کوئی اچھا سا جملہ یا اقتباس - ایک تجویز

یوسف سلطان

محفلین
ایک دفعہ ہمیں خواتین کے ایک بڑے اجتماع سے عشائیے سے پہلے خطاب کرنے کا اتفاق ہوا۔ جس ہال میں ہمیں تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا اس سے مُتصل ہال میں کھانے کا اہتمام تھا۔ چار پانچ منٹ تو اندھا دُھند جوشِ خطابت میں گزر گئے۔ اس کے بعد ہمیں ایسی خوشبوئیں آنے لگیں جن سے ہماری توجہ، تقریر کے تسلسل اور تلفظ میں فتور آنے لگا۔ خیر، شاہی ٹکڑوں اور زعفرانی قورمے کی مہک تو ہم برداشت کر گئے، لیکن سیخ کباب کا دھواں دار باربی کیو جھونکے نے ہمیں کچھ اس لیے بھی نڈھال کر دیا کہ ہم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ پھر جب ہماری فیورٹ ڈِش یعنی پلاؤ کی لَپَٹ آئی تو ہمارے Salivary glands یعنی رال بنانے کے غدودوں کا فعل اتنا تیز ہوگیا کہ الفاظ لذتِ تصور میں لتھڑ کر زبان سے لپٹ گئے۔ سامعین کا حال ہمیں معلوم نہیں تھا، خود ہمارا جی بولنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم نے پانی کے گھونٹ پیتے ہوئے سیکٹری صاحبہ سے کہا کہ "بی بی، ان خوشبوؤں کی مجھ میں تاب نہیں۔ میں اس طرح تقریر نہیں کر سکتا۔" وہ کچھ اور سمجھیں! انگریزی میں کہنے لگیں " آپ ذرا ضبط سے کام لیجئے۔ میں نوجوان خواتین کو Seductive perfumes لگانے سے بھلا کیسے روک سکتی ہوں؟"
شامِ شعرِ یاراں
مشتاق احمد یوسفی
 

یوسف سلطان

محفلین
ٹیکسی ابھی عام نہیں ہوئی تھی ۔اُس زمانے میں ٹیکسی صرف خاص خاص موقعوں پر استعمال ہوتی تھی ۔ مثلاً ہارٹ اٹیک کے مریض کو اسپتال لے جانے ، اغوا کرنے ، ڈاکہ ڈالنے اور پولیس والوں کو لفٹ دینے کے لیئے ۔ اور یہ جو ہم نے کہا کہ مریض کو ٹیکسی میں ڈال کر اسپتال لے جاتے تھے ۔ تو فقط یہ معلوم کرنے لے لیئے جاتے تھے کہ زندہ ہے کہ مر گیا کیونکہ اُس زمانے میں بھی جناح اور سول اسپتال میں اُنہی مریضوں کا داخلہ ملتا تھا جو پہلے اسی ہسپتال کی کسی ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں Preparatory ( ابتدائی ) علاج کروا کر اپنی حالت اتنی غیر کر لیں کہ اسی ڈاکٹر کے توسط سے اسپتال میں آخری منزل آسان کرنے کے لیئے داخلہ مل سکے ۔ ہم اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں ۔ ویسے تو مرنے کے لیئے کوئی بھی جگہ ناموزوں نہیں ، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کیلنک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد ، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے درمیان خون خرابا نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں ۔ افسوس ! شاہ جہاں کے عہد میں پرائیوٹ اسپتال نہ تھے ۔وہ ان میں داخلہ لے لیتا تو قلعہِ آگرہ میں اتنی مدّت تک اسیر رہنے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے سےصاف بچ جاتا ۔ اور اس کے چاروں بیٹے تخت نیشنی کی جنگ میں ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کے جتن میں سارے ہندوستان میں آنکھ مچولی کھیلتے نہ پھرتے ۔ کیونکہ فساد کی جڑ یعنی سلطنت و خزانہ تو بلوں کی ادائیگی میں نہایت پُرامن طریقے سے جائز وارثوں یعنی ڈاکٹروں کو منتقل ہو جاتا ۔ بلکہ انتقالِ اقتدار کے لیئے فرسودہ ایشیائی رسم یعنی بادشاہ کے بھی انتقال کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس لیئے جیتے جی تو ہر حکمران انتقالِ اقتدار کو اپنا ذاتی انتقال سمجھتا ہے ۔
آب گم
مشتاق احمد یوسفی
 

سارہ خان

محفلین
ایک زندہ، ذمہ دار اور مہذب معاشرے کی یہ پہچان ہے کہ اگر وہ کسی کے دکھ درد کا مداوا نہیں کر سکتا تو اس میں شریک ہوجاتا ہے۔ (مشتاق احمد یوسفی)
 
بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ تاہم ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔ یوں تو سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔

اقتباس از "میٹر شارٹ"
مصنف: محمد احمد بھائی
بذریعہ: ذوالقرنین بھائی
 

وقار..

محفلین
خواہشات تو سبھی کے دل میں ہوتی ہیں سب ان کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ ان تک رسائی کے لیے کون سا راستہ جاتا ہے۔ اسی راستے کے انتخاب میں تو انسان کا پتہ چلتا ہے۔
اسی انتخاب میں انسان کی بڑائی یا اس کا چھوٹا پن چھپا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ سونے کا ہے یا پیتل کا۔
ہیرو بھی ہیروئین تک پہنچنا چاہتا ہے اور ویلن بھی۔۔۔۔۔۔ صرف راستے کے انتخاب سے ایک ہیرو ٹھہرتا ہے اور دوسرا ویلن۔

( بانو قدسیہ کی کتاب "فٹ پاتھ کی گھاس" سے اقتباس)
 
خواہشات تو سبھی کے دل میں ہوتی ہیں سب ان کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ ان تک رسائی کے لیے کون سا راستہ جاتا ہے۔ اسی راستے کے انتخاب میں تو انسان کا پتہ چلتا ہے۔
اسی انتخاب میں انسان کی بڑائی یا اس کا چھوٹا پن چھپا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ سونے کا ہے یا پیتل کا۔
ہیرو بھی ہیروئین تک پہنچنا چاہتا ہے اور ویلن بھی۔۔۔۔۔۔ صرف راستے کے انتخاب سے ایک ہیرو ٹھہرتا ہے اور دوسرا ویلن۔


( بانو قدسیہ کی کتاب "فٹ پاتھ کی گھاس" سے اقتباس)
میرا خہال ہے راستے سے زیادہ شکل اور ہیروئن کی پسند کا زیادہ دخل ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ تاہم ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔ یوں تو سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔

اقتباس از "میٹر شارٹ"
مصنف: محمد احمد بھائی
بذریعہ: ذوالقرنین بھائی
بہترین ۔ ۔ ۔
 

عبدالبصیر

محفلین

کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر ہوگا جب شمع کی لواُسے جلائے گی اور وہ ایک قسم کی عجیب کیفیت سے دوچار، ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھ رہا ہوگا، میرے خیال سے تو پروانے کا معراج ہی جل جانا ہے۔ اب بندہ جس کا طواف کرتا رہے اگر اُسی پرہی جاں نچاور ہو اور وہی خاک بن کر بکھرنا مقدر ہو تو کس کمال اور قبولیت کی بات ہے نا؟ کاش ہم عشاق کو بھی ایسا طواف اور ایسے راکھ بن کر بکھرنے کا ہنر آتا، ہم پھر اُس دن صاف ہوکر، کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر اور سینہ تان کر ایک عجب شان سے مقتل کی جانب قدم اُٹھاتے، کتنا جلال ہوتا ہوگا ایسی قدموں کی آہٹ کا۔۔۔

اکثر اُن لمحوں میں، جب میں اپنے ساتھ بیٹھتا ہوں تو یہی سوچ کر پروانوں کی قسمت پر رشک ہی رشک آتا رہتا ہے۔

 

یوسف سلطان

محفلین
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلوں مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انہوں نے چھوڑ دی.کہنے لگے.بات یہ ہے کہ گھریلوں بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کرغورکیا کرتا تھا،وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوئے تھے.
مشتاق احمد یوسفی
کتاب: چراغ تلے
 

اکمل زیدی

محفلین
مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلوں مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انہوں نے چھوڑ دی.کہنے لگے.بات یہ ہے کہ گھریلوں بجٹ کے جن مسائل پر میں سگریٹ پی پی کرغورکیا کرتا تھا،وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوئے تھے.
مشتاق احمد یوسفی
کتاب: چراغ تلے
:LOL:
 

اکمل زیدی

محفلین
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر ہوگا جب شمع کی لواُسے جلائے گی اور وہ ایک قسم کی عجیب کیفیت سے دوچار، ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھ رہا ہوگا، میرے خیال سے تو پروانے کا معراج ہی جل جانا ہے۔ اب بندہ جس کا طواف کرتا رہے اگر اُسی پرہی جاں نچاور ہو اور وہی خاک بن کر بکھرنا مقدر ہو تو کس کمال اور قبولیت کی بات ہے نا؟ کاش ہم عشاق کو بھی ایسا طواف اور ایسے راکھ بن کر بکھرنے کا ہنر آتا، ہم پھر اُس دن صاف ہوکر، کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر اور سینہ تان کر ایک عجب شان سے مقتل کی جانب قدم اُٹھاتے، کتنا جلال ہوتا ہوگا ایسی قدموں کی آہٹ کا۔۔۔

اکثر اُن لمحوں میں، جب میں اپنے ساتھ بیٹھتا ہوں تو یہی سوچ کر پروانوں کی قسمت پر رشک ہی رشک آتا رہتا ہے۔
واہ۔۔۔۔
 
ماہرِ دفتریات کا مکالمہ سنیے:
ایک ملازم: "میں کوئی کام نہیں کرتا۔ ڈرائیور ہوں گاڑی نہیں ہے۔"
دوسرا ملازم: "میں بھی کوئی کام نہیں کرتا۔ میں بھی ڈرائیور ہوں، گاڑی نہیں ہے۔"
ماہرِ دفتریات: "دونوں افراد ایک ہی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک کو ہٹا دیا جائے"

اقتباس "بابو نگر" از حسین احمد شیرازی
 

حماد علی

محفلین
"تعریف سننا کوئ بری بات نہیں لیکن اگر یہ جائز حد تک ہو اسے نشہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ تعریف اگر نشہ بن جائے تو تنقید کرنے والے لوگ برے لگنے لگتے ہیں"
مینا ناز کے ناول سسٹم سے اقتباس۔
 
Top