چھ سواریوں والی موٹر سائیکل۔۔۔۔ مقابلہ پاکستان جیت گیا

فخرنوید

محفلین
2595_Tec-4.gif

سورس: دنیا نیوز!


جبکہ پاکستانی ان پڑھ سائنسدان کئی سال پہلے ہی یہ اجاد کر چکے ہیں۔​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہاں لاہور میں صرف 100 سی سی کی موٹر سائیکل سے ایسا رکشہ بنایا گیا ہے جس پر ایک وقت میں کم از کم کُل 8 افراد سوار ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر یہ 10 افراد بھی ہو سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہاں حکومت اسے بند کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ ماحولیاتی آلودگی پھیلاتے ہیں

راشد بھائی،
اور میرا تاثر یہ ہے کہ حکومت ان موٹر سائیکل رکشوں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ یہ خطرناک ہیں۔ [موٹر سائیکل رکشہ اور ویسپا رکشے میں فرق ہے]

بہت سے لوگ مرسڈیز کے خواب دیکھتے ہیں، مگر میں پاکستان کے لیے انہی موٹر سائیکل رکشوں کے خواب دیکھتی ہوں [اگر یہ کسی حد تک محفوظ بنائے جا سکیں]

1۔ ہماری قوم اتنی امیر نہیں ہے کہ وہ پیلی ٹیکسی کے نام پر ہنڈا اور دیگر امپورٹڈ کاروں کو بطور ٹیکسی استعمال کر سکے۔ نہ صرف ٹیکسی خریدنے میں زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، بلکہ ڈیزل بھی مہنگا پڑتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بھی زیادہ ہے اور کار کی مینٹیننس بھی مہنگی۔
اور سب سے بڑھ کی بات یہ کہ پیلی ٹیکسی آ جانے کے بعد بھی عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اس کا استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے پاس پیلی ٹیکسی کے سٹینڈرڈ کا کرایہ دینے کی پیسے نہیں۔

2۔ موٹر سائیکل رکشہ بنانے والے انجینئر یا مکینک کو سلام۔
ہماری قوم کی غربت ہمیں صرف اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایسی ہی سستی سواری بنائی جائے۔
بذات خود یہ موٹر سائیکل رکشہ بہت سستا ہے۔ اور پاکستان میں ہی اسکے بڑے حصے کی اسمبلنگ ہوتی ہے۔
اس رکشے میں جگہ کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے چھ بندے سواری کر سکتے ہیں۔
اس میں چھوٹے سائز کا انجن استعمال ہوا ہے [مجھے پاکستانی موٹر سائیکلوں کے انجنوں کی پاور وغیرہ کا کوئی اندازہ نہیں ہے، لیکن اتنا پتا ہے کہ اسکا انجن چھوٹا ہے]۔ مجھے نہیں علم کہ یہ ایک لیٹر میں کتنا سفر کرتا ہے، مگر اندازہ یہ ہی ہے کہ کافی اکنامیکل ہو گا۔
یہ عموما ڈیزل کی جگہ پٹرول سے چلتا ہے جو کہ تھوڑا مہنگا پڑتا ہے۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ آخری دفعہ جب ہم پاکستان میں تھی تو پرانا ویسپا رکشا دیکھا تھا جو کہ پٹرول کی جگہ گیس استعمال کرتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی مکینکوں نے اس موٹر رکشے کے لیے بھی گیس استعمال کی کٹ ایجاد کر لی ہو گی جس کے بعد یہ بہت ہی اکنامیکل ہو گیا ہو گا۔

مجھے اس موٹر رکشے کی سپیڈ کا علم نہیں۔
مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ "شہر" کے اندر سپیڈ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یورپ میں عوام کی زندگیوں کو تحفظ دینے کی خاطر شہر کی آبادی والی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی اجازت ہے، جبکہ شہر کی بڑی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی اجازت ہے۔ جبکہ دو شہروں کے درمیان سپر ہائی وے پر اکثر جگہ کوئی Limit ہی نہیں ہے۔

اگر یہ موٹر رکشا بڑی کشادہ سڑک پر پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر سکتا ہے تو یہ کافی ہے۔

اور مجھے یہ موٹر رکشا سب سے زیادہ اس لیے پسند ہے کیونکہ میرے ملک کی غریب عوام کی اکثریت صرف اسی قابل ہے کہ اس کو بطور سواری استعمال کر سکے۔ مجھے یاد ہے کہ میں پاکستان میں کار کے اندر بیٹھی سوچ رہی ہوتی تھی کہ کاش ہماری قوم اس سٹینڈرڈ کے چکر میں نہ پڑی ہوتی تو میں بھی اس کار یا ٹیکسی کی جگہ اپنی فیملی کے ساتھ اس موٹر رکشے میں سفر کر رہی ہوتی کہ جس میں میرے ملک کی غریب آبادی سفر کرتی ہے۔

میں نے اس مسئلے پر بہت زیادہ تو نہیں سوچا ہے، مگر میں محسوس کرتی ہوں کہ میں اندر سے پکی سوشلسٹ ہوں اور سرمایہ دارانہ نظام میرے خون میں نہیں ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
پاکستان میں بنائے گئے ان موٹر سائیکل رکشوں کا انجن زیادہ تر ہنڈا کمپنی کا ہے ۔ جو 100 سی سی پاور کا ہے۔ مزید یہ کہ جتنا پرانا موٹر سائیکل اس کمپنی کا ہو گا وہ اتنا ہی موزوں گردانا جاتا ہے۔
اس میں چھ سواریوں کے لئے گنجائیش کا ایک بکس لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عدد سواری موٹر سائیکل رکشہ چلانے والے کے پیچھے بیٹھتی ہے۔ اور بوقت ضرورت ان کی تعداد دو بھی ہو جاتی ہے۔ اس طرح اس رکشہ پر کم از کم سات سواریاں اور زیادہ سے زیادہ نو لوگ بیک وقت سفر کر سکتے ہیں۔ اور اس کے تیل کی کھپت میرے ناقص اندازے کے مطابق ایک لیٹر میں تقریبآ 50 کلومیٹر ہے۔ اگر سپیڈ کی طرف دیکھیں تو کبھی تو یہ ہوا سے باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ اور کبھی نارمل 45 سے 55 کی سپیڈ پر ۔ یہ منحصر ہے ۔ کہ چلانے والا کیسا ہے۔

اس کے علاوہ ایک نئی ٹیکنالوجی کا رکشہ بنایا گیا ہے۔ جس میں چائنہ سے امپورٹ کئے گئے ۔ پانی کے لئے چھوٹے انجن ہیں ۔ جنہیں پیٹر انجن کہا جاتا ہے۔
اس میں ردو بدل کر ہمارے محنتی اور اُمی انجنئیروں نے تقریبآ 15 لوگوں کے کم ازکم سفر کے لئے ایک عدد موٹر سائیکل رکشہ نما گاڑی بنائی ہے۔
اس میں ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔ اس کے انجن کی طاقت کا درست اندازہ تو خیر مجھے نہیں ہے۔ یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ اس کے انجن کی طاقت کسی لائیٹ ویٹ گاڑی سے کم نہیں ہو سکتی ہے۔


اگر کبھی موقع ملا تو ان دونوں قسموں کی میں تصاویر آپ کو یہاں پیش فرماوں گا آج شام تک انشاللہ
 

دوست

محفلین
پیٹر انجن بنیادی طور پر ٹیوب ویل چلانے کے لیے استعمال ہوتے تھے یار لوگوں‌نے اس سے رکشے چلا لیے۔ انھیں مچھر کہا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل رکشے کو اس کی پیلی باڈی اور چنگ چی کے نشان کی وجہ سے اب بلا امتیاز رنگ و نسل چنگ چی ہی کہا جاتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
واہ خوب مراسلہ ہے ، اور مہوش بہن کے مراسلے میں ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں ، وگرنہ عوام کو ’’ پبلک ٹرانسپورٹ ‘‘ مہیا کرنا ریاست کی زمہ داری ہے ۔ اور وہی بہترین حل ہے ۔ شکریہ
 

محسن حجازی

محفلین
اسے چاند گاڑی بھی کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر ان میں سوزوکی یا یاماہا کے 100 سی سی ٹو سٹروک انجن لگے ہوتے ہیں۔ انہیں بطور سپلائی وین بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے چھوٹا سا کنٹینر لگایا جاتا ہے۔
 

محمدصابر

محفلین
جی ہاں بالکل اسے چاند گاڑی بھی کہتے ہیں کیونکہ اس پر بیٹھ کر آپ "چاند" پر جا سکتے ہیں۔ اور اس کی آواز بھی تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے جتنی چاند پر جانے والے راکٹ کی ہوتی ہے۔ سوار بھی تقریباً اتنے ہی ہوتی ہے۔ چلتے ہوئے جھٹکا بھی تقریباً اتنا ہی لگتا ہے۔ اور اس پر بیٹھنے کے لئے ٹریننگ بھی اتنی ہی چاہیئے ہوتی ہے۔ ویسے میرا صرف چاند گاڑی پر بیٹھنے کا تجربہ ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ چنگ چی ٹانگے کا نعم البدل ہے۔ اور ٹانگے سے تو بہرحال بہتر ہی ہے۔ جہاں تا آلودگی کا تعلق ہے تو گھوڑے بھی تو خاصی آلودگی پھیلاتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ چنگ چی ٹانگے کا نعم البدل ہے۔ اور ٹانگے سے تو بہرحال بہتر ہی ہے۔ جہاں تا آلودگی کا تعلق ہے تو گھوڑے بھی تو خاصی آلودگی پھیلاتے ہیں۔

شمشاد بھائی شاید آپ کو ان چنگ چی کا زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ اول اس میں ٹو سٹروک انجن والی موٹرسائکل استعمال ہوتی ہیں جن میں پٹرول کے ساتھ آئل یعنی لبریکنٹ استعمال ہوتا ہے جسکی وجہ سے اسکا دھواں کافی زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ لوگ اس موٹرسائکل کے سائلنسر میں بھی ردّ و بدل کر دیتے ہیں جسکی وجہ سے یہ صوتی آلودگی کا بھی سبب بنتی ہیں اور ان کا شور ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔
 

اظفر

محفلین
ویسپا رکشے کا شور کون سا کم ہوتا ہے۔ اوپر سے ویسپا رکشہ اتنا نازک ہوتا ہے تیزی میں چلتے ہوئے ایک اینٹ ٹایر کے نیچے آجاے تو الٹ جاتا ہے ۔ میں نے خود ایسے الٹتے دیکھے ہیں ۔ اس لحاظ سے چنگ چی بہتر ہے کم سے کم قلابازیاں تو نہیں کھاتا ۔ اگر اس کو بہتر کرنا ھے تو پرانے یاماہا کی بجاے ہونڈا 125 کا انجن استعمال کیا جاے اس کی آلودگی پرانے یاماہا کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے ۔
پاکستان میں فیول مہنگا ہے ۔ ویسپا تیل بھی زیادہ کھاتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی چاند گاڑی بہتر ہے ۔ ویسہا مہنگا ہے چاند گاڑی سستی ہے ۔
سرگودھا میں تو کچھ علاقوں میں چنگ چی والوں نے کنڈیکٹر بھی رکھے ہوئے ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے ویسپا رکشے میں سی این جی کٹ دیکھی تھی

آپ لوگ تحقیق کر کے بتائیں کہ پاکستانی انجینئرز یا مکینکز نے اب تک چنگ چی میں یہ گیس کٹ لگائی ہے یا نہیں؟


نیز یہ کہ چنگ چی کی مکمل ٹیکنیکی معلومات بہت ضروری ہیں، مثلا:

1۔ چنگ چی کی حد رفتار کتنی ہے۔

2۔ بریک لگانے کا سسٹم کیسا ہے؟ اگر 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہا ہے اور بریک لگائی جائے تو کتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد رکتا ہے۔

3۔ چنگ چی کا وزن کتنا ہے۔

4۔ کیا کوئی پاکستانی یونورسٹی چنگ چی کے کسی ماڈل پر کام کر رہی ہے اور اسکو سٹینڈرائڈز کیا جا رہا ہے؟

5۔ اگر چنگ چی میں گیس کٹ لگ چکی ہے، تو پھر کیا گیس کٹ سے اسکی صوتی ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے؟

****************

گھوڑے، گدھے، خچر، گائے، بھینسیں ماحولیاتی آلودگی کی زد میں نہیں آتے۔ انکا بائیو فضلہ ہمارے ماحول کے لیے اچھا ہے، خاص طور پر سبزے کے لیے کہ یہ بطور کھاد استعمال ہوتا ہے۔

میرا بس چلے تو وقت کو پیچھے گھما دوں اور انہی گھوڑے گدھوں کو شہروں میں متعارف کروا دوں۔۔۔۔ [یعنی میں صرف شوشلٹ ہی نہیں، بلکہ بہت زیادہ قدامت پسند بھی واقع ہوئی ہوں، اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے گرین پارٹی کی طرف مکمل جھکاؤ رکھتی ہوں]
 
میں نے ویسپا رکشے میں سی این جی کٹ دیکھی تھی

آپ لوگ تحقیق کر کے بتائیں کہ پاکستانی انجینئرز یا مکینکز نے اب تک چنگ چی میں یہ گیس کٹ لگائی ہے یا نہیں؟

جی ہاں، اس بار جب میں وزیرآباد گیا تھا تو میں چنگ چی میں گیس سلنڈر لگا دیکھ چکا ہوں۔ اور ایل پی جی شاپس پر ان کی لائنیں بھی

2۔ بریک لگانے کا سسٹم کیسا ہے؟ اگر 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہا ہے اور بریک لگائی جائے تو کتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد رکتا ہے۔

اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ شہر کے اندر اس کی رفتار اس درجے تک پہنچ ہی نہیں پاتی تھی۔

5۔ اگر چنگ چی میں گیس کٹ لگ چکی ہے، تو پھر کیا گیس کٹ سے اسکی صوتی ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے؟

بالکل بھی نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
یہ چنگ چی کے متعلق چاند بابو صحیح طور پر بتا پائیں گے کہ اس کی ایجاد کا سہرا انہی کے شہر کے شہری کے سر ہے۔ بدقسمتی سے اس نے اس رجسٹر نہیں کروایا تھا۔ اب ہر کوئی یہ چنگ چی بنا کر مال کما رہا ہے۔ غالباً اس کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گھوڑے، گدھے، خچر، گائے، بھینسیں ماحولیاتی آلودگی کی زد میں نہیں آتے۔ انکا بائیو فضلہ ہمارے ماحول کے لیے اچھا ہے، خاص طور پر سبزے کے لیے کہ یہ بطور کھاد استعمال ہوتا ہے۔
]

جی ہاں ان کا بائیو فضلہ دیہاتوں وغیرہ میں تو واقعی فائدہ مند ہے لیکن شہروں میں وہی فضلہ خشک ہو کر رکھشے اور گاڑیوں کے دھویں کے ساتھ ملکر لوگوں کے اندر جاتا ہے۔ اور خاص کر اندرون شہر جہاں کھانے پینے کی دکانیں ہیں وہاں ان اشیاء پر تہ در تہ جمع ہوتا رہتا ہے۔
 

بلال

محفلین
2۔ بریک لگانے کا سسٹم کیسا ہے؟ اگر 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہا ہے اور بریک لگائی جائے تو کتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد رکتا ہے۔
]

جو بریک ایک موٹر سائیکل کو روکنے کے لئے بنائی گئی تھی اسی بریک سے چاند گاڑی (چنک چی( کو روکا جا رہا ہے۔
جہاں تک مجھے لگتا ہے چنگ چی چاند گاڑی جتنی ہی خطرناک ہے کہیں بھی کسی وقت بھی پھٹ سکتی ہے۔ باقی اس کے بارے میں تفصیلی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 
Top