پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرانے کااعلان

زین

لائبریرین
کوئٹہ۔۔۔
نیشنل پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ چیف آف جھالاوان صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی سردار ثناء اللہ زہری نے سابق گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی، بالا چ مری اور دیگر بلوچوں کے قتل کا مقدمہ سابق صدر پرویز مشرف پر درج کرانے کا اعلان کردیا ہے ۔یہ اعلان انہوں نے بدھ کی رات یہاں وفاقی وزیر نبیل گبول کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ سردار ثناء اللہ زہری نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہوگئی ہے اور اب ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ عدلیہ سے بلوچستان کے مسئلے پر ہمیں انصاف ملے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ اپنے وکلاء ،دانشوروں اور اپنی پارٹی کے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعدسابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف نواب اکبر بگٹی ،نوابزادہ بالاچ مری اور سینکڑوں بلوچوں کے قتل کے خلاف مقدمہ درج کرنے کیلئے بلوچستان ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وارث بلوچ عوام ہیں اور انہیں پورا حق ہے کہ اپنے انصاف کیلئے ہر دروازے پر جائیں ۔انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے دورہ بلوچستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ ماضی میں جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے گاگوادر پورٹ سمیت تمام اہم ایشوز پر بلوچستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق موجودہ حکومت فیصلے کرے گی اور جو بھائی ہمارے ناراض ہوکر پہاڑوں پر گئے ہیں انہیں مناکر واپس لایا جائے گااور ان کے تمام ایشوز پر تحفظات دور کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ گوادر ترقی کرے لیکن سب سے پہلے گوادر پر حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہئے اور ان کے جو خدشات ہیں ان کو دور کیا جائے اور گوادر کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سابق دور میں گوادر پورٹ کا جو معاہدہ سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے ساتھ ہوا ہے اسے منسوخ کیا جائے اور نئے معاہدے میں بلوچستان کے عوام کو اعتمادمیں لیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کہتے تو وہ ٹھیک ہی ہیں۔ اس علاقے میں مقامی لوگوں کا حق پہلے ہے۔ انہیں ان کا حق ملنا ہی چاہیے۔
 

خرم

محفلین
حق تو ملنا چاہئے لیکن اہلیت کی بنا پر۔ یہ کوٹہ سسٹم کب جان چھوڑے گا ہماری۔ ارے بھائی مقابلہ کریں گے نہیں تو آگے کیسے بڑھیں گے۔ اب بلوچستان میں‌آبادی ہے ہی کتنی جو اسے اکثریت میں بدل دیں؟ کیا گوادر کی ترقی پر پابندی لگا دی جائے گی کہ اس کی آبادی ایک لاکھ سے بڑھنے نہیں‌دینی وگرنہ ہم اقلیت میں ہو جائیں گے؟ یہ سب حیلے ہیں ان سرداروں کے بلوچستان کو اور اس کے عوام اور وسائل کو اپنے قابو میں‌رکھنے کے۔ بلوچستان پر آج تک بلوچ ہی حکومت کرتے آئے ہیں، کیا ترقی کر لی ان سرداروں نے؟ جب بگٹی صاحب نے انہی بلوچوں کی دُرگت بنائی وہ وقت تو یاد نہیں کسی کو، جب وہ خود اسی طرح کے ایک ایکشن میں جان سے گئے تو اب سب کو باتیں یاد آرہی ہیں۔ خطرہ صرف یہ ہے انہیں‌کہ اگر باہر کے لوگ آگئے تو یہ جن لوگوں کو صدیوں سے محکوم رکھا ہے یہ تو ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ بس یہی کشمکش ہے۔ اسی لئے تو پنجاب کو گالیاں دی جاتی ہیں کہ نہ کوئی باہر سے آئے اور نہ ان علاقوں کے لوگوں کو ہوش آئے۔
 

محمدصابر

محفلین
خرم کی اس بات سے متفق ہوں لیکن بلوچستان کے عوام کو اپنے وسائل سے بھی حصہ بقدر جثہ ملنا چاہیے۔ ابھی یہ شرح بہت کم ہے۔
 

ساجد

محفلین
صوبوں کے درمیان روابط کا ایک ادارہ پاکستان میں موجود ہے جو کہ وسائل کی تقسیم کے معاملات اور دیگر امور نمٹاتا ہے یہ وہی ادارہ ہے جسے بین الصوبائی رابطہ کونسل کہتے ہیں۔ کئی برسوں سے اس کا اجلاس تک نہیں ہو پایا تو پھر معاملات کے سدھار کی توقع کیسے کی جاتی ہے؟۔ ہر حکومت ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرتی ہے اور خمیازہ عوام کو بھگتانا پڑتا ہے۔
پاکستان کے وسائل پر پاکستانیوں ہی کا حق ہے اور اس میں بھی مقامی لوگوں کو مقدم رکھا جانا چاہئیے۔ مجھے نہیں پتہ کہ گوادر میں سنگاپور کو کس حد تک اختیارات دئیے گئے ہیں اس لئیے تکنیکی پہلو پہ نہیں جاؤں گا بس اتنا تو ضرور ہونا چاہئیے کہ اگر مقامی آبادی کسی بات کی شکایت کر رہی ہے تو اسے سننا چاہئیے۔
بلوچ سرداروں کی جہاں تک بات ہے ان کے آمرانہ روئیے کی جس حد تک مذمت کی جائے کم ہے۔ کم تعلیمی تناسب رکھنے والے اس صوبے کے سردار ایک طرف تو عوام کو دھوکے میں رکھتے ہیں تو دوسری طرف قوم پرستی کے نام پہ ان کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی ذرا سی غلطی کو وہ اپنے حق میں کیش کروانے کے لئیے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ اکبر بگٹی کے معاملے میں بھی ایک تقسیم شدہ رائے ہے کہ وہ جب تک حکومت میں ہوتے تھے تو پاکستان کی بات کرتے تھے اور حکومت سے باہر ہونے کی صورت میں بلوچ قوم پرستی کا نعرہ بلند کر دیتے تھے۔ میں ان کے قتل کی نہ تو حمایت کرتا ہوں اور نہ ہی ایسا کسی اور کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سادہ لوح عوام کی ہمدردیاں قوم پرستی کے نام پہ سمیٹ کر حکومتوں کو بلیک میل کیا جائے گا تو نتائج پریشان کن ہی نکلیں گے ۔
ہم سب کے لئیے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ اور اداروں کو مضبوط بنا کر وہاں معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔ بلوچ سرداروں کو بھی اس پہلو پہ غور کرنا چاہئیے کہ ان کی سیادت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئیے آگے آئیں نہ کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئیے بلوچوں کا نام بدنام کریں۔
مشرف پہ اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ تو قانونی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ سیشن کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک انہی قانونی معاملات کو تمٹانے کے لئیے ہی ہیں۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
تکلف بر طرف مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ اگر مشرف پر کوئی عدالت فرد جرم عائد کرتی ہے تو پھر سے ہمت علی بھیا ایک اور "سندھی" مظلوم کا قضیہ نہ چھیڑ دیں اور بدنام پھر سے پنجاب کو کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بی بی سی کی رپورٹ پہلے پیش کر چکی ہوں، جسکے مطابق:

۔ پاکستانی عدالتوں میں نو لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔
۔ ان مقدمات کو نپٹانے کے لیے اسی رفتار سے چلیں تو اگلے پچاس سال درکار ہوں گے [بشرطیکہ کوئی نیا مقدمہ قائم نہ ہو]
۔ نوے فیصد وکیل بذات خود کرپٹ ہیں اور جان بوجھ کر مقدمات کو بڑھاتے ہیں تاکہ موکلین سے زیادہ سے زیادہ مال کھینچ سکیں۔

ابھی تک جن لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلی ہیں، وہ ذرا نذیر ناجی صاحب کا یہ کالم پڑھیں، شاید کہ انہیں کوئی افاقہ ہو جائے۔

اور خواب پورے ہو گئے...سویرے سویرے…نذیر ناجی



میڈیا اور اپوزیشن کی نظر سے دیکھاجائے تو منتخب حکومت کی پہلی سالگرہ پر پاکستان کے لئے صرف ایک خوشخبری ہے اور وہ ہے چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی ۔ جس پر ہرطرف فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔کامیابی ایک ہے ۔ سہرے باندھ کر سلامیاں وصول کرنے والے دولہا کئی ہیں۔ میڈیا ہے۔ (ن)لیگ ہے۔ عمران خان ہیں۔ وکلا ہیں۔ جماعت اسلامی ہے۔ پیپلزپارٹی ہے۔ مظاہروں میں شریک مولانا فضل الرحمن بھی ہوتے رہے۔ مگر وہ سہرا باندھنے سے کترا رہے ہیں۔ مولانا بہت گہرے اور تہہ دار سیاست دان ہیں۔ سہرا باندھنے سے ان کے گریز میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے اور جب میں نے یہ پڑھا کہ اصل دولہا چودھری اعتزاز احسن کامیابی کی تقریبات کے دوران ہی وکلا کی سیاست سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ تو مولانا فضل الرحمن کے گریز پر زیادہ توجہ مرکوز ہو گئی۔ کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔ اللہ کرے وہ خیر کی صورت میں ہو۔
میں کھلا اعتراف کرتا ہوں کہ ایک فرد کی بحالی کے لئے چلنے والی تحریک کو میں نے کبھی عدلیہ کی بحالی کی تحریک نہیں سمجھا۔ میں نے ہمیشہ لکھا کہ انصاف ہمیشہ حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ اگر حکومتیں اچھی نہیں‘ تو عدلیہ ازخود انصاف فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس نے وکلا کے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ”وکلا عدلیہ کا ساتھ دیں۔ ان کے بغیر تنہا ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔“وکلا صرف سچائی تک پہنچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن غرض مند تک انصاف پہنچانے میں ان کا بھی کوئی کردار نہیں۔ یہ کام انتظامیہ کو کرنا ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ عملدرآمد نہ کرنے پر تل جائے‘ تو پھر اس کے پاس بے شمار بہانے ہوتے ہیں اور اگر عدلیہ تصادم پر اتر آئے تو قانون سازی کی طاقت پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ وہ جو اختیار چاہے عدلیہ سے واپس لے سکتی ہے۔ خدا نہ کرے ایسی صورتحال کبھی پیدا ہو۔ لیکن اگر کل حکمران طبقوں کے مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ آ گیا‘ تو پھر دیکھنا ہو گا کہ فیصلہ نافذ ہوتا ہے یا قانون بدلتا ہے؟
جہاں تک موجودہ چیف جسٹس کی بحالی کا تعلق ہے۔ اس کا سہرا جتنے دولہا چاہیں اپنے سر باندھیں۔ حقیقت صرف ایک ہے کہ نوازشریف نے لانگ مارچ شروع کر کے حکومت کو چیف جسٹس کی بحالی پر مجبور کیا۔ ورنہ دو سال سے چلنے والی مختلف سماجی طاقتوں کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ اصل سہرے کے حقدار صرف نوازشریف ہیں۔وہ یہ ذمہ داری سیاسی ضروریات کے تحت اپنے سر لے چکے تھے۔ اب سرخرو ہو چکے ہیں۔ لیکن وکلا کے باقی مطالبات کی ذمہ داری اٹھانے سے اب وہ کترائیں گے۔ ان کے سامنے اپنی سیاسی ضروریات ہیں۔ عدلیہ کی بحالی کے نتیجے میں انہیں کوئی فائدہ ہوا تو ٹھیک ہے۔ مگر فائدہ ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر۔ اب وہ باقی مطالبات کے چکر میں نہیں پڑیں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جیسے ہی حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کی بحالی کا پیغام ملا۔ انہوں نے مزید کوئی تفصیل پوچھے بغیر لانگ مارچ کال آف کر دیا۔ نوآموز سیاسی کھلاڑی کمانڈو کی طرح زیرزمین ہو کر سہرا اور ہار پہننے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے منتظر رہے۔ لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدی
تحریک کے دوران چیف جسٹس کی بحالی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے عوام کو جو خواب دکھائے گئے‘ ان کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔ دہشت گردی کی ہر واردات پر بیان آتا تھا کہ ”اگر عدلیہ موجود ہوتی تو بم دھماکے نہ ہوتے۔ لوڈ شیڈنگ پر کہا جاتا۔ چیف جسٹس بحال ہوتے تو لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔ بیروزگاری کی وجہ صرف اصل عدلیہ کی عدم موجودگی ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بغیر کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں حقیقی عدلیہ موجود ہوتی تو بھارت ہمارے حصے کا پانی بند نہیں کر سکتا تھا۔“ میرے پاس ریکارڈ نہیں۔ ورنہ ذرا سی محنت سے ایسے ایسے بیانات بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ جن میں بیرونی قرضوں سے لے کر خارجہ پالیسی کے امور تک‘ ہر مسئلے کا ایک حل بتایا جاتا تھا اور وہ یہ کہ چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ خوش قسمتی سے بحال ہو چکے ہیں۔ امید ہے اب مسائل حل ہونے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مگر کیسے؟ اپنے منصب پر واپسی کے پہلے ہی دن چیف جسٹس کے سامنے جو درخواستیں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق عدلیہ میں اکھاڑ پچھاڑ سے ہے۔ استدعا کی گئی ہے کہ 3نومبر کے بعد والے ججوں کو نکالا جائے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ معزز جج پانچ درجوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے حلف نہیں اٹھایا۔ دوسرے 2نومبر سے پہلے کے جج ہیں۔ لیکن حلف اٹھا کر کام کرتے رہے ہیں۔ تیسرے وہ جو احتجاجاً کام چھوڑ گئے تھے اور دوبارہ حلف اٹھا کر آ گئے اور چوتھے وہ۔ جو اب واپس تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے پی سی او کے تحت صرف ایک حلف لیا ہے۔ جس وجہ سے انہیں معزز و معتبر قرار دیا جاتا ہے۔ پانچواں درجہ ان ججوں کا ہے‘ جنہیں موجودہ حکومت کے دور میں بھرتی کیا گیا۔ ان ججوں نے بحال شدہ آئین کا حلف اٹھایا ہے۔ گویا ان پر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا کوئی الزام نہیں۔ آنے والے دنوں میں عدالتی مباحث ان سوالوں پر شروع ہوں گے کہ کونسے جج جائز ہیں اور کونسے ناجائز؟ ایک بنچ تو پورے کا پورا اسی کام پر لگ جائے گا۔ دوسرا بنچ پرویزمشرف کے خلاف مقدمات پر بیٹھے گا۔ تیسرا بنچ شریف برادران کی نااہلی کے مقدمات سنے گا۔ چوتھا بنچ اس امر کا جائزہ لے گا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور ان کی عدلیہ کے کونسے فیصلے درست ہیں اور کونسے غلط؟ غرض ہر بنچ کے پاس ماضی کے امور سے تعلق رکھنے والے مسائل پر بحث ہو رہی ہو گی اور جو سادہ لوح عوام‘ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد انصاف کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے‘ ان کی باری اللہ جانے کب آئے گی؟ چار مختلف درجوں سے تعلق رکھنے والے ججوں کے باہمی تعلقات ماضی کی طرح برادر ججوں کی طرح رہتے ہیں یا کسی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے منتخب ممبران جیسے؟ یہ بات چند روز میں واضح ہو جائے گی۔ عدلیہ کی عالمی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیف جسٹس کے گھر پر سیاسی کارکنوں نے اپنی جماعتوں کے پرچم لہراتے ہوئے عدلیہ کا پرچم بلند کیا۔ جن جماعتوں کے پرچم اور کارکن اس تقریب میں نہیں تھے‘ وہ انصاف کی کتنی امید رکھ سکتے ہیں؟ ہر مقدمے میں دو یا ان سے زیادہ فریق ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فریق نہیں ہوتا تو صرف عدلیہ نہیں ہوتی۔ کیا اب بھی وہی صورتحال ہو گی؟ سوال پر سوال چلا آ رہا ہے۔ کہاں تک درج کروں؟ حقیقی عدلیہ نے کام شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کی بحالی کی تحریک چلانے والوں نے جو دعوے کیے تھے‘ وہ پورے ہو جائیں۔پہلے ہم سیاسی جماعتوں کو افراد کے نام سے جانتے تھے۔ مسلم لیگ کا تو نام ہی نوازلیگ ہے۔ (ق) لیگ چودھری شجاعت حسین۔ پیپلز پارٹی آصف زرداری۔ ایک جے یو آئی کا نام فضل الرحمن ہے۔ دوسری کا نام مولانا سمیع الحق۔ جماعت اسلامی کا نام قاضی حسین احمد ہے۔ تحریک انصاف کا نام عمران خان ہے۔ فوج کا نام اس کے سربراہ کا نام ہوتا ہے۔ کل اس کا نام پرویز مشرف تھا۔ آج اس کا نام اشفاق پرویز کیانی ہے۔ ایک عدلیہ کا ادارہ باقی تھا۔ اب اس کا نام بھی ایک فرد کے نام پر ہو گیا ہے۔ دنیا کہتی ہے ہم ادارے قائم کریں اور ہم ہیں کہ رہے سہے اداروں کو بھی افراد کی ذات میں سمیٹ رہے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
مہوش صرف لنک دینا ہی کافی ہوتا ہے۔
نقل کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے طور پہ خیالات کا اظہار کیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
کرپشن تو خون میں رچی بسی ہے۔ مقدمے دائر کروانا بھی بس "عوام" کیلئے خانہ پوری کے مترادف ہے۔
 
Top