچے تو لوگ فوراَ قانون اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ کیا تھا جس کی حفاظت کے لئے اسلحہ، گیس ماسک اور دن رات پہرہ داری کا نظام تھا؟ ہمارے ذہنوں میں‌پڑے ہوئے ان سوالات کو دور کرنے میں‌مدد کیجئے۔ اور ہمیں بتائیے کہ آپ ان خبروں کو یہاں اور کئی دوسرے فورمز میں‌کیوں پوسٹ کرتے ہیں؟ اس سے اپ کے اپنے کیا مقاصد ہیں؟ اور اس سے آُپ کو کیا ذاتی فائدہ پہنچتا ہے؟


فاروق، یہاں بیان ایک ظلم کی داستان کا ہو رہا ہے جس پر کسی کو شک نہیں اور نہ کسی سے ڈھکی چھپی ہے یہ بربریت۔ مسجد کے ساتھ ایک دو مدرسے بھی موجود تھے اور حالات پچھلے چھ ماہ سے انتہائی کشیدہ تھے ، عام عمارتوں کی حفاظت کے لیے گارڈز تو موجود ہوتے ہیں کیا اتنی طالبات اور اتنے طلبہ کی حفاظت کے لیے کچھ اسلحہ انہونی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ گیس ماسک یقینا نارمل نہیں مگر چند گیس ماسک کا حصول اتنا غیر معمولی بھی نہیں۔ جدید اسلحے کی خبریں حکومتی ذرائع نے بہت چلائیں اور نجی ٹی وی بھی من و عن نشر کرتے رہے مگر وہ جدید اسلحہ استعمال کہاں ہوا ، جو حکومت نے دکھایا وہ تو اتنا چمکدار اور نیا تھا کہ یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ جہاں لاشیں تک جل گئییں وہاں یہ اسلحہ اتنا محفوظ کیسے اور نیا کیسے ہے اور یہ مرنے والوں نے بعد میں ثبوت دینے کے لیے چھوڑ کر جاناتھا۔ مسجد ایک کھلی جگہ تھی اور ہزاروں لوگوں کو وہاں آنا جانا تھا اور اسی سڑک پر آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر بھی ایسے میں کسی چیز کا چھپنا اور کسی راز کی پہرے داری ممکن ہو سکتی ہے ؟

جو الزام حکومت کی طرف سے لگائے جاتے رہے کہ نیچے بنکرز ہیں ، غیر ملکی ہیں ، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا گیا ہے سب کھل کر جھوٹ ثابت ہوئے اور نجی ٹی وی چینلز نے بھی اسے تسلیم کیا اور طالبات نے بھی باہر آ کر یہ بیانات دیے اس کے بعد اتنی لوگوں کی ہلاکت پر کس سے پوچھا جائے جنہوں نے اسی بے دردی اور بربریت سے اپنے ہی معصوم طلبا اور طالبات کو وحشتناک طریقے سے مار ڈالا بلکہ جلا کر راکھ کر دیا۔

کیا پاکستان میں اس ظلم کی کوئی مثال بتا سکتے ہیں آپ ؟ شاید دور سے آپ کو وہ ظلم نظر نہ آیاہو مگر اسلام آباد میں رہنے والوں نے روز اپنی آنکھوں کے سامنے اس بربریت کا مظاہرہ دیکھا ہے اور کبھی نہ بھول سکیں گے۔
 
حد درجہ خونی افسانے اب خبروں‌کی جگہ صرف یکطرفہ پراپہگنڈہ لگتے ہیں۔ دوسری طرف کی خبریں ‌ہی حقیقت عیاں کرسکتی ہیں‌کہ کیا ان معصوم جانوں کا ضیاع کیوں ہوا۔ اور مستقبل میں ان عناصر سے جو ان واقعات کے ذمہ دار بنے بچا جاسکتا ہے۔ ہر مدرسے ، یونیورسٹی اور کالج کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض‌ہے۔ کسی قسم کے غیر قانونی اسلحے اور گیس ماسک کا جواز بے معنی ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
حد درجہ خونی افسانے اب خبروں ‌کی جگہ صرف یکطرفہ پراپہگنڈہ لگتے ہیں۔ دوسری طرف کی خبریں ‌ہی حقیقت عیاں کرسکتی ہیں‌ کہ کیا ان معصوم جانوں کا ضیاع کیوں ہوا۔ اور مستقبل میں ان عناصر سے جو ان واقعات کے ذمہ دار بنے بچا جاسکتا ہے۔ ہر مدرسے ، یونیورسٹی اور کالج کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ‌ہے۔ کسی قسم کے غیر قانونی اسلحے اور گیس ماسک کا جواز بے معنی ہے۔
اسے پڑھ کر یھی کھا جاسکتا ہے کہ بہت ”افسوس “ کی بات ہے ، غیر قانونی اسلحہ یا گیس ماسک کو ”قتل عام “ کے جواز کا سبب نھیں قرار دیا جاسکتا ،آپ کی پوسٹ کے جس حصہ کو میں نے نشان زد کیا ہے اس سے ملتے جلتے الفاظ امریکی حکام نے بھی ”الجزیرہ “ ٹی وی چینل کے خلاف کھے تھے جب مذکورہ ٹی وی چینل عراق اور افغانستان جنگ میں بجائے امریکی فاشسٹ نظریات کا دفاع کرنے کے ، جنگ سے تباہ شدہ افراد اور گھروں کی منظر کشی کررہا تھا ، ان ”خونی افسانوں “ کو” پروپیگنڈہ “ قرار دے کر نہ صرف امریکی ارباب اقتدار نے مذکورہ ٹی وی چینل پر ”پابندی “ لگائی تھی بلکہ بہت سے رپورٹرس کی ”زندگی “ پر بھی ، ”خونی افسانے “ پروپیگنڈہ لگتے ضرور ہیں ؛ مگر اسی وقت جب ان ”افسانوں “ کا تعلق ”دشمن اقوام“ سے یا ان ”افراد“ سے ہو جن سے نہ ہمارا جذباتی تعلق ہے اور نہ نظریاتی ، اس کے بر خلاف جب ”خونی افسانوں “ کا تعلق ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ھلاک ہونے والے افراد سے ہو تو یہ ”ظلم کی داستان “ کھلاتے ہیں ، اور اس کی ”مذمت “ نہ کرنے والوں‌ کو ”وحشی “ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، :(:(:(
 

سید ابرار

محفلین
زیر نظر مضمون ماھنامہ ” الدعوہ “ کے اگسٹ کے شمارے سے لیا گیا ہے ، لال مسجد سانحہ کی الم ناکی پر اگرچیکہ بہت لکھا جا چکا ہے ؛ مگر جیسے جیسے دن گذرتے جارہے ہیں ویسے ویسے نئے نئے حقائق سامنے آرہے ہیں ، ارشاد احمد ارشد نے اس موضوع پر کافی محنت سے لکھا ہے اور کئی نئے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے ، زیر نظر مضمون کے پھلے حصہ کو ہم فی الحال حذف کررہے ہیں ، اس کو بعد میں کسی مناسبت سے ذکر کیا جائے گا ، البتہ دوسرے حصوں کو یھا ں پیش کیا جارہا ہے ،

لال مسجدکاالمناک سانحہ....ہلاکوخان بھی شرماگیا

ارشاد احمد ارشد

آپریشن لال مسجد: آنکھوں دیکھے درد ناک مناظر:

3جولائی کوشروع ہونے والے آپریشن کے وقت لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے قرب وجوار میں انتہائی سختی تھی۔ کرفیو نافذ تھا‘ کسی ذی روح کوقریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہ تھی‘ مسجد کے اندرجانے کی اجازت صحافیوں اورعلماء کی مذاکراتی ٹیم کوبھی نہ تھی۔ اس کے باوجود مسجد وجامعہ حفصہ میں جوہوا‘ اس کی داستانیں ایک ایک کرکے منظرعام پر آرہی ہیں۔

آبپارہ میں ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی جس کا بھائی حافظ ابوبکر عمر17سال جامعہ فریدیہ کا طالب علم تھا اور وہ لال مسجد آپریشن میں شہید ہوچکا ہے۔
حافظ ابوبکرکا بھائی کہتا ہے‘ مجھے آپریشن کے فوراً بعد معلوم ہوگیا تھاکہ مسجد اور جامعہ کی صفائی C.D.A کے خاکروب کررہے ہیں۔ لہٰذا میں اپنے جاننے والے خاکروبوں کی تلاش میں تھا۔ تین دن بعد میری چندخاکروبوں سے ملاقات ہوئی‘ توانہوں نے بتایا ہم نے لال مسجداورجامعہ حفصہ میں جوصفائی کی‘ وہ گولیوں سے چھلنی لاشوں اور لاشوں کے بکھرے ہوئے اعضاءکواٹھانے اور تابوتوں میں بندکرنے کی صفائی تھی۔

ایک خاکروب کاکہنا تھا ‘ ہمارے لئے یہ شمار کرنا مشکل تھا کہ اندر بکھرے ہوئے انسانی اعضاءزیادہ ہیں یا گولہ باری کے نتیجہ میں ٹوٹی اوربکھری ہوئی اینٹیں زیادہ ہیں۔ ہرجگہ انسانی اعضاءاور گوشت کے لوتھڑے تھے۔ مسجد کا فرش‘ سیڑھیاں ‘ تہہ خانے‘ بیت الخلاء‘ منبرومحراب اور پانی کا تالاب الغرض ہر جگہ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے خون کاچھڑکاؤ کردیا ہو۔ اینٹوں اور ملبے کے ڈھیر‘کٹی پھٹی کھوپڑیاں ‘کھوپڑیوں میں لڑکیوں کے بالوں کے گچھے‘ آنکھوں کے ڈھیلے اور بعض جگہ کھوپڑیوں میں جما ہوا خون عجیب ڈراؤنا اور وحشت ناک منظر تھا۔ بہت کم لاشیں سلامت یا اصلی حالت میں تھیں۔ لاشوں کودیکھ کر یوں لگتاتھا جیسے کسی نے ان کے معدوں میں پٹرول انڈیل کر آگ لگادی ہو یاجسموں کے ساتھ ڈائنامیٹ باندھ کر انہیں اڑا دیا ہو۔ جامعہ حفصہ کی حالت بہت ابتراورعبرتناک تھی ۔ وہاں بعض جگہوں پراتنا خون تھاکہ پاؤں پھسل جاتا‘ ہرطرف تعفن اور بدبوتھی۔ بعض لاشیں انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں تھیں۔ یہاں بھی اکثرلاشیں کٹی پھٹی تھیں۔ بچیوں کے خون آلود کپڑے اور گولیوں سے تارتار دوپٹے ہرطرف بکھرے پڑے تھے۔ وہاں اگرچہ آرمی کا سخت پہرا تھا مگرہم نے دیکھا کہ بلیاں کسی نہ کسی طرف سے خون اور گوشت کی بوسونگھ کر آنکلتیں۔ بلیاں لاشوں اورگوشت کے لوتھڑوں کوسونگھتی ضرورتھیں مگر کھاتی نہیں تھیں۔ شاید اس لئے کہ دوران حملہ زہریلے ہتھیار استعمال کئے گئے تھے۔ ہمارا کام لاشوں ‘اعضاءاور گوشت کے انسانی لوتھڑوں کو تابوتوں میں بند کرنا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کسی تابوت میں کوئی مکمل یا صرف ایک ہی لاش بند کی ہو۔ بہت سے تابوتوں میں ملے جلے اعضاء ڈال دئیے گئے۔ ایسے بھی تابوت تھے جن میں دھڑ کسی کا تھا تو ٹانگیں کسی کی۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تھا۔ خون کی صفائی ۔ یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔ مسجد کے پانی کااپنا سسٹم تباہ ہوچکا تھا ۔ سب سے پہلے اسے ہنگامی طور پر درست کیا گیا مگریہ پانی ناکا فی تھا ۔ فائربریگیڈکی گاڑیاں اور C.D.A کے واٹرٹینک منگوائے گئے اور پریشر والے پائپ سے دیواریں اور فرش دھوئے گئے۔
( جاری ہے )
ماھنامہ ”الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
جامعہ حفصہ کی دینی کتب اور قرآن مجید !

( دوسرا حصہ )

جامعہ حفصہ کی دینی کتب اور قرآن مجید

لال مسجدکے قریبی ذرائع کے مطابق لال مسجد میں ایک ہزار سے زائد قرآن مجید سادہ اور ترجمے والے تھے۔ دو سے اڑھائی ہزار مکمل سیٹ کی صورت میں سپارے تھے‘ دعاؤں کی کتابیں اور نورانی قاعدے بھی لاتعداد تھے۔ مولانا عبدالعزیز کے خاندان کے ایک قریبی رشتہ دار جو جامعہ فریدیہ میں ایک اہم ذمہ دار بھی ہیں‘ ان کے مطابق جامعہ حفصہ میں 6000 طالبات زیرتعلیم تھیں۔ 6000 طالبات کے لئے کم ازکم 4000 قرآن مجید کا عمومی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 6000 طالبات کے لئے کلاس اول سے کلاس ہشتم تک کورس کی دینی کتب ‘تفسیر اور احادیث کی بھی ہزاروں کتابیں ہوں گی۔ بتایا جاتاہے کہ جامعہ حفصہ کی لائبریری بھی بہت شاندار اور خوبصورت تھی ۔جس میں ہزاروں کتابیں تھیں۔ یہ ہزاروں قرآن مجید‘ ہزاروں احادیث اور تفسیرکی کتابیں سب کہاں گئیں؟ اگرحکومت نے انہیں کسی دوسری جگہ منتقل کیا ہے تو مجموعی طورپر لاکھ ڈیڑھ لاکھ کتب کی منتقلی میڈیاکی آنکھ سے کیوں کرپوشیدہ رہ گئی۔ اگرخدانخواستہ قرآن مجید اور کتب احادیث کا ذخیرہ کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیاجاسکا تو وہ اس وقت کہاںہے؟ کیالال مسجد اور جامعہ حفصہ میں کتاب اللہ اور دینی کتب کے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے جو سقوط اندلس کے وقت عیسائیوں نے کیاتھا؟ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بعض ذرائع کاکہناہے کہ آپریشن میں آگ لگانے والے بم اور مارٹر گولے استعمال کئے گئے۔ آبپارہ کا ایک رہائشی جس کا تعلق ماضی میں پاکستان آرمی سے رہا ہے‘ اس کا کہنا تھا کہ آپریشن میں آرٹلری نے بھی حصہ لیا ہے۔ ایسی حالت میں جب جامعہ حفصہ کی عمارت کا بیشترحصہ آگ کی لپیٹ میں آجائے اور ملبے کا ڈھیربن جائے توپھر قرآن مجید اور دینی کتب کہاں محفوظ رہے ہوں گے۔

قرآن مجید اور دینی کتب کے ساتھ جوکچھ ہوا ‘اس کا ہلکا سااندازہ اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ (ٹینکی سٹاپ) سٹریٹ 27 کے سامنے جامعہ حفصہ کے پھینکے جانے والے ملبہ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ جس نالے میں ملبہ پھینکا گیا ہے ‘اس کے ساتھ ہی پبلک لیٹرینیں ہیں۔ یہ ملبہ جمعرات کی شب 19جولائی کو پھینکا گیا ۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ جمعرات کی شب ہمارے علاقے کی بجلی تقریباً 4 گھنٹے کے لئے بند ہوگئی۔اسی دوران C.D.Aکے ٹرکوں کے ذریعے ملبہ پھینکا گیا۔ یہ بات طے ہے کہ جرم ہمیشہ نشان چھوڑتا ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی ہوا۔ جامعہ حفصہ میں بہت ساقیمتی سامان ایسابھی تھا جو جلنے اور تباہ ہونے سے بچ گیا۔C.D.A کے خاکروبوں نے اس سامان کوالگ کرلیا۔

آپریشن انچارج کی طرف سے سختی سے ہدایت تھی کہ جامعہ حفصہ کا ملبہ شہر سے باہر دور دراز مقامات پر پھینکا جائے لیکن قیمتی سامان دیکھ کرخاکروبوں کا دل للچایا۔ لہٰذا انہوں نے ستارہ مارکیٹ کے نالے میں پہلے تو قرآن مجید‘ دینی کتب اور انسانی اعضاءپھینکے‘اوپر ٹوٹی اینٹوں‘دیواروں ‘فرش کا ملبہ پھینکا اور اس کے اوپر دیگرقیمتی چیزیں۔ C.D.A کے ٹرک یہ چیزیں پھینک کرچلے گئے تو بعدمیں خاکروب بہت سا سامان رات کواٹھا کرلے گئے۔ باقی جوچیزیں رہ گئی تھیں ‘ انہیں اٹھانے کے لئے وہ علی الصبح پہنچ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی وہاں مسلمان بچے اور اس کے بعد بڑے بھی اکٹھے ہوگئے۔ پھرلوگوں نے جب ملبے کواوپرنیچے کیا توانسانی اعضاء‘ صحیح سلامت اور شہید قرآن مجید کے نسخے برآمد
ہونے لگے۔ راقم نے بھی وہاں بہت سے خون آلود‘ گولیوں سے چھلنی‘ پھٹے ہوئے کپڑے دیکھے‘ جن میں خواتین کی قمیضیں ‘شلواریں‘ دوپٹے اور مردانہ کپڑے بھی تھے۔ اسی طرح وہاں خون آلود جرسیاں اور سویٹربھی تھے۔ جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ مسجد اورجامعہ میں بہت زیادہ خون بہایا گیا جسے صاف کرنے کے لئے ہرقسم کے کپڑے استعمال کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا ملبہ پتھر سے پتھردل انسان کوبھی رلادیتا ہے۔ خودمیرے لئے بھی یہاں آنسو ضبط کرنا ممکن نہ رہا۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کاملبہ اسلام آباد سے باہر دوردراز 7,6جگہوں پر پھینکا گیا ہے۔

( جاری ہے )

ماھنامہ ”الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
H الیون کے قبرستان میں:

( تیسرا حصہ )

Hالیون کے قبرستان میں:


C.D.A نے اسلامی یونیورسٹی کے قریب حال ہی میں ایک نیاقبرستان بنایا ہے ۔ لال مسجد کے سانحہ سے پہلے اس قبرستان میں صرف 105قبریں تھیں۔10جولائی کے بعد یہاں 78 نئی قبروں کااضافہ ہوچکا ہے۔ یہ قبریں لال مسجد کے شہدا کی ہیں۔ میں جب Hالیون کے قبرستان گیا تووہاں لوگوں کاایک بڑا ہجوم تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بچے‘بچیاں شہید ہوچکے ہیں یا ابھی تک لاپتہ ہیں‘ سب کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پردعائیں تھیں۔ قبرستان کے گورکن نے بتایا” ہمارے پاس لائے گئے تابوت چاروں طرف سے مکمل بند تھے۔ تابوت میں چہرے کی جگہ عام طورپرشیشہ لگا ہوتا ہے لیکن ان تابوتوں میں شیشہ نہیں تھا۔“ گورکن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا” ہم عرصہ سے میتیں‘ تابوت اٹھانے اور قبریں کھودنے کاکام کر رہے ہیں۔ تابوت اٹھاکر ہمیں میت کے وزن کااندازہ ہو جاتا ہے۔ لال مسجد سے لائے جانے والے تابوت غیرمعمولی طورپر بہت بھاری تھے۔ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے تابوت ٹھونس ٹھونس کر بھردئیے گئے ہوں اور تابوتوں میں ایک سے زائد میتیں یا پھربہت سے کٹے پھٹے اعضا ڈال دئیے گئے ہوں۔

( جاری ہے )

ماھنامہ ” الدعوہ

 

سید ابرار

محفلین
لا پتہ طلبہ وطا لبات !!!

( چوتھا اورآخری حصہ )

لا پتہ طلبہ و طا لبات :

اس وقت کوئی ایسا مصدقہ ذریعہ موجود نہیں جس سے لاپتہ طالبات کی تعداد کا حتمی اور یقینی اندازہ کیاجاسکے۔
صرف دوہی افراد ہیں جولاپتہ طالبات کی حتمی یا یقین کے قریب تعداد بتاسکتے ہیں۔ وہ ہیں مولاناعبدالعزیز اور ام حسان۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ 2000 سے زائد طالبات لاپتہ ہیں۔ جامعہ حفصہ کی تین طالبات جوآخروقت میں باہر آئی تھیں‘ ان سے اس سلسلے میں راقم کا فون پررابطہ ہوا توانہوں نے بھی یہ تعداد 2000 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ طالبات کی تعداد کے بارے میں یہ تین ذرائع بظاہر مستند ہیں ۔اس لئے فی الوقت انہی اعدادوشمار پریقین کرنا پڑے گا۔ مولاناعبدالعزیز کے خاندان کاایک قریبی ذریعہ جس سے اسلام آباد میں میری ملاقات ہوئی ‘ اس نے راقم کوبتایا کہ جامعہ حفصہ میں بہت سی لاوارث خواتین‘ بچیاں اور طالبات تھیں ۔اسی طرح زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی بھی بہت سی لاوارث خواتین ‘چھوٹی بچیاں اور طالبات تھیں جن کی مجموعی تعداد 1000 کے قریب ہے‘ یہ سب بھی لاپتہ ہیں۔

اس معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ ایسے افراد جواپنی بچیوں کی تلاش میں اسلام آباد آئے تھے‘اب ان کے اپنے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں درج ہو چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کی عمریں 10 سے 65 سال ہیں۔ ان میں اکثریت نوعمربچوں اور بچیوں کی ہے۔ مثلاً ہنگو سے ہادیہ بی بی اور ہاجرہ بی بی لاپتہ ہیں‘ ان کی عمریں بالترتیب 10سے12 سال ہیں۔ اٹک کا 65 سالہ محمد یونس خان اپنی نواسی کی تلاش میں آیا اور خودبھی لاپتہ ہوگیا۔

راقم نے اسلام آباد میں ایک رات سپورٹس کمپلیکس کی مسجد سلمہ بن اکوع میں گزاری۔ سپورٹس کمپلیکس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے امدادی اور اطلاعاتی مرکز بنایاگیا ہے۔یہاں آکر لاپتہ افراد کے ورثاء کی درماندگی و پریشانی کااندازہ ہوتا ہے ۔کوئی اپنے بچے کوتلاش کررہا ہے ‘ کوئی بچی کو‘ کوئی بھتیجے کو اور کوئی بھانجی کو ‘ کسی کا بچہ یا بچی گم ہے‘ کسی کا بچہ شہید ہے تولاش نہیں مل رہی ہے۔ عجب بے بسی کی کیفیت ہے۔

یہاں خیبرایجنسی کے مقبول احمد سے ملاقات ہوئی ۔ مقبول احمد ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ کہتے ہیں3جولائی کو میں گاؤں میں تھا ‘ معلوم ہوا کہ لال مسجد پرحملہ ہوگیا ہے‘میں6 جولائی کواسلام آباد پہنچ گیا۔ میرے بیٹے کانام گل شیرہے اورعمر18سال ہے۔ وہ دوسال سے جامعہ فریدیہ میں پڑھ رہا تھا۔ جب فون پرمیرا اس سے رابطہ ہوا تومیں نے اسے کہا”اے فرزند! میں نے تجھے یہاں پڑھنے کے لئے بھیجا تھا نہ کہ حکومت سے مقابلہ کرنے ۔ اس لئے فوراً مسجد سے باہر نکل آؤ ۔ میرابیٹا باہرنکل آیا تو سرنڈر کرنے کی خوشی میں اسے رینجرز نے پکڑلیا‘ اس وقت سے بیٹا جیل میں ہے اورمیں دھکے کھارہا ہوں۔

کمپلیکس میں اگرایک طرف دکھ اور درد کی کہانیاں ہیں تو دوسری طرف امید اورروشنی کے چراغ بھی ہیں۔ یہاں ہنگوسے تعلق رکھنے والے سیدگل شاہ سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بیٹے کانام ہے سیدجمیل بادشاہ اور عمرہے20 سال۔ گل شاہ کہتے ہیں‘ میں11 جولائی کوبیٹے کی تلاش میں آیا ۔ 19 جولائی کو پمزہسپتال میں بیٹے کے دودوستوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا‘ 9 جولائی کے دن میرا بیٹامسجد کے ہال میں بیٹھا تلاوت قرآن کررہا تھا ۔اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں بلکہ قرآن مجید تھا کہ اچانک گولہ لگا جس سے میرے بیٹے کو آگ لگ گئی‘ وہ آگ میں زندہ جل کرشہید ہوگیا۔ گل شاہ کہتے ہیں” اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے شہید بیٹا عطا کیا۔ میرے بیٹے کے ساتھ اس کا ایک دوست اعجاز بھی شہید ہوگیا۔ جمیل کے بعد میرے 8 بیٹے اور ہیں‘اللہ نے چاہا تومیں سب کودین کاعالم بناؤں گا۔ میں چاہوں گا کہ میرے باقی بیٹے بھی اللہ کے راستے میں شہادت کی سعادت حاصل کریں۔“

یہاں کوٹلیستیاں کے عبدالخالق سے بھی ملاقات ہوئی۔ان کا 17 سالہ بھائی حافظ ابوبکر جامعہ فریدیہ کا طالب علم تھا۔ عبدالخالق کہتے ہیں ”میرے والدکا اصرار تھا کہ ابوبکر باہر آجاؤ ۔ والد‘ والدہ اور میں اس سے باربار رابطہ کرتے ‘اسے کہتے باہرآجاؤ۔ ہمار اس سے آخری رابطہ 5 جولائی کوشام 6 بجے ہوا۔ والد نے اسے پھرباہرآنے کے لئے کہا تو وہ کہنے لگا میرے اردگرد قرآن مجید کے شہید نسخوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے‘ گولیاں قرآن کے اوراق سے آرپار ہورہی ہیں اور میرے بہت سے دوست زخمی یا شہید ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ان افسروں کے ہاتھوں گرفتاری دے دوں جن کے ہاتھ قرآن مجید کی شہادت اور توہین سے آلودہ ہیں۔“
ہم فون پراس کی بات سن ہی رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اورہمارے بیٹے کا موبائل خاموش ہوگیا۔ اس کے تین دوستوں کے نمبربھی ہمارے پاس تھے‘ان پررابطہ کیا تو وہ بھی خاموش تھے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہواکہ ہمارا بھائی شہید ہوچکا ہے‘ ابھی تک ہمیں بھائی کی لاش نہیں ملی۔ عبدالخالق کہتے ہیں ‘ دو دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ تین فوجی ٹرکوں کے ذریعے لاشیں سہالہ پولیس اکیڈمی لائی گئی ہیں۔ ہم وہاں پہنچے توپولیس والوں نے اندر داخل نہ ہونے دیا۔ ہم نے اصرارکیا توگولی مارنے کی دھمکی دی گئی۔ وہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ رات کے وقت بلڈوزروں کے ذریعے گڑھے کھود کر سینکڑوں لاشیں دفنا دی گئی ہیں۔“
عبدالخالق کہتے ہیں۔ حافظ ابوبکرکی شہادت کی مجھے اور میرے والدین کوخوشی ہے۔ ہم سے کسی کی آنکھوں میں آنسو نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لال مسجد کے منبرومحراب سے دوبارہ اذان کی آواز گونجے۔ ہم 6 بھائی ہیں۔ اس مقصد کے لئے جانیں قربان کرنا فخرسمجھتے ہیں۔“

( ارشاد احمد ارشد کا یہ مضمون مکمل ہوچکا ہے )

ما ھنامہ ” الدعوہ
 

ظفری

لائبریرین
میں بھی اب واقعی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کی اس قسم کی پوسٹ کی تشہیر کا آخر مقصد کیا ہے ۔ ؟ ۔ سب جانتے ہیں ظلم ہوا ہے اور بروقت سب نے اس کی اس محفل پر پُر زور مذمت کی ہے ۔ مقالے لکھے گئے ہیں ۔ اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ مگر اب یہ کہ ہم ایسے واقعوں کے سدِ باب کے لیئے کوئی لائحہِ عمل اختیار کریں کہ اب ہم نے ان معصوم طلباء و طالبات کی لاشوں پر سیاست شروع کردی ہے ۔ اس قسم کی پوسٹ کے آخر کچھ اغراض و مقاصد تو ہونے چاہئیں ۔ اگر ہیں تو آپ اس کی وضاحت کریں ۔ یاد رکھیں ہر بات اپنے وقت پر کی جائے تو اثر رکھتی ہے ۔ بعد میں اس قسم کا واویلا کوئی مقصد یا اثر نہیں رکھتا ۔ اور مسلسل ایک ہی قسم کی تکرار بھی لوگوں کی بیزاریت کا سبب بن سکتی ہے ۔

آپ سے گذارش ہے کہ آپ ایسی مثبت تحریریں گرفتِ قلم لائیں جن سے امید کی کوئی کرن روشن ہو ناکہ ہم ایک مایوس اور ہاری ہوئی قوم کی طرح بین کریں ۔
 

سید ابرار

محفلین
میں بھی اب واقعی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کی اس قسم کی پوسٹ کی تشہیر کا آخر مقصد کیا ہے ۔ ؟ ۔ سب جانتے ہیں ظلم ہوا ہے اور بروقت سب نے اس کی اس محفل پر پُر زور مذمت کی ہے ۔ مقالے لکھے گئے ہیں ۔ اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ مگر اب یہ کہ ہم ایسے واقعوں کے سدِ باب کے لیئے کوئی لائحہِ عمل اختیار کریں کہ اب ہم نے ان معصوم طلباء و طالبات کی لاشوں پر سیاست شروع کردی ہے ۔ اس قسم کی پوسٹ کے آخر کچھ اغراض و مقاصد تو ہونے چاہئیں ۔ اگر ہیں تو آپ اس کی وضاحت کریں ۔ یاد رکھیں ہر بات اپنے وقت پر کی جائے تو اثر رکھتی ہے ۔ بعد میں اس قسم کا واویلا کوئی مقصد یا اثر نہیں رکھتا ۔ اور مسلسل ایک ہی قسم کی تکرار بھی لوگوں کی بیزاریت کا سبب بن سکتی ہے ۔

آپ سے گذارش ہے کہ آپ ایسی مثبت تحریریں گرفتِ قلم لائیں جن سے امید کی کوئی کرن روشن ہو ناکہ ہم ایک مایوس اور ہاری ہوئی قوم کی طرح بین کریں ۔

محترم ظفری صاحب !
آپ کی ”اطلاع “ کے لئے عرض ہے کہ میں اس تھریڈ میں ”لال مسجد سانحہ “ سے تعلق رکھنے والی اخباری اطلاعات ، نیز اس سانحہ سے متاثرہ افراد کے انٹرویوز ، ممتاز ”مضمون نگاروں “ کے تحقیقی مضامین اور اس سانحہ کے اسباب وعلل نیز بھانک نتائج پر مشتمل تحقیقا تی رپورٹس ایک جگہ جمع کرنا چاہتا ہوں ، تاکہ وہ حضرات جو اس موضوع پر کسی بھی قسم کا تحقیقی ، تا لیفی یا تصنیفی کام کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے آ سانی ہوجائے ، اور ان کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہو ،

نہ تو اس کے ذریعہ کسی نئی ”بحث “ کو جنم دینے کا ارادہ ہے ، اور نہ ہی کوئی دوسرا ارادہ ،
والسلام
 

سید ابرار

محفلین
جامعہ حفصہ کی ایک اور طالبہ بنت بشیر کا انٹرویو!

bintebasheerty5.gif


روزنامہ ”امت “ کراچی
 

سید ابرار

محفلین
سانحہ لال مسجد ، آخری لمحہ تک مذاکرات میں شریک اہم شخصیات سے گفتگو

سانحہ لال مسجد ....آخری لمحے تک مذاکرات میں شریک اہم شخصیات سے گفتگو

ارشاد احمد ارشد

سابق ایم این اے و سابق وفاقی وزیر جاویدابراہیم پراچہ‘ابوعمار مولانا زاھد الراشدی اور مولانا فضل الرحمن خلیل پاکستان کے دینی ‘علمی او ر سیاسی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔ تینوں شخصیات لال مسجد پر ہونے والے مذاکراتی عمل کا حصہ رہی ہیں۔ جاوید ابراہیم پراچہ بالکل ابتدامیں حکومت اور غازی برادران کی مشترکہ خواہش پر ثالث بنے‘ان کی کوشش سے چلڈرن لائبریری بچوں کے مطالعہ کے لئے کھولی گئی اور مسجد امیرحمزہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ ابوعمارمولانا زاہدالراشدی وفاق المدارس کے علماء کے ساتھ 8 جولائی سہ پہر اسلام آباد پہنچے اور 10جولائی کورات ڈھائی بجے تک ملاقاتوں اور مذاکرات میں مصروف رہے۔ مولانا فضل الرحمن خلیل 10 جولائی بوقت نماز مغرب ‘مولانا عبدالرشید غازی کے نمائندہ کی حیثیت سے مذاکرات میں شامل ہوئے اور رات4 بجے تک معاملات کو سلجھانے کے لئے کوشاں رہے۔ مولانا فضل الرحمن خلیل وہ واحد آدمی ہیں کہ جن سے آخروقت تک مولاناعبدالرشیدغازی رابطے میں رہے۔ ان تینوں شخصیات اوراس کے علاوہ مولانا عبدالعزیز کی ہمشیرہ جمیلہ بی بی سے ہونی والی گفتگو نذرقارئین ہے۔

سابق وفاقی وزیرریلوے جاویدابراہیم پراچہ

س: مسجداورجامعہ حفصہ آپریشن کاپس منظرکیاہے؟

ج: اس سارے معاملے کاآغاز جامع مسجد سیدناامیرحمزہ کی شہادت سے ہوا۔ اس مسجد کامحل وقوع انتہائی اہم ہے۔ یہ مسجد ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے ہمارے ملک کی ایک اہم اور سب سے بااختیارشخصیت کے فارم کوراستہ جاتاہے۔ بعض قوتوں نے اس شخصیت کوباور کروایاکہ اس مسجد سے کسی وقت بھی آپ پرحملہ ہوسکتاہے۔ چنانچہ یہ مسجد شہید کردی گئی۔ اس مسجد میں اعلیٰ سول سوسائٹی کے بچے پڑھتے تھے ‘اس کے ساتھ مسجد کے قرب وجوار میں بعض نامور صحافیوں کے گھربھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ مسجدشہید کی گئی تومیڈیا نے اس ظلم عظیم کی خوب خبرلی۔ C.D.A نے مسجدامیرحمزہ کے علاوہ اسلام آباد کی دیگر6 مساجد بھی شہید کردیں۔ مساجد کی شہادت پرجب کوئی خاطر خواہ ردعمل سامنے نہ آیا توجامعہ حفصہ کی طالبات نے اس تحریک کو اٹھانے اور چلانے کافیصلہ کرلیا۔ سب سے پہلے مساجد کی شہادت کے متعلق ایک سی ڈی تیار کی گئی۔ یہ ایک انتہائی متاثرکن سی ڈی تھی جوتھوڑے ہی عرصہ میں اسلام آباد کے اعلیٰ حلقوں میں پھیل گئی۔ اس کے ساتھ جامعہ حفصہ کی طالبات نے پرامن احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کیا اور علماء کی طرف سے بھی خاطرخواہ ردعمل سامنے آیا توحکومت کی طرف سے چودھری شجاعت حسین اور اعجازالحق نے شہیدمساجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ کیا۔ سمیراملک نے بھی جامعہ حفصہ کی طالبات سے ملاقات کرکے مساجد کی جلد ازجلد تعمیر کی یقین دہانی کرائی۔ مسجدامیرحمزہ کا سنگ بنیاد وفاقی وزیرمذہبی امور اعجاز الحق نے علماءکی موجودگی میں رکھا۔ مسجد کی تعمیر کے لئے مولانا عبدالعزیز نے دولاکھ او ر میں نے ایک لاکھ دئیے۔اس کے بعد یوں نظرآرہا تھا کہ حالات درست ہوچکے ہیں‘ لیکن ہوا یہ کہ مسجدکی دیواریں چند فٹ ہی کھڑی ہوئی تھیں ، کہ کام رک گیا ‘اسی طرح دیگرمساجد کی تعمیرکاوعدہ بھی پورا نہ ہوا۔ یہ حکومت کی کھلی بددیانتی اور وعدہ خلافی تھی۔ اخلاقی طورپر حکومت کے پاس اس وعدہ خلافی کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس وعدہ خلافی پر جامعہ حفصہ کی طالبات نے پرامن مظاہرے کئے مگرحکومتی زعماءکے کانوں پرجوں تک نہ رینگی جس پر طالبات نے چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ صرف لائبریری کی عمارت پرتھا نہ کہ کسی ذی روح کویرغمال بنانے کاتھا۔ لائبریری کی عمارت پرقبضہ معمولی بات تھی ‘ مطالبات منوانے کے لئے اس طرح کے احتجاجی واقعات دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ جب لائبریری پرقبضہ کوڈیڑھ ماہ گزر گیا توحکومت نے تحریر ی طورپرمجھے ثالث بنایا۔ اعجازالحق جہاز لے کرکراچی گئے ‘ وہاں جیداوروفاق المدارس کے علماءسے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد علماءکاایک اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مولانا حنیف جالندھری نے حکومت کی حمایت میں پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس میں جامعہ حفصہ کووفاق المدارس سے خارج کرنے اور لائبریری پرقبضہ کوغیرشرعی قراردینے کا اعلان کیاگیا۔ طالبات نے جواب میں وفاق کے علماءکو پیغام بھجوایا ‘آپ نے لائبریری پر ہمارے قبضہ کو توغیرشرعی قرار دے دیاہے براہ کرم ملک پرپرویزمشرف کے قبضہ اور قادیانی تسلط کے بارے میں بھی کوئی فتویٰ صادرفرمائیں۔

س: بہت سے جیدعلماءطالبات سے کہہ رہے تھے کہ وہ لائبریری کا قبضہ چھوڑدیں ‘طالبات نے قبضہ چھوڑنے کے عمل کو شریعت کے نفاذ سے مشروط کردیاتھا ‘کیاان کا یہ عمل درست تھا؟

ج: مولاناعبدالعزیز کاخیال تھا کہ مساجدکی شہادت شریعت اور اسلامی معاشرہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان کی رائے تھی کہ اگرپاکستان میں اسلامی حکومت ہوتی تومساجد شہید نہ ہوتیں ‘اس لئے انہوں نے شریعت کے نفاذ کامطالبہ کیاتھا۔

س: حکومتی ذمہ داران کادعویٰ تھا کہ لال مسجد اورجامعہ حفصہ میں مسلح جہادی جمع ہوچکے ہیں جوامن وامان کوبگاڑ رہے ہیں؟

ج: حکومت کایہ دعویٰ بے بنیاد تھا۔جامعہ حفصہ میں صرف طالبات تھیں اورلال مسجد میں جامعہ فریدیہ کے طلباءتھے ۔ بات صرف اتنی تھی کہ جب حکومت نے اپنے وعدوں کوعملی جامہ پہنانے میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا تومساجد کی تعمیر کی تحریک کو مضبوط ومنظم کرنے کے لئے جامعہ حفصہ کی دیگر شاخوں کی طالبات لال مسجدکے ساتھ مرکزی جامعہ حفصہ میں پہنچنے لگیں۔اسی طرح جامعہ فریدیہ کے طلباء کی ایک بڑی تعداد بھی لال مسجد میں پہنچ گئی۔ تب حکومت کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ لال مسجد میں مسلح جہادی جمع ہورہے ہیں۔

س: آپ وفاق کے علماءکی اسلام آباد میں آمد کی بات کررہے تھے؟

ج: حکومت نے وفاق کے علماءکو سرینا ہوٹل میں ٹھہرایا جبکہ میں مدرسہ میں طلباء کے ساتھ ٹھہرا۔اس کے بعدوفاقی وزیر مذہبی اموراعجازالحق کے دفترمیں اجلاس ہوا جس میں حکومتی ٹیم اور علماءایک معاہدہ پردستخطوں کے ساتھ متفق ہوئے کہ شہید مساجد کودوبارہ تعمیرکیاجائے گا اور جن مساجد کوگرانے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں‘ وہ واپس لئے جائیں گے۔ نفاذ اسلام اور فحاشی کے خاتمہ کے لئے عملاً اقدامات کئے جائیں گے۔ یہ معاہدہ ابھی تحریر ہوا ہی تھا ....کہ 8-F سے ایک وفدلال مسجد پہنچا کہ CDA والے ہماری مسجد گرانے آگئے ہیں۔ جس پرہم نے وفاقی وزیرداخلہ آفتاب شیرپاؤ سے رابطہ کیا توہمارے ساتھ پھروعدہ ہواکہ آئندہ ایسے نہیں ہوگا۔ ایک طرف حکومت کے یہ وعدے اور یقین دہانیاں تھیں اور دوسری طرف یہ کارستانیاں تھیں کہ بعض ایجنسیوں کے اہلکاروں نے چھٹی کے وقت جامعہ حفصہ کی طالبات اور ان کی گاڑیوں کی تصاویربناناشروع کردیں۔ جامعہ حفصہ والوں نے متعدد بار انتظامیہ کی توجہ اس طرف مبذول کروائی لیکن انتظامیہ نے ایجنسیوں کے اہلکاروں کی اس غیراخلاقی حرکت کا کوئی نوٹس نہ لیا بلکہ تصاویربنانے کاسلسلہ بدستورجاری رہا۔ جس پرطالبات نے تنگ آمدبجنگ آمد کے طورپر ایجنسی اہلکاروں سے کیمرے چھین لئے اور چنداہلکاروں کو بھی اٹھالیا۔ اس پر وزارت داخلہ اور اسلام آباد انتظامیہ نے لال مسجد والوںسے رابطہ کیا۔ مولانا عبدالعزیز نے ان کوایجنسی اہلکاروں کی غیراخلاقی حرکت کی طرف توجہ دلائی تووزارت داخلہ نے باقاعدہ طورپرمعذرت کی۔ چنانچہ مزیدکوئی کارستانی نہ کرنے کے وعدے پر ایجنسی اہلکارچھوڑدئیے گئے۔ اس سے پہلے حکومتی اہلکار نفاذ اسلام اور فحاشی کے خاتمہ کے وعدے کرچکے تھے۔ دوسری طرف عملاً صورتحال یہ تھی کہ لال مسجد کے قریب ہی شمیم نامی عورت فحاشی کااڈہ چلارہی تھی۔ غازی برادران نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے اسلام آباد انتظامیہ کوفحاشی کے خاتمہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات اوروعدوں کی طرف توجہ دلائی مگر انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی توجامعہ کی طالبات نے سرکاری گاڑیوں میں شمیم کے اڈہ پرحملہ کرکے نائیکہ اور اس کے ساتھ کام کرنے والی دیگرچندلڑکیوں کواغواکرلیا۔ اس کے بعدانہی طالبات نے سرکاری گاڑیوں میں چینی مساج سینٹر پرحملہ کیا۔ اس وقت مساج سنٹرمیں اسلام آباد کی بعض اہم حکومت نواز شخصیات کے فرزندان موجودتھے۔اہم شخصیات کے فرزندوں کی وہاں موجودگی یقینا انتظامیہ اور بعض دیگرحلقوں کے لئے خفت اور نئی پریشانی کاسبب بن سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کسی جارحانہ اقدام کی بجائے دفاعی انداز اختیار کیا اور ایک دفعہ پھر اسلام آباد انتظامیہ نے لال مسجدوالوں کو فحاشی کے خاتمہ کی تحریری یقین دہانی کروائی جس پرطالبات نے مغویوں کو رہا کردیا۔

س: شمیم کے اڈے اور چینی مساج سنٹرپرحملہ کیا‘ یہ درست قدم تھا؟

ج: میں نہیں کہتا کہ جامعہ حفصہ کی طالبات کا یہ اقدام درست تھا۔ یہی بات میں حکومتی زعماء سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ طالبات کا دونوں اڈوں پرحملہ کرنا درست تھایاغلط ، حکومت کی طرف سے اس کاجواب یقینا یہی ہوگا کہ طالبات کا یہ اقدام غیرآئینی تھا۔ پھراگلا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس غیرآئینی اقدام کا اسی وقت نوٹس کیوں نہ لیا۔ حکومت کوچاہئے تھا کہ اغوا میں ملوث طلبہ تھے یاطالبات‘ ان کے خلاف اسی وقت کاروائی کی جاتی مگرہوا یہ کہ حکومت نے کارروائی کرنے کی بجائے الٹا معذرت کی۔ نائیکہ شمیم اور چینی مساج سنٹرپرحملہ کوئی قتل عام کی واردات نہ تھی۔ یہ صرف حملہ کرنے اور یرغمال بنانے کی واردات تھی ۔اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا جیل تھی۔ یہ سزا نہیں تھی جوحکومت نے جامعہ حفصہ کے انہدام اور سینکڑوں طلبہ وطالبات کی موت کی صورت میں دی ہے۔

( جاری ہے )

ماھنامہ ” الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
سابق وفاقی وزیر جاوید ابراھیم پراچہ کا انٹرویو ( 2 )

( دوسرا حصہ )

س: جامعہ فریدیہ کے طلباء نے پولیس اہلکاروں پرحملہ کرکے ان سے اسلحہ چھینا ‘اس واقعہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: میں آپ سے ہی پوچھتاہوں کیا طلباء کے لئے پولیس سے اسلحہ چھیننا ممکن تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ حکومت کا تیار کردہ اپنا ڈرامہ تھا۔ حکومت ابتدا ہی سے اس معاملہ کوحل کرنے میں سنجیدہ اور مخلص نہ تھی۔ بلکہ حکومتی اہلکاروں نے ہرموڑ پر اس معاملے کوبگاڑنے کی پوری کوشش کی ہے۔پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کی واردات بھی ایسی ہی تھی۔ میری معلومات کے مطابق طلباءکے روپ میں ایجنسیوں کے اہلکار تھے جنہوں نے پولیس والوں سے اسلحہ چھینا۔ پولیس اہلکاروں کومسجد ومدرسہ کے درمیان کھڑا کرکے ان کے گرد مسلح لوگوں کا گھیراؤ کھاکر میڈیا کے ذریعے دنیاکوباور کروایا کہ مسجد میں دہشت گرد موجود ہیں۔ اس واردات پرمولانا عبدالرشیدغازی نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ حملہ آوروں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
یہی وہ موقعہ تھا جب مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے جنرل (ر)ممتازقادیانی کے بیٹے انجینئرثاقب ممتاز جوقادیانیت سے تائب ہوچکاہے‘اب تبلیغی جماعت سے منسلک اور پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی میں پروفیسررہاہے‘ نے جامعہ حفصہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ لندن میں میرے قادیانی والد کی سربراہی میں مساجد ومدارس کوتباہ کرنے‘ ان کوآپس میں لڑانے اور مسلکی اختلافات کوہوادینے کامنصوبہ بناہے۔ منصوبے میں یہ بھی طے ہواہے کہ دنیامیں پاکستان کاامیج دہشت گردملک کے طورپر پیش کیاجائے۔انجینئرثاقب کاکہناتھاکہ اس مذموم منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کے لئے یہودیوں نے کروڑوں ڈالر کا سرمایہ مختص کردیاہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی بتاتاچلوں کہ C.D.A میں تین ڈائریکٹر قادیانی ہیں۔یہ قادیانی ڈائریکٹرز ہی ہیں جنہوں نے مسجدامیرحمزہ کے حوالے سے ملک کی اہم شخصیت کوحملوں کا خوف دلایا۔ پھرمسجدوں کوگرانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ اسلام آباد میں مجھے بعض وفاقی وزراءاور اہم ذمہ داران نے بتایا کہ معاہدوں کوسبوتاژکرنے میں اسی گروہ کاہاتھ ہے۔ تحریری معاہدے کے باوجود8.F میں مسجد گرادی گئی ۔ اس مسجد کوگرانے میں بھی قادیانی ڈائریکٹرز کا ہاتھ تھا۔ اس سے پہلے میں پولیس اہلکاروں سے رائفلیں چھیننے کے واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں۔ اس ڈرامے کے بھی بہت سے مقاصد تھے۔ ایک مقصد تھا‘ دنیا کواپنی نیک نامی اور لال مسجد والوں کی زور آوری باورکروانا‘ دوسرا مقصد یہ تھا کہ اب لال مسجد میں آپریشن ضروری ہوچکا ہے اور یہ کہ یہ آپریشن پولیس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے رینجرز ‘فوج اور دیگرسپیشل دستوں کاہونا ضروری ہے۔ یہاں سے مسلح تصادم کی سازش کا آغاز ہوا اور مسجد کورینجرز نے گھیرے میں لے لیا۔ مسجد کے راستے بند کردئیے گئے لیکن ساتھ ہی یہ بات دہرائی جاتی رہی کہ خواتین کے تقدس کی وجہ سے آپریشن نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم اور چودھری شجاعت کہتے رہے ‘یہ مسئلہ صبروتحمل سے حل کیاجائے گا۔ گویاایک طرف آپریشن کی تیاریاں تھیں ‘ دوسری طرف دلاسے تھے اور تیسری طرف معاہدوں سے انحراف۔ حکومت کی یہ سہ رخی پالیسی دیکھ کر مجھ سمیت وفاق کے علماء مصالحتی سلسلہ سے الگ ہوگئے۔

س: مولاناعبدالرشیدغازی شہید کی فدائی حملوں کی دھمکیاں ریکارڈ پرہیں۔ کیااس کایہ مطلب نہیں کہ لال مسجد کےاندرخودکش حملہ آور موجودتھے اور یہ کہ لال مسجد والوں کے رابطے اس قسم کے لوگوں سے تھے؟

ج: جہاں تک لال مسجد میں خودکش حملہ آوروں کی موجودگی کاتعلق ہے ‘دنیادیکھ چکی ہے کہ اس میں کوئی حقیقت نہ تھی اورنہ ہی لال مسجدوالوں کے بیرون مسجدخودکش حملہ آوروں سے کوئی رابطے تھے۔ اگرایسی بات ہوتی تودوران آپریشن اس قسم کاکوئی ردعمل سامنے آناچاہئے تھا۔ جہاں تک وزیرستان اورمیرا نشاہ میں ہونے والی کارروائیوں کاتعلق ہے ‘یہ تو افغانستان پر امریکی حملہ اوراس پرپاکستانی تعاون کاردعمل ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حکومت نے جس بے رحمی کے ساتھ مسجد اور مدرسہ میں آپریشن کیاہے ‘اس کے ردعمل میں کہیں کہیں انفرادی طورپر خودکش حملے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ میں طلباءوطالبات کی ایک بڑی تعداد کاتعلق ان علاقوں سے تھا۔ مثلاً ھنگو میں بم دھماکہ ایک ایسے شخص نے کیا جس کی تین بچیاں جامعہ حفصہ میں زیرتعلیم تھیں اور اب تینوں ہی لاپتہ ہیں۔ چنانچہ یہ شخص D.S.P کی وردی میں پولیس لائن پہنچااور خودکودھماکہ سے اڑالیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اِکادُکا واقعات انفرادی سطح کے تھے۔اگرلال مسجد والوں کے حقیقتاً خودکش حملہ آوروں سے تعلقات ہوتے توپھر وہ خودکش حملہ آورطلبہ وطالبات کے جل جانے اور بھسم ہوجانے کا ہرگز انتظارنہ کرتے۔ فدائی حملوں کی دھمکی شاید جنگی حکمت عملی تھی جوبدقسمتی سے موثر ومفید ثابت نہ ہوسکی۔

س: مولانا عبدالعزیز کی برقعہ میں گرفتاری‘ یہ لال مسجد والوں کی حکمت عملی تھی یا کوئی دوسری وجہ ؟

ج: میں پہلے کہہ چکاہوں کہ جامعہ حفصہ میں اعلیٰ فوجی افسران کی بچیاں بھی زیرتعلیم تھیں۔ ایک ایسے ہی جرنل کی بچی جو جامعہ حفصہ میں پڑھ رہی تھی‘ اس کے ذریعے مولاناعبدالعزیز کو پیغام بھیجاگیا کہ نفاذ اسلام کی تحریک کااب جلد ہی فیصلہ کن موڑ آنے والاہے‘ لہٰذا تحریک کوبچانے اور چلانے کے لئے آپ کا باہر ہوناضروری ہے۔ آپ مسجد سے باہرآجائیں اور آپ کو محفوظ راستہ دیناہماراکام ہے۔ مولاناعبدالعزیز اس پیغام پر باہر پہنچے ۔ میری معلومات کے مطابق باہر آنے پران کوحراست میں لے لیاگیا اور پھرزبردستی برقعہ پہناکر تصویریں بنائی گئیں۔ بہرکیف حکومتی اہلکاروں کی پلاننگ کا جونتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔

( جاوید ابراھیم پراچہ کا انٹرویو مکمل ہوچکا ہے )

ماھنامہ ” الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
مولانا زاھد الراشدی سے گفتگو !

ابوعمارمولانازاہدالراشدی​

س: آپ مذاکراتی ٹیم کاحصہ رہے ہیں۔ یہ بتائیں کہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟

ج: مذاکرات کاسلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جامعہ حفصہ کی طالبات نے چلڈرن لائبریری پرقبضہ کرلیا۔ لائبریری کاقبضہ چھوڑنے کے لئے طالبات نے جو مطالبات پیش کئے‘ سب ان سے آگاہ ہیں۔اس لئے میں ان کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ معاملہ چونکہ دینی مدرسہ کاتھا۔ اس لئے وفاق المدارس العربیہ کی ہائی کمان سے رجوع کیاگیا کہ وہ اس قضیہ کو نمٹانے کے لئے اپناکردارادا کرے۔ چنانچہ وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان‘ مولانا مفتی تقی عثمانی‘ مولاناڈاکٹر عبدالرزاق سکندر‘ مولاناحسن جان‘ مولانا قاری حنیف جالندھری اور دیگر سرکردہ علماءاسلام آباد تشریف لائے اور حکومت کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات کرکے گرائی جانے والی مساجد کی فوری تعمیر کا مطالبہ کیا۔اس کے ساتھ مولاناعبدالعزیز اور مولاناعبدالرشید غازی سے بھی کہا کہ سرکاری عمارت پرقبضہ کرنے‘ قانون کو ہاتھ میں لینے اورحکومت کے ساتھ تصادم پیدا کرنے کی پالیسی سے وفاق المدارس کی قیادت کواتفاق نہیں ہے اور ملک بھرکے اکابر علماءکرام اس طریق کار کوغلط سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ لائبریری کا قبضہ چھوڑدیں اور اپنے مطالبات کے لئے قانونی طریق کار اختیار کریں مگردونوں بھائیوں نے یہ بات قبول نہ کی اور اپنے طریق کارپربرقراررہنے کااعلان کیا۔ جس پروفاق کی ہائی کمان نے وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کاالحاق ختم کرنے کااعلان کردیا۔ اس کے چند روز بعد وفاق کی مجلس عاملہ نے ایک باضابطہ اجلاس میں اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ جامعہ حفصہ اورلال مسجد انتظامیہ کے مطالبات درست مگر طریق کارغلط ہے اس لئے اب دونوں اداروں کا وفاق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کے بعد تنازع میں شدت پیداہوئی‘سکیورٹی فورسز نے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کوگھیرے میں لے لیا ۔ دونوں طرف سے فائرنگ اور مسلح تصادم کے واقعات میں اضافہ ہوا تو مزید خونریزی کوروکنے کے لئے وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان نے پیش رفت کافیصلہ کیا۔ چنانچہ مولانا سلیم اللہ خان‘مولانامحمدرفیع عثمانی‘ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر‘ مولانا ڈاکٹرمحمدعادل‘مولاناحنیف جالندھری اسلام آباد پہنچے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے مجھے اسلام آباد پہنچنے کاحکم دیا۔اسلام آباد پہنچنے کاہمارابنیادی مقصد مذاکرات کے سلسلہ کوبحال کرنا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے چودھری شجاعت حسین سے رابطہ کیا۔ ان کی رہائش گاہ پرپہنچے تووہاں وفاقی وزراء‘انجینئرامیرمقام‘ نصیر خان اوردیگربھی موجودتھے۔ ہمارے وفد کے متکلم مولانا مفتی رفیع عثمانی تھے۔انہوں نے وفاق المدارس سے وابستہ ہزاروں مدارس کی ترجمانی کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کوبتایا کہ اس سے پہلے مولاناعبدالعزیز اورمولانا عبدالرشید ایک غلط طریق کارپر بے جااڑے ہوئے تھے اورحکومت نے صبروتحمل کاراستہ اختیارکرکے بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کیالیکن اب حکومت نے طاقت استعمال کرکے اورمذاکرات کا راستہ بند کرکے جو رویہ اختیارکیا ہے‘ ہمارے نزدیک وہ بھی غلط ہے۔ لہٰذا آپریشن بند ‘ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے ‘ مسجد سے لاشیں اٹھانے‘ زخمیوں کوہسپتالوں میں منتقل کرنے‘مسجد ومدرسہ میں موجود طلباء وطالبات کوخوراک فراہم کرنے اور پانی کا کنکشن بحال کرنے کا اعلان کیاجائے۔ ہم نے چودھری شجاعت حسین کو بتایا کہ عبدالرشیدغازی چندشرائط پرہتھیارڈالنے کے لئے تیار ہیں اور وہ یہ ہیں:

٭.... مولاناعبدالرشیدغازی کوان کے خاندان اور ذاتی سامان سمیت ان کے آبائی گاؤں (روجھان‘ڈیرہ غازیخان) میں منتقل کردیاجائے اور ان کو گرفتار یا نظربند نہ کیا جائے۔

٭.... جامعہ حفصہ اورلال مسجدمیں مقیم طلباءوطالبات اور دیگر افرادمیں سے کسی کولال مسجد اورجامعہ حفصہ کے تنازعہ کے حوالے سے گرفتارنہ کیاجائے۔ البتہ ان میں سے کوئی فرد لال مسجد کے تنازع سے پہلے کے کسی کیس میں مطلوب ہے تواس کی گرفتاری پرکوئی اعتراض نہیں۔

٭.... وہ (عبدالرشید غازی) لال مسجد‘جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ تینوں سے دست بردارہونے کے لئے تیارہیں بشرطیکہ دونوں جامعات کاانتظام وفاق کے مشورے سے کیاجائے۔

واضح رہے کہ چودھری شجاعت حسین سے ہماری یہ ملاقات 8 جولائی کوہوئی ۔حکومت اس سے پہلے لال مسجد میں موجود افراد کے لئے عام معافی کااعلان کرچکی تھی۔ اس لئے ہم نے چودھری شجاعت حسین سے کہا کہ حکومت اگرعام معافی کے اعلان میں مخلص ہے توپھرمولاناعبدالرشید غازی کی شرائط کوعملی شکل کے طورپرقبول کرلے۔ مولانا قاری حنیف جالندھری نے اس بات کاحوالہ دیا کہ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دورمیں کابل ائیرپورٹ پرکھڑے پی آئی اے کے اغوا شدہ جہاز میں موجود 125مسافروں کی جانیں بچانے کے لئے پاکستان کی مختلف جیلوں سے تین سو کے لگ بھگ مجرموں کورہاکردیاگیاتھا۔

چودھری شجاعت حسین سے یہ گفتگوکرکے ہم اپنی قیام گاہ پرواپس آگئے اور ان سے یہ بھی عرض کی کہ ہم جواب کے منتظرہیں۔ مغرب کے بعد وفاقی وزیر مذہبی اموراعجازالحق ہماری قیام گاہ پر پہنچے توانہوں نے بتایا کہ چودھری شجاعت حسین سے ہماری ملاقات کی تفصیل شوکت عزیزاور پرویزمشرف تک پہنچ چکی ہے۔ 9جولائی کوڈھائی بجے وزیراعظم شوکت عزیز سے ہماری ملاقات ہوئی جس میں ہماری طرف سے مجھ سمیت 9علماء تھے اور وزیراعظم کے ہمراہ چودھری شجاعت حسین‘ اعجاز الحق‘ محمدعلی درانی‘طارق عظیم اور دیگر افرادتھے۔ خوشی کی بات یہ ہوئی کہ جن نکات پر چودھری شجاعت حسین کے ساتھ اتفاق ہوچکا تھا ‘ تھوڑی بہت وضاحت کے ساتھ وزیراعظم نے بھی ان نکات پراتفاق کرلیا۔
اس کے بعد علماء نے لال مسجد میں جانے کی بات کی۔ پہلے تووزیراعظم نے یہ کہہ کراجازت دینے سے انکار کردیا کہ ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے مگربعد میں اجازت دے دی گئی۔ اس دوران فون پرغازی عبدالرشید سے ہمارا رابطہ بھی ہوگیا انہوں نے کہاکہ وہ ”لال مسجد میں چودھری شجاعت حسین اور علماءکاخیرمقدم کریں گے۔“ اس سارے پروگرام کی تفصیلات بھی طے ہوگئیں کہ ہم کون سے راستے سے جائیں گے۔ گاڑیاں کہاں کھڑی ہوں گی اور ہم کس دروازے سے اندرداخل ہوں گے۔ جب علماءکا وفد چودھری شجاعت حسین‘ اعجاز الحق‘ طارق عظیم‘ محمدعلی درانی اور عبدالستار ایدھی کی معیت میں پونے چھ بجے وہاں پہنچا تو وہاں پرموجود فورسز نے ہمیں لال مسجد میں جانے سے روک دیا اورکہا کہ آپ حضرات میں سے کسی کواندر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ٹاکنگ پوائنٹ پرگاڑی کے اندرلاؤڈ سپیکر نصب تھا‘ وہاں پرموجود فوجی حکام نے کہا کہ ہم لاؤڈ سپیکرپرلال مسجد کے اندر موجود افراد کوہتھیار ڈالنے کا کہیں ۔ ظاہر بات ہے ہم اس کام کے لئے نہیں بلکہ مذاکرات اور افہام وتفہیم کی فضا پیدا کرنے کے لئے گئے تھے۔اس لئے ہم نے انکارکردیا۔ ہمارا موقف تھا کہ اگر ہمیں اندرجانے کی اجازت ہے توہم براہ راست مسجد میں جاکر مولانا عبدالرشیدغازی سے بات چیت کریں گے اگر ایسا نہیں تو پھرفون پرہی رابطہ کافی ہے۔ اس دوران قریب ہی ایک خالی مکان میں ہمارے بیٹھنے کاانتظام کیا گیا اور ہم چودھری شجاعت حسین کے ساتھ اس مفاہمت کی تفصیلات طے کرنے بیٹھ گئے جووزیراعظم کے ساتھ دوران ملاقات طے پاگئی تھیں۔ اس رات لال مسجد کے حوالے سے 4 تحریریں لکھی گئی تھیں۔ پہلی تحریر تمہید تھی۔ دوسری تحریر طارق عظیم نے لکھی ‘ اس تحریرکوحتمی اورفارمولے کی شکل میں نے دی۔ جب اس پر ہم اتفاق کرچکے توہمیں بتایا گیا کہ یہ تحریر چودھری شجاعت حسین ‘ ایوان صدر لے کرجائیں گے اور وہاں سے اسے حتمی منظوری حاصل ہوگی۔ ہم یہ تحریر مولاناعبدالرشید غازی کوفون پر پڑھ کر سناچکے تھے اور انہوں نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین کی ایوان صدرسے آمد پرجب تاخیرہوئی تو ہمیں تشویش لاحق ہوگئی۔ چودھری شجاعت حسین کافی تاخیر سے واپس آئے توان کے ہاتھ میں ایک چوتھی تحریر تھی جو ایوان صدر سے لکھ کرلائی گئی تھی۔ اس تحریرمیں پہلی تحریر کے تینوں نکات غائب تھے۔

٭.... مولاناغازی عبدالرشید کے لئے لکھاگیاتھاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

٭.... لال مسجد میں موجودطلباءوطالبات کوگرفتارنہ کرنے کی بات بھی حذف کردی گئی تھی۔

٭.... جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کووفاق کی تحویل میں دینے کی بات بھی موجودنہ تھی۔

چودھری شجاعت حسین اوران کے ساتھیوں نے ایوان صدر سے لائی جانے والی تحریرہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا یہ آخری اورحتمی فیصلہ ہے ‘اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا جواب ہاں یا نہ میں دیں۔ وہ بھی صرف آدھے گھنٹے میں۔ جب یہ تحریر فون پرمولاناغازی عبدالرشیدکو پڑھ کر سنائی گئی تو انہوں نے کہا‘میرے لئے پہلی تحریر قابل قبول ہے ۔ دوسری نہیں۔ مولاناغازی عبدالرشید نے ہمیں کہا‘ آپ دوسری تحریر کو تبدیل کرانے کی کوشش کریں ‘ہم نے کہاہمارے لئے ایسا ممکن نہیں ہے تووہ کہنے لگے”ٹھیک ہے پھرآپ ان سے کہیں ہمارا قتل عام کریں۔“ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت میرے حواس قابو میں نہیں تھے۔ میں نے فون مولانافضل الرحمن خلیل کے ہاتھ میں دے دیا۔اس کے بعدمذاکرات کاحصہ دار بننا ہمارے لئے ممکن نہ تھا اس لئے ہم نے آپس میں مشورہ کیا اوروہاں سے چلے آئے۔

ماھنامہ ” الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
مولانا فضل الرحما ن خلیل کا انٹرویو !

مولانافضل الرحمن خلیل​

حرکت المجاہدین کے امیرمولانا فضل الرحمن خلیل نے سانحہ لال مسجد کے بارے میں مجلہ الدعوة سے گفتگوکرتے ہوئے کہا: میں مولاناعبدالعزیزاورمولانا عبدالرشیدغازی سے اکثر کہتا‘ آپ کی باتیں سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں مگر آپ کا طریقہ کاردرست نہیں ۔ بلکہ ایک دفعہ توطریقہ کار پر مولانا عبدالرشید کے ساتھ مناظرہ کی نوبت بھی آگئی۔ بہرکیف 3 سے10جولائی کے دوران لال مسجد اورجامعہ حفصہ میں جو کچھ ہوا وہ ایک افسوسناک المیہ ہے مجھے اس کا یہی انجام نظر آرہا تھا۔

آپریشن شروع ہونے کے بعد ایک دن مجھے مولانا عبدالرشید غازی کا فون آیا۔ وہ کہنے لگے” آپ مجھے ایسے علماء کی فہرست دیں جوہرلحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔ یہ علماء لال مسجد کے متعلق جوفیصلہ بھی کردیں‘وہ ہمیں قبول ہوگا۔“ اس وقت لال مسجد کا معاملہ گھمبیرصورت اختیار کرچکا تھا۔ اس لئے میں نے ان سے کہا‘”بہترہے آپ خودہی علماءکا انتخاب کر لیں۔“ انہوں نے درج ذیل سات علماءکا انتخاب کیا۔ مولانا سلیم اللہ خان‘ مولانا رفیع عثمانی‘ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر‘مولانا زاہدالراشدی ‘قاری حنیف جالندھری‘قاری سعیدالرحمن اور ساتواں نام میراتھا۔“

مولاناغازی عبدالرشید نے مجھے کہا ”آپ کا مذاکرات میں شامل رہنا ضروری ہے۔“ میں نے کہا میری کچھ مجبوریاں ہیں ‘اس لئے میں سامنے نہیں آسکتا۔“ بہرکیف علماءکا وفد وزیراعظم سے ملاقات کے لئے اسلام آباد پہنچااور سرینہ ہوٹل میں ٹھہرا۔ 10جولائی کادن تھا ۔ مغرب کے قریب مجھے چودھری شجاعت حسین کا پھرفون آیا وہ کہنے لگے”خلیل صاحب! بہترہوگا کہ آپ بھی آجائیں۔“ پھرمولانا رفیع عثمانی ‘مولانا قاری حنیف جالندھری کافون آیا۔اس کے تھوڑی دیر بعد چودھری شجاعت حسین کافون آیا کہ ”مولاناعبدالرشیدغازی سے ہمارا رابطہ نہیں ہورہا‘ تاخیرہورہی ہے لہٰذاآپ جلدی آجائیں۔“ میں ٹاکنگ پوائنٹ پرچلاگیا۔ وہاں حکومتی وفد اورعلماء نے باہمی مشورہ سے ایک ڈرافٹ تیارکیا جومیں نے اپنے موبائل سے مولانا غازی عبدالرشیدکو پڑھ کرسنایا۔

س: جب رات ڈھائی بجے علماءکا وفد مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے مایوس ہوکرچلاگیا تواس کے بعدغازی صاحب سے رابطے کاذریعہ صرف آپ رہ گئے تھے۔یہ فرمائیں کہ اس دوران کیا واقعات پیش آئے؟


ج: میں اسی طرف آرہا ہوں۔ مولاناعبدالرشید غازی یہ تو چاہتے تھے کہ ان کونظربند یا گرفتارنہ کیا جائے لیکن وہ کسی قسم کی تفتیش یا مقدمات سے ہرگزخوفزدہ نہ تھے۔ انہوں نے مجھے کہا میں تمام کیسوں کاسامنا کروں گا‘ بس یہ ہے کہ مجھے گرفتار نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علماءکا وفد ڈھائی بجے نہیں بلکہ رات ایک بجے چلاگیا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ میری رائے کے مطابق علماء کو ہرگز وہاں سے نہیں جاناچاہئے تھا۔ اگر علماءوہاں موجود رہتے توشاید بہتری کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی۔ ایک اوراہم بات جب حکومتی وفد مفاہمت کے لئے تیار کردہ مشترکہ ڈرافٹ لے کرایوان صدر چلاگیا تواس وقت ہمیں یقین ہوچلا تھا کہ اب معاملہ درست ہوگیا ہے۔ یہ یقین تینوں فریقوں کوہوچکا تھا یعنی حکومتی وفد جس کی قیادت چودھری شجاعت حسین کررہے تھے‘علماء کا وفد اورمولانا عبدالرشیدغازی۔ حکومتی وفد کے ایوان صدر جانے کے بعد مولانا عبدالرشید غازی کی میرے ساتھ ہلکی ہلکی اور خوشگوار باتیں بھی ہوئیں۔ فون پر مجھے کہنے لگے ”یار!کافی دن ہوچکے ہیں۔ کوئی اچھا کھانا نہیں کھایا۔ چاولوں کے پیکٹ ہمیں بھجوادو۔ میں نے پوچھا‘ کتنے پیکٹ کافی ہوں گے‘ ہنس کرکہنے لگے‘ 500 بھجوادو۔ ہم گزارا کرلیں گے۔“ پھرکہنے لگے” چاول پہنچنے میں کچھ دیرہوگی۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔ گلا بھی خراب ہے‘ دل چاہتا ہے کہ آدھا گھنٹہ نیند کرلوں۔“ مولانا فضل الرحمن خلیل جب یہ باتیں بتارہے تھے توان کا اپنا گلا رندھ گیا‘ آنکھوں میں نمی آگئی اور لرزیدہ آواز میں کہنے لگے”مجھے کیامعلوم تھاکہ میرادوست تھوڑی دیربعد ہمیشہ کی نیند سونے والا ہے۔ایسی نیند کہ جس سے صرف اسے قیامت کاشورہی بیدار کرے گا۔“

اس سے پہلے ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا۔ وہ یہ کہ مولانا عبدالرشید غازی چاہتے تھے کہ علماءمسجد کے اندر تشریف لے آئیں ‘تاکہ کھل کر اورآزادانہ ماحول میں بات چیت ہوسکے مگرعلماء نے اندر جانے سے انکار کردیا۔ بعض حلقوں کی وجہ سے علماءکا خیال تھا اگرہم اندرگئے تویرغمال بنالئے جائیں گے ۔علاوہ ازیں موقعہ پرموجود حکام نے بھی علماءسے کہا‘آپ کااندرجانا خطرے سے خالی نہیں ۔اندرآپ کی جان کوخطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔علماءنے مجھے کہا‘تم اکیلے چلے جاؤ ۔ جب میں نے غازی صاحب کوفون پر یہ بات بتائی تووہ کہنے لگے”خلیل بھائی! تمہارے اکیلے آنے کاکیافائدہ ؟ یہ تومذاکرات ہیں اور علماءکا پورا وفد موجودہوتو پھربہترہوگا۔ پھریہ کہ میں مولانا عبدالرشید غازی کا نمائندہ تھا۔اصل بات توعلماءکی تھی۔ بہرحال علماء میں سے کوئی بھی اندر جانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ اس کے بعد وہ لمحہ آیا جب علماء واپس چلے گئے۔

علماءکے جانے کے بعد میرا غازی صاحب سے رابطہ قائم رہا۔ غازی صاحب مجھے کہتے”خلیل بھائی! میں چاہتاہوں کہ مذاکرات کامیاب رہیں۔ خیرسگالی کے طورپر میں حکومتی وفدکے کہنے پراپنے دوآدمی باہر بھیجتا ہوں تاکہ حکومت کویقین ہوجائے کہ میں مذاکرات میں سنجیدہ اور مخلص ہوں مگرموقعہ پرموجود آپریشن انچارج نے اس بات کورد کردیا۔ اس کے بعدغازی صاحب سے دوبارہ رابطہ ہوا تووہ کہنے لگے‘ میں اپنے 15قابل اعتماد ساتھی باہربھیجتا ہوں۔ غازی صاحب کی یہ بات میں چودھری شجاعت حسین کوبتانے کے لئے تیزی سے مذاکرات روم کی طرف بڑھا توآپریشن انچارج نے کہا‘ ٹائم ختم ہوچکا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ آپریشن کا ٹائم اوردن پہلے ہی مقررہوچکاتھا۔ حکام نے اس مقررہ وقت اور دن میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ حالانکہ اگرحکومت چاہتی تویہ مسئلہ آپریشن کے بغیر بھی حل ہوسکتا تھا۔خیرمیں بات کررہا تھا غازی صاحب کی پیشکش کی جوانہوں نے 15آدمیوں کو باہر بھجوانے کی صورت میں کی تھی۔ اس دوران چودھری شجاعت حسین مذاکرات روم میں پریس کانفرنس کے لئے جاچکے تھے۔ میں تیزی سے مذاکرات روم کی طرف بڑھا تاکہ چودھری شجاعت حسین کی پریس کانفرنس رکواسکوں۔جب میں مذاکرات روم میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ چودھری شجاعت مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر چکے ہیں۔ اِدھرغازی صاحب کا موبائل بند ہوگیا اوراس کے ساتھ ہی آپریشن شروع ہوگیا۔ اس کے بعدغازی صاحب سے میرا رابطہ منقطع ہوگیا۔ جب آپریشن شروع ہوا تو مختصروقت میں ڈیڑھ سو کے قریب دھماکے ہوئے۔ یہ سب گرنیڈوں کے دھماکے تھے۔ دل دکھی‘ افسردہ اور پریشان تھا مگرہم بے بس تھے۔ تاہم میراخیال تھا کہ آپریشن میں چھوٹے موٹے ہتھیار استعمال کئے جائیں گے اور انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوگا۔ دل میں ابھی تک ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید کوئی بہتری کی صورت پیدا ہوجائے۔ چودھری شجاعت اور میں نماز پڑھ کر آرام کے لئے لیٹ گئے۔ 8:40 پر میرے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف غازی صاحب تھے۔ غازی صاحب بتارہے تھے ”میری والدہ کوگولی لگی ہے‘وہ زخمی ہوچکی ہیں‘ان کا سر میری گود میں ہے۔“ یہ بات سن کر میرا دل دہل گیا‘ میں نے کہا”غازی بھائی! پریشان نہیں ہونا ہم آپریشن رکوانے کی ایک اورکوشش کرتے ہیں۔“ عبدالرشیدغازی کہنے لگے”اب کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ کے بعد والدہ میرا سب سے بڑا سہارا تھیں‘ وہ آخری دموں پرہیں‘انہیں گولی لگ چکی ہے‘مجھے بھی گولی لگی ہے‘ میرے سامنے لاشوں کاڈھیر ہے اور آپریشن کا 70 فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہے۔“ عبدالرشید غازی کے آخری الفاظ تھے” خلیل بھائی! گواہ رہنا‘ میں نے ہرمعاملے میں تعاون کیا مگر میری کوئی بات نہیں مانی گئی۔ میں بار بار کہتارہا کہ علماءمیرے پاس آجائیں لیکن میرے پاس کوئی نہیں آیا۔“ اس کے ساتھ ہچکی لگی اور میرے بھائی ‘میرے دوست کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔

س: کہاجاتا ہے کہ مسجد کے اندرغازی صاحب اپنے بعض ساتھیوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے تھے نیز مسجد میں غیر ملکی بھی تھے؟

ج: دونوں ہی باتیں درست نہیں ۔ نہ توغازی صاحب کے ساتھیوں نے کسی کویرغمال بنایا اورنہ کسی دوسرے کے ہاتھوں عبدالرشید غازی یرغمال بنے۔ اس کاثبوت آخروقت تک مسجد اور جامعہ کے اندر سے بچوں اور بچیوں کی آمد ہے۔ دوسرا ثبوت عبدالرشید غازی صاحب کی یہ پیشکش کہ ”میں اپنے 20,15 ساتھی خیرسگالی کے طورپر باہر بھیجنے کے لئے تیارہوں۔ یہ پیشکش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے۔ اسی طرح انہوں نے غیرملکیوں کومحفوظ راستہ دینے کی بھی کوئی بات نہیں کی تھی۔

س: آپ کے خیال میں مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری کس پرعائد ہوتی ہے؟


ج: کچھ نادیدہ طاقتیں تھیں جوہرموڑ پر مذاکرات کوناکام بناتی رہی ہیں۔

س: اگرعبدالرشید غازی حکومتی شرائط پر خود کوحکومت کے حوالے کردیتے توکیا آپریشن سے بچاجاسکتا تھا؟

ج: میراخیال ہے کہ آپریشن کاحتمی فیصلہ ہوچکاتھا۔ اگر عبدالرشید غازی خودکوحوالے کردیتے پھربھی یہ آپریشن ہوکر رہتا۔

ماھنامہ ” الدعوہ
 

سید ابرار

محفلین
۔ مگر اب یہ کہ ہم ایسے واقعوں کے سدِ باب کے لیئے کوئی لائحہِ عمل اختیار کریں کہ اب ہم نے ان معصوم طلباء و طالبات کی لاشوں پر سیاست شروع کردی ہے ۔ اس قسم کی پوسٹ کے آخر کچھ اغراض و مقاصد تو ہونے چاہئیں ۔ اگر ہیں تو آپ اس کی وضاحت کریں ۔
۔

جھاں تک لائحہ عمل کی بات ہے تو میرے خیال میں اس میں دو رائے نھیں ہے کہ لال مسجد قتل عام کے ذمہ دار پرویز مشرف کو جھنم رسید کرنا چاہئے ، واضح رہے کہ پرویز مشرف کے لئے پاکستان کی قیادت سے محرومی ، موت سے کم نھیں ہے !!!
 
ابرار حسن صاحب اپ کے اندر کا اصلی " برار ہاسن ھندو " اب تو واضح طور پر سامنے آرہا ہے اور آپ کے مذموم ارادے بھی۔ آپ پاکستانیوں‌ میں انتشار پھیلانے میں مشغول ہیں۔ اور اس ڈسکشن فورم کو اپنے اشتہارات کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ آپ کو اس کام کی تنخواہ کتنی ملتی ہے؟
 

زینب

محفلین
غاذی برادران کو اتنے بے گناہ بھی نہیں آپ اک مجرم کو ہیرو کیوں بنانے پے تلے ھیںِِ؟؟

آپ مشرف کو بھی چھوڑ دیں حکومت کو بھی ان طلبعلموں کی بات کریں ذرہ جن کے والدین نے اپنے بچے اما نتً ان کے پاس چھوڑے ھوے تھے پہلے دن جو ہتھیار ان طلبعلموں کے پاس دیکھے وہ جھوٹ نہیں تھے کس جہاد کی بات کر رھے تھے غازی مر حوم؟اسلام میں واضع الفا ظ میں بتایا گیا ہے کی جہاد صرف حکومتِ وقت کے کہنے ے ہی کیا جا سکتا ھے اور وہ پاکستانی معا شرہ بدلنا چاھتے تھے نا اسلام لانا چاہتے تھے تو پہلے خہو کی ذندگی میں لاتے وہ بچے جو وہاں علم حاصل کرنے گئے تھے انہیں صحیح تعلم دیتے اسلام کی ان کو ایسا اچھا مسلمان بناتے کے وہ جہاں جاتے/رہتے آس پاس کے لوگ
ان کے ترز ذندگی سے متاثر وکے ان جسے بنے کی کوشش کرتے لوگوں کی جوان بیٹیوں کو ڈنڈے پکرا کر غیر مردوں سے لڑنے سڑک پے بھجنا کون سا اسلام ھے؟

لوگوں کوان کے گھروں سے اٹھا لانا بےشک وہ گناہ ار ہی کیوں نہ ھوں کس نے حق دیا انہیں۔۔۔۔؟کس قانون کے طہط ام حسان مڈل پاس پرنسپل بنی بیٹھی تھی؟ بے شک میڈیا جو کے براےراست دیکھا رہا تھا جھوٹ ھو سکتا ھے حکومت بھی جھوٹ کہتی ہے مگر


اگر مدرسے میں دہشتگرد نہیں تھے تو غازی کو خود کو حکو مت کے حوالے کرنے میں کاتھا؟بر قعے میں بھاگنے کا کیا جواز؟
سرِ عام اعلان کیے گیے خودکوش حملہ آور تیار ہیں وغیرہ وغیرہ


اصل میں وہ اسلام کی سر بلندی کے لیے نہیں بلکے بدنامی کا باعث بنے جو ان کا اور ان کے پیچھے ھاتھوں کا مقصد تھا۔۔۔اسلام نے کہیں جوان بیٹیوں کو سڑکوں بے دندنانے کی اجازت نہیں دی۔۔۔۔۔۔یہ جو کہانیاں اور انٹرویو آپ بار بار نئے سے نئے پوسٹ کر رھے ہیں سب فرضی اخبا رات ورسائل بیچنے کے بہانے ہیں۔۔۔۔۔ان میں سے 99%فرضی ہیں۔۔۔۔اج تک وی اصل اسلام کے لیے نہیں لڑا اسامہ ھو یا غازی سب اسلام دشمنوں کے چیلے ہیں بلکے اسلام اور مسلمانوں کے اصلی دشمن رشدی ملعون ہی کی طرح ان سے بھی چھٹکارا ضروری ہےجو ان پڑھ سادہ لو لوگوں کو اسلام اور آخرت کے نام پے بے وقوف بناتے ہیں،،،،،،،،،،،،
 

زینب

محفلین
سب سے بڑا سوال مدرسے میں ہتھیار کیوں چاھے تھے کس کا ڈڑ تھاکیا پاکسان کے دوسرے سکول/کاجز اور یونیورسٹیوں میں بھی طالبعلم اسی طری اسلحے کے ذخیرے رکھتے ھیں؟اپنی حفا ظت کیوں جب کچھ غلط بھی نہیں مدرسے میں۔۔۔۔
 
Top