ڈھوک حسو محلہ کشمیریاں عالم آباد

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ڈھوک حسو محلہ کشمیریاں عالم آباد​

صدر سے پیرودھائی یا پیرودھائی سے صدر کی طرف سفر کریں تو راستے میں ڈھوک حسو آتا ہے۔ ڈھوک حسو کو بہت سے راستے جاتے ہیں صدر سے آتے ہوئے اُلٹے ہاتھ کی طرف اور راجہ بازار سے آتے ہوئے سیدھے ہاٹھ کی طرف ، ڈھوک منٹکال سے ہوتے ہوئے ڈھوک حسو کو راستہ جاتاہے۔ ڈھوک حسو چوک پہلے ، ڈھوک حسو ٹانگہ اسٹینڈ کے نام سے مشہور تھا ۔ اب وہاں چنگچی کا سٹینڈ ہے۔ ہم نے تو ٹانگے کا سفر کیا ہے اس لیے ہم ٹانگے کوکیسے بُھول سکتے ہیں۔ لیکن نئی نسل کو شاید اس سے کوئی دلچسپی نا ہو۔ چنگچی سٹینڈ سے تھوڑا ہی آگے چوک ہے جس کو پہلے بڑا چوک کہتے تھے لیکن آج کل غوصیہ چوک کے نام سے مشہور ہے۔ اسی چوک پر لڑکیوں کا ایک کالج اور سکول ہے۔ جو شیخ رشید صاحب کے دورمیں تعمیر کیا گیا ۔ اس کالج اور سکول سے ڈھوک حسو کی بچیوں کو بہت فائدہ ہوا سب سے زیادہ فائدہ تو ہمارے خاندان کو ہوا ۔ میری بڑی بہن کو پڑھنے کا بہت شوق تھا کالج دور ہونے کی وجہ سے میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری نا رکھ سکیں۔ لیکن شیخ رشید صاحب کی مہربانی سب جب ڈھوک حسو میں کالج بنا تو تین سال بعد میری بہن نے اسی کالج مین داخلہ لیا۔ ان کے علاوہ ہمارے خاندان کی تمام لڑکیوں نے اور محلے کی لڑکیوں نے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ اس جگہ پہلے ایک گراونڈ ہوا کرتا تھا جہاں آج کالج ہے۔ اس گراونڈ میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ باقی تو کچھ یاد نہیں لیکن ایک میچ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ اور وہ میرا پہلا میچ تھا اس گراونڈ میں ۔ اس گراونڈ کو چوک والا گراونڈ کہا جاتا تھا ۔ میں ان دنوں بہت کرکٹ کھیلا کرتا تھا لیکن۔ نا تو مجھ سےبیٹنگ ہوتی تھی اور نا ہی بولنگ۔ لیکن وکٹ کیپر بہت اچھا تھا ۔ مجھے اس میچ کے لیے خاص طور پر لایا گیا تھا ۔ کیونکہ جس ٹیم میں میں کھل رہا تھا وہ ہارتی ہی کیپر کی وجہ سے تھی ۔ اور میری کیپرنگ اچھی تھی اس لیےمجھےلایا گیا ۔ اس کے وہاں میری بہت تعریف کی گئی کہ ہم ایک ایسا کیپر لے کر آئیں ہیں ۔ جو بہت اچھا ہے ۔ بہت تعریف کی گی ۔ میں کچھ مغرور سا ہو گیا اور اپنے آپ کو بہت کچھ سمجنے لگا ۔ لیکن جب میچ شروع ہوا تا وہ میچ میری وجہ سے ہار گے ۔ میں نے دو کیچ چھوڑ دیے ، ایک رن آوٹ مس کر دیا اور اس کے علاوہ بھی بہت خامیاں رہی میری کارگردگی میں۔ میری وجہ سے وہ میچ گیا اور میرا غرور اس دن کے بعد کہی دور جا کر دفن ہو گیا ۔ اس لیے کہتے ہیں غرور کا سر نیچا۔
اسی گراونڈ کی طرف یعنی چوک سے سیدھے ہاتھ کی طرف کا رستہ ڈھوک حسو کی طرف جاتا ہے۔ اور اگر آپ پیرودھائی کی طرف سے آ رہے ہیں تو کیرج فیکٹری سے اُلٹے ہاٹھ کی طرف جانے والا راستہ بسم اللہ ہوٹل سے ہوتا ہوا پاک محمڈن ماڈل سکول کی طرف نکلتا ہے۔ پاک محمڈن ماڈل سکول کا شمار ڈھوک حسو کے مشہور بہترین سکولوں میں ہوتا ہے۔ اس سکول کے بانی جناب محترم راجہ شبیر احمد صاحب ہیں۔ راجہ شبیر صاحب ڈھوک حسو کی مشہور شخصیت ہیں۔ سیاسی اور سماجی حلقوں میں ان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بہت سے ویلفیر کے کام انھوں نے سرانجام دیے۔ انہی کاموں میں سے یہ ایک سکول بھی ہے جس کا مقصد نا صرف بچوں کو اعلیٰ تعلیم مہیا کرنا ہے۔ بلکے ان کے سکول میں ہر سال سو ایسے بچے پڑھتے ہیں جن کو کتابیں، کاپیاں، اور یونیفورم سکول کی طرف سے ہی مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ سکول عرصہ 25 سال سے علاقے کی خدمات میں اہم کردار ادا کررتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ سکول سے تھوڑا سا آگے ایک اور چوک ہے جو پہلے چھوٹا چوک کے نام سے مشہور تھا لیکن اب میلاد چوک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس چوک سے مغرب کی طرف جانے والا راستہ غوصہ (بڑا چوک) چوک کی طرف جاتا ہے شمال کی طرف والا راستہ پاک محمڈن ماڈل سکول کی طرف جاتا ہے۔ مشرق والا راستہ پرانی آبادی اور جنوب کی طرف والا راستہ محلہ کشمیریاں عالم آباد کی طرف جاتا ہے۔ عالم آباد کی طرف جاتے ہوئے راستے میں بہت بڑی مارکیٹ ہے۔اس کو اگر ڈھوک حسو کا بازار کہا جائے تو غلط نا ہو گا۔ یہاں آپ کو ہر طرح کی چیزیں مل سکتی ہیں۔ جب سے یہ بازار وجود میں آیا ہے۔ علاقے کے لوگ راجہ بازار کو جاتے ہی نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کو یہاں ہر چیز مل جاتی ہے۔ یہاں تقریباَ روز ہی شام کے وقت عورتوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے۔ ایک سے بڑ کر ایک دوکان ہیں یہاں ۔ عید کے دنوں میں تو یہاں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ملتی۔ عورتوں ، مردوں اور بچوں کے ہر طرح کے کپڑے مل جاتے ہیں جوتوں کی بھی بے شمار دوکانیں ہیں۔ اس لیے بچ کر ۔ یہاں سے آگے چلتے جائیں۔ راستے میں بہت سی دوکانیں اور گھر آتے ہیں ۔ ان دوکانوں کے بیچ ایک کلینک ہے جس کا نام اب ڈاکٹر غلام رسول مرحوم کلینک ہے۔ پہلے اس کا نام طاہر کلینک تھا ۔ڈاکٹر غلام رسول صاحب کو فوت ہوئے تقریباَ پانچ سال ہو گے ہیں۔ غلام رسول صاحب میرے والد صاحب کے بہت اچھے دوست تھے۔ جناب ہمارے فیملی ڈاکٹر بھی تھے ہمیں کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہم ان کے پاس ہی جاتے اور اگر کبھی ہمارے والد صاحب یا دادی جی کو کچھ ہوتا تو چاہے رات کے ایک ہی کیوں نا بج رہے ہوں۔ ایک فون کال پر ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر تشریف لے آتے تھے۔ سارا علاقہ ان سے بہت خوش تھا ۔ سب ان کے لیے دعاوں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ اس وقت اس کلینک کا نام طاہر کلینک اس لیے تھا کہ طاہر، ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد کلینک پر طاہر صاحب ہی ہوتے ہیں میرے بہت اچھے دوست بھی ہیں ۔ میں اکثر ان کے پاس جاتا ہوں۔ وہ میرے والد صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں اور بلکل اپنے والد صاحب کیطرح ہماری مدد کرتے ہیں۔ طاہر صاحب نے اپنے نام کی تختی کی جگہ اپنے والد صاحب کے نام کی تختی لگا دی ۔ اس دن کے بعد سے طاہر کلنک کا نام ۔ ڈاکٹر غلام رسول کلینک پڑ گیا ۔ یہ کلینک عالم آباد میں اب بھی قائم ہے اور ڈاکٹر طاہر صاحب اس کلینک کو چلاتے ہیں۔ کلینک کی حدود ختم ہوتے ہی اُلٹے ہاتھ کی طرف ایک گلی جاتی ہے اسی گلی سے محلہ کشمیریاں شروع ہو جاتا ہے۔یہ گلی کسی زمانے میں چچا دلبر کی گلی کے نام سے مشہور تھی لیکن اب قاری صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ اسی گلی کے آخر میں دلبر چچا کی کریانہ کی دوکان ہے۔ چچا دلبر کی دوکان بہت پُرانی ہے۔ بچپن میں ہم چچا دلبر کی دوکان سے چیز لینے آتے تھے ۔ کبھی کبھی موقع ملتے کچھ چیزیں چھپا بھی لیتے تھے ۔ چچا دلبر بہت اچھے اخلاق کے مالک بہت نیک انسان ہیں۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ان کے دو بیٹے ہیں۔ دونوں حافظِ قرآن ہیں۔ ان میں سے چھوٹا بیٹا بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے جس کی وجہ سے اس دوکان کا نام نئی نسل نے قاری صاحب کے نام سے رکھ لیا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے محلے سے یعنی محلہ کشمیریاں سے پانچ لوگ حج کے لیے گے۔ ان میں سے ایک چچا دلبر بھی تھے لیکن آج تک انھوں نے اپنے نام کے ساتھ حاجی نہیں لگایا اور نا ہی کسی کو لگانے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حج قبول فرمائے۔ چچا دلبر کی دوکان(قاری صاحب کی دوکان) سے سیدھے ہاتھ کی طرف جو گلی جاتی ہے۔ اس گلی سے ہمارے رشتے داروں کے گھر شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے آگے محلہ کشمیریاں کا مرکز شروع ہو جاتا ہے جہاں دو بڑی برادریاں آباد ہیں۔ ایک راجہ برادری اور دوسری چوہدی برادری۔ دونوں اس علاقے کی پہچھان ہیں ۔ انہیں کی وجہ سے اس علاقے کا نام محلہ کشمیریاں پڑا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ سب کشمیر سے پاکستان کی طرف آ گے اور پھر مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے اس محلےمیں آ کر آباد ہوگے۔ محلہ کشمیریاں کو سیاسی حوالے سے بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہر الیکشن میں یہاں سیاستدانوں کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ محلہ کشمیریاں کی سیاسی شخصیت میں سب سے اہم نام راجا شبیر صاحب کا ہی ہے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے بعد راجہ ادریس صاحب، چوہدی شوکت صاحب۔ راجہ بشارت صاحب۔ چوہدی ابرابر صاحب، چوہدری عالم دین صاحب، راجہ صغیر صاحب، راجہ عمر صاحب ، راجہ طارق صاحب، چوہدی طارق صاحب، راجہ مشتاق صاحب، چوہدی بشیر صاحب، چوہدی اقبال صاحب، چودری واجد صاحب، راجہ مجید صاحب، راجہ ثاقب صاحب، راجا یاسر صاحب، اور ان کے علاوہ اور بہت سی عظیم ہستیاں یہاں آباد ہیں۔ ان ہستیوں میں ایک یہ خاکسار بھی ہے جو جو اسی محلے سے نکل کر یہاں ابوظہبی میں اپنے رزق کی خاطر اپنے گھر والون کو اپنے رشتےداروں کو اپنے محلے داروں کو اور اپنے محلہ کشمیریاں عالم آباد کو چھور کر یہاں آ گیا ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب خرم جانی، بہت اچھا لکھا ہے، میں تو دیکھ چکا ہوں آپکا محلہ، یعنی محلہ کشمیریاں، اللہ آپکو ہنستا مسکراتا رکھے اور آپ سے منسلک سب لوگوں کو بھی۔ آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا تو یہ ہمسایہ ہے۔ اب جب بھی پاکستان گیا، خرم کی گلیوں کے چکر لگا کر آؤں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جانا تو اسی ماہ یا اگلے ماہ تھا لیکن کچھ مجبوری ایسی آ پڑی ہے کہ ابھی نہیں جا سکوں گا۔


ہو سکتا ہے جب تم جاؤ، تب ہی میں بھی وہاں آ جاؤں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جانا تو اسی ماہ یا اگلے ماہ تھا لیکن کچھ مجبوری ایسی آ پڑی ہے کہ ابھی نہیں جا سکوں گا۔


ہو سکتا ہے جب تم جاؤ، تب ہی میں بھی وہاں آ جاؤں۔



میں نے تو اگلے سال اگست میں جانے کا پروگرام رکھا ہے ابھی تو ایک سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم کی گلیوں کے چکر ! بھائی وہ تو آجکل خود کسی اور کی گلیوں کے چکر میں ہیں;)
آپ کن چکروں کی بات کر رہے ہیں۔ جن چکروں کی بات آپ کر رہے ہیں میں‌وہ نہیں سمجھا اور اگر جو میں سمجھا ہوں ان چکروں کی بات کر رہے ہیں تو بھائی وہ گلیاں یہاں نہیں ہیں :grin:
 
Top