پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 کشمیر کے متعلق

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 کشمیر کے متعلق کہتاہے:
257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir.- When the

people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the

relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance

with the wishes of the people of that State.​
۔ دفعہ257 کہتی ہے کہ جب ریاست جموں اور کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔
حامد میر نے اپنے آج کے کالم میں اس بارے یہ تبصرہ کیا ہے جو قبل غور ہے۔
کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن جب تک پاکستان کے آئین میں دفعہ257 موجود ہے تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر کسی کومسئلہ کشمیر کے کسی غیر روایتی حل کی تلاش ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ دفعہ257 جن بزرگوں نے پاکستان کے آئین میں شامل کی ان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر خان عبدالولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی سے لے کر مولانا غلام غوث ہزاروی تک ہر مکتبہ فکر کے نمائندے شامل تھے۔ افسوس صد افسوس کہ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں آئین کی دفعہ257 کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے ایک ایسے حل پر خفیہ بات چیت کی گئی جو کشمیری قیادت کو قبول نہ تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ کے بھی خلاف تھا لیکن پرویز مشرف نے مسلم لیگ قائداعظمؒ کی مدد سے کشمیر پر خفیہ سودے بازی کی کوششوں کو جاری رکھا۔
جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ وہ مسئلہ کشمیر کا’’آئوٹ آف دی باکس‘‘ حل تلاش کررہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج مشرف پر غداری کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے لیکن آج بھی کچھ لوگ مشرف فارمولے کو نیا نام دے کر کشمیریوں پرمسلط کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔’’آئوٹ آف دی باکس‘‘ حل تلاش کرنے کے نام پر منافقت کرنے والے جان لیں کہ اگر آئین کی دفعہ6 کی خلاف ورزی غداری ہے تو آئین کی دفعہ257 کی خلاف ورزی بھی غداری ہے۔ کچھ فتویٰ فروش اورالزام بازقسم کے لوگ مجھ پر انتہا پسندانہ موقف اختیار کرنے کا الزام ضرور لگائیں گے لیکن جناب میں نے تو آپ کو صرف وہ بتایا ہے جو آئین پاکستان کی دفعہ257 میں لکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کامقدمہ انتہائی سیدھا سادھا اور بہت ٹھوس ہے۔ ہم ہر سال پانچ فروری کو گھروں میں بیٹھ کر کشمیر کے نام پرچھٹی مناتے ہیں لیکن دنیا کو یہ نہیں بتاتے کہ مسئلہ کشمیر دراصل انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اور سیکولرازم کی علمبردار انڈین نیشنل کانگریس کی ملی بھگت کے نتیجے میں پیدا ہوا۔
 
یہ سچ ہے کہ مشرف نے بطور حکمران تاریخ میں پہلی بار بھارت کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی بات کی۔
 

سعود الحسن

محفلین
یہ سچ ہے کہ مشرف نے بطور حکمران تاریخ میں پہلی بار بھارت کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی بات کی۔

مجھے ان لوگوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب نواز شریف اور واجپائی کہتے ہیں کہ ہم 1999 میں کشمیر کا مسلئہ حل کرنے کے قریب تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انڈیا کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرانے پر تیار ہو گیا تھا۔ اگر یہ غلط ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مشرف سے پہلے کی حکومتیں بھی اس ہی طرح کے آوٹ اف دی بکس حل پر کام کرہی تھیں۔
 
مجھے ان لوگوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب نواز شریف اور واجپائی کہتے ہیں کہ ہم 1999 میں کشمیر کا مسلئہ حل کرنے کے قریب تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انڈیا کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرانے پر تیار ہو گیا تھا۔ اگر یہ غلط ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مشرف سے پہلے کی حکومتیں بھی اس ہی طرح کے آوٹ اف دی بکس حل پر کام کرہی تھیں۔
نواز شریف نے کبھی سرکاری طور اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ وہ کشمیر کی قراردادوں سے ہٹنا چاہ رہا ہے۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ ان کے بیچ میں کیا بات تھی۔ البتہ مشرف نے سرکاری طور پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہتنے کی بات کی۔
 

سعود الحسن

محفلین
نواز شریف نے کبھی سرکاری طور اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ وہ کشمیر کی قراردادوں سے ہٹنا چاہ رہا ہے۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ ان کے بیچ میں کیا بات تھی۔ البتہ مشرف نے سرکاری طور پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہتنے کی بات کی۔

کب کی؟، پاکستان نے یا اس کے کسی بھی حکمران نے کبی بھی آفیشلی اس کی کوئی بات نہیں کی، لیکن بیک ڈور ڈیپلومیسی 90 کی دھائی سے جاری ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ پہلے کسی حل تک پہنچا جائے اور پھر بعد میں اس کا سرکاری اعلان کیا جائے۔
 
کب کی؟، پاکستان نے یا اس کے کسی بھی حکمران نے کبی بھی آفیشلی اس کی کوئی بات نہیں کی، لیکن بیک ڈور ڈیپلومیسی 90 کی دھائی سے جاری ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ پہلے کسی حل تک پہنچا جائے اور پھر بعد میں اس کا سرکاری اعلان کیا جائے۔
مشرف نے سرکاری طور پر اسکی بات کی تھی بھارت سے۔
 

سعود الحسن

محفلین
مشرف نے سرکاری طور پر اسکی بات کی تھی بھارت سے۔
کب کی

کچھ تو بتاو

میں پھر کہ رہا ہوں کہ پاکستان کی حکومت یا اس کے کسی صدر ، وزیر اعظم، وزیر یا بیوروکیٹ نے سرکاری طور پر کبھی بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کی بات نہیں کی۔
 
کب کی

کچھ تو بتاو

میں پھر کہ رہا ہوں کہ پاکستان کی حکومت یا اس کے کسی صدر ، وزیر اعظم، وزیر یا بیوروکیٹ نے سرکاری طور پر کبھی بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کی بات نہیں کی۔
میں سرچ کر کے حوالے کے ساتھ پیش کردوں گا انشآاللہ۔ اس وقت تو زبانی یاد ہے کہ مشرف نے کہا تھا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا حل ممکن نہیں۔
 
Top