پسندیدہ اقتباسات

سیما علی

لائبریرین
اس براعظم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینار پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن انکے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا مندر اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ...ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہہ دی “جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں۔ جب حق کی جگہ حکایت اور جہاد کی جگہ جمود لے لے۔ جب ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔“

اقتباس "آواز دوست " از مختار مسعود
 

سیما علی

لائبریرین
’’بھنڈارا نے کہا، میں پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت کے فروغ اور پاکستان کی برآمد میں اضافے کی ایک اہم تجویز لے کر آیا ہوں۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آر سی ڈی کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ کچھ عرصے سے میں اپنے کارخانہ شراب کی بنی ہوئی بیئر ایران برآمد کر رہا ہوں۔ سڑک کے راستے بھیجتا ہوں اور مشہد میں فروخت کرتا ہوں۔ اس علاقے کے لوگوں کو اس بیئر کا ذائقہ پسند آیا اس لیے کھپت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ ولایتی شراب بیچنے اور مقامی آب جو بنانیوالوں کو تشویش ہوئی۔ دونوں نے مل کر وزارت بازرگانی سے کسٹم ڈیوٹی میں تبدیل کرادی ہے تاکہ میرے کارخانے کا مال آنا بند ہوجائے۔ پہلے کسٹم ڈیوٹی قیمت پر لگتی تھی، اب وزن پر لگائی جاتی ہے۔ بیئر شیشے کی بوتل میں بھری جاتی ہے جب کہ ولایتی اور ایرانی بیئر ٹین کے ہلکے پھلکے ڈبے میں بند ہوتی ہے۔ شراب کا وزن ایک ہوتا ہے مگر ظرف کے وزن کے فرق کی وجہ سے ہماری شراب پر دگنا چوگنا محصول پڑجاتا ہے۔ جب سے یہ نیا قاعدہ رائج ہوا ہے پاکستان سے ایران کے لیے بیئر کی برآمد بند ہوگئی ہے۔ ایران کی وزارت بازرگانی سے قاعدہ میں یہ تبدیلی کرانی ہے کہ کسٹم ڈیوٹی میں ظرف کے وزن کی کٹوتی دی جائے، محصول خالص شراب پر لیا جائے۔ یہ بڑا اہم اور ضروری کام ہے۔

پاکستان کی برآمدات اور زرمبادلہ میں اضافے کا مسئلہ ہے۔ آپ تہران آنے سے پہلے پاکستان کی وزارت تجارت کے سیکریٹری تھے اس لیے ایران کی وزارت بازرگانی میں آپ کے تعلقات سے کام چل سکتا ہے۔ شنید تو یہی ہے‘‘

مختار مسعود ’’لوح ایام‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
slbt7vE_d.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
میرے پیر و مرشد سلسلہ یوسفیہ کی بانی مشتاق احمد یوسفی مرحوم و مغفور کے ایک خاکے "چارپائی اور کلچر" سے اقتباس

چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہےجونئےتقاضوں اورضرورتوں سےعہدہ برا ہونےکےلیےنِت نئی چیزیں ایجادکرنےکی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسےنازک مواقع پرپُرانی میں نئی خوبیاں دریافت کرکےمسکرادیتی تھی۔ اس عہدکی رنگارنگ مجلسی زندگی کاتصّورچارپائی کےبغیر ممکن نہیں۔ اس کاخیال آتےہی ذہن کےافق پرپہت سےسہانےمنظراُبھر آتے ہیں۔اُجلی اُجلی ٹھنڈی چادریں، خس کےپنکھی، کچّی مٹّی کی سن سن کرتی کوری صُراحیاں، چھڑکاؤ سےبھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کےلدےپھندےدرخت جن میں آموں کے بجائے لڑکے لٹکے رہتےہیں۔اوراُن کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پردِن بھرشطرنج کی بساط یارمی کی پھڑجمی اورجوشام کودسترخوان بچھاکرکھانےکی میزبنالی گئی۔ ذراغورسےدیکھئےتویہ وہی چارپائی ہےجس کی سیڑھی بناکرسُگھڑبیویاں مکڑی کےجالےاورچلنلےلڑکےچڑیوں کےگھونسلےاتارتےہیں۔ اسی چارپائی کووقتِ ضرورت پٹیوں سےبانس باندھ کراسٹیریچربنالیتےہیں اوربجوگ پڑجائےتوانھیں بانسوں سےایک دُوسرےکواسٹیریچرکےقابل بنایاجاسکتاہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ سےلگ جائےتوتیماردارمؤخرالذِکرکےوسط میں بڑاساسوراخ کرکےاوّل الذِکرکی مشکل آسان کردیتےہیں۔ اورجب ساون میں اُودی اُودی گھٹائیں اُٹھتی ہیں توادوان کھول کرلڑکیاں دروازےکی چوکھٹ اوروالدین چارپائیوں میں جُھولتےہیں۔ اسی پربیٹھ کرمولوی صاحب قمچی کےذریعہ اخلاقیات کےبنیادی اُصول ذہن نشین کراتےہیں۔ اسی پرنومولودبچّےغاؤں غاؤں کرتی، چُندھیائی ہُوئی آنکھیں کھول کراپنےوالدین کودیکھتےہیں اور روتے ہیں اوراسی پردیکھتےہی دیکھتےاپنےپیاروں کی آنکھیں بندہوجاتی ہیں۔

کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ ، چھپرکھٹ، کھرّا، کھری، جِھلگا، پلنگ ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔
یہ نامکمل سی فہرست صرف اردوکی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پردال ہےاورہمارےتمّدن میں اس کامقام ومرتبہ متّعین کرتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مہا راجہ رنجیت سنگھ

مہا راجہ رنجیت سنگھ پنجاب کے مہا راجہ تھے - اور ان کا نام رنجیت سنگھ تھا - اس لیے انھیں مہا راجہ رنجیت سنگھ کہتے ہیں -

مہا راجہ رنجیت سنگھ کا انصاف مشہور ہے ، ویسے تو ہندوستان کے سبھی راجاؤں کا انصاف مشہور ہے لیکن یہ واقعی سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے -
سزا دینے میں مجرم اور غیر مجرم کی تخصیص نہ برتتے تھے -

جو شخص کوئی جرم نہ کرے وہ بھی پکڑا جاتا تھا - فرماتے تھے علاج سے پرہیز بہتر ہے -
اس وقت اس شخص کو سزا نہ ملتی تو آگے چل کر ضرور کوئی جرم کرتا -

بعد کے حکمرانوں نے انہی کی تقلید میں جرم نہ کرنے والے کو حفظ ما تقدم کے طور پر سزا دینے اور جیل بھجوانے کا اصول اختیار کیا -

کبھی مجرم کو بھی سزا دیتے ہیں اگر وہ ہاتھ آجائے اور اس کا وکیل اچھا نہ ہو -

از ابن انشاء (اردو کی آخری کتاب )
 

شمشاد

لائبریرین
ان کے متعلق مشہور ہے کہ رعایا مہاراجہ کو بہت عرضداشت بھیجتی تھی۔ وہ جمع ہوتی رہتی تھیں۔ پھر کسی دن ان کو خیال آتا، وہ ساری عرضیاں منگواتے اور کہتے کہ ان کو آدھا ادھا کر دو۔ حکم کی تعمیل ہوتی، تو کہتے یہ دائیں طرف والی منظور اور بائیں طرف والی نامنظور۔ چلیں جی فوری فیصلہ ہو گیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
محبت وسوسوں کا آئینہ ہوتی ہے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ کچھ الگ ہی خدشہ سر اُٹھاتا ہے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا محبوب بھی موڑ مڑتے ہوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں کی دینا اتھل پتھل ہونے لگتی ہے کہ جانے کیا ہوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا۔ کوئی بات بُری تو نہیں لگ گئی اُسے................؟ اور بھر اگلی ملاقات تک سارا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم کی لاچاری پر بے حد غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم کو ہماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطاء کی گئی؟ ایسا ہوتا تو میں اُڑ کر اُس بے پروا کے در جا پہنچتا کہ اس تغافل کی وجہ تو بتا دے؟

(اقتباس: ہاشم ندیم کے ناول "عبداللہ" کے باب "من کی دیوار" سے
 

سیما علی

لائبریرین
سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں، وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں۔ مثلاً میں پوچھتا ہوں کہ "خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے کیلئے کیا پکا رہی ہیں؟"۔ تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ "میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے۔ اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے"۔ خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے گئے تھے، ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ "خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟"۔ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ہیں"۔ ویسے خالہ جان ان سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگر چہ قدرے "تفصیل" سے کرتی تھیں۔

(مستنصر حسین تارڑ:"مختصر بات اور باتوں کے خربوزے" سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
مَیں اکثر سوچا کرتا تھا کہ شادیٔ مرگ کِسے کہتے ہوں گے، کوئی بھلا خوشی سے بھی مرسکتا ہے؟ مارتا تو غم ہے، لیکن اُن دنوں مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے مجھے اس لفظ کا مطلب سمجھ آنے لگا ہے اور مَیں بھی ڈرنے لگا تھا کہ کہیں اُس کے میرے ہوجانے سے پہلے ہی میرا دل خوشی سے پھٹ نہ جائے۔ جانے قدرت نے ہمارا دل اتنا نازک بنایا ہی کیوں تھا؟ جن چیزوں پر سکت سے زیادہ بوجھ ڈالنا مقصود ہو، انہیں تو دگنا مضبوط جوڑا جاتا ہے، مگر میرا دل تو بے چارہ اکہرا تھا۔ اتنی خوشی کا بوجھ کیسے سہہ پاتا…؟ ہم دونوں کے خاندان بھی بہت خوش تھے۔ ممّا،پاپا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ چاند، تارے آسمان سے اتار کر ہماری کوٹھی سجادیں۔ زہرا کے ماں باپ شادی اور رخصتی سے پہلے اس کے گھر سے زیادہ نکلنے کو پسند نہیں کرتے تھے، خود زہرا بھی کسی بدشگونی سے ڈرتی تھی۔ اور مجھ سےہمیشہ یہی کہتی رہی کہ اب ہم رخصت ہونے کے بعد ہی ملیں گے، لیکن میرا یہ نادان دل بھلا ایسی بدشگونیوں کو کب مانتا تھا۔ دل کے اپنے شگن ہوتے ہیں اور اپنی ہی رسمیں۔ سو، میرا دل بھی ضد کر بیٹھا تھا کہ اپنی سال گرہ والی رات مجھے زہرا سے ضرور ملنا ہے، جس کے لیے میرا جنم ہوا تھا۔ اپنے جنم دن پر اسی سے ملاقات نہ ہوئی، تو بھلا سال گرہ کیسی؟ زہرا نے منع کیا، اُس کی ماں نے ٹوکا اور اُس کے ابّا نے بُرا منایا، پر میری ضد کے آگے سبھی کو ہارماننا ہی پڑی اور دوفروری کی رات، مَیں اُسے کیک کاٹنے کے لیے رات بارہ بجے اُسی ساحلی ہَٹ میں لے آیا، جہاں ہم پہلے بھی ایک آدھ بار آچکے تھے۔ زہرا کو یہاں کا سُکون اور اونچائی سے سمندر کا نظارہ پسند تھا۔ مجھے یاد ہے، اُس رات اس نے میری فرمایش پر وہی دھانی ستاروں والی سیاہ ساڑی پہن رکھی تھی، وہ میری جوگن تھی اور میں اُس کا۔ مگر میرایہ نادان دل یہ نہیں جانتا تھا کہ عشق ناگ کے جوڑے کو آج تک کوئی جوگی بھی قابو نہیں کر پایا۔ جیسے ہی سپیرے کا دھیان بٹتا ہے، ٹھیک اُسی لمحے یہ زہریلے ناگ اُسے ڈس لیتے ہیں۔ کیک کٹنے کے بعد ہم بہت دیر وہیں بیٹھے آنے والے دِنوں کی باتیں کرتے رہے اور پھر زہرا کو ہی اپنی نازک کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ کر گزرتے وقت کا خیال آیا۔ رات بہت بیت چکی تھی اور ہمیں یہاں سے گھر پہنچنے میں بھی کافی وقت مزید لگنا تھا، لہٰذا بادل نخواستہ میں نے بھی واپسی کی ہامی بھرلی۔ یہ ہَٹ پاپا کے کسی بزنس مین دوست کاتھا اور رات گئے تک سارا عملہ ہماری خدمت کے لیے وہیں موجود رہا۔ میں نے واپسی پر ہَٹ کے کیئرٹیکر اور باقی عملے کے لیے جیب میں موجود ساری رقم نکال کر مینجر کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ اُس نے مجھے پیش کش کی کہ رات بہت ہوچکی ہے، ہَٹ کے عملے کی گاڑی بھی وہ ہمارے ساتھ ہی روانہ کرناچاہتا ہے، تاکہ وہ ہمیں شہر کی حدود تک چھوڑ کر واپس لوٹ آئیں، لیکن میں نے منع کر دیا اور مَیں زہرا کے ساتھ اپنی جیگوار میں وہاں سے نکل آیا۔ مَیں نے کار کی رفتار بڑھائی، تو زہرا نے ہلکا سا احتجاج کیا، ’’ کیا جلدی ہے صاحب…؟‘‘ مَیں ہنس پڑا۔ یہ لڑکیاں کبھی اپنے دل کی پوری بات کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتیں، کہاں تو اسے گھر واپسی کی جلدی پڑی تھی۔ اور کہاں یہ تھم کر چلنے کی فرمایش؟ میں نے غور سے اُس کی طرف دیکھا، سیاہ ساڑی میں اس کے چہرے کا کندن دمک رہاتھا۔ سچ ہے ماہتاب کو رات کی سیاہی نکھارتی ہے۔

وہ میری طرف دیکھ کر مُسکرائی، ’’کیا دیکھ رہے ہو، آگے دیکھ کر گاڑی چلائو صاحب۔‘‘ اُسی لمحے زہرا کی نظر سامنے پڑی اور وہ خوف زدہ ہو کر چلّائی، ’’دھیان سے ساحر…‘‘ سامنے سڑک پرتین چار موٹر سائیکل عین درمیان میں لگائے کچھ لڑکے راستہ بند کیے کھڑے تھے، جیسے اُنہیں رات کے اس پہر کسی شکار کا انتظار ہو، مَیں نے پوری قوت سے بریک دبا دی۔ گاڑی ایک زوردار اسکریچ کے ساتھ تقریباً انہیں چُھوتی ہوئی جا کر رُک گئی۔ اُن میں سے دو ہماری طرف لپکے اور ایک زور سے چلّا کر بولا، ’’چُپ چاپ نیچے اترجائو گاڑی سے، ورنہ چھے کی چھے سر میں اتار دوں گا۔‘‘ زہرا نےگھبرا کر میرا ہاتھ پکڑلیا۔۔۔۔۔۔۔
ندیم ہاشم کے۔۔۔۔۔
ناول عبد اللہ سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
ہم انسان کتنے بھولے ہوتے ہیں جو یہ سوچ لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہمارے جاتے ہی سب کچھ رُک جائے گا یا بدل جائے گا، مگر کچھ نہیں رکتا، کچھ نہیں بدلتا۔
سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے ، بس ہم نہیں ہوتے۔ گویا ہمارا ہونا نہ ہونا سب برابر ہے ، تو پھر اس نہ ہونے کے برابر ہونے کا اتنا زعم کیوں، اتنا گھمنڈ کس لے۔ ۔ ۔ ؟؟؟

( ہاشم ندیم کے ناول " پری زاد " سے اقتباس )
 

سیما علی

لائبریرین
خود کو گم کر دینے کے لئے ہمیشہ کسی جنگل یا ویرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔۔ انسانوں کا ہجوم بھی خود کو کھو دینے کے لئے بڑا کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

(ہاشم ندیم کے ناول ’’پری زاد‘‘ سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
مذہب انسان کو جس چیز سے منع کرتا ہے، جانے اُسی عمل میں انسان کو اتنی کشش کیوں محسوس ہوتی ہے؟ شاید گناہ اور ثواب کا بنیادی فلسفہ ہی یہی ہے اور اسی جبر پر سزاوجزا کا درومدار۔

(ہاشم ندیم کے ناول ’’پری زاد‘‘ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
میرا خیال تھا اور اب بھی ہے کہ جب انسان بڑا ہوجاتا ہے تو اسے اپنی کمزوریوں اور محرمیوں کا خود سدباب کرنا چاہئے۔ ساری زندگی آپ اپنے ماضی کی محرومیوں کے بارے میں رونے رو رو کر تو لوگوں سے مراعات نہیں لے سکتے اور پھر ایسا کون ہے اس دنیا میں جو محروم نہ ہو کوئی نہ کوئی کمی یا خامی تو ہر شخص کے ساتھ لگی رہتی ہے..


عمیرہ احمد کے ناول “ ہم کہاں کے سچے تھے “ سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
’’صدمے کا تعلق ہمیشہ غم ہی سے نہیں ہوتا، کبھی کبھی اچانک مل جانے والی بےپناہ خوشی بھی ہمارے عمومی رویئے سے متصادم ہوجاتی ہے۔ شاید ساری بات ظرف کی ہے، خوشی ہو یا غم، ہمارے ظرف کے پیمانے سے بڑھ جائے تو ہم اپنی ظاہری شخصیت کا رکھ رکھاؤ کھو بیٹھتے ہیں۔۔ ‘‘

ہاشم ندیم کے ناول ’’پری زاد‘‘ سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری زندگی کے نوّے فیصد معاملات کی الجھن اسی ایک جملے ہی میں تو پنہاں ہے کہ زمانہ کیا کہے گا۔۔۔۔؟؟ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم زیادہ تر ان ہی لوگوں کی باتوں کی فکر میں گھلے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے درحقیقت ہماری زندگی اجیرن ہوتی ہے۔
پری زاد
ہاشم ندیم
 

سیما علی

لائبریرین

؎فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں!​

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور ذہین فن کار اور شو بزنس کے ایک کام یاب آرٹسٹ کی موت کے باوجود لاہور کا سارا کاروبار نارمل طریق پر چلتا رہے گا۔
شاہ عالمی چوک سے لے کر میو اسپتال کے چوک تک ٹریفک اسی طرح پھنسا رہے گا، کوچوان گھوڑوں کو اونچے اور قریبی کوچوان کو نیچے لہجے میں گالیاں دیتے رہیں گے۔ اسپتال کے اندر مریضوں کو کھانا جاتا رہے گا۔ ٹیلی فون بجتا رہے گا، بجلی کا بل آتا رہے گا، فقیر سوتا رہے گا، چوڑھے ٹاکی مارتے رہیں گے، استاد پڑھاتے رہیں گے، ریکارڈنگ ہوتی رہے گی، قوال گاتے رہیں گے، فاحشہ ناچتی رہے گی، ڈاکیا چلتا رہے گا، سوئی گیس نکلتی رہے گی، تقریریں ہوتی رہیں گی، غزلیں لکھی جاتی رہیں گی، سوئی میں دھاگہ پڑتا رہے گا، قتل ہوتا رہے گا، زچہ مسکراتی رہے گی، بچہ پیدا ہوتا رہے گا۔
شادمان کی لڑکی ٹیلی فون پر اپنے محبوب سے گفتگو کر رہی ہو گی اور آپریٹر درمیان میں سن رہا ہو گا، موچی کے باہر بڈھے گھوڑوں کے نعل لگ رہے ہوں گے اور گھوڑا اسپتال میں نو عمر بچھڑے آختہ کیے جا رہے ہوں گے۔

چلّہ کاٹنے والے دعائے حزب البحر پر داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اوپر کی طرف اٹھا رہے ہوں گے۔ لڈو بناتا ہوا حلوائی اٹھ کر سامنے والی نالی پر پیشاب کر رہا ہو گا۔ لبرٹی مارکیٹ میں دو نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے گھوم رہے ہوں گے، دلہنوں کے جسموں سے آج ایک اجنبی مہک ابھی اٹھ رہی ہو گی۔ بچے گلی میں کیڑی کاڑا کھیل رہے ہوں گے اور قریبی مکان میں ایک ماں اپنے بیٹے کو پیٹ رہی ہو گی جس کا خاوند ایک اور عورت کے ساتھ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کر رہا ہو گا۔ یونیورسٹی میں لڑکیاں کھلے پائنچوں کی شلواریں پہن کر لڑکوں سے یونین کی باتوں میں مصروف ہوں گی اور ہیلتھ سیکریٹری لاٹ صاحب کے دفتر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خوف سے یرقانی ہو رہا ہو گا۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ادیب اور فن کار نے ساری عمر پھوئی پھوئی کر کے اپنی شہرت اور نیک نامی کا تالاب بھرا ہو گا اور دن رات ایک کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہو گا اور اس ایک چھوٹے سے حادثے سے وہ سارے دلوں سے نکل گیا ہو گا۔ ہر یاد سے محو ہو گیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے جنم دیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے سچ مچ یاد کیا تھا اور اس دل سے بھی جس نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلی محبّت کی تھی۔

تیسرے چوتھے روز اتوار کے دن حلقۂ اربابِ ذوق ادبی میں میرے لیے ایک قرار دادِ تعزیت پاس کی جائے گی۔ عین اسی وقت حلقۂ اربابِ ذوق سیاسی میں بھی ایک قرار داد تعزیت پیش کی جائے گی۔ سب متفقہ طور پر اسے منظور کریں گے، لیکن اس کے آخری فقرے پر بحث کا آغاز ہو گا کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین کے لیے کسی وظیفے کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر حاضرین دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

ایک اس کے حق میں ہو گا کہ یہ فقرہ رہنے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک صاحبِ حیثیت ادیب تھا اور اس کی اپنی ذاتی کوٹھی ماڈل ٹاؤن میں موجود ہے۔ پھر کوٹھی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی، کچھ اسے دو کنال کی بتائیں گے، کچھ تین کنال کی، کچھ دبی زبان میں کہیں گے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی خاتون ہے وہ نوکری بھی کر سکتی ہے اور لکھنے لکھانے کے فن سے بھی آشنا ہے۔

ریڈیو آنے جانے والے ایک ادیب سامعین کو بتائیں گے کہ بانو کی ذاتی آمدنی ریڈیو ٹی وی سے دو ہزار سے کم نہیں۔ میرے ایک دور کے رشتہ دار ادیب اعلان کریں گے کہ وہ ایک مال دار گھرانے کا فرد تھا اور اس کا اپنے باپ کی جائیداد میں بڑا حصّہ ہے جو اسے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ پھر کوئی صاحب بتائیں گے کہ ورثا کو بورڈ سے گریجویٹی بھی ملے گی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ادب نواز کلرک، جو حلقے کی میٹنگوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں بتلائیں گے، اس نے اپنے تینوں بچّوں کی انشورنس بھی کرا رکھی تھی۔ گو ان کی رقم بیس بیس ہزار سے زائد نہیں۔ طویل بحث کے بعد اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ آخری فقرہ کاٹ دیا جائے، چنانچہ آخری فقرہ کٹ جائے گا۔

پھر مجھ پر آٹھ آٹھ منٹ کے تین مقالے پڑھے جائیں گے اور آخری مضمون میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ میں دراصل پنجابی زبان کا ایک ادیب اورشاعر تھا اور مجھے پنجاب سے اور اس کی ثقافت سے بے انتہا پیار تھا۔

یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہونے لگیں گے اور میری پہلی برسی آ جائے گی۔ یہ کشور ناہید کے آزمائش کی گھڑی ہو گی، کیونکہ ہال کی ڈیٹس پہلے سے بک ہو چکی ہوں گی اور میری برسی کے روز آل پاکستان ٹیکنیکل اسکولز کے ہنر مند طلبا کا تقریری مقابلہ ہو گا، کشور کو پاکستان سینٹر میں میری برسی نہ منا سکنے کا دلی افسوس ہو گا اور وہ رات گئے تک یوسف کامران کی موجودگی میں کفِ افسوس ملتی رہے گی۔

لوگ اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو ایک ایشو بنا لیں گے اور لوگ جو عمر بھر مجھے جائز طور پر ناپسند کرتے رہے تھے وہ بھی کشور ناہید کے ’برخلاف‘ دھڑے میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھ سے محبّت کی بنا پر نہیں کشور کو ذلیل کرنے کی غرض سے، پھر ذوالفقار تابش کی کوششوں سے گلڈ کے بڑے کمرے میں یہ تقریب منائی جائے گی اور عتیق اللہ، شکور بیدل، ریاض محمود، غلام قادر، سلیم افراط مجھ پر مضمون پڑھیں گے۔

کس قدر دکھ کی بات ہے کہ زمانہ ہم جیسے عظیم لوگوں سے مشورہ کیے بغیر ہم کو بھلا دے گا۔ میں ہُوا… نپولین ہوا، شہنشاہ جہانگیر ہوا، الفرج رونی ہوا، ماورا النّہر کے علما ہوئے، مصر کا ناصر ہوا، عبدالرحمٰن چغتائی ہوا، کسی کو بھی ہماری ضرورت نہ رہے گی اور اتنے بڑے خلا پانی میں پھینکے ہوئے پتھر کی طرح بھر جائیں گے۔ ہماری اتنی بڑی قربانیوں کا کہ ہم فوت ہوئے اور فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں، لوگ یہ صلہ دیں گے۔

افسوس زمانہ کس قدر بے وفا ہے اور کس درجہ فراموش کار ہے۔
(کتاب “سفر در سفر” از اشفاق احمد سے اقتباسات، اردو کے نام ور ادیب اور افسانہ نگار نے اپنی موت کے پس منظر میں‌ یہ تحریر سپردِ قلم کی تھی)
 
Top