نصیر الدین نصیر ( کبھی پیکاں کبھی خنجر ، نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی )


کبھی پیکاں کبھی خنجر ، نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ قاتل در پئے قلب و جگر یوں بھی ہے اور یوں بھی

گُلوں میں رنگ بن کر ، چاند تاروں میں چمک بن کر
ہمارے سامنے وہ جلوہ گر یوں بھی ہے اور یوں بھی

نگاہیں پھیر لے یا مسکرا کر دیکھ اے ظالم !
ستم ہو یا کرم ، تُو معتبر یوں بھی ہے اور یوں بھی

کوئی رحمت سمجھتا ہے ، کوئی زحمت سمجھتا ہے
حسینوں پر زمانے کی نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی

لکھا ہم نے مفصل خط ، بتایا ایک دنیا نے
ہمارے حال کی اُن کو خبر یوں بھی ہے اور یوں بھی

نویدِ وصل ہو ، یا عُذر ہو وعدہ خلافی کا
دلوں پر اُن کی باتوں کا اثر یوں بھی ہے اور یوں بھی

حیات و موت دونوں کی حقیقت ایک ہی کہیے
مسافر کے لئے شکلِ سفر یوں بھی ہے اور یوں بھی

بُلائیں ہم اُنہيں ، یا خود وہ آئیں ، اختیار اُن کو
ہمارا خانۂ دل اُن کا گھر یوں بھی ہے اور یوں بھی

کبھی بہلا دیا مجھ کو ، کبھی سر مستیاں دے دیں
مِرے ساقی کا اندازِ نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی

نصیر اُس کا ٹھکانہ ہے نہ صحرا میں نہ گلشن میں
جو اُن کے دَر سے اٹّھا، در بہ در یوں بھی ہے اور یوں بھی

سید نصیر الدین نصیرؔ​
 
Top