پوچھئے نہ یہ ہم سے بتکدے میں کیا پایا - متین امروھوی

کاشفی

محفلین
متین امروہوی صاحب دہلی ہندوستان کے ایک معروف شاعر ہیں اور غالب اکاڈمی دہلی سے منسلک ہیں۔ آپ نے حال ہی میں اپنا مجموعہء کلام بعنوان "گلہائے سخن" شائع کیا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ کی غزلوں کی زمین اور بحروں میں کہی گئی ہیں۔ اس کام کی دُشواریوں کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہاں پر مرزا غالب رحمتہ اللہ علیہ کی مشہورِ زمانہ غزل اور ان کی ہی زمین میں متین امروہوی صاحب کی غزل تمام خواتین اور دیگر بزمِ سخن ارکان اردو محفل کی بصارتوں کی نظر کی جارہی ہے۔۔۔ :happy:

کلام غالب
کہتے ہو نہ دیں‌گے ہم، دل اگر پڑا پایا
دل کہاں‌کہ گم کیجیے، ہم نے مدعا پایا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
دَرد کی دَوا پائی، دَرد لادَوا پایا

دوستدار دشمن ہے، اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، دَرد بے دَورا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جراءت آزما پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

شورپند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

نے اسد جفا سائل ، نے ستم جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈھا، الفت آزما پایا​

کلام متین امروھوی
پوچھئے نہ یہ ہم سے بتکدے میں کیا پایا
جب صنم کو پوجا ہے، تب کہیں خدا پایا

سربلند میرا بھی، ہوگیا زمانے میں
نقش پائے جاناں پر جب اُسے جھکا پایا

خون میری آنکھوں نے بارہا بہایا ہے
بار غم محبت میں، دل کہاں اُٹھا لایا

زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیری
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جُدا پایا

داستاں گلستاں کی، کہہ رہی تھی خاموشی
عندلیب گلشن کو ہم نے بےنوا پایا

میکدے کی راہوں میں‌ پھونک کر قدم رکھنا
تیز گام رندوں کو راہ میں‌ گرا پایا

آئینے ہزاروں ہیں عکس ایک ہے اُس کا
ہم نے کل عناصر میں جلوہء خدا پایا

عشق نے متین اپنا معجزہ دکھایا ہے
جذبہء محبت سے حسن کا پتا پایا​
 

فرخ منظور

لائبریرین

زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیری
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جُدا پایا​


اچھی غزل ہے شکریہ کاشفی صاحب۔ لیکن یہ شعر کھٹک رہا ہے ۔ دیکھیے گا کہ کتاب میں یہ ایسے ہی ہے۔ وارث صاحب آپ بھی دیکھیے۔ کیا یہ شعر ایسے نہیں ہونا چاہیے؟
زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیرا
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جدا پایا
 

محمد وارث

لائبریرین
[/center]
[/size][/color]
اچھی غزل ہے شکریہ کاشفی صاحب۔ لیکن یہ شعر کھٹک رہا ہے ۔ دیکھیے گا کہ کتاب میں یہ ایسے ہی ہے۔ وارث صاحب آپ بھی دیکھیے۔ کیا یہ شعر ایسے نہیں ہونا چاہیے؟
زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیرا
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جدا پایا

شکریہ فرخ صاحب!

مجھے تو لگ رہا ہے کہ 'تیری' ہی ہے، کیونکہ اشارہ رفاقت کی طرف ہے جو کہ مونث ہے، بھرم کہ ساتھ 'کھل گیا' پہلے ہی آچکا :)
 

کاشفی

محفلین
[/center]
[/size][/color]
اچھی غزل ہے شکریہ کاشفی صاحب۔ لیکن یہ شعر کھٹک رہا ہے ۔ دیکھیے گا کہ کتاب میں یہ ایسے ہی ہے۔ وارث صاحب آپ بھی دیکھیے۔ کیا یہ شعر ایسے نہیں ہونا چاہیے؟
زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیرا
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جدا پایا


شکریہ پسندیدگی کے لیئے سخنور صاحب۔۔محمد وارث صاحب اور شاہ صاحب۔۔۔۔۔

شعر بالکل صحیح ہے۔۔ اس طرح
زندگی! رفاقت کا کھل گیا بھرم تیری
جب چمن میں خوشبو کو پھول سے جُدا پایا
 

umarjkan

محفلین
کلام غالب
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ
تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانہ نے اسداللہؔ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
--------------
کلام متین امروھوی

دیکھا وہاں تک ہم نے جہاں تک نظر گئی
تیری نظر تو حدّ ِ نظر سے گُزر گئی

تُو نے تو دو شِکار کیے ایک تیر سے
دِل سے تِری نِگاہ جِگر تک اُتر گئی

اِس چشمِ نم نے ایسا کِیا سُخرُو مُجھے
رونے سے میری اور بھی صُورت نِکھر گئی

شمعِ حیات جلتی رہی مُجھ میں رات بھر
خاموش ہوگئی تو شبِ غم گُزر گئی

بچپن تو مِل گیا تھا جوانی کے رُوپ میں
پِیری میں سوچتا ہُوں جوانی کِدھر گئی

گیسُو سنوارے ہم نے یہاں پر حیات کے
اور عاقبت ہماری وہاں خود سنور گئی

اُس نے متینؔ مُجھ کو پُکارا جو بام سے
آواز اُس کی رس مِرے کانوں بھر گئی۔۔۔!

متینؔ امروہوی
 
Top