کوما

صائمہ شاہ

محفلین
کوما

مَیں ازل سے اجل کے تعاقُب میں ہُوں
جلتی بُجھتی ہُوئی دُودھیا روشنی
آگے چلتی ہُوئی اِک جگہ رُک گئی
آنکھ دُھندلا گئی
سانس کا شور سینے میں مدّھم ہُوا
رابطہ خود سے بھی ' تجھ سے بھی کٹ گیا
مسئَلہ کیا ہُوا ؟
کیا مَیں تیری خُدائی کی حدّ میں نہیں ؟
اُف خُدایا ! یہ مَیں کس جگہ آ گیا؟
اِس جگہ تیرے سِگنل نہیں آ رہے

انجُم سلیمی
 

صائمہ شاہ

محفلین
اللہ کے سگنل ہر جگہ موجود ہیں اس کی کوئی حد نہیں اس چینج کر لیں پلیز
یہ میری نظم نہیں ہے کہ اس میں ترمیم کر سکوں اور اس نظم میں اللہ کے سگنل سے انحراف نہیں کیا گیا شاعر کی فرسٹریشن بیان کی گئی ھے جس کے مطابق وہ اپنے رب کے رابطے میں نہیں ہے اور یہ آہ و بکا بھی اسی لیے ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ میری نظم نہیں ہے کہ اس میں ترمیم کر سکوں اور اس نظم میں اللہ کے سگنل سے انحراف نہیں کیا گیا شاعر کی فرسٹریشن بیان کی گئی ھے جس کے مطابق وہ اپنے رب کے رابطے میں نہیں ہے اور یہ آہ و بکا بھی اسی لیے ہے

دراصل سگنلز میں کبھی کوئی مسئلہ ہوتا بھی ہے تو Receiving End پر ہوتا ہے۔

خاکسار کا یہ شعر بھی اسی قسم کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔

ہے دعاؤں سے بھی گُریزاں دل
ربط ٹوٹا ہوا ہے کچھ دن سے​
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اللہ کے سگنل ہر جگہ موجود ہیں اس کی کوئی حد نہیں اس چینج کر لیں پلیز
میرے خیال میں پیغام تھوڑا ہٹ کر ہے ۔۔۔۔ اشارتاً رابطہ کٹ جانے کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔ یعنی گناہوں میں اسے بھول جانے کا ۔۔۔ اور قرآن پاک میں وہ خود فرماتا ہے کہ ۔۔۔۔ ،، ایک آیت کریمہ کا کچھ حصہ حاضر خدمت ہے،،

اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے ۔ (البقرۃ۔ ۔ ۔ ۷)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
یہ میری نظم نہیں ہے کہ اس میں ترمیم کر سکوں اور اس نظم میں اللہ کے سگنل سے انحراف نہیں کیا گیا شاعر کی فرسٹریشن بیان کی گئی ھے جس کے مطابق وہ اپنے رب کے رابطے میں نہیں ہے اور یہ آہ و بکا بھی اسی لیے ہے
نیچے اسی کو بیان کر دیا ہے آپی !! ۔۔۔ اس نظم کا پیغام بالکل غلط نہیں ہے !!
 

صائمہ شاہ

محفلین
میں نے نظم کی بات کی ہے پلیز اسے کوئی دل پر مت لے ، میں سمجھتا ہوں بات کرنے سے ہیں انسان سیکھتا ہے
ایک ایسا بھی وقت آتا ہے جب ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی @فصیح نے کہا کہ گناہوں کی وجہ سے مگر گناہ گار تو ہم سب ہیں دعائیں قبول نہ ہوں تو لگتا ہے ہم اس کی خدائی کی حدود میں نہیں رہے شائد اسی لیے وہ ہماری نہیں سن رہا مگر دعاوں کا قبول نہ ہونا بھی آزمائش ہے میری نظر میں کیونکہ وہ کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
عزیزامین بھائی اور اسی لیئے آپ کو پورے اخلاص سے سمجھانا چاہتا ہوں کیوں کہ میں آپ کو عزیز سمجھتا ہوں :) :)

وضاحت کے لیے اسی آیت کریمہ کے ترجمہ کی روشنی میں اب نظم کو دیکھیے ،،

مَیں ازل سے اجل کے تعاقُب میں ہُوں

یعنی اپنی ہستی کی حقیقت (وجود خاکی مراد ہے)

جلتی بُجھتی ہُوئی دُودھیا روشنی

ایمان کی قوت میں تغیر کا اشارہ ہے

آگے چلتی ہُوئی اِک جگہ رُک گئی
آنکھ دُھندلا گئی


سگنل کی کمزوری شروع ہو گئی
(یعنی وہ ربط جو اچھے کاموں اور پانچ ستونوں سے پروان چڑھتا ہے، ان ستونوں کی خستگی سے دھندلا رہا ہے )

سانس کا شور سینے میں مدّھم ہُوا

( سائنس اسے ڈپریشن کا نام دیتی ہے اور اس کا واحد حل ذاتِ ربانی ہے!! )

رابطہ خود سے بھی ' تجھ سے بھی کٹ گیا
مسئَلہ کیا ہُوا ؟
کیا مَیں تیری خُدائی کی حدّ میں نہیں ؟
اُف خُدایا ! یہ مَیں کس جگہ آ گیا؟
اِس جگہ تیرے سِگنل نہیں آ رہے


فکر لاحق ہوئی کہ اب دعا کیوں نہیں قبول ہوتی ،
اور وہی گھسے پٹے شکوے کیا میں تیری مخلوق نہیں!! وغیرہ وغیرہ !!

اس کی بہترین مثل شکوہ ہے ( علامہ اقبال کی نظم )

البتہ جواب شکوہ یہاں بیان نہیں کیا شاعر نے!!
( شائد ہمارے لیئے یہ سوال باقی چھوڑ دیا )

جزاک اللہ !!
فصیح جلتی بجھتی روشنی وہ دم توڑتی امید بھی ہو سکتی ہے جو مشکلات میں آپ کو اپنے خالق سے جوڑے رکھتی ہے آپ کی گناہوں والی منطق سے اختلاف کروں گی کیونکہ ہم نجانے کتنے گنہ گار ہیں پھر بھی اس نے ہمیں اتنا نواز رکھا ہے الٹا زیادہ سچے لوگ مشکلات میں رہتے ہیں ان پر زمین تنگ ہو جاتی ہے یہاں غلط رہ کر جینا بہت آسان ہے صحیح رہ کر جینے کی نسبت
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
فصیح جلتی بجھتی روشنی وہ دم توڑتی امید بھی ہو سکتی ہے جو مشکلات میں آپ کو اپنے خالق سے جوڑے رکھتی ہے آپ کی گناہوں والی منطق سے اختلاف کروں گی کیونکہ ہم نجانے کتنے گنہ گار ہیں پھر بھی اس نے ہمیں اتنا نواز رکھا ہے الٹا زیادہ سچے لوگ مشکلات میں رہتے ہیں ان پر زمین تنگ ہو جاتی ہے یہاں غلط رہ کر جینا بہت آسان ہے صحیح رہ کر جینے کی نسبت
جی اپیا آپ کی بات بھی درست ہے ۔۔۔ میں نے ایک ہی پہلو پر غور کیا جبکہ آپ نے جو زاویہ بتلایا وہ بھی درست ہے ۔۔۔ مجھے آپ کی منطق اچھ لگی ، اپیا میں نے جو بات بیان کی وہ محض وہ عمومی نظریہ تھا جو ہم ایسی جگہ پر گہرائی میں جائے بنا کسی کو سمجھا سکتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے محرک خیال یہ ہوتا ہے کہ،
" بے شک اللہ بہت مہربان ہے ، اور انسان خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے "
لیکن اگر گہرائی میں جائیں تو آپ کی بات اور بھی بہتر معلوم ہوتی ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ، انجانے میں یا جان کر کئی ایک گناہ ہر انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ ہمیں کبھی نہیں دھتکارتا۔ کہ ایسی مہربان ذات ہے وہ۔ مسلمان ہے یا کافر ، پارسا ہے یا گناہ گار ۔۔۔ سب کا پروردگار ایک ہی ہے۔
اللہ ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !! ثم آمین !! :) :)
 

نایاب

لائبریرین
کوما ۔ مدہوشی ۔ بے ہوشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تین " عالم " کی کیفیات کو الگ الگ سمجھ لیا جائے تو نظم " کوما " اپنی جگہ مکمل ابلاغ کر رہی ہے ۔ اور اس کے ابلاغ کا مکمل ہونے کا اثبات اسی مصرعے میں پوشیدہ ہے " اِس جگہ تیرے سِگنل نہیں آ رہے "
اس نظم میں موجود یہ طنز بیک وقت " مذہب و دہریت " کی دونوں انتہاؤں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔۔۔۔۔
اک خوبصورت نظم کی شراکت پر بہت دعائیں
 
کوما
کیا مَیں تیری خُدائی کی حدّ میں نہیں ؟
اُف خُدایا ! یہ مَیں کس جگہ آ گیا؟
اِس جگہ تیرے سِگنل نہیں آ رہے

انجُم سلیمی
بہت خوب۔
آخری 2 لائینوں کے بارے میں ۔۔۔۔
کہیں ایک انگلش جملہ پڑھا تھا، انگلش میں ہی لکھ رہا ہوں کہ شاید ترجمہ حق ادا نہ کر سکے
If you ever feel the distance between you and ALLAH is getting bigger just remember that ALLAH hasn't moved an inch
 

فاتح

لائبریرین
دراصل سگنلز میں کبھی کوئی مسئلہ ہوتا بھی ہے تو Receiving End پر ہوتا ہے۔

خاکسار کا یہ شعر بھی اسی قسم کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔

ہے دعاؤں سے بھی گُریزاں دل
ربط ٹوٹا ہوا ہے کچھ دن سے​
انتہائی غیر متفق۔۔۔
کیا آپ نے ٹیلی کمیونیکیشن میں انجینئرنگ کر رکھی ہے یا ڈپلوما؟ اگر کیا ہوتا تو یقیناً آپ ایسی بات نہ کرتے برادرم۔۔۔ سگنل نہ آنے کا باعث دونوں جانب کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ :)
 
Top