پسندیدہ اقتباسات

سیما علی

لائبریرین
“ شہر پہلی محبت کی طرح ہوتے ہیں ۔طویل جدائیوں کے بعد انکی طرف لوٹنا بے حد اذیت ناک ہوتا ہے ۔تمہارے اندر ماضی کی آوازیں اور مہک محفوظ ہوتی ہے مگر وہ چہروں کی طرح وقت کے ساتھ بدل چکے ہوتے ہیں......!!”

( مستنصر حسین تارڑ ۔ سفرنامے “خانہ بدوش” سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)

“ یہ مضمون منٹو صاحب نے اپنے انتقال سے قریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ آیئے منٹو کو انھی کے قلم سے جاننے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔”

“ منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے......!!”

( سعادت حسن منٹو ۔ رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء )
 

سیما علی

لائبریرین
" انسان جوانی میں خواب دیکھنے سے نہیں ڈرتا، نہ ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لے قیمت دینے سے گھبراتا ہے چاہے یہ قیمت کچھ بھی ہو۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے کُچھ پُراسرار قوتیں اسے یقین دلاتی ہیں کہ اس کے لیے منزل تک پہنچنا ناممکن ہے......!!"

( پاؤلو کوئیلیو ۔ ناول " الکیمسٹ " سے اقتباس ۔ اردو ترجمہ: شفیق ناز ۔ ممتاز الحسن )
 

سیما علی

لائبریرین
کون کہتا ہے، انسان نےاس جدید دور میں میزائل، بم اور ڈرون ایجاد کر کے تباہی پھیلائی ہے- جتنا گہرا گھاؤ انسان کی زبان کسی انسان کے دل میں لگا سکتی ہے، اس کی کاٹ اور زخم کا مقابلہ، یہ نئے دور کے ہتھیار کسی صورت نہیں کر سکتے. کبھی کبھی میں سوچتا کہ ایٹم بم کے موجد کو شاید زبان کے زہر کا ٹھیک طرح سے ادراک نہیں ہوگا، ورنہ اسے دنیا برباد کرنے کے لئے اتنی محنت نہ کرنا پڑتی-”

پری زاد از ہاشم ندیم
میری پسندیدہ پریزاد
 

شمشاد

لائبریرین
آج نوطرز مرصع کا ایک صفحہ ٹائیپ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل عبارت پڑھی، واللہ زبان کو بل پڑ پڑ گئے، یہ القاب پڑھتے ہوئے :

نواب مستطاب معلٰی القاب، گردوں رکاب، شعاع شمس الضحٰی آسمانِ جلال حیدری، جلائے بدر الدجیٰ، شپہر اقبال صفدری، فرازندۂ لوائے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شبِ چراغِ افسرِ حشمت و اجلال، دُرۃُ التاجِ تارکِ ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ بُرجِ شجاعت و فتوت، گوہرِ دُرج سخاوت و مروت، رکن السلطنت القاہرہ، عُضُد الدولہ الباہر، صاحب السیف والقلم، رافع الجاہ والعکم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدرداں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وضیہ، جمیل، خیر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصلی، متقی، صالح، مُصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غآزی، مظفر، وزیر الملک، عمدۃ الملک، مدار المہام، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہان الملک، نواب شجاع الدولہ ابو المنصور خان بہادر، صفدر جنگ اوام اللہ افضالہ و اجلالہ کہ کار پردازانِ ملاء اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روزِ ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ فضل و کرم اُس کے کی مستفیض کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مزید یہ بھی دکھیں :

کھانے کا بیان کتنا مرصع ہو سکتا ہے، اس کی مثال کے لیے یہ عبارت کافی ہے :

"اس عزیز نے کمال تکلف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہائے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہائے حلاوت بخش و چاشنی دار و اصناف شربت ہائے گلاب و بید مشک و گونا گوں میوہ ہائے تر و خشک وٖغیرہ و لوازمہ اکل و شُرب از قسم نان یزدی و نان ورقی و نان تنکی و نان پنیری و نان خمیری و نان باقر خانی و گاؤ زبان و گاؤ دیدہ آبی و روغنی و خطائی و شیر مال و نان گُلدار، قلیہ دو پیازہ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی، کباب و قلیہ، کوفتہ، خاگینہ، ملغوبہ، پن بھتہ، بورانی، بریانی نور محلی و خراسانی، روم، تبریزی، و شب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفر و شولا و متنجن پلاؤ و قورمہ پلاؤ و یخنی پلاؤو حبشی پلاؤو بیگمی، چاشنی، عنبری، کاشانی و ماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب و بیضہ کباب و حلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی و طاہری و کھچڑی و فرنی و ملائی و حلوا و فالودہ و نمش، قندی بامشک نافہ، و ساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربے، ناشپاتی، بہی، انگور، انجیر، سیب، انار، کشمش، بادام، چھوہارے، پستے وغیرہ اغذیہ و اشربا قسم قسم کے کہ جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کی بھی تر و تازہ ہو جاوے انسان کا کیا ذکر ہے، نہایت سلیقہ و کاردانی سے بیچ ظروف مرصع کاری و مینا سازی و طلائی و نقرئی و غوری و فغفوری و چینی و خطائی، حلبی و بلوری کے لا کر چُنے۔ (ص ۱۳۰، ۱۳۱)
 
منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)

“ یہ مضمون منٹو صاحب نے اپنے انتقال سے قریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ آیئے منٹو کو انھی کے قلم سے جاننے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔”

“ منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے......!!”

( سعادت حسن منٹو ۔ رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء )

منٹو اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
منٹو اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا تھا۔
منٹو خود کہتے ہیں”
  • زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔”
 
زبیر ! دیکھو یہ ستارہ کس قدر اہم ہے لیکن اس کی زندگی کتنی مختصر ہے۔ یہ دنیا کو ہر صبح آفتاب کی آمد کا پیغام دینے کے بعد روپوش ہو جاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سورج کے چہرے سے تاریکی کا نقاب الٹ کر اپنے چہرے پر ڈال لیتا ہے لیکن اس کے باوجود جو اہمیت اسے حاصل ہے وہ دوسرے ستاروں کو حاصل نہیں اگر یہ بھی دوسرے ستاروں کی طرح تمام رات چمکتا تو ہماری نگاہوں میں اس کا رتبہ اس قدر بلند نہ ہوتا۔ ہم تمام رات آسمان پر کروڑوں ستارے دیکھتے ہیں ۔ لیکن یہ ستارہ ہمارے لیے سب سے زیادہ جاذب توجہ ہے عام ستاروں کی موت و حیات ہمارے لیے کوئ معنی نہیں رکھتی۔ بالکل ان انسانوں کی طرح جو دنیا میں چند سال ایک بے مقصد زندگی بسر کرنے کے بعد مر جاتے ہیں اور دنیا کو اپنی موت و حیات کا مفہوم بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔
زبیر ! مجھے اس ستارے کی زندگی پر رشک آتا ہے۔ اس کی زندگی جس قدر مختصر ہے اسی قدر اس کا مقصد بلند ہے۔ دیکھو! یہ دنیا کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ میری عارضی زندگی پر اظہار تاسف نہ کرو۔ قدرت نے مجھے سورج کا ایلچی بنا کر بھیجا تھا اور میں اپنا فرض پورا کر کے جا رہا ہوں۔ کاش! میں بھی اس ملک میں آفتاب اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے صبح کے ستارے کا فرض ادا کر سکوں!
زبیر، محمد بن قاسم کی طرف بغور دیکھ رہا تھا۔ اس کی چہرے پر ایک بچے کی سی معصومیت، چاند کی سی دلفریبی، سورج کا سا جاہ و جلال اور صبح کے ستارے کی سی رعنائ اور پاکیزگی تھی۔

نسیم حجازی کے" ناول محمد بن قاسم " سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
تلاش میں ممتاز مفتی صاحب:

ایک جگہ پر لکھتے ہیں

”صاحبو سچ پوچھو تو اپنی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام کیا چیز ہے۔ ایک دوست ہے اس نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے میں اس کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا یار مجھے بھی سمجھا دو اسلام کیا ہے وہ ہنسا بولا مجھے خود سمجھ میں نہیں آیا تجھے کیا سمجھاؤں۔ میں نے کہا وہ جو اتنا سارا مطالعہ کیا ہے تو نے اس کا نتیجہ نہیں نکلا کیا بولا نکلا ہے میں نے کہا کیا نکلا ہے بولا اللہ سے یارانہ لگ گیا ہے محمد ﷺ سے محبت ہو گئی ہے بس اور کسی بات کی سمجھ نہیں آئی“ ۔ تلاش ص 204۔
 

زونی

محفلین
اِنسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے اُس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے ، نہ تتلیاں ملتی ہیں نہ واپسی کا راستہ ۔۔۔

حاصل گھاٹ
 

شمشاد

لائبریرین
یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، یہ زونی آج کہاں سے نکل آئی؟
بھتیجی ذرا سامنے تو آؤ، تمہاری کلاس ہونی چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیسے ہیں جناب شمشاد بھائی اور کہاں غائب رہے آپ؟؟
شکر ہے تمہیں نظر تو آیا۔ مجھے تو واپس آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔

یہ رہی میری واپسی کی لڑی

آج ہم لڑائی نہیں کریں گے، حالانکہ اتفاق سے آج پھر امریکی امداد ( ظفری بھائی ) بھی موجود ہیں۔

کیسی ہو؟ یہ ڈی پی میں تمہارا بیٹا ہے ناں۔
 

زونی

محفلین
آپ گئے بھی تھے ؟؟ وہ آملی کی چٹنی کیسی بنی تھی؟؟؟ جی یہ میری چھوٹی بیٹی ھے زمل ۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ گئے بھی تھے ؟؟ وہ آملی کی چٹنی کیسی بنی تھی؟؟؟ جی یہ میری چھوٹی بیٹی ھے زمل ۔
ماشاء اللہ اور بیٹے کا کیا نام ہے؟

املی کی چٹنی، تم بھی دھوکہ کھا گئیں، وہ میرا ہمنام تھا، کچھ دیر ہی محفل میں رہا، پھر ایک مشہورچوپائے کے سینگوں کی طرح محفل سے غائب ہو گیا۔ اسے دوبارہ نہیں دیکھا۔

محفل میں میری واپسی چھ سال بعد ہوئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیسے ہیں جناب شمشاد بھائی اور کہاں غائب رہے آپ؟؟
زونی تمہیں محفل میں دیکھ کر سچ میں خوشی ہو رہی ہے۔ اب آتی رہنا۔
مجھے احساس ہے کہ بچوں کی وجہ سے فرصت کم ملتی ہو گی، لیکن پھر بھی محفل کی خاطر حاضری ضرور لگنی چاہیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صاحبو ۔۔۔۔! یہ آذان ، جو ظاہری طور پر ایک معصوم سا بلاوا ہے کہ " آؤ اللہ کے حضور سر بسجود ہو جائیں " ۔ بڑی پُر اثر چیز ہے ۔۔۔۔۔ کانوں سے دل میں جا بیٹھتی ہے ۔۔۔۔۔ ہمارے اندر کو انڈے کی طرح پھینٹ کر رکھ دیتی ہے ۔۔۔۔۔ جبھی تو غیر مسلموں کی نظر میں بڑی خطرناک چیز ہے ۔۔۔۔۔
سکھوں کو حکم ہے کہ وہ اذان کی آواز نہ سُنیں ۔۔۔۔۔۔
یہاں اسلام آباد میں کچھ سفارت خانے ایسے ہیں ، جہاں اذان ُسننے کی ممانعت ہے ۔۔۔۔
ایک سفیر سے پوچھا گیا کہ " آپ اذان سے کیوں خائف ہیں "؟
بولے ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ، اذان کی آواز سن کر مُجھ پر وحشت سی طاری ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
تاریخ شاہد ہے کہ کئی غیر مسلم بادشاہوں نے اذان پر پابندی لگا رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔
تلاش

ممتاز مفتی
 

سیما علی

لائبریرین
صاحبو !۔۔۔ بات کہنے کی نہیں لیکن ۔۔۔۔ کہے بغیر چارہ بھی نہیں ۔۔۔ بڑی تلخ بات ہے ۔۔۔ لیکن بڑی سچی۔۔۔ اتنی سچائی کہ ۔۔۔ ماننے کو جی نہیں چاہتا۔۔۔ وہ یہ کہ ہم میں سے ۔۔۔ چند ایک افراد جو۔۔۔ قرآن پڑھتے نہیں ۔۔۔ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ زیادہ تر لوگ تو ثواب کمانے کیلئے ۔۔ قرآن پڑھتے ہیں ۔۔۔ کچھ لوگ آیات کو تعویز کے طور پراستعمال کرتے ہیں ۔۔۔ کچھ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ۔۔۔ ورد کرتے ہیں ۔۔۔ صوفی اکھٹے مل کر ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ تاکہ وجد کی کیفیت پیدا ہو۔۔۔ وجدان بھی تو ایک قسم کی لذت ہے ۔۔ ہمیں راہ دکھانے والے اپنے نظریات کی تقویت کیلئے ۔۔۔ قرآن پڑھتے ہیں ۔۔۔ ہر صورت کوئی شخص قرآن کو سمجھنے اور۔۔۔ جاننے کیلئے قرآن نہیں پڑھتا۔۔۔ سیانے کہتے ہیں ۔۔۔ قرآن گلاب کے پھول کی مانند ہے ۔۔۔ پتی در پتی ۔۔۔ ‘ پتی در پتی ۔۔۔ اوپر کی پتی اوپر کی پتی اٹھاؤ ۔۔۔ نیچے ایک اور پتی سے اسے اٹھاؤ تو۔۔۔ ایک اور پتی ۔۔۔ مفہوم در مفہوم ۔۔۔ اوپر کا مفہوم ہٹاؤ تو ۔۔۔ نیچے ایک اور مفہوم ۔۔۔ اوپر سطحی نیچے کائناتی۔۔۔ اکثر لوگ بھی پتی کے مفہوم پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں ۔۔۔ اور سمجھتے ہیں کہ ۔۔۔ ہم نے پالیا ۔۔۔ ہم نے پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ممتاز مفتی کی کتاب ۔۔۔“ تلاش“ سے اقتباس
 
Top