پاکستان کی تاریخ

نبیل

تکنیکی معاون
راجہ فار حریت نے کہا:
اور صرف پاکستان اور تاریخ اسلام کو کیوں نشانہ بنایا ہوا ہے تم نے۔
ذرا ہندوستان کی تاریخ، یہودیوں کی تاریخ، امریکہ کی تاریخ، روس کی تاریخ پر بھی موضوع شروع کرو۔

تو شروع کرو نا موضوع۔
 
نعمان نے کہا:
کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستانی فوج نے بےدریغ سینکڑوں عورتوں کی آبروریزی کی اور ہزارہا پاکستانیوں (جو بعد میں بنگالی بنیں گے) کو قتل کیا۔ اور مغربی پاکستان کی عوام ان سارے مظالم سے قطعا بے خبر رہی۔

نعمان شاید آپ کی نظر سے بنگالیوں کی بہاری عورتوں کی آبروریزی کے واقعات نہیں گزرے اور شاید مکتی باہنی کا کردار بھی یکسر نظر انداز کر گئے ہیں۔ ارشاد حقانی ایک مستند اور مانے ہوئے صحافی ہیں، اس موضوع پر تفصیل سے انہوں نے لکھا ہے میں وہ کالم ڈھونڈ لوں تو من و عن پیش کروں گا۔
 
واقعے کی صداقت

ویسے اکثر سننے میں ایک واقعہ آتا ہے۔ جس کی صداقت کے متعلق اگر آپ لوگوں کو معلوم ہو تو ضرور لکھیے۔ میں نے یہ بات بہت سے لوگوں سے سنی لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں میرے پاس۔

فاطمہ جناح نے کہیں لکھا ہے کہ لیاقت علی خان اور کابینا کے دوسرے وزراء جب ایک دن زیارت میں‌ قائداعظم سے ملنے آئے تو قائداعظم نے فاطمہ جناح سے یہ تلخ الفاظ کہے۔ کہ یہ لوگ یہ دیکھنے آئے تھے کہ بڈھا کب مرے گا۔

اس بارے میں اگر آپ نے کہیں‌پڑھا ہے تو حوالہ ضرور دیں۔ شکریہ۔
 

شعیب صفدر

محفلین
ہر چیز کو پھیلا کر دیکھنے کی عادت اچھی ہے۔۔۔۔۔ مگر پھیلا کر دیکھنے اور بکھیر دینے میں فرق ہے۔ ہم میں سے اکثر تاریخ ہو بکھیر رہے ہیں (یہ میری ذاتی رائے ہے) نہ تو اتنا سیکولر پاکستان بنانا تھا جتنا اکثر احباب کا خیال ہے نہ اتنا مذہبی جتنا مذہبی گروہ دعویٰ کرتے ہیں۔
 

شعیب صفدر

محفلین
واقعے کی صداقت

وہاب اعجاز خان نے کہا:
ویسے اکثر سننے میں ایک واقعہ آتا ہے۔ جس کی صداقت کے متعلق اگر آپ لوگوں کو معلوم ہو تو ضرور لکھیے۔ میں نے یہ بات بہت سے لوگوں سے سنی لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں میرے پاس۔

فاطمہ جناح نے کہیں لکھا ہے کہ لیاقت علی خان اور کابینا کے دوسرے وزراء جب ایک دن زیارت میں‌ قائداعظم سے ملنے آئے تو قائداعظم نے فاطمہ جناح سے یہ تلخ الفاظ کہے۔ کہ یہ لوگ یہ دیکھنے آئے تھے کہ بڈھا کب مرے گا۔

اس بارے میں اگر آپ نے کہیں‌پڑھا ہے تو حوالہ ضرور دیں۔ شکریہ۔
میں نے ایک مقالہ پڑھا تھا جس میں ایسے کئی واقعات کا ذکر تھا جو غلط طور پر قائداعظم سے منسوب کر دیئے گئے جن میں ایک یہ جو آپ نے لکھا۔۔۔۔ اس کے علاوہ دو بیان ایک یہ کہ “میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں“۔۔۔۔ اور “پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا“۔۔۔۔ مجھے وہ مقالہ دوبارہ ملا تو آپ سے شیئر کرو گا
 

نعمان

محفلین
شعیب میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ قائداعظم کا نظریہ نہ سیکولر پاکستان کا تھا نہ اسلامی پاکستان کا۔ قائد کو پاکستانی عوام کے احساسات اور خیالات کا بخوبی اندازہ تھا اور بحیثیت ایک سیاستدان وہ ایک ایسے درمیانے اور جمہوری راستے کو پسند کرتے جو پاکستان کی عوام کی امنگوں پر بھی پورا اترتا اور مستقبل میں ریاست کی ترقی اور خوشحالی میں بھی کارآمد رہتا۔

وہاب بستر مرگ پر پڑے بڈھے سے جس کا جو جی چاہے منسوب کردے لیکن مستند تب ہوگا جب ایک سے زیادہ شہادتیں ہوں۔
 
اہم نام پاکستان کی تاریخ کا جنرل نیازی ہے جس کو ٹائیگر نیازی کہتے تھے۔ متحدہ پاکستان کے مشرقی صوبہ کا کرتا دھرتا۔ صدیق سالک نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ بقول ان کے ٹائیگر کہتا تھا کہ اگر دشمن نے حملہ کیا تو کلکتہ لے جاوں‌گا۔ دشمن نے حملہ کیا اور وہ ہمیں کلکتہ لے گئے جنگی قیدی کی حیثیت سے (اگر قیدی کی کوئی حیثیت ہوتی ہے تو)
 

شعیب صفدر

محفلین
نعمان نے کہا:
شعیب میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ قائداعظم کا نظریہ نہ سیکولر پاکستان کا تھا نہ اسلامی پاکستان کا۔ قائد کو پاکستانی عوام کے احساسات اور خیالات کا بخوبی اندازہ تھا اور بحیثیت ایک سیاستدان وہ ایک ایسے درمیانے اور جمہوری راستے کو پسند کرتے جو پاکستان کی عوام کی امنگوں پر بھی پورا اترتا اور مستقبل میں ریاست کی ترقی اور خوشحالی میں بھی کارآمد رہتا۔

وہاب بستر مرگ پر پڑے بڈھے سے جس کا جو جی چاہے منسوب کردے لیکن مستند تب ہوگا جب ایک سے زیادہ شہادتیں ہوں۔
ویسے قائداعظم کئی نے مرتبہ یہ کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہو گی۔۔۔ مسلمانی نہیں۔۔۔۔۔
قائداعظم کے لئے لفظ بڈھے کا استعمال مجھے پسند نہیں آیا۔۔۔۔ اس لفظ کا استعمال کچھ بدتمیزی کا احساس دلاتا ہے
 
جواب

یار میرا مقصد صرف واقعے کی صداقت کے متعلق پوچھنا ہے۔ جناب اگر آپ لوگوں نے کہیں اسے پڑھا ہےتو بتائیں۔ زیادہ تر لوگ فاطمہ جناح کی آپ بیتی کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ سوال صرف اس واقعے کی صداقت معلوم کرنے کے بارے میں ہے۔ میں نے کوئی رائے نہیں مانگی کہ آپ لوگ پھر موضوع سے ہٹ کر باتیں کیے جارہے ہیں۔ اگر اس واقعے کی صداقت یا پھر اس کے غلط ہونے کے متعلق ٹھوس ثبوت ہو تو وہ پیش کریں۔ اور بس۔
 

نعمان

محفلین
شعیب لیکن قائد اعظم کا اسلامی مملکت کا وژن یقینا طالبان جیسا نہیں تھا۔ کاش قائد نے اس بارے میں کچھ لکھا ہوتا یا کچھ مزید کھل کر اپنے وژن کے بارے میں بتایا ہوتا۔ یہاں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ قائداعظم کے سیکولرازم کا بھی بڑا پرچار ہے۔ اگر ذاتی پسند کی بات ہوتی تو ایک بات، لیکن قائد کی زندگی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی انگلیاں قوم کی نبض پر تھیں اور وہ ایک ایسا پلان پیش کرتے جو قوم کو منظور ہوتا۔

وہاب آپ نے جو بات قائد سے منسوب کی ہے وہ درست نہیں تاہم اس کے لئیے فاطمہ جناح کی کتاب دیکھنا پڑے گی۔
 
فاطمہ جناح کی کتاب “میرا بھائی“ ان کی وفات کے چند سال بعد شائع ہوئی جو بذاتِ خود کتاب کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔
 

شعیب صفدر

محفلین
نعمان نے کہا:
شعیب لیکن قائد اعظم کا اسلامی مملکت کا وژن یقینا طالبان جیسا نہیں تھا۔ کاش قائد نے اس بارے میں کچھ لکھا ہوتا یا کچھ مزید کھل کر اپنے وژن کے بارے میں بتایا ہوتا۔ یہاں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ قائداعظم کے سیکولرازم کا بھی بڑا پرچار ہے۔ اگر ذاتی پسند کی بات ہوتی تو ایک بات، لیکن قائد کی زندگی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی انگلیاں قوم کی نبض پر تھیں اور وہ ایک ایسا پلان پیش کرتے جو قوم کو منظور ہوتا۔
جی مجھے اس سے اتفاق ہے کہ قائداعظم کا اسلامی ریاست کا تصور طالبان ریاست سے مختلف تھا۔۔۔۔۔ مگر اتنا سیکولر نہیں کہ جتنا بیان کیا جاتا ہے۔۔۔۔ نبض والی بات پلے نہیں پڑی۔۔۔۔ اگر میں غلط نہیں سمجھ رہا تو آپ قائد کو موقعہ پرست کہہ رہے ہیں

وہ احباب جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ گفتگو غلط سمت میں جا رہی ہے ان سے معذرت۔۔۔۔
 
پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ (بی بی سی اردو)

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ابتداء تو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ میں رکھی جاچکی تھی لیکن یہ اس وقت زیادہ مضبوط ہوئے جب انیس سو پچاس کی دہائی کے شروع میں پاکستان نے باقاعدہ طور پر امریکہ کے ساتھ دفاعی سمجھوتے میں شمولیت اختیار کی۔

جون انیس سو ترپن میں جنرل ایوب خان نے امریکہ کے دورہ کے موقع پر کمیونزم کے خلاف اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ ’اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج ہوسکتی ہے۔‘ انیس سو چون میں دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ دفاعی سمجھوتہ پر دستخط کیے۔

انیس سو ترپن سے انیس سو اکسٹھ کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی۔ بھارت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو اس پر نالاں تھے لیکن صدر آئزن ہاور نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان کو دیئے جانے والا اسلحہ بھارت کے خلاف جارحیت میں استعمال نہیں ہوگا۔


جون انیس سو ترپن میں جنرل ایوب خان نے امریکہ کے دورہ کے موقع پر کمیونزم کے خلاف اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ ’اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج ہوسکتی ہے۔‘ انیس سو چون میں دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ دفاعی سمجھوتہ پر دستخط کیے۔

اس معاہدہ کے تحت پاکستان کی فوج کو پہلی بار جدید ہتھیار نصیب ہوئے۔ ان میں پیادہ فوج کے چار ڈویژنوں کے لیے سامان، چھ سو ٹینک، ایک سو بیس سیبر لڑاکا طیارے، دس لاک ہیڈ ٹی- تینتیس جیٹ طیارے اور مارٹن کینبرا بمبار شامل تھے۔

اس سال پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر انیس سو پچپن میں بغداد پیکٹ میں شامل ہوا جس نے بعد میں سینٹو کے نام اختیار کیا۔

امریکی قیادت جنرل ایوب خان کو بہت پسند کرتی تھی۔ جب انہوں نے انیس سو اٹھاون میں ملک میں پہلا مارشل لگایا تو امریکہ نے اس کی مذمت نہیں کی بلکہ امریکی صدر ڈی وائٹ آئزن ہاور سات سے نو دسمبر انیس سوانسٹھ میں ایک غیرسرکاری دورہ پر پاکستان کے اس وقت دارالحکومت کراچی آئے اور جنرل ایوب خان سے ملاقات کی۔

اس موقع پر آئزن نے بھارت اور افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا جیسے اس بار صدر بش بھی کریں گے۔

ایوب خان نے صدر کینیڈی کے دور میں بھی صدر کے طور پر جولائی سنہ انیس سو اکسٹھ میں امریکہ کا دورہ کیا۔ اسی سال اگست میں صدر کنیڈی نے پاکستان کو بارہ ایف ایک سو چار لڑاکا طیارہ بھی فراہم کیے۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ صدر ایوب خان نے کنیڈی سے کہا کہ وہ بھارت کو دی جانےوالی معاشی امداد کو لیوریج کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالیں کہ وہ پاکستان سے کشمیر کا تنازعہ طے کرے۔

انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔

اسی تناظر میں پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیرخارجہ سورن سنگھ کی ملاقاتیں ہوئیں لیکن بے نتیجہ رہیں۔

لنڈن جانسن ایوب خان کےبڑے مداح تھے لیکن ان کے دورِ صدارت میں پاکستان اور بھارت میں کشمیر پر انیس سو پینسٹھ کی جنگ ہوئی جسے انہوں نے سخت ناپسند کیا اور ان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہوگئے۔ اسی سال امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی امداد بند کردی۔

تاہم جانسن کے دور میں ہی ان تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔صدر جانسن تئیس دسمبر انیس سو سڑسٹھ کو ویتنام سے روم جاتے ہوئے کراچی آئے اور ایوب خان سے ملاقات کی۔

رچرڈ نکسن صدر بنے تو انہوں نے صدر جنرل یحییٰ خان سے اچھے تعلقات قائم کیے۔ سوویت یونین سے سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں صدر نکسن کمیونسٹ چین سے تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان پہلے ہی چین سے دوستانہ روابط بنا چکا تھا۔

یکم اور دو اگست سنہ انیس سو انہتر کو صدر نکسن پاکستان کے دورے پر لاہور آئے اور انہوں نے یحییٰ خان سے ملاقات کی اور ان سے چین سے سفارتی روابط قائم کرنے میں پاکستان کا تعاون مانگا۔ جنرل یحیی خان نے ایسا کردکھایا اور ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر بیجنگ بھجوایاجبکہ دنیا کو یہ معلوم تھا کہ وہ پاکستان کے پرفضا مقام مری میں ہیں۔

صدر نکسن اور ان کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے زمانہ میں امریکی انتظامیہ کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات تھے۔ سنہ انیس سو اکہتر میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے امریکہ کا دورہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی کارروائی کے دوران میں اندرا گاندھی امریکہ سے پاکستان کو فوجی سامان کی فراہمی بند کرنے پر زور دیتی رہیں لیکن امریکہ نے خاصی دیر ایسا نہیں کیا۔

رچرڈ نکس کے دورہ میں ہنری کسنجر پاکستان سے چین گئے تھے

جب امریکہ نے اپنے ملکی قانون کے مطابق پاکستان کی فوجی امداد بند بھی کردی تو اردن سے اسے لڑاکا طیارے منتقل کروائے اور اپنے اتحادیوں ایران، سعودی عرب اور ترکی سے اس کی ایسی مدد کے لیے کہا۔ انیس سو اکہتر میں امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی امداد بند کی۔

انیس سو پچہتر میں امریکہ نے پاکستان کی امداد جزوی طور پر بحال کردی لیکن انیس سو اناسی میں جنرل ضیاالحق کے زمانہ میں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے لیبارٹری بنانے پر امداد دوبارہ بند کردی۔

ستر کی دہائی کے دوران میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ یہ سرد مہری جنرل ضیاالحق کے ابتدائی زمانہ تک چلتی رہی۔ اسی دور میں یکم جنوری سنہ انیس سو اٹھہتر کو امریکی صدر جمی کارٹر بھارت کے دورہ پر گئے لیکن پاکستان نہیں آئے۔

امریکہ نے ایک بار پھر اپنی پالیسی اس وقت بدلی جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور انیس سو اسی میں پاکستان کی امداد بحال کی۔ انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔

جس طرح صدر آئزن ہاور اور صدر جانسن نے جنرل ایوب خان سے اور صدر نکسن نے جنرل یحیی خان کی حکومتوں سے اچھے تعلقات قائم کیے تھے اسی طرح صدر ریگن نے پاکستان کے ایک اور فوجی حکمران جنرل ضیاء سے اچھے تعلقات استوار کیے۔

انیس سو اکیاسی میں امریکہ نے پاکستان کو تین بلین ڈالر سے زیادہ کی معاشی اور فوجی امداد کا پانچ سالہ پیکج دیا۔بعد میں انیس سو چھیاسی میں چار ارب ڈالر کا پیکج دیا۔

افغانستان سے سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک بار پھر دوری آگئی۔

انیس سو نوے میں امریکہ کے صدر جارج بش سینئر نے پریسلر ترمیم کے قانون کے تحت پاکستان کے ایٹی پروگرام کے باعث امداد بند کردی۔ تاہم دو سال بعد غذائی اور معاشی امداد پر سے پابندی اٹھالی۔

انیس سو اٹھانوے میں پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے دونوں ملکوں کی معاشی امداد بھی بند کردی اور صرف انسانی ہمدردی کے لیے دی جانےوالی معمولی معاشی اور غذائی امداد جاری رکھی۔

صدر بل کلنٹن نےامریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے بھارت سے قریبی تعلقات کا آغاز کیا۔ وہ پانچ روزہ دورہ پر بھارت کے مختلف شہروں میں گئے لیکن پاکستان کی متعدد درخواستوں کے بعد بھارت کے دورہ کے اختتام پر پانچ گھنٹے کے لیے اسلام آباد آئے۔

جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت آچکی تھی اور اس سے پہلے کارگل میں لڑائی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت تعلقات بگڑ چکے تھے۔ صدر کلنٹن کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت اور وہاں سے اسامہ بن لادن کے گروہ کی کاروائیاں باعث پریشانی تھے۔

ان حالات میں صدر کلنٹن نے بظاہر جنرل پرویزمشرف سے بہت سرد مہری سے پیش آئے۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے خطاب میں خاصی سخت باتیں کیں اور پاکستان کو دنیا میں اپنی پالیسیوں کے باعث الگ تھلگ رہ جانے کی تنبیہہ کی۔ ان کا واضح پیغام تھا کہ پاکستان سرحدوں میں تبدیلی (کشمیر کا نام لیے بغیر) کے بجائے اقتصادی ترقی اور تعلقات کا سوچے۔

تاہم بعد میں ظاہر ہونے والی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ صدر بل کلنٹن نے صدر جنرل مشرف سے ملاقات میں درخواست کی تھی کہ پاکستان اسامہ بن لادن کو پکڑ کر امریکہ کو دے دیں تو وہ پاکستان کو زبردست معاشی مدد کریں گے۔ پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔

گیارہ ستمبر دو ہزار ایک میں امریکہ پر مبینہ القاعدہ کے حملہ کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ اس بار اس کا کردار کمیونزم کے خلاف امریکی کے اتحادی کا نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اس کے اتحادی کا ہے۔ اسے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا اور فوجی اور معاشی امداد بحال کردی گئی۔
 
سیاسی و آئینی تاریخ کے کچھ ورق

پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت پر یہ پہلا اور ایک بھر پور کاری وار تھا جو اُس زمانہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ بننے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک کو ان بھول بھلیوں میں دھکیل دیا جن سے وہ اب تک نہیں نکل سکا ہے۔ مزید دیکھیئے یہ لنک

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2004/10/041023_pakdemocracy_sen.shtml


افسوس کہ ملک کا یہ پہلا آئین صرف اکتیس مہینے ہی چل سکا ۔اس دوران صدر اسکندر مرزا نے جس طرح تین وزرائے اعظم کو برطرف کیا اور کیا کیا گٹھ جوڑ کیے ان کی ایک الگ داستان ہے۔ مزید ملا حظہ کیجئیے:

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2006/03/060323_constitution_asif_sen.shtml
 
“جن دنوں میں ملازمت کی تربیت ختم کرنے کے بعد لائل پور میں تعینات ہوا مس جناح وہاں تشریف لائیں، دو چار دن رہنے کے بعد انہیں لاہور جانا تھا۔ گورنر پنجاب نے اس سفر کے لیے اپنی موٹر بھیجی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ افسر مہمانداری کے خوشگوار فرائض ادا کرتے ہوئے میں لائل پور سے لاہور تک ان کے ساتھ اس موٹر میں سفر کروں۔

مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ قائداعظم نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائداعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کر بڑھا کر پیش کرے۔ جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہوگیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائداعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائداعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہےیہ سچ ہو مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔“


آوازِ دوست
مختار مسعور
صفحہ نمبر220 ،221
 
Top