سید ذیشان
محفلین
نہ چھیڑ چوہدریاں نوں 🤣تے انٹرویو؟
نہ چھیڑ چوہدریاں نوں 🤣تے انٹرویو؟
کل پھر ایک لمبا سفر بطرف کشمیر بسلسلہ قربانی درپیش ہے، امید ہے کہ اتوار شام تک واپسی ہو گی۔
اس وقت معمولی ایکٹیوٹی تھی کوئی اتنی زیادہ نہیںگلیشیر ٹوٹنے اور پانی میں بہنے کی مسلسل بھیانک آوازیں نہیں تھیں کیا؟
ایک مشورہ: اگر کبھی پاکستان میں تین چار روزہ ٹریکنگ کا پان بنانا ہو تو نلتر پاس یا پکھورا پاس کو بھی آپشن میں رکھ سکتے ہیں۔
نیز یہ کہ میں یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان کا کم از کم ایک مزید ٹرپ پلان میں ضرور رکھیں۔
بتورا گروپ یا بتورا وال دنیا کے عظیم ترین پیک گروپس میں سے ایک ہے، لیکن کے کے ایچ سے اس کا منظر دکھائی نہیں دیتا، فقط پیک دکھائی دیتی ہے۔ میرے خیال سے it deserves a dedicated trip
ٹرپ کے فوراً بعد یہ لکھا تھا۔ پاکستان میں ٹریکنگ کرنے کے لئے ایک مسئلہ پروفیشنلزم کا فقدان بھی ہے۔ ڈے ہائیکس اور ڈرائیو تو خیر ممکن ہے ۔ آپ کے خیال میں اس کا میرے لئے کیا حل ہے سسٹم تو سسٹم ہے اس کا حل تلاش میں آپ نہ کر سکیں گےپاکستان کی سیاحت میں ایک بڑی attraction وہاں کے اونچے پہاڑوں میں ٹریکنگ کی تھی۔ اس بارے میں اس ٹرپ میں اندازہ لگانا تھا کہ یہ کیسا رہے گا۔ چونکہ یہ ٹریکنگ کافی بلندی پر ہوتی ہے لہذا altitude sickness کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں traveler’s diarrhea کا چانس تو ہر وقت رہتا ہے۔ گلیشیر پر ہائیک کرنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے اور کسی وقت بھی چوٹ لگ سکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر اس بارے میں کافی ریسرچ کی اور پاکستان میں بھی اس پر غور کیا اور دیکھا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایک عام ہائیکر کے لئے وہ facilities نہیں ہیں جو ہم چاہیں اور نہ ہی ولڈرنیس میڈیکل ٹریننگ عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معلوم کرنا کہ کونسی ٹریکنگ کمپنیوں کا سٹینڈرڈ اچھا ہے اور وہ ایمرجنسی کے لئے تیار رہتی ہیں بھی انتہائی مشکل بلکہ شاید ناممکن ہے۔
ان تمام وجوہات کی وجہ سے trekking کے لئے ہم دوسرے ممالک ہی جائیں گے اور پاکستان میں صرف آسان ڈے ہائیکنگ ہی پر اکتفا کریں گے۔
میرے خیال میں مسئلہ اتنا شدید نہیں ہے کہ ٹریک نہ کیا جا سکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تمام تر انتظامات خود ہی کرنا ہوں گے، فرسٹ ایڈ سے لے کر ٹینٹ یا کھانے پینے تک، تاہم یہ شاید زیادہ بڑا مسئلہ یا ڈیل بریکر نہیں ہے۔پروفیشنل ازم کے فقدان کی وجہ سے کمرشل ازم کا بھی فقدان ہے، جس کے کچھ نقصانات بھی ہیں، لیکن فوائد بھی ہیں۔ٹرپ کے فوراً بعد یہ لکھا تھا۔ پاکستان میں ٹریکنگ کرنے کے لئے ایک مسئلہ پروفیشنلزم کا فقدان بھی ہے۔ ڈے ہائیکس اور ڈرائیو تو خیر ممکن ہے ۔ آپ کے خیال میں اس کا میرے لئے کیا حل ہے سسٹم تو سسٹم ہے اس کا حل تلاش میں آپ نہ کر سکیں گے
میں بالکل عام سا انسان تھا، ہوں اور رہنا چاہتا ہوں۔ انٹرویو کی معذرت۔تے انٹرویو؟
اس میں دو مسائل ہیں: ایک تو یہ کہ یہ in-country کام بڑھا دے گا۔ دوسرے یہ کہ اچھے گائیڈ وغیرہ پہنچ کر ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری بہن نے کچھ سال پچھلے سکردو سائیڈ پر تین (؟) دن کی ٹریکنگ کی تھی۔ گائیڈ کا یہ حال تھا کہ گھنٹوں کہتا تھا کہ پہنچنے والے ہیں۔ دیگر ممالک میں جہاں ضروری تھا وہاں گائیڈ لیا اور اس سے آپ کسی وقت پوچھیں کہ کب تک منزل پر پہنچیں گے تو نہ صرف فاصلہ بتاتا تھا بلکہ میری رفتار کے حساب سے کس وقت پہنچوں گا اس کا بھی اس کو اندازہ تھا۔ اینڈیز میں گائیڈ altitude sickness کی علامات بھی چیک کرتا تھا۔ وغیرہمیرے خیال میں مسئلہ اتنا شدید نہیں ہے کہ ٹریک نہ کیا جا سکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تمام تر انتظامات خود ہی کرنا ہوں گے، فرسٹ ایڈ سے لے کر ٹینٹ یا کھانے پینے تک، تاہم یہ شاید زیادہ بڑا مسئلہ یا ڈیل بریکر نہیں ہے۔پروفیشنل ازم کے فقدان کی وجہ سے کمرشل ازم کا بھی فقدان ہے، جس کے کچھ نقصانات بھی ہیں، لیکن فوائد بھی ہیں۔
مزید یہ کہ ہنزہ یا سکردو کے نواح میں ٹریکنگ کے لئے نسبتاََ بہتر گائیڈز اور گائیڈنس وغیرہ مل سکیں گے۔
میں نے غم ناک کی ریٹنگ اس لیے دی ہے کہ انٹرویو دے کر بھی ہم خاص نہ ہو پائے!!!میں بالکل عام سا انسان تھا، ہوں اور رہنا چاہتا ہوں۔ انٹرویو کی معذرت۔
اور برطانیہ نے سب اپنے سپروائزر کو بھی نام سے بلاتے تھے۔بلکہ سبھی بڑوں کو۔بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ پاکستان میں مناصب کا خیال بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔ برابری کا نظریہ کفر سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے کافی عجیب لگتا ہے۔
وہاں جب بھی کسی ریستوران میں ڈرائیور کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا تو ایسے لگا جیسے کچھ غلط کر بیٹھا ہوں۔
اور برطانیہ نے سب اپنے سپروائزر کو بھی نام سے بلاتے تھے۔بلکہ سبھی بڑوں کو۔
ویسے ہم یہاں اساتذہ کو میم یا سر کہتے ہیں اور وہاں مجھ سے نام نہیں لیا جاتا تھا ان کا تو پروفیسر میری کہنا شروع کیا۔
واقعی۔ اب سبھی بوڑھے بھی چاہتے ہیں کہ فرسٹ نیم لیا جائے۔ اور میرے جیسے بندے کو کافی مشکل ہوتی ہے۔ کوئی اوکھا سوکھا حل نکالنا پڑتا ہے۔لیکن جو لوگ شروع سے وہاں ہیں، میرے خیال میں یہ ایک اچھا کلچر ہے۔ شاید کسی حد تک مین ٹو مین بات والا ماحول ہو بزرگوں سے۔جب میں سکول یونی میں تھا تو بڑی عمر کے پروفیسر کو پروفیسر لاسٹ نیم یا ڈاکٹر لاسٹ نیم کہتے تھے اور نئے کم عمر پروفیسر ہی فرسٹ نیم سے کہلانا پسند کرتے تھے۔ اب وہی ینگ پروفیسر بوڑھے ہو چکے اور سب کو فرسٹ نیم سے ہی بلایا جاتا ہے۔