پاکستان کی تاریخ

جب میں اپنے نصابی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ہر نسل کو اپنی تاریخ سے بے خبر رکھنے کے لیے اگر ایسا ہی نصاب ترتیب دیا جاتا رہے گا تو اس کا انجام نجانے کیا ہوگا۔ اس لیے کہ زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں۔اس لیے کیوں نہ پاکستانی تاریخ پر بحث کی جائے تقسیم سے پہلے کیا ہوا۔ اور پھر تقسیم کے بعد کیا ہوا۔ ان سب پر آپ لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ بات کریں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
وہاب، ہمیں ساٹھ سال کے قریب ہونے کو آئے ہیں آزاد ہوئے اور ابھی تک ہمیں تاریخ کا ایک ڈسٹارٹد ورژن دکھایا جاتا رہا ہے۔ انڈیا سے جو مضامین اور خبریں نظر سے گزرتے ہیں تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ ہم آج اگر تاریخی حقائق کا دیانتداری سے سامنا نہیں کریں گے تو ہم سے بعد والی نسلیں تو کریں گی۔ اصل تاریخ کو کب تک چھپایا جا سکتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی آڑ میں کیوں سرکاری تاریخ نویسوں کو ہمارے سر پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ جو کوئی مورخ ذرا بھی تقسیم ہند سے متعلق مزید حقائق کی چھان بین کرے اسے بھارت نواز، غدار اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ بائیں بازو والے اور ترقی پسند حضرات کا رویہ بھی ناروا رہا ہے جو کہ تاریخ کو بالکل الگ رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اب صورتحال کچھ بدلتی جا رہی ہے اور لوگ کسی حد تک سننے کو تیار ہیں کہ ان کے سیاسی اکابرین سے بھی کچھ غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی تاریخ پر گفتگو سے نہیں جھجکنا چاہیے۔ اس سے ہم کمزور نہیں پڑیں گے۔
 

نعمان

محفلین
نبیل میرے خیال میں پاکستان کی نئی نسل کے اندر نہ قوت برداشت ہے اور نہ وہ نئی بات سننا چاہتے ہیں۔ ایسا اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو پاکستان کے اسکولوں کالجوں میں پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور انہیں آزادی کا کبھی تجربہ نہیں ہوا۔ پالتو پرندے جنہیں پنجرے کی قید میں تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ اقبال کے سو کالڈ شاہین کھلی ہوا میں پر پھیلانا نہیں چاہتے۔ یہ خوف ان کے دل و دماغ میں بس گیا ہے کہ ہر وہ بات جو انہوں نے اسکول میں نہیں پڑھی وہ پاکستان دشمن اور الٹیمیٹلی اسلام دشمن ہے اسلئیے اسکا سدباب جس طرح بھی ممکن ہو کیا جائے تاکہ ایسی باتوں سے معاشرہ بگڑ نہ جائے۔

مثال کے طور پر محمد بن قاسم ہی کو لیجئیے۔ ہماری اسکولوں کی کتابوں میں تاریخ وہیں سے شروع ہوتی ہے، ہیروازم، جنگی کارناموں کی گلوریفیکیشن، اسلام کا جہاد، مسلم عورت کی مدد کی پکار، ہندو بادشاہ راجہ داہر کے مظالم۔ صرف ایک سبق میں اتنا پروپگینڈہ۔ سیدھی سی تاریخ نہیں بتائی جاتی کہ سندھ پر قبضے کی کوشش عرب سالوں سے کررہے تھے اور ان کے حملے کا مقصد معاشی اور سیاسی فوائد تھے نہ کہ اسلام کی سربلندی۔ سندھ پر حملہ ظالم ہندو راجہ کا خاتمہ بن جاتا ہے اور آخر میں ایک تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں غریب ننگ دھڑنگ ہندو بچوں عورتوں اور پنڈتوں کو مسلمان گھڑسوار کو شکریہ ادا کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ کہتا ہے کہ ہمارا مقصد صدام کی آمریت سے عراقی عوام اور دنیا کو نجات دلانا ہے اور بعد میں ایسی تصاویر شائع کی جاتی ہیں کہ جیسے عراقی عوام امریکی قبضے کو ویلکم کررہے ہیں۔
 
نعمان آپ نے شروعات ہی انتہائی تعصب اور جانب داری سے کی ہے اور بغیر کسی مستند حوالے کے۔ آپ بتانا پسند کریں گے کہ راجہ داہر کے انصاف پسند دور میں عوام کتنے سکون اور سہولیات سے بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ تاریخی حقائق کو صرف انپے نظریات کی آنکھ سے دیکھنے کا عمل ہی حقیقت سے دور کردیتا ہے۔ باتیں تاریخی حوالوں سے کریں تو مناسب ہوگا بجائے صرف اپنے نظریات کی رو سے کیونکہ تاریخی حقیقت محمد بن قاسم کی آمد اور سندھ کے لوگوں کی راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسم کی مدد ہے جس کا ثبوت آج ہمارے سامنے سندھ کا اسلامی تشخص ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نعمان نے کہا:
نبیل میرے خیال میں پاکستان کی نئی نسل کے اندر نہ قوت برداشت ہے اور نہ وہ نئی بات سننا چاہتے ہیں۔ ایسا اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو پاکستان کے اسکولوں کالجوں میں پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور انہیں آزادی کا کبھی تجربہ نہیں ہوا۔ پالتو پرندے جنہیں پنجرے کی قید میں تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ اقبال کے سو کالڈ شاہین کھلی ہوا میں پر پھیلانا نہیں چاہتے۔ یہ خوف ان کے دل و دماغ میں بس گیا ہے کہ ہر وہ بات جو انہوں نے اسکول میں نہیں پڑھی وہ پاکستان دشمن اور الٹیمیٹلی اسلام دشمن ہے اسلئیے اسکا سدباب جس طرح بھی ممکن ہو کیا جائے تاکہ ایسی باتوں سے معاشرہ بگڑ نہ جائے۔

مثال کے طور پر محمد بن قاسم ہی کو لیجئیے۔ ہماری اسکولوں کی کتابوں میں تاریخ وہیں سے شروع ہوتی ہے، ہیروازم، جنگی کارناموں کی گلوریفیکیشن، اسلام کا جہاد، مسلم عورت کی مدد کی پکار، ہندو بادشاہ راجہ داہر کے مظالم۔ صرف ایک سبق میں اتنا پروپگینڈہ۔ سیدھی سی تاریخ نہیں بتائی جاتی کہ سندھ پر قبضے کی کوشش عرب سالوں سے کررہے تھے اور ان کے حملے کا مقصد معاشی اور سیاسی فوائد تھے نہ کہ اسلام کی سربلندی۔ سندھ پر حملہ ظالم ہندو راجہ کا خاتمہ بن جاتا ہے اور آخر میں ایک تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں غریب ننگ دھڑنگ ہندو بچوں عورتوں اور پنڈتوں کو مسلمان گھڑسوار کو شکریہ ادا کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ کہتا ہے کہ ہمارا مقصد صدام کی آمریت سے عراقی عوام اور دنیا کو نجات دلانا ہے اور بعد میں ایسی تصاویر شائع کی جاتی ہیں کہ جیسے عراقی عوام امریکی قبضے کو ویلکم کررہے ہیں۔
اور آپ چاہتے ہیں کہ مسلم امہ جو پہلے ہی سامراجیوں کی غلامی کا شکار ہے اسکو جذبہ حریت سے محروم کردیا جائے ۔ جیسے مرزا غلام کذاب نے انگریزوں کی شہ پر کہا تھا کہ جہاد کا خیال چھوڑ دو۔
 
جواب

دراصل دوستو ہمیں مان لینا چاہیئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد (ہر ملک ملک ماست و ملک خدائے ماست) کے نظریے سے نہیں تھی۔ خصوصا محمود غزنوی اور سلطان محمود غوری کا حملہ تو کھلی تو پر صرف اور صرف مال غنیمت کا حصول تھا۔ دراصل آپ غیر جانب داری سے سوچنے کی کوشش کریں ان بادشاہوں نے احیا اسلام کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں کیا وہ تو بھلا ہو ان صوفیا کا کہ بعد میں ان خطوں میں آئے اور اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ خیر حملے کی نوعیت جو بھی ہو۔ یہاں مسلمانوں کی آمد سے ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پڑی جو کہ صدیوں تک چلتی رہی۔ ان میں تصادم بھی ہوتا رہا لیکن پھر بھی یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں چلتا رہا۔ سب سے بڑی دراڑ اس تہذیب میں انگریز کے دور میں پیدا ہوئی۔ دراصل انگریز نے لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی اپناتے ہوئے دونوں قوموں ہندووں اور مسلمانوں‌کے درمیان لسانی ، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینا شروع کر دیا۔ اس طرح صدیوں کی اس مشترکہ تہذیب میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ یوں جو قومیں صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہی تھیں ان کا پانی بھی الگ الگ ہو گیا۔ یوں انگریز ایک آگ کے دریا کے صورت میں آیا اور پوری مشترکہ تہذیب کو جلا کر اپنے ملک چلتا بنا۔ جہاں تک پاکستان کے بننے کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا بننا ناگزیر تھا۔ کیونکہ انگریز نے جو نفرت کا بیج بویا اس کے ساتھ ہندو اور مسلمان کا ساتھ رہنا مشکل نظر آرہا تھا۔ دوسری طرف انگریز چونکہ یہاں جمہوری نظام چھوڑ کر جانے والا تھا اس لیے مسلمانوں کو اپنی اقلیت ڈوبتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ یہاں میں کہنا چاہوں گا کہ اگر کانگرس جداگانہ طرز انتخاب کی مخالفت نہ کرتی تو شاید پھر بھی مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان کچھ نہ کچھ مفاہمت ہو جاتی۔ لیکن موتی لال اور جواہر لال وغیرہ نے یہ راستے بھی بند کر دیے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان سنتالیس میں نہ بنتا تو شاید ستاون یا ستاسٹ میں بن جاتا۔ لیکن یہ تقسیم تھی ناگزیر۔ جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو وہ اصولوں کی سیاست کرنے والے سیاست دان تھے۔ لیکن ان کے اردگرد جو گروہ اکھٹا ہوا خصوصا پنتالیس کے بعد جو کہ مسلم لیگ کی مقبولیت سے متاثر ہو کر ان کے نزدیک آیا۔ اس نے پاکستان کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چوڑی۔ دوسری بات جو پاکستان کے قیام کے متعلق کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا یوں برطانیہ اور امریکہ ایک ایسی ریاست کے خواہاں تھے کہ جو اس خطے میں روس کے خلاف ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے ۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ خود برطانیہ پاکستان کے قیام کے حق میں تھا۔ پاکستان نے بعد میں سرد جنگ میں جو کردار ادا کیا اس سے بھی یہ دلیل صحیح معلوم ہوتی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم دوستو۔ یہاں سب لوگ تاریخ کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔ اس تھریڈ کا موضوع تاریخ پاکستان ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ کیا یہ مغلوں کے زوال کے بعد کی تاریخ ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس کا آغاز سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے سے ہوتا ہے۔ کچھ اور حضرات اسے مزید پیچھے اوائل اسلام تک لے جاتے ہیں۔

میرے خیال میں ہمیں تاریخ کے موضوعات پر سنجیدہ گفتگو کرنی چاہیے۔ شاید ایسے اصول وضع کر لینے چاہییں کہ ہر تاریخی حوالے کے ساتھ اس کے منبع کو بھی شامل کیا جائے۔ بہرحال یہ تو اس فورم کے ناظم کی صوابدید پر ہے۔
 
جواب

محترم نبیل صاحب تاریخ کا حوالہ میں نے دے دیا ہے۔ ہاں بحث کہاں سے شروع کرنی ہے اس کے لیے میرے خیال میں جنگ آزادی اٹھارہ سو ستاون کا حوالہ بہتر رہے گا۔ کیونکہ اس کے بعد کے ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نئے علوم اور جدید تعلیم نے ایک طرف ایک انقلاب پیدا کیا تو دوسری طرف ہندووں اور مسلمانوں کے درمیاں حائل دیوار بھی مزید اونچی ہو تی گئی۔
 
میں نبیل کی بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ بجائے اپنے خلاصہ جات پیش کرنے کہ ہمیں مستند تاریخی حوالہ جوت اور کتب سے اقتباسات پیش کرنے چاہیے تاکہ پڑھنے والوں میں کتب بینی کا شوق بھی پیدا ہو اور اگر کوئی حوالہ دیکھنا چاہے تو بھی اسی پوسٹ سے مل جائے وگرنہ بغیر دلیل اور حوالوں کے صرف گفتگو برائے گفتگو ہی رہ جائے گی۔ مصنف کی رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں مگر کتاب اور مصنف کا حوالہ ضرور دیں تاکہ سند رہے اور کوئی دیکھنا چاہے تو اسے آسانی بھی رہے۔ امید ہے سب احباب اس کا خیال رکھیں گے۔
 
جواب

تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے میرا سورس اردو ادب ہی رہا ہے۔ اس حوالے سے جو دو ناول سب سے زیادہ اہم ہیں ان میں آگ کا دریا (قراۃ العین حیدر) اور سنگم (احسن فاروقی ) اور تاریخی حوالے سے میں نے انہی کتابوں کے مرکزی خیال کو مدنظر رکھا ہے۔ دراصل ان کا تقطہ نظر خالصتا داخلی ہے ان ناولوں میں خارجی واقعات کی بجائے داخلی حوالے سے ہندوستان کی تقسیم کو دیکھنے کی کوشش کی گئی۔
 
سوال

1947 میں‌صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان کی کانگرسی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ وجہ ان پر غداری کا الزام لگایا گیا۔ کیا قائداعظم کا یہ فیصلہ غیر جمہوری نہیں تھا۔جس نے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بعد ڈاکٹر خان کا قتل بھی ایک سوال ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت بھی اس تناظر کا حصہ ہے۔ آپ لوگوں سے گزراش ہے کے اس کے بارے میں‌ اپنی آرا دیں۔
 

نعمان

محفلین
محمد بن قاسم اور تاریخ پاکستان

حوالہ : محمد بن قاسم ۔ ویکیپیڈیا

وادی مہران (جغرفیائی علاقہ جو آجکل پاکستان کہلاتا ہے) کی تاریخ موہنجوداڑو اور ہڑپہ سے بھی پہلے کی ہے۔ مختلف پاکستانی ویب سائٹ پاکستان کی تاریخ وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ ان کا سارا زور پاکستان کی سندھی (وادی مہران) ثقافت سے عرب ٹرانسفارمیشن پر ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہی کہ آج بھی پاکستانی معاشرے پر قدیم تہذیبی ورثہ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ جدید تہذیبی ورثہ جو ہمیں زبردستی دیا جارہا ہے وہ افغان، ترک، منگول اور عرب حملہ آوروں کا کلچر تھا جو نہ کبھی ہمارا تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ وادی مہران کے رہنے والے نہ تھے اور نہ ان میں سے کسی حملہ آور نے وادی مہران کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔

محمد بن قاسم کا حوالہ اوپر موجود ہے۔ وہاں پر کچھ لنکس بھی ہیں جنہیں پڑھ کر مزید معلومات حاصل ہوسکتی ہیں اور پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں کہ بن قاسم کے سندھ پر حملے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب عربوں نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ مسلمان تاجروں کے جہاز کے روکے جانے سے بہت پہلے ہی عربوں نے سندھ پر حملے شروع کردئیے تھے۔ سندھ پر عربوں کے حملے حضرت عمر بن خطاب اوعر حضرت عثمان بن عفان کے دور سے شروع ہوتے ہیں۔ جو کہ تمام ناکام ہوتے رہے حالانکہ سندھ کی وجی طاقت اتنی بہتر نہیں تھی جتنی عربوں کی تھی۔ ان حملوں اہم ترین وجہ بحری راستہ، تجارتی مفادات اور سندھ کے وسائل پر قبضہ تھا نہ کہ سندھ کو مسلمان کرنا۔

سندھ کے فتح ہونے کے فورا بعد محمد بن قاسم نے غیر مسلم رعایا پر بھاری جزیہ عائد کردیا۔ مفتوح قوم کے مزاحمت پسند عناصر بے دریغ قتل کئیے گئے۔ اگر حملے کا مقصد مسلمان تاجروں کو چھڑانا تھا تو داہر کو شکست دینے کے بعد حملے رک جانا چاہئیے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سندھ کے مشرقی علاقوں میں راجھستان تک اور شمال میں ملتان تک فتوحات کی گئیں جس کے نتیجے میں انتہائی زرخیز میدانی علاقوں پر عرب قابض ہوگئے اور مغرب میں فارس، جنوب میں جزیرہ نما عرب اور شمال مغرب سے افغانستان تک تجارت میں آسانی پیدا ہوئی جس کا سارا فائدہ عربوں کو ہوا کیونکہ مقامی آبادی پر ٹیکس اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس تجارت میں سراسر گھاٹے میں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو تاجر بظاہر مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ مذاہب کی تاریخ میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ جب کسی علاقے کے امراء یا حکمران نیا مذہب قبول کرنے لگتے ہیں تو وہ مذہب غرباء اور عوام کی بھی توجہ پانے لگتا ہے۔ بھاری ٹیکس، معاشی فوائد اور معاشرتی حیثیت میں اضافہ محمد بن قاسم کے دور میں اور اسکے کچھ عرصے بعد تک کئی لوگوں کر مسلمان کر گیا۔ معاشی فوائد نومسلموں کو یہ تھے کہ عرب فوج کو افرادی قوت کی اتنی زیادہ ضرورت تھی کہ اسوقت سب سے زیادہ نوکریاں فاتح فوج ہی کے پاس تھیں مگر فاتح فوج میں غیرمسلموں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ معاشرتی فوائد یہ تھے کی نوکریوں، تجارتی فوائد کے بعد جب نو مسلم خوشحال ہونے لگتے تو انہیں دوسرے مقامی لوگوں پر واضح برتری حاصل ہوجاتی تھی اور ان کا سماجی اسٹیٹس بلند ہوجاتا تھا۔

مذہبی رواداری کا دعوی کا بھی جھوٹا ہے چونکہ عربوں نے بے دریغ بدھ مذہب اور ہندو مذہب کے مندروں کو نقصان پہنچایا۔ سندھ میں موجود گوتم بدھ کے سینکڑوں مجسمے اسٹوپاز مسمار کئیے گئے کیونکہ اسوقت اس ریجن میں بدھ مذہب سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب تھا نہ کہ اسلام۔

محمد بن قاسم نے سینکڑوں سندھی سپاہیوں کو غلام بنا کر شام روانہ کیا، راجہ داہر کی دو بیٹیاں خلیفہ کو پیش کی گئیں اور شاہی خزانے پر قبضہ کر کے تمام مال و زر خلافت کو بھیجا گیا۔ جسے اگر ہم آج کے دور کے حساب سے دیکھیں تو یہ سراسر ناجائز نظر آتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ محمد بن قاسم کے دور حکومت اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک بھی سندھ میں مسلمان پھر بھی اقلیت ہی تھے۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے اس کے پیچھے مسلمانوں کے حسن سلوک کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ نہ ہی مسلمانوں نے نچلی ذات کے ہندوؤں کو گلے لگایا تھا۔ مسلمانوں نے صرف اونچی ذات کے ہندوؤں اور تاجروں کو ہی نوازا تھا اور اس کے پیچھے بھی مقصد تجارت، سیاست اور قبضے کا استحکام تھا نہ کہ اسلام کی سربلندی۔

ہمارے بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ہندو جو اپنے بادشاہ کے ظلم و ستم سے تنگ تھے وہ محمد بن قاسم کو مسیحا سمجھتے تھے۔ جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا وجہ تھی کہ بن قاسم سے پہلے عربوں کو بری طرح شکست فاش ہوتی رہی اور دریائے سندھ عربوں کے خون سے لال ہوتا رہا؟ کیا وجہ تھی کہ محمد بن قاسم کی ٹیکنالوجیکلی برتر، تجربہ کار اور مالدار فوج بھی آسانی سے قبضہ نہ کرسکی؟ عوام اور فوج پوری طرح راجہ داہر کے ساتھ تھی لیکن راجہ داہر کے راجپوتوں سے تنازعات اور اس کے دور ایلائٹ برہمنوں کی درباری سازشیں برہمنوں اور بدھ ازم کے کھنچاؤ نے راجہ داہر کو شکست سے دوچار کیا۔

میرے خیال میں پاکستانیوں کو یہی تاریخ پڑھائی جانی چاہئیے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں میں عقلیت پسندی پیدا ہوگی۔ جس زمانے کا یہ واقعہ ہے اس زمانے میں طاقتور قومیں اسی طرح اپنے تجارتی اور مالی مفادات محفوظ کرتی تھیں۔ جنگوں کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ جنگ ذریعہ آمدنی سمجھا جاتا تھا اور ریاستوں کے استحکام کے لئیے اسے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہم اگر اپنے بچوں کو یہ چیپٹر یوں پڑھائیں تو اس سے بچوں کے دلوں میں سندھ کی ہندو تاریخ جاننے کا بھی شوق پیدا ہوگا اور انہیں احساس ہوگا کہ ان کا کلچر ان کی تہذیب عربوں کی دی ہوئی نہیں ہے بلکہ ان کے اجداء کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سندھ کی ثقافت پر عربوں نے اتنا حیرت انگیز اثر نہیں چھوڑا جتنا سندھیوں نے عرب ثقافت پر چھوڑا ہے۔ سندھی لباس، زبان، بول چال، طرز تعمیر، فنون جیسے کپڑوں پر ڈیزائنز کی چھپائی، کشیدہ کاری، پینٹنگ، موسیقی اور ریاضی میں سندھیوں کی مہارت اور علم نے عربوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ آج کے دور کے موجودہ سندھیوں میں بھی ماضی کی جھلک بآسانی دیکھی جاسکتی ہے وہ آج بھی عرب کم اور سندھی زیادہ ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے عرب حملوں کی کبھی ستائش نہیں کی تھی اور ہمیشہ مزاحمت جاری رکھی تھی۔ موجودہ دور کے اکثر سندھی قوم پرست باوجود مسلمان ہونے کے محمد بن قاسم کو ولن تصور کرتے ہیں۔

سندھ کے لوگوں نے ایک طویل عرصے تک مسلمان حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے۔ اگر جنگ کو ہی گلوریفائی کرنا ہے تو پاکستانیوں کی بہادری کو گلوریفائی کیا جائے نہ کہ عربوں کی۔ میرے خیال میں اس سے کم از کم سندھیوں کے اسلامی تشخص پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کی ثقافت، مذہبی زندگی اور معاشرت پر صوفی ازم کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ ایک معمولی ان پڑھ سندھی بھی اسلام کو سندھی مذہب سمجھتا ہے یہ اس کے کلچر کا حصہ ہے مگر اسطرح نہیں جسطرح یہ عربوں میں ہے۔ اس سے ایک اور بحث کا دروازہ کھلتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مقامی کلچر ساتھ نہیں چل سکتے؟

مزید حوالہ جات:

1
2
3
4
5
 
فتح یا شکست انیس سو پینسٹھ

پینسٹھ کی جنگ کے بارے میں ہمارے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ یہ سراسر ہندوستان کی جارہیت تھی اور پاکستانی فوج نے حملہ روک کر دفاع کیا اور آخر کار ہمارے جری اور بہادر افواج نے یہ جنگ جیت لی۔ لیکن یہ لنک تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔

1


2


3


آپ سے گزارش ہے اس بارے میں اپنی رائے دیں۔
 

دوست

محفلین
بات یہ بنی کہ ہمارے حاکموں‌نے ہر دور میں‌اس بھوکی ننگی قوم کو بے خبر رکھنے کی کوشش کی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ کی بات ٹھیک ہے شاکر۔ دوسرے ہماری قوم کا مزاج بھی خود فریبی میں رہنے کا ہے۔ 1971 میں مغربی حصے کے عوام کو یہ سنایا جا رہا تھا کہ یہ سب سیاستدانوں کی پھیلائی ہوئی گڑبڑ ہے اور یہ کہ بہادر پاکستانی افواج نہایت کامیابی سے محاذوں پر پیش قدمی کر رہی ہیں۔ اس وقت بی بی سی کو لوگ بیکار بکواس کمپنی کہتے تھے کیونکہ یہ مختلف خبریں دیتا تھا۔ بعدمیں لوگ مخمصے میں پڑ گئے تھے کہ ہر محاذ پر پیش قدمی کرتی ہوئی بہادر فوج نے اچانک ہتھیار کیسے ڈال دیے۔
 

اظہرالحق

محفلین
کچھ کتابوں کے حوالے ہیں ، شاید پاکستان کی تاریخ سمجھے میں معاون ہوں ۔ ۔ ۔

لبیک - از ممتاز مفتی
شہاب نامہ - قدرت اللہ شہاب
پاکستان ناگزیر تھا
میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھتا
اور لائن کٹ گئی
تہاڑ جیل سے فرار (یہ ایک ناول ہے )

-----------------------------
ایک جو اس تھریڈ پر بار بار دھرائی جا رہی ہے کہ ہم بے خبر تھے ، کیا اب بھی ہم بے خبر ہیں ؟ دوسری بات نئی نسل کو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان کو نہیں سمجھی ۔ ۔۔ اگر آپ صرف تصویر کا ایک رخ ہی پیش کریں گے (یعنی منفی ) تو بتائیں نہ جاننے والے کیا سمجھیں گے ، کہ پاکستان کا قیام ہی غلط تھا (بہت سارے بزرجمہر ایسی باتیں بھی کر گزرتے ہیں یا سمجھتے ہیں ) مہربانی کر کہ تصویر کا دوسرا رخ (مثبت پہلو) بھی پیش کریں ۔ ۔
--------------------------------------
آغاز ۔ ۔ ۔ تو میرے خیال میں 5000 قبل مسیح سے ہی کریں تو اچھا ہو گا ۔ ۔ تا کہ اس خطے کی تبدیلیوں کو بھی ہم سمجھ سکیں
-------------------------------------------
اور ایک اور چیز جس کو میں نے اس تھریڈ میں محسوس کیا ہے ، اور عجیب بات ہے کہ یہ لکھنے والے سارے مسلمان ہیں ، کہ ہم (مسلمان) صرف از صرف دنیا پر “تلوار“ کے زور سے قابض ہوئے ، اور دنیا میں اسلام طاقت کے بل پر پھیلا ۔ ۔ ۔ یہ بات تو آپ وہ کر رہے ہیں جو مغرب اور غیر مسلم ورلڈ صدیوں سے کر رہی ہے ، کہ (نعوذ باللہ) محمد(ص) نے ایک غیر مہذب اور وحشی مذہب دنیا میں متعارف کروایا ۔ ۔ مغرب ہم مسلمانوں سے یہ ہی سوچ چاہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور کافی کامیاب بھی ہے (آپ لوگوں کی باتوں سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے )
 
ہم جب بھی پاکستان کے قیام کے خلاف لکھتے ہیں‌تو دراصل اپنی توقعات کا پورا نہ ہونے کا ماتم کررہے ہوتے ہیں۔ دراصل جو لوگ پاکستان کے قیام پر نقطہ چینی کرتے رہتے ہیں میں انہیں بھی بہت محب اسلام سمجھتا ہوں کیو نکہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ تھا جیسا کہ قرارداد مقاصد کی صورت میں‌پاکستان کے آئین میں اب بھی موجود ہے۔

مسئلہ یہ ہو گیا کہ جاگیر دار، وڈیرے ، سردار اور فوجی بیوروکریسی نے پاکستان کے اصل مقاصد کا بھرکس نکال دیا اور مفاد پرستی کے ایک نئے باب کو جنم دیا۔
نئی نسل کو قرارداد مقاصد کا مہفوم درست سمجھانے کی ضرورت ہے۔ قرارداد مقاصد کو سمجھنے کے لیے اسلام کا مطالعہ ضروری ہے اور اسلام کی تعلیمات قران و سنہ سے ہی مل سکتی ہیں۔ لہذا ہم سب کو مل کر کوشش کر نی چاہیے کہ نئ نسل قران و سنہ کی درست تعلیم لے سکے
 

اظہرالحق

محفلین
ہمت علی نے کہا:
ہم جب بھی پاکستان کے قیام کے خلاف لکھتے ہیں‌تو دراصل اپنی توقعات کا پورا نہ ہونے کا ماتم کررہے ہوتے ہیں۔ دراصل جو لوگ پاکستان کے قیام پر نقطہ چینی کرتے رہتے ہیں میں انہیں بھی بہت محب اسلام سمجھتا ہوں کیو نکہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ تھا جیسا کہ قرارداد مقاصد کی صورت میں‌پاکستان کے آئین میں اب بھی موجود ہے۔

مسئلہ یہ ہو گیا کہ جاگیر دار، وڈیرے ، سردار اور فوجی بیوروکریسی نے پاکستان کے اصل مقاصد کا بھرکس نکال دیا اور مفاد پرستی کے ایک نئے باب کو جنم دیا۔
نئی نسل کو قرارداد مقاصد کا مہفوم درست سمجھانے کی ضرورت ہے۔ قرارداد مقاصد کو سمجھنے کے لیے اسلام کا مطالعہ ضروری ہے اور اسلام کی تعلیمات قران و سنہ سے ہی مل سکتی ہیں۔ لہذا ہم سب کو مل کر کوشش کر نی چاہیے کہ نئ نسل قران و سنہ کی درست تعلیم لے سکے

بالکل ہمت علی میں آپ کی بات سے متفق ہوں اور یہ کام بھی ہمیں ہی کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ورنہ دوسری طرف کی “چکا چوند“ بہت سارے کچے ذھنوں کو متاثر کر لیتی ہے

یعنی ہم اسلام کو ڈرا دھمکا کر نہیں سمجھا سکتے جیسے آج کل کے مولانا کرتے ہیں کہ بس جنت کا لالچ دو ۔ ۔ ۔ اور دنیا چھوڑ دو یا پھر دنیا رکھنی ہے تو اسلام نہیں رکھ سکتے ۔ ۔ دونوں طریقہ کار غلط ہیں ۔ ۔۔ اصل طریقہ ہے کسی بھی مذہب کی روح کو سمجھنا ۔ ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔ شاہ رخ خان کی طرح ہماری نئی نسل بھی “بدھ مت“ کو دنیا کا بہترین مذہب قرار دے گی
 

نعمان

محفلین
اظہر بھائی ہم یہاں پاکستان کی تاریخ پر بات کریں گے آپ براہ مہربانی اس گفتگو کو اپنی مرضی کے رخ پر نہ موڑیں۔

لگتا ہے میں پھر ایک کنٹروورسی پرووک کرنے جارہا ہوں۔ اللہ نبیل بھائی پر اپنا رحم و کرم اور زیادہ فرمائے۔

ہمت علی پاکستان کے قیام کا مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ نہیں تھا۔ تاریخ پاکستان پڑھنی ہے یا وہی گھسی پٹی باتیں دہرانی ہیں جو دسویں جماعت کے مطالعہ پاکستان میں درج ہیں؟

میرے بھائی جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں یا پڑھاتے ہیں تو ہم قطعیت سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے لئیے ایک علیحدہ مملکت کا حصول تھا کیونکہ مسلمانوں کا یہ ماننا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کے حقوق غیر محفوظ ہونگے۔ علیحدہ مملکت مسلم اکثریتی علاقے میں اسلئیے بنائی گئی تاکہ وہاں مسلمان اکثریت میں ہوں اور اپنے حقوق کا تحفظ ممکن بناسکیں۔ یہ اللہ کے قانون والی چیز تو سیاست کی پیداوار تھی پاکستان میں اس کا نفاذ کبھی ویسے نہیں ہونا تھا جیسے آپ اور اظہر سمجھ رہے ہیں۔ اغراض و مقاصد قانون نہیں تھا بلکہ ایک خاکہ تھا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ قانونی حیثیت میں یہ تب آیا جب بھٹو صاحب کے دور میں ملک کا پہلا متفقہ آئین تیار ہوا۔ اس دوران بہت لمبا گیپ ہے۔ بیچ میں اس کو مختلف آمروں نے آئین میں ڈالا مگر آمروں کے آئین متفقہ نہیں تھے اور اس پر بہت کنٹروورسی ہے۔

اس بارے میں غالبا ہمارے بھائی شعیب صفدر کچھ روشنی ڈال سکیں گے۔ کیونکہ وہ قانون کے طالبعلم ہیں۔ خصوصا اس بات پر کہ کس طرح ایک طرف ہمارے سیاستدان اور آمر اسلام کو شامل کرتے رہے اور دوسری طرف ان قوانین کو غیر موثر بھی بناتے رہے۔

تاریخ سے ہٹ کر دیکھیں تو میں بالکل نہیں سمجھتا کہ پاکستان کا مسلمان مایوس ہے۔ میری زاتی ترجیح سیکولرازم کے علاوہ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں لوگ طالبان سعودی عرب یا ایران کی طرح کا کوئی بھی نظام پسند کریں گے۔ میرے بھائیوں کو اپنے ملک کا کلچر بھی دیکھنا چاہئیے۔ جس ملک میں لاکھوں مرد اور عورتیں بسنت کے موقعے پر چھتوں پر بوکاٹا کے نعرے لگاتے ہوں اور رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوں۔ جس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لڑکے لڑکیاں ایک سروے (سروے اور اعداد و شمار صحیح سے یاد نہیں لیکن کچھ تیس فیصد کے قریب تھا) میں یہ اعتراف کریں کہ وہ مخالف جنس کی قربت سے بغیر شادی کئیے لطف اندوز ہوچکے ہیں۔ جس ملک میں شیعہ سنی اسمائیلی بوہری بریلوی دیوبندی وغیرہ رہتے ہوں۔ اس ملک کو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں لوگ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ آپ لوگ پتہ نہیں کس احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مگر پاکستان کے اتنہائی پسماندہ اور دورافتادہ پختون قبائلیوں کے علاوہ کوئی پاکستان میں اسلامی انقلاب نہیں چاہتا۔ حقائق کو سامنے رکھیں، رویوں کو دیکھیں اور سمجھیں۔ پاکستان کے کلچر کو دیکھیں میرے بھائی۔ یہ لوگ اسلامی انقلاب نہیں چاہتے ہاں ایک انصاف پر مبنی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں مگر ایسی حکومت جو ان کے کلچر کو ڈنڈے کے زور پر تبدیل نہ کرے۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان کی عوام کیا چاہتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے کریکشن کے لئیے ضروری ہے کہ میں یہ بتاتا چلوں کہ الہ آباد جلسے اور پاکستان کے قیام کے دوران جو واقعات ہوئے انہیں اسی طرح پڑھیں جس طرح پڑھا جانا چاہئیے نہ کہ اسطرح کہ جیسے آپ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اور جب آپ ان واقعات پر قومی لیڈروں کا ردعمل دیکھیں تو یہ یاد رکھیں کہ وہ فرشتے نہیں معمولی انسان تھے جن کے سینوں میں دل تھے۔ جنہیں عزت، شہرت اور نام و نمود سے بھی غرض ہوسکتی ہے۔ وہ بے ایمان بھی ہوسکتے ہیں اور کینہ پرور بھی۔ سیاست میں بیان بازی اور نعرے بازی کا ایک اہم رول ہے۔ سیاستدان جو آج بھی قلابازیاں کھاتے ہیں تب بھی جھوٹ بولتے تھے۔ جلسے میں اگر زیادہ لوگ نہیں آئے تو نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگوادئیے۔ اس دور میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ انہیں اسطرح پڑھیں جیسے آپ آجکل نوازشریف یا بینظیر کو پڑھتے ہیں۔ تو آپ کو تاریخ کی زیادہ سمجھ آئی گی۔ اسطرح کے غیر جانبدار مطالعہ سے آپ کو پاکستان سے اور بھی زیادہ محبت ہوجائے گی اور ایسا بالکل نہ سوچیں کہ ایسا کرنے سے آپ کی حب الوطنی میں کسی قسم کی کوئی کمی آجائے گی۔

اور جب آپ تاریخ پڑھیں تو یہ بات بھول جائیں کہ آپ کو مسلمانوں سے ہمدردی کرنی ہے کیونکہ پھر آپ کو مزہ بالکل نہیں آئے گا۔

ایمانداری کی بات ہے میں بھی پہلے سستے اردو ڈائجسٹوں میں ہی تاریخ پڑھتا تھا مگر انٹرنیٹ سے مجھے بہت مدد ملی۔ گرچہ میں جنگ ستمبر اور سقوط ڈھاکہ کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں مگر اس سے میرے اس جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی جو ملکہ ترنم میڈم نورجہاں کے نغمے سن کر دل میں بیدار ہوتا تھا۔ میں اب بھی جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار سنتا ہوں تو خوشی سے ناچنے لگتا ہوں۔ اور ہاں اس بات سے تو غالبا ہمارے اسلام پسند اور معتدل مزاج بھائی کوئی انکار نہیں کرے گا کہ پاکستان اپنی آبادی، رقبے اور پسماندگی کے باوجود انٹرنیشنل میڈیا کی نظروں میں رہتا ہے۔ بی بی سی پر اتنی خبریں بھارت کی نہیں ہوتیں جتنی پاکستان کی ہوتی ہیں۔ بھارت میں ہزار عورتیں ریپ ہوں اور سینکڑوں کو انصاف نہ ملے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن پاکستان کی ایک دلیر عورت ساری دنیا کے میڈیا کی توجہ اپنی طرف کرالیتی ہے۔ ان شارٹ ہم بہت عظیم قوم ہیں اور عظیم رہنے کے لئیے ضروری نہیں کہ ہم تاریخ کو الٹراماڈرن شعاعوں سے بچانے والے چشمے لگا کر پڑھیں۔

سب کی نظروں میں ۔۔۔ پاکستان
کبھی نہ بھولو

اوہ بای دا وے۔ اظہر کی بیان کردہ کتابیں دلچسپ ہیں مگر پاکستان کی تاریخ بیان نہیں‌کرتیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
استغفراللہ، بات تاریخ کے مطالعے سے شروع ہوئی تھی اور تان پھر وہی درجہ ایمان پر آ کر ٹوٹی ہے۔ نہ کسی نے اسلام کے خلاف بات کی ہے اور نہ ہی قیام پاکستان کے خلاف۔ اس تھریڈ کا موضوع تاریخ کا دیانتدارانہ مطالعہ ہے اور جواب میں فکشن اور ناولوں کو مستند حوالے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تاریخ کو مسخ کرنے کی وہی کوشش ہے جو ایک طبقہ قیام پاکستان کے وقت سے کرتا آ رہا ہے۔ جب کوئی اصل حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرے تو بس اپنے کانوں میں انگلیاں دے کر اسلام اور نظریہ پاکستان کا شور مچا دیا جاتا۔

اوپر وہاب نے تاریخ کے حوالے سے کچھ سوال اٹھائے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کا سرحد کی حکومت کو برطرف کرنا غیر جمہوری اقدام تھا یا نہیں۔ دوسرے ہم اتنے تواتر سے 1965 کی جنگ میں پاکستان کی فتح کا جھوٹا راگ کیوں الاپتے ہیں جبکہ حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ تاریخ کو ذرا اور کنگھال کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بلوچستان نے بھی آزاد ریاست بننے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان نے اس پر فوج کشی کرکے قبضہ کیا تھا۔


آپ دوست چاہیں تو اس کے جواب میں کچھ لاجیکل باتیں بھی کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ ہمیشہ کی طرح دوسرے کو مغرب زدہ اور گمراہ قرار دینا شروع کر دیں۔ تاریخ کے مطالعے کے لیے حقائق چھاننے پڑھتے ہیں اور یہ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری کی خیالی دنیا میں نہیں ملتے۔
 
Top