کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟؟

سید ابرار

محفلین
تصویر درد

نھیں منت کش تاب شنیدن داستا ں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے ، زبا ں میری
یہ دستور زبا ں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یھا ں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبا ں میری
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے ، کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستا ں میری
اڑالی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغا ں میری
ٹپک ائے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں‌ حسرت بھری ہے داستا ں‌ میری
الھی پھر مزا کیا ہے یھا ں دنیا میں‌ رھنے کا
حیا ت جادوا ں میری نہ مرگ ناگھا ں میری !
مرا رونا نھیں ، رونا ہے یہ سا رے گلستا ں‌ کا
وہ گل ہوں‌ میں‌ ، خزا ں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری​

(از بانگ درا ، علامہ اقبال )
 

سید ابرار

محفلین
reportsyeedahmedabbsi08wx6.gif
 

سید ابرار

محفلین
حفصہ کی مریم: ڈائری چار

مریم ان طالبات میں سے ایک ہیں جو جامعہ حفصہ میں تعلیم حاصل کررہی تھیں اور لال مسجد آپریشن کے دوران وہاں تھیں۔ انہوں نے ان دنوں کی کہانی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد کی رفیعہ ریاض کو سنائی۔

ہفتہ / 7 / جولائی

ہم جب صبح اٹھے ہیں تو شہد کا ہمیں پتہ چلا ہے۔ آپی جان نے ہمیں بتایا ہے کہ بیٹا خوشخبری ہے آپ کے لیے کہ دو گیلن شہد آپ کو ملے ہیں۔ ان کا شربت بنایا ہم لوگوں نے۔ پھر بھائیوں نے پتے لا کر دیئے، شہد کے ساتھ پتے کھائے ہم لوگوں نے اور وہ جوس پیا۔ پتے آپی جان نےلاکر دئیے، یہ نہیں پتہ کہاں سے لائے، یہ پتہ تھا کہ انگور کے پتے تھے۔

بس ہم نے کہا کہ صحابہ کرام کی سنت ہے، انہوں نے بھی تو پتے کھائے تھے ناں۔ بہت زیادہ بھوک لگ رہی تھی اس وقت۔ یہ جب آنسو گیس پھینکتے ہیں تو اس کے بعد بھوک لگتی ہے۔ ایک ایک چمچ شہد چاٹ لیں تو انشاء اللہ تعالیٰ اسی میں (ہے) برکت۔ بارش ہوئی تو بارش کا پانی بھرا ہوا تھا۔ مجاہدین ہمیں لا کر دیتے ، بالٹی اندر رکھتے تھے تو ہم لوگ دیکھتے کہ پانی رکھ کے چلے گئے ہیں واپس۔

ام حسان (آپی جان ) ہمارے ساتھ رہتی تھیں، تھوڑی دیر کے لیے اپنی امی جی کے کمرے میں جاتی تھیں جو ان کی ساس تھیں، پھر واپس۔ آپی جان ویسے بہت صبر والی ہیں۔ تھوڑا سا دکھ ہوا تھا انہیں جب مولانا عبدالعزیز پکڑے گئے تھے، اس رات کو روئی تھیں لیکن پھر اس کے بعد نہیں۔ پریشانی تو ہوتی ہے، ظاہر نہیں ہونے دیتی تھیں، دل کے تو حالات نہیں جان سکتے، ہمارے ساتھ صحیح بات کرتی رہیں۔

باہر پولیس والوں نے چاروں طرف مدرسے اور لال مسجد کے پٹرول چھڑک دیا آگ لگانے کے لیے۔ اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ جب بارش ہوئی تو پٹرول کا اثر ختم ہو گیا اور جو آگ انہوں نے لگائی تھی وہ آگ بھی بجھ گئی ہے۔

آگ وہ جو ہمارا سب سے نیچے کمرہ ہے اس کو لگی ہوئی تھی، وہاں بم پھینکا آگ والا۔ دھواں دیکھا، تب ہم لوگ باہر نکلے، دھواں پورے مدرسے میں پھیل گیا۔ آنکھوں پر ہم نے کپڑا رکھا، نیچے ہو کر بیٹھ گئے، ہمارے بھائیوں نے کہا کہ دھواں نقصان نہیں پہنچاتا، آنسو گیس نقصان پہنچاتی ہے، آپ لوگ کپڑا منہ پر رکھ لو۔ ایک گھنٹہ رہا ہے کمرے کے اندر دھواں اس کے بعد نکل گیا۔

ہم نے طالبات کے دفن کرنے کے بارے میں کچھ نہیں سنا، پتہ چلا تھا کہ تین لڑکیاں شہید ہو چکی ہیں، ایک کو دیکھا تھا، وہ چھت پر جا رہی تھی کپڑے لینے کے لیے تو وہاں سے اسے گولی لگی۔ تین گولیاں، دو پیٹ پر اور ایک بازو پر، وہ وہاں پر شہید ہو گئی تھی۔ ہم لوگوں کو خوشی ہوئی کہ ہماری طالبات شہید ہو گئی، اس نے شہادت پا لی۔

ہمارے ساتھ دوچھوٹی بچیاں تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ میرے ابو نشہ کرتے ہیں اور امی آنٹی کے پاس ہوتی ہیں، کپڑے وغیرہ سیتی ہیں۔ فارغ ہونے کے باوجود وہ لڑ رہی ہوتی تھیں دونوں بہنیں۔ کچھ فکر نہ انہیں بھوک کا پتہ چلے۔ آنسو گیس پھینکتے وہ سوئی ہوتیں سوئی رہتیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آنسو گیس پھینکی ہے یا کیا ہو رہا ہے، ہم لوگ بے ہوش ہو جاتے تھے، انہیں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ نہ انہوں نے بھوک کا کبھی کہا کہ ہمیں بھوک لگی ہے ہمیں کچھ کھانے کو لا کر دیں۔ وہ اس بارے میں کبھی کچھ نہیں بولیں۔

ہمیں تو جو آپی جان بتاتی تھیں وہ پتہ تھا مگر جب فائرنگ بند ہوتی تھی تو ہم لوگ کہتے، شاید اب ہمیں فتح ہو گئی ہے، ہم باہر نکلیں گے، مدرسے جائیں گے۔ فائرنگ پھر شروع ہو جاتی تو ہم لوگ کہتے کہ نہیں ابھی آپریشن ختم نہیں ہوا۔ آپی جان آ کر بتاتیں کہ مذاکرات ہوئے ہیں۔

کچھ لڑکیوں کو خوف محسوس ہوتا تھا۔ ڈر جاتی تھیں۔ جب دو لڑکیاں تھوڑی گبھرائیں تو ہم نےکہا آپ پھر آئے کیوں ہو؟ جب آپ کو ڈر لگ رہا تو آپ لوگ واپس گھر چلے جاتے۔ شہادت کا جذبہ لے کر آئے ہو تو شہید ہو کے جاؤ، پھر وہ چپ ہو گئیں

جامعہ حفصہ کی طا لبہ مریم ، کی ڈائری ، یھا ں پڑھیں
 

سید ابرار

محفلین
حفصہ کی مریم: ڈائری پانچ

رفیعہ ریاض ، بی بی سی
9/ جولائی / پیر


پیر کو ہمیں آواز آ رہی تھی، غازی صاحب مذاکرات کر رہے تھے۔
آپی جان (ام حسان) نے بتایا کہ ساری رات مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ آپی جان نے کہا آج رات کو آپ لوگوں نے بالکل کسی سے بات نہیں کرنی، توجہ سے، دھیان سے اللہ کو یاد کرنا ہے۔ اس رات کو فائرنگ وغیرہ نہیں ہوئی۔


ہم لوگوں نے کہا کہ آج مذاکرات ہوئے ہیں تو شاید آپریشن ختم ہو رہا ہے اور آج ہم باہر نکلیں گے۔ اگلی صبح جب فائرنگ شروع ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ آپریشن ہوا۔ اس دن چھًرے (لگے)۔ مجھے ایک بازو پر لگا ہے، ادھر سینے پر لگا ہے۔ ایک اور لڑکی کو بازو پر لگا ہے اور ایک کے ادھر ہاتھ پر لگا ہے۔ وہاں پر گولیاں تھیں درد کی، وہ گولیاں لیتے رہے۔
پونے چار بجے شروع ہوئی تھی فائرنگ، ہم لوگوں نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی۔ تیس لڑکیوں میں سے دو لڑکیوں نے نماز پڑھی۔ پھر انہوں نے آگ والا دھماکہ پھینکا ہے۔ اتنا دھواں اندر ہو گیا۔ آپی جان نے کہا کہ بیٹا اگر آگ لگا دی، دم گھٹ کے نہیں مرنا، آپ لوگ باہر نکل جانا، سینے پر گولی کھا لینا، دم گھٹ کے نہیں مرنا۔

پھر جب اندر بہت دھواں ہوگیا تو پھر ہم لوگوں نے کہا ’ہائے ہم لوگ باہر جائیں، یہ نہ ہو ہم لوگ یہاں دم گھٹ کر مر جائیں‘۔۔۔ پھر ہماری جو ایک باجی تھی ادھر، انہوں نے کہا نہیں دم گھٹ کے نہیں مرتے، یہ دھواں، اس دھوئیں سے کچھ بھی نہیں ہوتا، آپ لوگ اندر ہی بیٹھے رہو، اگر کسی کا حکم ہوا کسی نے کہا باہر نکل آؤ تو تب ہم باہر نکلیں گے۔ لیکن ہمارے بڑوں کا حکم نہیں (آیا) تو ہم لوگ باہر نہیں نکلے اندر ہی بیٹھے رہے۔

دھوئیں کا اثر بھی ختم ہو گیا تھا تھوڑی دیر بعد۔

تھوڑی دیر فائرنگ ہوتی کلاشنکوف سے، پھر وہ بم پھینکتے۔ پورا کمرہ ہمارا ہل جاتا تھا، دو بجے فائرنگ ختم ہوئی ہے۔ سرنڈر جب ہم لوگوں نے کیا ہے تو تب ان لوگوں نے فائرنگ بند کی ہے۔ جب انہوں نے کہا کہ ہم لوگ بارود لگا دیں (گے) عمارت کو، تو دب کے مرو گے۔ آپی جان نے کہا کہ بیٹا نہیں دب کے مرنے سے بہتر ہے کہ ہم لوگ سرنڈر کر لیتے ہیں۔ ہم لوگ گولی کھائیں گے لیکن دب کے نہیں مریں گے؟

ہمیں پولیس والوں کی آواز آئی کہ پوری عمارت میں بارود لگا دیا (گیا) ہے، لہٰذا جتنے حضرات اندر موجود ہیں باہر نکل آئیں۔ اس سے پہلے صبح (تک) مسجد (سے) آواز آ رہی تھی مجاہدین کی کہ آپ شہادت کا جذبہ لے کر آئے ہیں، جنہوں نے جانا ہے وہ جائیں لیکن جو شہادت کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ادھر اندر ہی رکیں باہر کسی نے نہیں نکلنا۔ (جب) انہوں مسجد میں آگ لگائی تو مجاہدین سارے باہر نکل آئے۔ مجاہدین اور طلبہ، وہ مدرسے کے طلبہ بھی تھے مجاہدین بھی تھے۔ آگ کو بجھاتے رہے ۔ ان کو بالکل ڈر نہیں لگا۔ اتنی فائرنگ میں وہ آگ کو بجھاتے رہے، نعرے لگاتے رہے۔

تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک مجاہدین کی آواز بھی بند ہو گئی۔ شاید کچھ گرفتار کر لیے، کچھ شہید ہو گئے ہیں۔

پھر ہم لوگ ڈر گئے کہ سارے مجاہدین کہاں چلے گئے، اب ہم کو کہیں گرفتار نہ کر لیں۔ پولیس اندر آ چکی تھی، لگتا ہے، ہمارے کمرے کے قریب ہی تھی، کوئی قریب کھڑا ہے، دروازے کے باہر۔ آواز آئی کہ جلدی سے باہر نکل آئیں، مدرسے میں موجود حضرات سارے باہر نکل آئیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہم نے کہا فوج اندر آ چکی ہے لیکن پھر ہمارے ذہن نے کہا کہ شاید ابھی اندر نہ آئی ہو۔ ابھی باہر روڈ پر ہو لیکن جب باہر نکلیں تو دیکھا کہ چاروں طرف فوج ہماری چھتوں پر چڑھی ہوئی تھی اور مجاہدین ہمیں کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

ہم لوگ تو بس نکل آئے ہاتھ اوپر کرکے، فوجی اوپر چھت پر کھڑے تھے ہمارے دروازے بند تھے، کہیں نکلنے کا راستہ بھی نہیں تھا، دیوار ٹوٹی ہوئی تھی تھوڑی سی، دروازہ جو تھا، وہ گرا ہوا تھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ فائرنگ نہیں کرنی، ہم (نے) سرنڈر کر دیا ہے راستہ بنا کر دیں۔

پھر ایک پولیس والا آیا تو اس نے کہا ’یہاں سے یہ راستہ ہے آپ کا، یہ دروازہ اٹھائیں یہاں سے نکل آئیں۔‘ پھر ہمارے ساتھ ایک مجاہدین باہر نکلا ہے۔ وہ راستہ خالی کرکے دے رہا تھا تو اسے گرفتار کر لیا۔ پھر راستہ بنا کر دیا (اور) ہم لوگ باہر آ گئے۔

انہوں نے کہا ’نقاب اٹھائیں، ہم آپ کے بھائی ہیں، آپ بہنوں کی طرح ہیں، آپ نقاب اٹھائیں۔‘ ہم نے کہا ’کیوں بھائی ایسے ہوتے ہیں، بہنوں کی عزت لوٹتے ہیں‘، ہماری ایک باجی نے صحیح ان کو سنائیں۔ پھر دوسرا بولا ہے ٹھیک ہے رہنے دیں نہیں اٹھائیں۔

پھر ہم آگے آئے ہیں تو انہوں نے کہا یہاں بیٹھ جائیں۔ لیڈیز پولیس وغیرہ آئی، چیکنگ کی۔ نماز ظہر کی ہم نے پڑھی وہاں۔ انہوں نے کھانا وغیرہ لا کر دیا، پھر نام وغیرہ لکھے (اور) ہمیں بھیج دیا۔ ہماری آپی جان (ام حسان) کو انہوں نے الگ کر دیا۔ ایک لڑکی نے لیڈیز کو بہت ڈانٹا، بہت باتیں سنائیں۔ پھر ہم لوگوں نے دھکے دے کر (انہیں) پیچھے کیا (اور) آپی جان سے ملیں۔ پھر اس کے بعد ہم لوگ آ گئے، پتہ نہیں آپی جان کو کہاں لے گئے ہیں۔

پھر لیڈیز نے برقعے وغیرہ اتروا کر چیکنگ کی۔ بعد (میں) ہمیں دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا۔ وہاں پر کھانا وغیرہ لا کر دیا۔

ہم لوگ بہت روئے (کہ) جب ہم لوگ باہر نکلے۔ ہم نے ان کو واسطے دیئے، لال مسجد جل رہی تھی جب ہم لوگوں نے دیکھی۔ ہم نے کہا ’بھائیو، قرآن پاک تو نکال لیں‘، انہوں نے کہا ’آپ لوگ آگے جائیں ہم قرآن پاک نکال لیں گے‘۔

وہاں پر جو ہماری خدمت کو آئی، اس نے کہا کہ ہم اتنی دور سے آپ کی خدمت کے لیے آئے ہیں، آپ لوگ نہیں روئیں، بس حوصلہ کریں۔ اس کے بعد نام وغیرہ لکھے، فون نمبر لکھے کہ آپ کو گھر بھیجا جائے گا فون کرکے۔ پھر انہوں نے رات کو شاید فون کیے۔

حفصہ کی مریم کی ڈائری ، بی بی سی اردو ڈاٹ کا م پر پڑھیں
 
Top