محمداحمد

لائبریرین
پس ثابت ہوا کہ یہاں کا وقت کم کرنا ضروری ہے تاکہ جو آدھ درجن کتب ادھوری پڑی ہیں اور جو درجنوں ان پڑھی ان پر کچھ توجہ دی جائے۔ اگلے سفرنامے کے ساتھ حاضری ہو گی۔

اچھی بات ہے۔

سفرنامے اور کتابوں کے تبصرے کے ساتھ آئیے گا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
فیض نے بھی سوشل میڈیا بارے ہی فرمایا تھا۔۔۔۔

شرح فراق مدح لب مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں

کب تک سنے گی رات کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گلے سب آج ترے روبرو کریں

:devil3:

کیا بات ہے۔

اسی بہانے ان اشعار سے ہم نے بھی اکستاب فیض کر لیا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اسکول کالج اور مدارس میں اب باقاعدہ کمپیوٹر لیب کاقائم عمل میں لایا جا چکا ہے ۔ الیکڑونکس میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے بھی کافی حد تک سوشل میڈیا کے جنون کو ہوا دی ہے ۔جب دنیا کی معلومات یکجا ہوکر ایک چھوٹے سے موبائل میں قید ہو گئی ہے اور باآسانی ایک کلک پر فورا حاضر خدمت ہو تو کون اتنی جدوجہد کرے کیونکہ کر کتاب اٹھانے کی زحمت کرے ۔
جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ اس کے بے شمار فائدے ہیںِ

لیکن کتابیں معلومات کے علاوہ بھی ہمیں بہت کچھ فراہم کرتی ہیں۔
حقائق سے پردہ اٹھاتی ایک عمدہ شاندار تخلیق ۔

بہت شکریہ عدنان بھائی!

خوش رہیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بھئی میں تو یہ کہوں گا کہ جس کو مطالعے کا شوق ہے وہ ضروری نہیں کہ پرنٹ شدہ ہارڈ کاپی کتابیں ہی پڑھے، وہ اپنے اسمارٹ فون میں پی ڈی ایف ریڈر کے ذریعے سے بہترین کتب کا مطالعہ با آسانی کر سکتا ہے۔

بھئی ہم یہ نہیں کہتے کہ محض طبع شدہ کتابیں ہی پڑھی جائیں بلکہ آپ کسی بھی فارمیٹ میں پڑھیں لیکن کتاب پڑھیں چاہے وہ پی ڈی ایف ہو ای بک ہو یا پرنٹڈ کتاب ہو، حتیٰ کہ آڈیو بک بھی ہو۔ لیکن کتاب پڑھنا چاہیے۔

اور زبان کی بھی کوئی قید نہیں کہ اردو ہی پڑھی جائے یا اردو ادب ہی پڑھا جائے۔ کسی بھی زبان میں جس پر آپ کو عبور ہو پڑھیں اور جو موضوعات آپ کی دلچسپی کے ہوں وہ پڑھیں۔ لیکن پڑھیں ضرور!

مسئلہ کتابوں سے دوری نہیں بلکہ مطالعہ کرنے جیسے بہترین مشغلے کی نوجوانوں میں کمی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں! کتابوں میں توجہ لگانی پڑتی ہے جبکہ سوشل میڈیا ہماری توجہ از خود حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن وقت ضائع کرنے میں اور وقت کی سرمایہ کاری کرنے میں یہی فرق ہے۔

اس کی اصل وجہ انگریزی تعلیم سے قربت اور اردو و فارسی سے دوری ہے جس کی وجہ سے ہماری نئی نوجوان ہوتی نسل میں اپنی مادری زبان سے بیزاری کا اظہار جا بجاء نظر آتا ہے۔جب اسے اس زبان سے ہی رغبت نہیں جس میں کتاب لکھی گئی ہے تو وہ اس کا مطالعہ کیسے کرے گا؟

ہمارے لوگ چاہیں بھی تو اردو سے نہیں بچ سکتے کہ وہ دوسری زبانیں بھی نہیں جانتے۔

حالانکہ میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان کو اس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اردو اور انگریزی میں بہ یک وقت ہر طرح کی کتابیں پڑھ او ر سمجھ سکیں۔
 
میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان کو اس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اردو اور انگریزی میں بہ یک وقت ہر طرح کی کتابیں پڑھ او ر سمجھ سکیں
آپ کے کہنے پر عمل درآمد کرنے کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ تعلیمی معیار کو بہتر کرے اور طلباء اپنی توجہ سوشل سائیٹس سے ہٹا کر کتب بینی پر مبذول کریں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احمد بھائی ، آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن میں آج کل کتابوں سے تنگ آیا ہوا ہوں ۔ اس لئے جواب مضمون " کتاب پھاڑنا کیوں ضروری ہے؟" کا انتظار فرمائیں ۔ :):):)
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ، آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن میں آج کل کتابوں سے تنگ آیا ہوا ہوں ۔ اس لئے جواب مضمون " کتاب پھاڑنا کیوں ضروری ہے؟" کا انتظار فرمائیں ۔ :):):)

:p

یہ مضمون آپ جیسوں کے لیے نہیں ہے بلکہ میرے جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ :)

ویسے یادش بخیر بچپن میں میں کئی ایک نصابی کتابیں پڑھتے پڑھتے پھاڑ دیتا تھا بلکہ وہ خود ہی میرے شوق کی تاب نہیں لا پاتی تھیں۔ اور اس بات کو آج تک گھر میں یاد کیا جاتا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کے کہنے پر عمل درآمد کرنے کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ تعلیمی معیار کو بہتر کرے اور طلباء اپنی توجہ سوشل سائیٹس سے ہٹا کر کتب بینی پر مبذول کریں۔

حکومت تو بہت مصروف ہے بھئی آج کل۔ :)

اور طلبہ اُس سے زیادہ مصروف ہیں۔ :)
 
:p

یہ مضمون آپ جیسوں کے لیے نہیں ہے بلکہ میرے جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ :)

ویسے یادش بخیر بچپن میں میں کئی ایک نصابی کتابیں پڑھتے پڑھتے پھاڑ دیتا تھا بلکہ وہ خود ہی میرے شوق کی تاب نہیں لا پاتی تھیں۔ اور اس بات کو آج تک گھر میں یاد کیا جاتا ہے۔ :)
کتابیں کھولتا ہوں، دیکھتا ہوں، پھاڑ دیتا ہوں
کہیں پڑھنی نہ پڑ جائیں، کہیں لکھنی نہ پڑ جائیں
:p
 

محمداحمد

لائبریرین
لیجے بھئی! نین بھائی کی تائید بھی مل گئی۔ :)

کتب پر تبصرے کیجیے

ہر انسان اپنے اردگرد موجود لوگوں سے یا اپنے پسندیدہ لوگوں کی پسند و ناپسند سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کا پسندیدہ شخص آپ کو کوئی فلم دیکھنے کا کہے گا، تو وہ آپ ضرور دیکھ لیں گے۔ یا کم از کم اپنی فہرست میں شامل کر لیں گے ۔ یہی بات میوزک اور کھانوں کے حوالے سے بھی کسی نہ کسی حد تک درست ضرور ہے۔ یہ وہ پسند و ناپسند کا وہ دروازہ ہے جو اکثر لوگ اپنی گفتگو میں کھلا رکھتے ہیں اور اپنی پسندیدہ فلمز اور کھانوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پسندیدہ مصنف اور پسندیدہ کتابوں کے تذکرے متروک ہوئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نئی کتب ، نئے مصنفین سے تعارف ذاتی کاوشوں تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ کسی کتاب پر کوئی سیر حاصل تبصرہ یاذاتی تاثرات سننے پڑھنے کو نہیں ملتے۔ کسی مصنف کے بارے میں کوئی بھولی بھٹکی بات کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ۔ جبکہ کتابیں ابھی بھی چھپ رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو مصنفین ہی لکھ رہے ہیں۔ میری آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ اپنی پسندیدہ کتابوں پر تبصرہ کیجیے۔ اس سے کتاب کے بارے میں نہ صرف آرا قائم کرنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ کتاب پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔

از قلم نیرنگ خیال
10 اکتوبر 2019

اب آپ کتابیں پڑھے بغیر کب تک تبصرے کریں گے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
احمد بھائی ، آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن میں آج کل کتابوں سے تنگ آیا ہوا ہوں ۔ اس لئے جواب مضمون " کتاب پھاڑنا کیوں ضروری ہے؟" کا انتظار فرمائیں ۔ :):):)
میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!
گاہ انسان کو کھینچ کر حقائق کی دنیا سے دور لے جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ خواب دکھانا جو کہ "خواب میں بھی" ممکن نہ ہوں۔ صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اگر "فکشن" ہے تو کیوں ہے۔ اور کیوں پڑھیں ہم یہ ماورائی کہانیاں۔ اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔ اور ہمارا پیشہ بھی عشق نہیں۔ سو ہمیں تو معاف ہی رکھیے۔ کوئی ہمیں حقائق دکھانا چاہ رہا ہے تو کوئی خواب۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جس حال میں ہیں جینے دو۔ اٹھاؤ اپنے دلائل اور چلو ن م راشد کے کوزہ گر کی راہ پر۔۔۔ بھاگو یہاں سے اندھے کباڑی۔ :skull:
 

محمداحمد

لائبریرین
میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!
گاہ انسان کو کھینچ کر حقائق کی دنیا سے دور لے جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ خواب دکھانا جو کہ "خواب میں بھی" ممکن نہ ہوں۔ صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اگر "فکشن" ہے تو کیوں ہے۔ اور کیوں پڑھیں ہم یہ ماورائی کہانیاں۔ اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔ اور ہمارا پیشہ بھی عشق نہیں۔ سو ہمیں تو معاف ہی رکھیے۔ کوئی ہمیں حقائق دکھانا چاہ رہا ہے تو کوئی خواب۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جس حال میں ہیں جینے دو۔ اٹھاؤ اپنے دلائل اور چلو ن م راشد کے کوزہ گر کی راہ پر۔۔۔ بھاگو یہاں سے اندھے کباڑی۔ :skull:
:bighug:

چلیے ہم آپ کو فکشن پڑھنے سے چھوٹ دیتے ہیں۔ :notworthy:

باقی کتابیں آپ کی منتظر ہیں۔ :laughing3:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے ظہیر بھائی!
گاہ انسان کو کھینچ کر حقائق کی دنیا سے دور لے جانا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ خواب دکھانا جو کہ "خواب میں بھی" ممکن نہ ہوں۔ صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اگر "فکشن" ہے تو کیوں ہے۔ اور کیوں پڑھیں ہم یہ ماورائی کہانیاں۔ اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔ اور ہمارا پیشہ بھی عشق نہیں۔ سو ہمیں تو معاف ہی رکھیے۔ کوئی ہمیں حقائق دکھانا چاہ رہا ہے تو کوئی خواب۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جس حال میں ہیں جینے دو۔ اٹھاؤ اپنے دلائل اور چلو ن م راشد کے کوزہ گر کی راہ پر۔۔۔ بھاگو یہاں سے اندھے کباڑی۔ :skull:
دونوں ہاتھ اوپر کرنے کو جی چاہا اس مراسلے کو پڑھ کر جیسے امپائر کرتا ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آج ہی واٹس ایپ پر ایک تصویر موصول ہوئی جس میں ایک کتب فروش فرش پر بچھا کر کتب فروخٹ کر رہا ہے اور دوسری جانب نفیس جوتے کچھ ذریں طاقچوں پر شیشے کے اندر بکنے کے لیے سجے ہیں ۔ لکھنے والے نے لکھا کہ جہاں کتابیں زمین پر بکیں اور جوتے اعلی دکانوں پر اس قوم کو کتابوں کی نہیں بلکہ "جوتوں" کی ضرورت ہے ۔ افسوس صد افسوس ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:bighug:

چلیے ہم آپ کو فکشن پڑھنے سے چھوٹ دیتے ہیں۔ :notworthy:

باقی کتابیں آپ کی منتظر ہیں۔ :laughing3:
باقی واسطے۔۔۔

اور اگر حقیقت ہے تو کیا ہم جاگتی آنکھوں خواب دیکھتے نظر آتے ہیں جو ہر آدمی ہم کو حقیقت دکھانا چاہ رہا ہے۔ بھئی ! بہت دیکھ لیے ہم حقائق۔ ہم ہر وقت انہی منہ زور حقیقتوں سے ہی نبردآزما رہتے ہیں۔
 
Top