کب کسی کی یہ دنیا مستقل ٹھکا نا ہے - عالیہ تقوی

کاشفی

محفلین
غزل
(عالیہ تقوی - الہ آباد)

کب کسی کی یہ دنیا مستقل ٹھکا نا ہے
ایک در سے آ نا ہے دوسرے سے جانا ہے

یہ فقط سراۓ ہے اور ہم مسافر ہیں
رات بھر ٹھہرنا ہے صبح لوٹ جا نا ہے

کویٔ اپنی دولت پر چاھے جتنا اتراۓ
خالی ہاتھ آیا تھا خالی ہاتھ جانا ہے

پھر کسی نے چھیڑا ہے میرے دل کے تاروں کو
درد سے بھرے نغمے آج پھر سنا نا ہے

پیار کرنے والوں کے آج بھی ہیں دشمن لوگ
ہم یہ کس طرح مانیں اب نیا زمانہ ہے

بار بار کیوں نظریں در کی جانب اٹھتی ہیں
دل دھڑک کے کہتا ہے آج ان کو آنا ہے

کچھ تو بول اے ہمد م یہ بتا کریں کیا ہم
روٹھے یار کو آخر کس طرح منا نا ہے

جس نے ظلم ڈھاۓ تھے جان کے کبھی عاجز
عالیہ کے قد موں میں اب وہی زمانہ ہے
 
کب کسی کی یہ دنیا مستقل ٹھکا نا ہے
ایک در سے آ نا ہے دوسرے سے جانا ہے

یہ فقط سراۓ ہے اور ہم مسافر ہیں
رات بھر ٹھہرنا ہے صبح لوٹ جا نا ہے

کوئی اپنی دولت پر چاہے جتنا اتراۓ
خالی ہاتھ آیا تھا خالی ہاتھ جانا ہے

بہت عمدہ
 
Top