کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا

کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا

بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا

جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا

بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے
سَودا نے، یہ جب عِتاب دیکھا

 

طارق شاہ

محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پروئے میں تھا آفتاب دیکھا

کیونکر نہ بِکُوں مَیں ہاتھ اُس کے
یوسفؑ کی طرح ، مَیں خواب دیکھا

کُچھ مَیں ہی نہیں ہُوں، ایک عالَم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا

بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا

کُچھ ہووے تو ہو عدم میں راحت
ہستی میں تو، ہم عذاب دیکھا

جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو ، مَیں پُرآب دیکھا

سرگرداں تِرے ہی عشق میں ہے
یاں ہم نے جو شیخ و شاب دیکھا

دِل! تُو نے عبث لِکھا تھا نامہ
جو اُس نے دِیا جواب، دیکھا

بھولا ہے ،وہ دِل سے لُطف اُس کے
سَودا نے ،یہ جب عِتاب دیکھا

مرزا رفیع سوداؔ


بہت خوب شراکت
تشکّر شیئر کرنے پر
:) :)
 
Top