کوئی اچھا سا جملہ یا اقتباس - ایک تجویز

فاخر رضا

محفلین
دوسری کلاس کی استانی صاحبہ اپنے اسکول سے گھر آئیں تو وہ اپنے ساتھ سکول کے بچوں کا ہوم ورک بھی لے کے آئیں۔ عشائیہ کے بعد انھوں نے ہوم ورک چیک کرنا شروع کیا ان کے شوہر قریب ہی اپنے اسمارٹ فون پر اپنا پسندیدہ کھیل "کینڈی کرش ساگا" کھیلتے ہوئے ٹہل رہے تھے.آخری پرچہ پڑھتے ہی انھوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ان کی سسکیوں کی آواز سن کر خاوند دوڑتے ہوئے آئے اور ان سے رونے کی وجہ دریافت کی"کیا ہوگیا ہے کیوں رو رہی ہو."
انھوں نے جواب دیا."کل میں نے بچوں کو عنوان "میری خواہش" پر مضمون لکھنے کا ہوم ورک دیا تھا وہی جانچ رہی تھی اس آخری مضمون نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں بے تحاشا رونے لگی." خاوند نے متجسس ہو کے پوچھا.."کیا مضمون ہے ذرا میں بھی تو سنوں"
"میری خواہش ہے کہ میں ایک اسمارٹ فون بن جاؤں .میرے والدین اسمارٹ فون کو بہت پسند کرتے ہیں وہ اس کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ مجھے بھی بھول جاتے ہیں جب میرے والد آفس سے تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو ان کے پاس اسمارٹ فون کے لئے تووقت ہوتا ہے لیکن میرے لئے نہیں. جب میرے والدین کام کرتےہیں اور فون کی گھنٹی بجتی ہےتو وہ فوراً فون اٹھا لیتے ہیں جبکہ میں کتنا ہی روؤں میری طرف دیکھتے بھی نہیں.وہ اپنے اسمارٹ فون پر کھیل کھیلتے ہیں میرے ساتھ کوئی بھی نہیں کھیلتا جب وہ فون پر کسی سے بات کرتے ہیں تو میری کوئی بات نہیں سنتے چاہے میں کتنی ہی اہم بات کہوں"
اسلئے میری خواہش ہےکہ میں ایک اسمارٹ فون بن جاؤں."
یہ سنتے ہی شوہر بھی جذباتی ہو گیا اور اس نےبھرائ ہوئی آواز میں پوچھا"یہ مضمون کس بچے نے لکھا ہے..."
استانی نے جواب دیا "ہمارے بیٹے نے...!"
آلات مفید ہوتے ہیں وہ ہمارے کام آسان کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ ہمیں اپنے پیاروں سے دور کرنے کے لئے ہوتے ہیں.
ہے دل کے لئےموت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
بچے اپنے معاشرہ میں جیتے ہیں اس کی ہر چیز کو دیکھتے سنتے اور سمجھتے ہیں اس کے اثرات قبول کرتے ہیں ہمارے افعال ان کے نازک ذہنوں پر انمٹ نقوش مرتب کرتے ہیں اس لئے ہمیں انتہائی توجہ دینی چاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے بچوں کے ذہن کوئی منفی تاثر قبول نہ کرلیں...
اي
نامعلوم
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لوگوں کو راضی رکھنے سے بہتر ہے انہیں خوش رکھیں۔۔۔ لوگ بھی راضی ہوں گے اور رب بھی۔۔۔۔۔

(حسن جماعتی)
اس سے ملتا جلتا کچھ اظہارِ خیال واصف علی واصف علیہ الرحمۃ کا ہے۔۔۔
بد ترین خواہش سب لوگوں کو متاثر کرنے اور ان کو خوش کرنے کی خواہش ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ لوگ نہ متاثر ہوں گے، نہ خوش۔
 
دوسری کلاس کی استانی صاحبہ اپنے اسکول سے گھر آئیں تو وہ اپنے ساتھ سکول کے بچوں کا ہوم ورک بھی لے کے آئیں۔ عشائیہ کے بعد انھوں نے ہوم ورک چیک کرنا شروع کیا ان کے شوہر قریب ہی اپنے اسمارٹ فون پر اپنا پسندیدہ کھیل "کینڈی کرش ساگا" کھیلتے ہوئے ٹہل رہے تھے.آخری پرچہ پڑھتے ہی انھوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ان کی سسکیوں کی آواز سن کر خاوند دوڑتے ہوئے آئے اور ان سے رونے کی وجہ دریافت کی"کیا ہوگیا ہے کیوں رو رہی ہو."
انھوں نے جواب دیا."کل میں نے بچوں کو عنوان "میری خواہش" پر مضمون لکھنے کا ہوم ورک دیا تھا وہی جانچ رہی تھی اس آخری مضمون نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں بے تحاشا رونے لگی." خاوند نے متجسس ہو کے پوچھا.."کیا مضمون ہے ذرا میں بھی تو سنوں"
"میری خواہش ہے کہ میں ایک اسمارٹ فون بن جاؤں .میرے والدین اسمارٹ فون کو بہت پسند کرتے ہیں وہ اس کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ مجھے بھی بھول جاتے ہیں جب میرے والد آفس سے تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو ان کے پاس اسمارٹ فون کے لئے تووقت ہوتا ہے لیکن میرے لئے نہیں. جب میرے والدین کام کرتےہیں اور فون کی گھنٹی بجتی ہےتو وہ فوراً فون اٹھا لیتے ہیں جبکہ میں کتنا ہی روؤں میری طرف دیکھتے بھی نہیں.وہ اپنے اسمارٹ فون پر کھیل کھیلتے ہیں میرے ساتھ کوئی بھی نہیں کھیلتا جب وہ فون پر کسی سے بات کرتے ہیں تو میری کوئی بات نہیں سنتے چاہے میں کتنی ہی اہم بات کہوں"
اسلئے میری خواہش ہےکہ میں ایک اسمارٹ فون بن جاؤں."
یہ سنتے ہی شوہر بھی جذباتی ہو گیا اور اس نےبھرائ ہوئی آواز میں پوچھا"یہ مضمون کس بچے نے لکھا ہے..."
استانی نے جواب دیا "ہمارے بیٹے نے...!"
آلات مفید ہوتے ہیں وہ ہمارے کام آسان کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ ہمیں اپنے پیاروں سے دور کرنے کے لئے ہوتے ہیں.
ہے دل کے لئےموت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
بچے اپنے معاشرہ میں جیتے ہیں اس کی ہر چیز کو دیکھتے سنتے اور سمجھتے ہیں اس کے اثرات قبول کرتے ہیں ہمارے افعال ان کے نازک ذہنوں پر انمٹ نقوش مرتب کرتے ہیں اس لئے ہمیں انتہائی توجہ دینی چاہئے کہ ہمارے کسی عمل سے بچوں کے ذہن کوئی منفی تاثر قبول نہ کرلیں...
اي
نامعلوم
:cry::(
 

وقار..

محفلین
"جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا، اسے یونہی لگتا ھے کہ وہ پیاس سے مر جائیگا مگر پانی کے گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ھے، پھر اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر بھی سکتا تھا۔۔۔۔
کوئ پیاس سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔ مرتے تو سب اپنے وقت پہ ہی ہیں اور اسی طرح، جسطرح اللہ چاہتا ھے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہں کہ پھر ھمیں زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ھے"

عمیرہ احمد کے ناول "پیر کامل" سے
 

فاخر رضا

محفلین
"جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا، اسے یونہی لگتا ھے کہ وہ پیاس سے مر جائیگا مگر پانی کے گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ھے، پھر اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر بھی سکتا تھا۔۔۔۔
کوئ پیاس سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔ مرتے تو سب اپنے وقت پہ ہی ہیں اور اسی طرح، جسطرح اللہ چاہتا ھے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہں کہ پھر ھمیں زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ھے"


عمیرہ احمد کے ناول "پیر کامل" سے
ہمیں جینے کی خواہش نے مار ڈالا اور روز مار رہی ہے
 

یوسف سلطان

محفلین
چند ایک قدم چل کراس مقام پرپہنچ گیا جہاں لوگ نمازجنازہ کے لیے جمع ھوچکے تھے آگے چارپائی دھری تھی جس پروہ شخص (احمد ندیم قاسمی) مُردہ حالت میں پڑا تھا جس کی نمازجنازہ پڑھائی جانے والی تھی۔ لیکن میں نے آگے بڑھ کرچہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

کیوں کہ یہ وھی چہرہ تھا جومیں پچھلے پینتیس چالیس برس سے دیکھتا آیا تھا کیوں کہ یہ شخص چہرہ بدلنے والوں میں سے نہیں تھا تومرکربھی ویسا ھی ھوگا جیسا زندگی میں تھا.

البتہ سب لوگ بہت دیر تک نماز جنازہ پڑھنے کے لیے صفیں بنائے کھڑے رھے جانے کس کا انتظار تھا ؟؟ پھر اُس کی بیٹی آتی دکھائی دی اور میں نے اس کی جانب نہیں دیکھا کیونکہ باپ کی موت پر جو حال ایک بیٹی کا ھوتا ھے یہ میں جانتا ھوں کہ وہ نہ بیٹے کا ھوتا ھے اور نہ کسسی اورعزیز کا۔

جب کبھی مجھے خیال آتا ھے کے ایک روز میں نے بھی مَرجانا ھے تو مُجھے یہ بھی خیال آتا ھے کے میری بیٹی کا کیا حال ھو گا اورتب میں مرنا نہیں چاھتا کیوں کہ وہ جتنا روئے گی مجھ سے برداشت نہیں ھوگا۔ صرف اس لیے میں دعا کرتا ھوں کے یا الله تو نے جب مجھے مارنا ھوتوصرف ایک دن کی رعایت دینا اس روزنہ مارنا جس روزمیرے نصیب میں لکھا ھے۔

اس سے اگلے روزمارنا تا کہ میری بیٹی کم ازکم ایک اوردن تونہ روئے۔

”مُستنصر حُسین تارڑ“
 
چند ایک قدم چل کراس مقام پرپہنچ گیا جہاں لوگ نمازجنازہ کے لیے جمع ھوچکے تھے آگے چارپائی دھری تھی جس پروہ شخص (احمد ندیم قاسمی) مُردہ حالت میں پڑا تھا جس کی نمازجنازہ پڑھائی جانے والی تھی۔ لیکن میں نے آگے بڑھ کرچہرہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

کیوں کہ یہ وھی چہرہ تھا جومیں پچھلے پینتیس چالیس برس سے دیکھتا آیا تھا کیوں کہ یہ شخص چہرہ بدلنے والوں میں سے نہیں تھا تومرکربھی ویسا ھی ھوگا جیسا زندگی میں تھا.

البتہ سب لوگ بہت دیر تک نماز جنازہ پڑھنے کے لیے صفیں بنائے کھڑے رھے جانے کس کا انتظار تھا ؟؟ پھر اُس کی بیٹی آتی دکھائی دی اور میں نے اس کی جانب نہیں دیکھا کیونکہ باپ کی موت پر جو حال ایک بیٹی کا ھوتا ھے یہ میں جانتا ھوں کہ وہ نہ بیٹے کا ھوتا ھے اور نہ کسسی اورعزیز کا۔

جب کبھی مجھے خیال آتا ھے کے ایک روز میں نے بھی مَرجانا ھے تو مُجھے یہ بھی خیال آتا ھے کے میری بیٹی کا کیا حال ھو گا اورتب میں مرنا نہیں چاھتا کیوں کہ وہ جتنا روئے گی مجھ سے برداشت نہیں ھوگا۔ صرف اس لیے میں دعا کرتا ھوں کے یا الله تو نے جب مجھے مارنا ھوتوصرف ایک دن کی رعایت دینا اس روزنہ مارنا جس روزمیرے نصیب میں لکھا ھے۔

اس سے اگلے روزمارنا تا کہ میری بیٹی کم ازکم ایک اوردن تونہ روئے۔

”مُستنصر حُسین تارڑ“
:cry::cry:
 

یوسف سلطان

محفلین
موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے، محسوس یہی ہوگا کہ وہ غلط جارہا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو۔ مگر ٹھریئے۔ خوب یاد آیا۔ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں ( Well Of Death) میں چلاتا تھا۔ تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ مین ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کُھلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے۔ دوم، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رُکاوٹ کے چلا جائے۔ آسانی کے ساتھ۔ تیز رفتاری کے ساتھ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ۔

آب گم
مشتاق احمد یوسفی
 

یوسف سلطان

محفلین
دردل کا ہو، دماغ کا یا گھر کا---ہلکا سا بھی کھل جائے تو دوسری جانب کچھ نہ کچھ ضرور دکھائی دیتا ہے-
(بابا محمدیحیٰی خان)
 
Top