چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا - افتخار راغب

کاشفی

محفلین
غزل
چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا
دل ہے کہ نہیں مانتا نادان کہیں‌کا

جائیں تو کہاں جائیں اسی سوچ میں گم ہیں
خواہش ہے کہیں کی تو ہے ارمان کہیں کا

ہم ہجر کے ماروں کو کہیں چین کہاں‌ہے
موسم نہیں جچتا ہمیں اک آن کہیں کا

اُس شوخیِ گفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں‌ وہ شیطان کہیں‌کا

یہ وصل کی رُت ہے کہ جدائی کا ہے موسم
یہ گلشنِ دل ہے کہ بیابان کہیں کا

کر دے نہ اُسے غرق کوئی ندّی کہیں کی
خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا

اک حرف بھی تحریف زدہ ہو تو دکھائے
لے آئے اٹھا کر کوئی قرآن کہیں‌ کا

محبوب نگر ہو کہ غزل گانو ہو راغب
دستورِ محبت نہیں آسان کہیں کا

(افتخار راغب - دوحہ قطر)
 
Top