کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟؟

غازی عثمان

محفلین
ba3cde44a2.gif
 

ساجداقبال

محفلین
ایک دکھ جو عمر بھر ساتھ رہے گا ,,,,روزن دیوار سے…عطاء الحق قاسمی
مدرسہ حفصہ میں ہونے والی اختتامی کارروائی کی ایک جھلک میں نے اٹلی کے ایک قصبے ”تھیو نے دی ترنتو“ میں دیکھی۔ اس کے بعد سے میں مسلسل سفر میں ہوں اور یوں یہ کالم تاخیر سے شائع ہورہا ہے، تاہم اس دوران مجھے ایک پاکستانی بھی ایسا نہیں ملا جس کادل ٹی دی اسکرین پر دکھائی دینے والے مناظر پر خون کے آنسو نہ رویا ہو۔ آپریشن کے بعد اگرچہ ”ملبہ“ صاف کردیا گیا تھا مگر بچیوں کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں مدرسے کے فرش پر بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں۔ یہ چوڑیاں ایک دن انہوں نے مہندی لگے ہاتھوں میں بھی پہننا تھیں اور قرآن کے سائے میں بابل کے گھر سے اپنے پیا کے گھر سدھارنا تھا مگر وہ اس سے بہت پہلے اپنے رب کے پاس پہنچ گئی ہیں جو انصاف کرنے والا ہے۔ میرے نزدیک اب بحث طلب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے حق پر تھے یا نہیں کہ صرف عام پاکستانیوں ہی نہیں بلکہ علماء کی بھی بہت بڑی اکثریت ان کے اختیار کردہ راستے کو درست تسلیم نہیں کرتی تھی، چنانچہ انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ راہ حق پر ہیں اور اس کے لئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے پر بھی تلے ہوئے تھے اور انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھادیا لیکن جو سوال ہر ذہن میں جنم لے رہا ہے وہ یہی ہے کہ ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم، جی ایچ کیو اور ایجنسیوں کے صدر دفاتر کے قریب واقع ایک مدرسے میں جدید ترین ہتھیار کیسے جمع ہوتے رہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق ”غیر ملکی دہشت گرد“ وہاں کیسے جمع ہوگئے۔ لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کے درمیان سرنگ کنکریٹ کے تہہ خانے اور بنکر کب اور کیوں تعمیر ہوئے ؟کیا ایسا کرنے والوں نے سیلمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں کہ وہ ان نظروں سے بھی محفوظ رہے جو چشم زدن میں معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ بچیوں کے اس مدرسے میں کلاشنکوف ہاتھوں میں لئے اور گیس ماسک چہروں پر چڑھائے جوان کہاں سے آئے؟ان سب غیر قانونی سرگرمیوں کی پشت پناہی کون کررہا تھا اور کیوں کررہا تھا؟ایک اور سوال جو ذہنوں کو شدید اذیت دے رہا ہے، وہ یہ ہے کہ چھ ماہ تک اس افسوسناک صورتحال کو کیوں طول دیا گیا اور آخر میں ایک دم اتنا خوفناک آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جس میں دونوں طرف سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ خصوصاً اس صورت میں جبکہ حکومتی نمائندوں اور لال مسجد والوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا تھا ۔کیا مسئلے کے آغاز ہی میں بجلی ،پانی، گیس ،خوراک اور اسلحہ کی رسد بند ہونے کی صورت میں مدرسے میں محصور لوگ ہتھیار پھینک کر باہر نہیں آسکتے تھے۔ اس صورت میں نہ ہمارے فوجی جوان جاں بحق ہوتے اور نہ وہ خونی ڈرامہ آنکھوں کو دیکھنے کو ملتا جس کا درد پاکستانی قوم کو ہمیشہ پہلے دن کے درد کی طرح محسوس ہوگا۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ خطرناک بات اس آپریشن کے ما بعد اثرات ہیں ۔ سو معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اب شروع ہوا، گزشتہ چند روز کے دوران ہمارے فوجیوں کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کیا اس پر کوئی پاکستانی مسرت کا اظہار کرسکتا ہے؟ یہ وہ فوجی ہیں،پاکستانی مائیں جن کی بلائیں لیتی تھیں انہیں نفرت کی علامت بنانے والوں نے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ یہی وہ بزر جمہر ہیں جن کے کئے کی سزا پاکستان کے محسنوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔اور ابھی ابھی موصول ہونے والی وکیلوں کی ریلی میں پی پی پی کے کیمپ پر خود کش حملہ کی خبر ایک اور انجام کا آغاز ہے۔جب ایک شخص قوم کی اجتماعی ذہانت کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے محدودذہن اور اپنے محدود مفادات کو سامنے رکھ کر پوری قوم کے فیصلے کرتا ہے تو اس کے خطرناک نتائج1971ء میں پاکستان ٹوٹنے، 1977 ء میں مذہبی انتہا پسندی اور1999ء میں دنیا بھر میں پاکستان کی بے وقعتی کے دور کا آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلم ممالک کے حکمران اس نوع کی ہر کارروائی کا انعام ملازمت میں توسیع کی صورت میں پاتے ہیں چنانچہ اس کا نتیجہ اس مزید دہشت گردی کی صورت میں نکلتا ہے جس کا نشانہ صرف وہ بے نوا عوام بنتے ہیں جو بلٹ پروف جیکٹس اور بلٹ پروف کاروں سے محروم ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستانی قوم لال مسجد کا سانحہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول جائے گی تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ سانحہ قوم کے سینے کا ناسور بن چکا ہے۔ اس کا دکھ صرف دیندار طبقے کو نہیں بلکہ روشن خیال سیکولر اور لبرل لوگ بھی اس کا دکھ اسی طرح محسوس کررہے ہیں جس طرح ہر درد دل رکھنے والے انسان کو محسوس کرنا چاہئے کیونکہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ مسئلہ انسانی جانوں کے ضیاع کے بغیر بھی باآسانی حل کیا جاسکتا تھا لیکن اسے سیاسی ضرورتوں کے تحت لٹکایا گیا اور آخر میں اس کا ڈراپ سین ایک بدصورت خونریزی کی صورت میں کیا گیا۔ میرے ذہن میں ایسی کوئی تجویز نہیں ہے جس پر عمل کے نتیجے میں اس ڈراؤنے خواب کی یاد دلوں سے محو کی جاسکے مگر بجائے اس کے کہ مدرسہ حفصہ اپنی پرانی صورت میں نظروں کے سامنے رہے اور یوں دیکھنے والوں کے زخم تازہ ہوتے رہیں اسے منہدم کرکے اس کی جگہ ایک نہایت خوبصورت مدرسہ تعمیر کیا جائے جو اپنے رقبے میں ہو جتنا رقبہ اس کی قانونی ملکیت تھا۔ یہاں بچیوں کے لئے بہترین دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام ہو اور انہیں وہ تمام سہولتیں بھی مفت فراہم کی جائیں جو انہیں ملتی تھیں۔آخر میں ان تمام بچوں اور بچیوں کے لئے دعائے مغفرت جو اس سانحے میں جاں بحق ہوئے۔ مجھے ان کے طریق کار سے شدید اختلاف تھا اور ہے لیکن وہ لوگ قابل احترام ہوتے ہیں جو کسی موٴقف کو مبنی بر صداقت سمجھتے ہیں اور پھر اس کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوجاتے ہیں حتی کہ اپنی جانیں بھی قربان کردیتے ہیں۔ میں مولانا عبدالعزیزوں کا نہیں غازی عبدالرشیدوں کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں خواہ ان کے اختیار کئے ہوئے رستے سے میرا اختلاف کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔
 
مجرم کون۔

کلاشنکوفوں کی گرج میں اور گیس ماسک پہن کر کن اشیاء کی حفاظت ہو رہی تھی اور ‌مجرم کون ہے۔ یہ تو پتاچلنا اب مشکل ہے، کہ سب کچھ جل چکا ہے۔

یہ اشعار ذہن میں آتے ہیں۔
بے جور و خطا جس ظالم نے معصوم ذبح کرڈالا ہے
اس ظالم کے بھی لہو کا پھر بہتا ندی نالہ ہے
یہاں دیر نہیں اندھیر نہیں، یاں عدل و انصاف پرستی ہے
اِس ہاتھ سے دو اُس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
 

سید ابرار

محفلین
مریم کون ہیں، کیا سوچتی ہے؟

رفیہ ریاض
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

جب میں اسلام آباد کے اپنے دفتر سے ڈھائی گھنٹے کا سفر کر کے چھوٹی بڑی کچی پکی سڑکیں طے کرتی ہوئی مریم ( یہ ان کا اصل نام نہیں ہے) کے گاؤں پہنچی اور مریم کے والد سے گھر کے دروازے پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک ایسے کمرے میں لے جاکر بٹھایا۔ جہاں تین پلنگوں پر پھول دار چادریں بچھی تھیں۔ تکیے لگے تھے۔ میز پرگلدان سجا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی تقریب ہونے والی ہے۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے انہوں نے کہا۔ جب سے مریم آئی ہے۔ یہ کمرہ اسی طرح ہے۔ کیونکہ آس پاس کے گاؤں والے مسلسل ملنے آ رہے ہیں۔
اتنی دیر میں ایک نقاب پوش لڑکی کمرے میں آئی۔ ’یہ مریم ہے۔ جس سے آپ کی فون پر بات ہوئی تھی، ان کے والد نے تعارف کرایا، اور یہ اِس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ یہ سب سات بچے ہیں۔ مریم ان میں سب سے بڑی ہے، ماشاااللہ۔ سب کو دینی تعلیم کا شوق ہے۔ میں خود ڈاکٹر ہوں مگر تبلیغی مشن پر بھی جاتا رہتا ہوں‘۔ یہ سب باتیں مریم کے باریش والد نے ایک سانس میں کر ڈالیں۔ مریم سے میں نے پوچھا کہ جامعہ حفصہ میں پڑھنے کا خیال انہیں کیسے آیا؟

’بس شوق ہوا، جامعہ حفصہ کے بارے میں سن کر مجھے بھی شوق ہوا کہ جامعہ حفصہ میں داخلہ لوں اور دیکھوں وہاں کیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں نے داخلہ لیا۔

مجھے محسوس ہوا کہ سب لوگوں کے جھرمٹ میں مریم سے شاید کھل کے بات نہ ہوسکے لہذا میں نے درخواست کی کہ ہم دونوں الگ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ والد نے بخوشی اجازت دے دی لیکن چھوٹے بھائی مجھ سے پوچھتے رہے کہ ’ کہیں ہمارا نام تو نہیں آئے گا، کہیں آپ ہماری بہن کا اصلی نام تو نہیں دے دیں گی، کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا‘۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جو آپ کہیں گے میں وہی کروں گی۔

میں اور مریم دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اس نے نقاب الٹ دی۔

قیامت خیز سات دنوں کے تجربات کے باوجود مریم کو کوئی شکایت نہیں تھی

بچوں جیسا چہرہ اور اس پر تھکن کے آثار۔ مگر آنکھوں میں چمک اور اعتماد برقرار لیکن گفتگو کے دوران وہ بار بار اپنے آپ میں کہیں گم ہوجاتی اور پھر تھوڑی دیر بعد پلٹ آتی۔ میں نے مریم سے پوچھا کہ ’جامعہ حفصہ سے واپس آنے کے بعد ان کے احساسات کیا تھے‘۔

مریم کہتی ہیں: ’گھر لوٹی ہوں تو پہلے امّی سے ملی ہوں۔ لیکن مسلسل ایک بات پر دکھ ہے۔ سب ملنے آ رہے ہیں۔ جب مجھ سے ملتے ہیں تو میں کہتی ہوں افسوس اگر میں شہید ہو جاتی، شہید ہو کر گھر آتی اور پھر سب لوگ اس طرح آتے تو خوشی ہوتی۔ مزا تو تب تھا نا، مجھے اب مزا نہیں آ رہا، آپ لوگ مجھے ملنے آ رہے ہو تو۔

مریم کا اندازِ گفتگو کسی حد تک غیر مربوط سا ہے۔ وہ کبھی ایسے بات کرتی ہیں جیسے مجھ سے مخاطب ہوں اور کبھی خود سے بات کرنے لگتی ہیں اور کبھی ایسے لگتا ہے جیسے اب تک اسی وقت میں ہیں جو گزر چکا ہے۔

عام تاثر یہ پایا جاتا تھا کہ جامعہ حفصہ کے اندر رہ جانے والی طالبات شدت پسندوں کے ہاتھ یرغمال ہیں اور انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے لیے زبردستی روکا گیا ہے مگر قیامت خیز سات دنوں کے تجربات کے باوجود مریم کوایسی کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ انہیں اپنی شہادت کی خواہش پوری نہ ہونے کا افسوس تھا۔

’ہمیں بھی شوق تھا، ہم بھی خودکش حملے کریں لیکن ہمارے پاس اسلحہ نہیں تھا کہ ہم لوگ باہر جا کر لڑیں۔ ہم نے اسلحہ مانگا بھی تھا۔ ہم نے آپی جان (مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ، امِ حسان) سے کہا، ہم تیس لڑکیاں جو آخر میں رہ گئی ہیں،
ان سب کا کہنا ہے کہ ہم سب خودکش حملے کرنا چاہتی ہیں۔ آپی جان کہتی ہیں: بیٹا اتنا اسلحہ، اتنے بم نہیں کہ ہمارے بھائی ہی لڑ لیں، تو میں آپ کو کہاں سے لا کر دوں اسلحہ۔ ہم نے کہا چلو اس کا بھی ہمیں اجر ملےگا، ہماری نیت تو ہے نا، ہمارا جذبہ اتنا تھا کہ ہمیں پورا یقین تھا کہ ہم کر لیں گے خودکش حملہ‘۔

مریم اب بھی جہاد پر اتنا ہی یقین رکھتی ہے جس طرح اکثر وہ آپریشن سے پہلے ڈنڈا اٹھائے مسجد کے باہر نعرے لگا کراس کا اعلان کرتی تھیں۔

مریم کسی سوال کے بغیر بولنے لگتی ہے: ’انہوں نے لال مسجد جامعہ حفصہ کو شہید کیا ہے اور اب میری خواہش یہ ہے کہ پورے ملک میں لال مسجدیں اور جامعہ حفصہ بنیں اور نظر آئیں۔ میری خواہش اب یہ ہے کہ انشاء اللہ میں جہاں بھی کام کروں گی جہادی جذبے سے کام کروں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو میں جہاد کے لیے جلد ہی اپنا مدرسہ کھولوں گی اور وہاں جہاد کا کام کروں گی اور جہاد کی ٹریننگ دوں گی سب کو۔

مریم کو اس بات کا مسلسل افسوس تھا کہ جب اس کی پانچ سال کی دینی تعلیم مکمل ہونے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا تھا تو اس کی دنیا تباہ ہوگئی اور اٹھارہ برس کی عمر میں بھی وہ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد ڈگری کے اعتبار سے خالی ہاتھ ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
مریم کی ڈائری: تین جولائی

رفیہ ریاض
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


ایک باجی نے کلاس میں آ کر کہا کہ سب برقعے پہن لیں، باہر پولیس آ گئی ہے
ہم کلاس میں تھے۔ معلمہ پڑھا رہی تھیں۔ بارہ بجے ہمیں پتہ چلا کہ باہر پولیس آ چکی ہے۔ ایک باجی نے کلاس میں آ کر کہا کہ سب برقعے پہن لیں، باہر پولیس آ گئی ہے۔ لڑکیوں نے برقعے وغیرہ پہنے، پھر ہلچل مچ گئی پورے مدرسے میں۔ ہم برقعے پہن کر چھتوں وغیرہ پر چلےگئے۔
پھر ہمارے استاد جی مولانا عبدالعزیز صاحب نے بیان دیا کہ رینجرز واپس چلے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر ہماری بہنوں پر ہاتھ اٹھایاگیا تو بہت برا ہوگا۔ ہم استاد جی کابیان سن کر سیدھی کلاس میں آ گئیں۔ مگر ابھی ہم کلاس میں بیٹھے ہی تھے کہ ہماری دوسری معلمہ آ گئیں اور کہا کہ باہر مظاہرہ ہو رہا ہے اور آپ لوگ کلاس میں اندر بیٹھی ہو، مظاہرے کے لیے باہر نکلو۔

جب ہم لوگ مظاہرہ کے لیے باہر نکلے تو روڈ پر نکلتے ہی انہوں نے آنسو گیس پھینکی۔ اس کے فورا بعد فائرنگ شروع ہو گئی اور پھر اس کے بعد بس فائرنگ ہوتی رہی۔ مدرسے کا انتظام درہم برہم ہو گیا۔ آنسو گیس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں بے ہوش ہو گئیں۔ اس کے بعد ہمیں اندر آنے کا راستہ نہیں ملا۔ مجھے ہوش بھی نہیں تھا اس لیے یہ نہیں معلوم کہ ہمیں کس نے اٹھایا ہے اور کہاں بھیجا؟

میری طبعیت بہت زیادہ خراب تھی۔ جب آنکھ کھلی تو میں مدرسے میں تھی۔ بس اس کے بعد ہمیں باہر نہیں آنے دیا گیا کیونکہ باہر فائرنگ ہو رہی تھی۔ مجاہدین بھائیوں نے کہا کہ آپ لوگ باہر نہیں آنا۔

اسی لیے کچھ مجاہدین اور دوسرے مدارس سے کے لڑکے تو پہلے ہی آ گئے تھے لال مسجد، وہ کچھ اسلحہ بھی ساتھ لائے تھے اور انہوں نے مورچے وغیرہ بھی بنانا شروع کر دیے تھے

اس کارووائی سے پہلے ہمارے استاد جی نے استخارہ کیا۔ استخارہ آیا کہ آپ پر بہت سخت حملہ ہوگا۔ اسی لیے کچھ مجاہدین اور دوسرے مدارس سے کے لڑکے تو پہلے ہی آ گئے تھے لال مسجد، وہ کچھ اسلحہ بھی ساتھ لائے تھے اور انہوں نے مورچے وغیرہ بھی بنانا شروع کر دیے تھے جبکہ باقی مجاہد بھائی بھی منگل کو آئے انہیں پتہ تھا اس لیے وہ اپنا اسلحہ بھی لے کر آئے۔

انہوں نے بھی پوزیشنیں سنبھال لیں، وہ اُدھر سے فائرنگ کر رہے تھے اِدھر سے ہمارے بھائیوں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔

اس دوران ان کی فائرنگ سے ایک لڑکی شہید ہو گئی۔ ہمارے شیشے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ اوپر والی منزل پر جو لڑکیاں تھیں انہیں نیچے لایا گیا ہے۔ مدرسے میں اوپر بہت خطرہ ہے، نیچے آ جائیں، سارے نیچے رہ رہے ہیں۔ وہ شیل بہت زیادہ پھینک رہے ہیں۔ بار بار تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ شیل پھینکتے ہیں۔ مغرب تک اسی طرح صورتحال رہی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شیل پھینکنا بند کر دیے لیکن فائرنگ زیادہ شروع ہو گئی۔

ہ م نے تو پہلے سے نہ تو کھانا وغیرہ جمع کیا تھا اور نہ ہی پانی، ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیاتھا۔ ہم ڈنڈوں کو بھول چکے ہیں۔ ڈنڈوں کا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ اچانک فوج آ گئی۔ ڈنڈے چھت پر اورمختلف جگہوں پر رکھے ہوئے تھے۔ ہمارے ہاتھ جو لگا ہم وہ لے کر مظاہرے کے لیے باہر نکل گئے۔ کسی کے ہاتھ میں وائپر آیا تو کسی کے ہاتھ میں جھاڑو۔ ہم وہ اٹھا کر باہر نکل آئے۔

جب بھی پولیس آتی تھی ہمیں پہلے سے کہہ دیاجاتا تھا کہ پولیس آ گئی ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے پانی کی بوتل بھر کے پاس رکھ لیں، ایک گیلا کپڑا اور نمک اور ڈنڈے سنبھال لیں۔ جب پولیس آ گئی تو دفاع کرنا ہے ڈنڈوں سے۔ پانی، نمک اور وہ کپڑا جب آنسو گیس پھینکی جائے۔

ہمیں شام کو پتہ چلا ہے کہ کالج کے طلباء نے عمارت کو آگ لگا دی ہے۔ اس میں اسلحہ وغیرہ بھی تھا۔ ہمیں تبھی پتہ چلا۔ ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا گیا کہ باہر یہ کچھ ہو رہا ہے۔

سب پریشان تھے اپنی اپنی ٹینشن میں لگے ہوئے تھے۔ شاید اسی لیے یہ بتانا بھول گئے ہوں۔ کچھ طالبات زخمی بھی تھیں لیکن ہمیں خوشی ہوئی کہ اللہ کے راستے میں زخمی ہونے کا موقع ملا۔
 

سید ابرار

محفلین
مریم کی ڈائری: دو دن کی یادداشتیں

رفیہ ریاض
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
باجی نے کلاس میں آ کر کہا کہ سب برقعے پہن لیں، باہر پولیس آ گئی ہے
ہم میں سے جو لڑکیاں اندر رہ گئی تھیں ان کے والدین انہیں لینے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچیوں کو لینے کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ انہیں پولیس والوں نے کہا کہ وہ اندر نہیں جاسکتے لیکن ایک کے والد نے کہا کہ وہ جائیں گے۔ جب وہ (مدرسے کی طرف) آگے آئے تو پولیس والوں نے گولی مار دی انہیں۔ ہمیں تب پتہ چلا جب فون آیا کسی کے گھر سے، باجی کے موبائل پر، کہ کس طرح ان کے والد انہیں لینے کے لیے آئے تھے اور کیا ہوا۔ پھر ہمیں پتہ چلا کہ باہر کرفیو لگا دیا گیا ہے۔

تبھی ہم نے سوچنا شروع کیا کہ بس اب ہم لوگ شہید ہوں گے۔ ہمارا آخری ٹائم ہے۔ ہم معافیاں مانگ رہے تھے۔ اللہ کو یاد کر رہے تھے۔ ہمیں باہر کے بارے میں باجی بہت کم باتیں بتاتی تھیں۔ وہ ہمیں زیادہ نہیں بتاتی تھیں اور باجیوں (معلمات) کو آپی جان (مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ، امِ حسان) بتاتی تھیں اور آپی جان کو استاد جی (مولانا عبدالعزیز) بتاتے تھے اور استاد جی کو پھر باہر سے خبریں ملتی تھیں۔جو انہیں زیادہ تر مجاہدین بھائی بتاتے تھے۔
جب آپریشن شروع ہوا تو باجیاں اپنی ٹینشن میں تھیں۔ باجیوں سے ہماری ملاقات زیادہ نہیں ہوتی تھی، زیادہ باتیں لڑکیوں سے ہی سنیں۔ جو ان کے گھر والے انہیں موبائل پر بتاتے۔

اپنےگھر سےتو میرا رابطہ تھا ہی نہیں۔ مجھے بس صرف جمعہ کو گھر سے فون آیا تھا اور بھائی نے کہا کہ واپس گھر آ جائیں تو میں نے کہا مجھے واپس گھر نہیں آنا، یہیں شہید ہو کر آؤں گی۔ بھائی نے ضد کی کہ میں لینے آ رہا ہوں تو میں نے جواب دیا کہ اگر آئے تو وہاں سے ڈنڈے کھا کے واپس چلے جانا۔ بس اس دن بھائی سے بات کر کے کچھ خبریں پتہ چلیں ہمیں۔

ہاں اس دن یہ بھی سنا تھا کہ لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ آپ لوگ نکل آئیں باہر تو آپ کو کچھ نہیں کہا جائےگا تو اگر آپ نہ نکلے تو یہاں آپ کو مار دیا جائے گا تو ہم نے کہاں ٹھیک ہے مار دیا جائے۔

ہمارے ساتھ ایک لڑکی تھی۔ وہ گھر والوں کی وجہ سے گئی۔ وہ گھر والوں کی وجہ سےزبردستی گئی۔ اس کے گھر کے لوگ اسے لینے کے لیے آ گئے تھے۔ اس کی امّی نے بہت زیادہ باتیں سنائیں۔ اس کا دل بالکل نہیں کر رہا تھا۔ وہ رونے لگی۔ اس نے آپی جان سے کہا ہے کہ ’آپی جان میں نہیں جاتی‘۔ آپی جان نے کہا ہے ’بیٹا آپ کے گھر والے آ گئے ہیں لینے کے لیے تو آپ لوگ چلے جائیں‘۔ تو اس وجہ سے وہ چلی گئی ہے۔


ہمیں بہت دکھ ہو رہا ہے کہ ہم دین کو پھیلانے کے لیے یہاں آئے تھے۔ جہاد کا جذبہ لے کر آئے تھے لیکن جب ایسی بات ہوئی ہے اور دین پر یہ مسئلہ آیا ہے تو یہ لڑکیاں جا رہی ہیں۔ ہمیں دکھ ہو رہا تھا اس بات پر۔ والدین نے زبردستی کی ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ لڑکیاں چھپ رہی ہیں۔ ان کے والدین زبردستی کر رہے ہیں۔ ہاتھ ج۔وڑ رہے ہیں۔ اپنے آپ پیٹ رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری بیٹیوں کو بھیجیں باہر۔ آپی جان نے کہا کہ ہم زبردستی نہیں کر رہے۔ آپ کی بیٹیاں جہاں ہیں انہیں ڈھونڈ لیں اور لے جائیں۔

اس بات پر ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ والدین انہیں زبردستی لے گئے ہیں۔ کچھ لڑکیاں تو ڈر کی وجہ سے گئیں۔ لیکن وہ زیادہ ترچھوٹی تھیں لیکن جو بڑی طالبات تھیں ان کے گھر والے تو انہیں زبردستی لے کرگئے ہیں۔

ہم اپنی کلاس میں تھے جب ہیلی کاپٹر وغیرہ کی آوازیں آئیں۔ ہم نے کہا کہ شاید یہ اوپر سے بم وغیرہ پھینک دیں تو بس ہم لوگوں نے اللہ کا ذکر کرنا شروع کر دیا۔ نفل وغیرہ پڑھنے شروع کر دیے کہ بس اب ہمارا آخری ٹائم ہے۔ ہمیں بس یہی فکر تھی کہ زخمی نہ ہوں اور گرفتار نہ ہو جائیں۔ بس اس بات کا ہمیں خوف تھا۔

ہم بدھ کی شام سے اپنے کمروں سے منتقل ہوئے ہیں۔ بدھ کی ہی شام کو ایک جاسوس اندر آئی۔ اس نے کچھ ایسی باتیں کیں ہیں کہ بہت سی لڑکیاں مدرسہ چھوڑ کر باہر چلی گئیں۔ پھر مدرسے میں لڑکیاں کم رہ گئی تھیں۔ پھر ہم لوگ دائرہ عائشہ (مدرسے کے ایک حصے کا نام) میں گئے۔ وہاں دو کمرے تھے ہم اس میں منتقل ہو گئے۔ بمباری بہت زیادہ ہوتی رہی۔ صحن میں دو کمرے ہیں، مستشفیٰ ہے اور اس کے ساتھ والا کمرہ۔ انہی دو کمروں میں ہم رہے، پھر بہت زیادہ بمباری ہو رہی ہے، بہت زیادہ آنسو گیس پھینکی جا رہی ہے۔


ہمیں باجی نے بتایا کہ والدین کی بھیس میں ایک جاسوس اندر آئی ہیں۔ انہوں نے طالبات سے کہا ہے کہ انہیں دوسری جامعہ میں لے جایا جائے گا، آپ یہاں سے منتقل ہو جائیں۔ بہت سی باجیاں بھی چلی گئی ہیں ان کے دھوکہ میں آ کر، اور طالبات بھی چلی گئی ہیں۔ وہ لوگ والدین بن کے آئے کہ ہم لوگ بچیوں کو لینے کے لیے آئے ہیں۔

پھر اس کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اب والدین کو اندر نہیں آنے دیا جائے گا۔ جالیوں والا دروازہ جسے گرل کہتے تھے وہ دروازہ بند کیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ اب آپ میں سے جس کے گھر والے بھی آئیں گےتو جہاں پر مائیک لگا ہوا ہے، انہیں وہاں کھڑا کیا جائے، پھر ان سے پوچھا جائے گا ان کی بیٹی کون ہے۔ کس درجے میں پڑھتی ہے۔ سب پوچھ کے، پرچی بنا کر اندر بھیجی جائے پھر بچیوں کو باہر بھیجا جائے گا۔

اندر یہ بات ہوئی لیکن باہر انہوں نے کہا ہے کہ ہماری بچیوں کو زبردستی روک لیا ہے، باہر آنے نہیں دے رہے۔ یرغمال بنا لیا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ والدین کے بھیس میں جاسوس کو اندر آنے سے روکا جائے۔ پھر اس کے بعد جو بڑی انتظامیہ ہے انہوں نے کہا ہے کہ والدین کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ نہیں اب والدین کو اندر نہیں آنے دینا۔ باہر کھڑا کیا جائے۔ وہاں سے عورتوں کو پوچھا جائے کس حلقے میں آپ کی بیٹی ہے، کس درجے میں ہے تو پھر وہاں سے طالبات کو باہر بھیجا جائے والدین کو اندر نہ لایا جائے۔

ہمیں مغرب کے بعد پتہ چلا ہے کہ ہمارے استاد مولانا عبدالعزیز صاحب گرفتار ہو گئے ہیں، برقعے میں گئے تھے، اتنا پتہ چلا ہے کہ برقعے میں گئے تھے۔ استاد
جی گرفتار ہوئے تو ہم لوگ مدرسے کے اندر تھے، ہم لوگ ان کے گھر گئے۔ آپی جان مدرسے میں آئیں تو بتایا ہے کہ کس طرح مولانا صاحب گرفتار ہوئے ہیں۔ تب ہمیں پتہ چلا ہے مغرب کے بعد۔ ہمیں عجیب تو لگا لیکن آپی جان نے یہی کہا ہے کہ ’استاد جی کو بلایا گیا تھا کہ آپ بیان کے لیے آئیں، اپنا بھیس بدل کے آئیں تو استاد جی کو بھیس بدل کے بلوایا گیا پھر استاد جی نے اس بارے میں استخارہ کیا اور کہا کہ اس میں بہتری آ رہی ہے۔ میں جاؤں بیان دینے کے لیے‘۔ آپی جان نے کہا ’اس میں بہتری ہے۔ تو ٹھیک ہے چلے جائیں‘۔ ہمارے استاد جی تب گئے ہیں۔ اس لیے پھر وہاں جا کر انہوں نے کچھ اور ہی کر دیا ہے۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ ان کی بیٹی بھی ان کے ساتھ گئی تھیں۔
 

سید ابرار

محفلین
جامعہ حفصہ کی طالبات کی پریس کانفرنس
جمعے کے دن اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی پانچ طالبات سدرہ المنتہاہ، عُمامہ، عائشہ، فاطمہ اور زہرا نے بھی جناح سیڈیم میں پریس کانفرنس کی۔ اس دوران انہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے طور پر جامعہ حفصہ کی لاپتہ طالبات کی بازیابی کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ پانچوں طالبات ہر روز صبح سے شام تک جناح سٹیڈیم میں بیٹھا کریں گی تاکہ لاپتہ طالبات کے والدین اُن سے آ کر مل سکیں۔

پریس کانفرنس کی شرکاء کا کہنا تھا کہ اُن کے دل سے موت کا ڈر ختم ہو گیا ہے اور وہ مزید گھر میں نہیں بیٹھ سکتیں تھیں جس کے بعد اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ باہر نکل کر اپنی لاپتہ بہنوں کے لیے آواز اُٹھائیں گی۔

یہ تمام طالبات جامعہ حفصہ آپریشن کے دوران باہر آئیں تھیں، پریس کانفرنس کے دوران ان طالبات نے جنرل مشرف اور موجودہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک جن حالات سے اب گزر رہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پرعائد ہوتی ہے۔

پریس کانفرنس میں شریک سدرہ المنتہاہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں ڈر ہے کہ کہیں اس پریس کانفرنس کے بعد اُنہیں بھی غائب نہ کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ جامعہ حفصہ کی طالبات کی جانب سے پہلی پریس کانفرنس تھی۔
پوری خبر یھاں پڑھیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/07/070720_hassan_deadbody_ms.shtml
 
Top