پائلٹ آفیسر راجہ جہانزیب شہید

نبیل

تکنیکی معاون
یہ تحریریں پڑھ کر میرے لیے آنسو روکنا مشکل ہو گیا ہے۔

حوالہ: A happy life like roses- رؤف کلاسرہ ( روزنامہ جنگ، 4 مئی 2008 )

میں، شہزاد رضا، مطیع اللہ جان، مبشر زیدی اور متین حیدر اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ پی اے ایف راولپنڈی کے صاف ستھرے قبرستان میں اُداس کھڑے اپنے دوست اسد محمود کے والد کے جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ قبرستان میں چھائی چارسو اداسی ہم سب کو ڈیپریس کر رہی تھی۔ ہم چپ چاپ کھڑے قبرستان میں اپنے اردگرد بکھری قبروں کے درمیان اپنے اندر کے خوف سے لڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس طرح کی قبروں میں ایک دن ہم بھی آ لیٹیں گے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی دنیا جس میں ہم اپنا وجود اور کردار ناگزیر سمجھتے ہیں چند لمحوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ جنازے کے بعد قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی کہ میری نظر ایک قریب کی قبر کے کتبے پر پڑی جس کے کونے سے ایک برتھ ڈے کارڈ لٹکتا نظر آیا۔ ساتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ بھی پڑا تھا۔ اس کارڈ پر ہیپی برتھ ڈے کے الفاظ دور سے پڑھے جا سکتے تھے۔ میں آگے بڑھا، کتبے پر نظر دوڑائی تو وہاں تحریر تھا پائلٹ آفیسر راجہ جہانزیب شہید“ 2 اپریل 1986 - 22 جنوری 2008۔ صرف کچھ دن قبل ہی جہانزیب نے اپنی بائیسویں سالگرہ قبر میں منائی تھی اور اس کارڈ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی اسے ہیپی برتھ ڈے کہنا نہیں بھولا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر کتبے سے جڑے اس برتھ ڈے کارڈ کو اندر سے کھولا کہ شاید وہاں کسی کا نام تحریر ہو۔ لیکن وہاں صرف ایک لائن لکھی ہوئی "Wishing you a happy life like roses" شاید برتھ ڈے کارڈ اور پھول چھوڑ کر جانے والے کا اپنے پیچھے اپنے پیارے کی قبر پر کوئی شناخت چھوڑنے کا حوصلہ نہیں پڑا تھا۔ نام چھوڑ بھی جاتا تو قبروں میں لیٹے ہوؤں میں سے کس نے اٹھ کر وہ نام پڑھنے تھے۔ وہ کون ہو سکتا ہے ممتا کی ماری ایک ماں یا باپ، چھوٹے یا بڑے بہن بھائی، کزن، دوست یا کوئی خاموش محبت؟ اگر جہانزیب پائلٹ نہ بن سکتا تو اسے یوں لگتا کہ وہ دنیا کے ناکام ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔ خدا کی مصلحتوں کو بھلا کون سمجھ سکتا ہے۔ اسد کے والد کی قبر پر مٹی ابھی بھی ڈالی جا رہی تھی اور میں برتھ ڈے کارڈ کو دیکھتا سوچتا رہا کہ بعض دفعہ ناکامیاں اور ٹریجڈی انسان کی زندگی میں کتنی اہم ہوتی ہے۔

1990ء کی بات ہے کہ مجھے بھی فوج میں جانے کا شوق ہوا۔ گوجرانوالہ میں آئی ایس ایس بی کے مرکز سے کال آئی جہاں کا انچارج میرے لاہور میں خالو میجر نواز ملک کا دوست تھا۔ میں کئی دنوں تک اپنے لیہ کالج کے دوستوں کے درمیان ایک فوجی افسر بن کر چلتا رہا۔ گوجرانوالہ میں پہلی رات ایک آرمی افسر کا پروٹوکول لیا۔ اگلی صبح سکریننگ ٹیسٹ شروع ہوا۔ تقریباً سو میں سے دو لڑکے ایسے تھے جو ابتدائی ٹیسٹ میں ہی فیل ہو گئے جن میں سے ایک میں تھا۔ اس لمحے مجھے یوں لگا کہ میری ساری زندگی ختم ہو گئی تھی۔ آسمان میرا دشمن ہو گیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہ رہا تھا کہ بس زندگی یہیں ختم ہو جائے۔ اپنے ان تمام دوستوں اور رشتہ داروں کا کیسے سامنا کروں گا کہ جنہیں یہ بتا کر آیا تھا کہ میں کچھ دنوں بعد فوج کی وردی پہن کر ان پر رعب جمانے آؤں گا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کیسے اور کس کیفیت میں واپس گھر پہنچا تھا۔ زندگی کی اس پہلی بڑی ناکامی نے مجھے ہلاکر رکھ دیا تھا۔ میں فوجی نہ بن سکا تو میں نے سوچا کہ اب ماں کے خواب کو پورا کرتے ہیں۔ مریم کو سپاہی سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ ایک دن پانی کے جھگڑے پربابا کو ایک سپاہی پکڑ کر لے گیا۔ مریم کو پہلی دفعہ زندگی میں احساس ہوا کہ اس کے شوہر سے بھی زیادہ طاقتور لوگ اس دنیا میں رہتے تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میں پیدا ہوا تو ان کے ذہن میں مجھے سپاہی بنانے کا خیال آیا ۔ 1992ء میں کینسر سے لمبی جنگ ہارنے تک وہ مجھے سپاہی بننے کی تلقین کرتی رہیں۔ 1994ء میں خوب محنت کے بعد میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ۔ تحریری امتحان پاس کیا۔ انٹرویو کیلئے خوب تیاری کی۔ لاہور جا کراپنے دوستوں کے ہاں یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں ٹھہرا۔ جس دن فائنل رزلٹ آیا وسیم نواز اور میں ایک دوست کے فلیٹ پر اکیلے تھے۔ پاس ہونے والے تقریباً چار سو امیدواروں میں سے میرا نمبر 170 تھا لیکن سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے میں کہیں نوکری نہیں لے سکا۔ پھر ایک شدید ڈیپریشن، وہی پرانی افسردگی۔ یوں محسوس ہوا کہ زندگی ختم ہو گئی تھی۔ ایک بند گلی تاریک منزلیں، قبر میں لیٹی ماں کا خواب۔ اپنا آپ مجرم سا لگنے لگ گیا۔ رات گئے وسیم کے ساتھ باغ جناح لاہور میں گھنٹوں پیدل چلتا رہا۔ رات گئے جب فلیٹ پر لوٹا تو اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بڑا حیران ہوا کہ رات گئے کون ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف میرے دوست ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر لیہ رانا اعجاز محمود تھے۔ مجھے موقع دیئے بغیر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں گفتگو شروع کی کہ آج اگر میں میرٹ پر آ چکا ہوتا تو دنیا جہان سے میرے دوست اور رشتہ دار مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مبارکیں دے رہے ہوتے لیکن آج کسی نے فون نہیں کیا ہوگا کیونکہ کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ناکامی کو ڈھونڈنے سے ایک بھی نہیں ملتا۔ رانا اعجاز مسلسل بولتے رہے اور میں ایک ناکام شخص کی طرح ان کی باتیں چپ کر کے سنتا رہا۔ رانا نے کہا کہ ہو سکتا ہے تمہیں یوں لگتا ہو کہ تمہارے لیے زندگی ختم ہو گئی تھی اور تم دنیا کے ناکام ترین شخص تھے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ خدا اور تقدیر نے تمہارے لیے کیا سوچ رکھا ہے کیونکہ ہر شخص کی اپنی ایک منزل ہوتی ہے وہ کہیں بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہے ایک نہ ایک دن اس کو اپنے حصے کا زندگی کی ناکامیوں اور کامیابیوں سے حصہ ضرور ملتا ہے۔ میں رانا اعجاز کی اس روایتی تمہید سے بور ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ایسے موقعوں پر یار دوست تسلی دینے کیلئے کس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن رانا نے ہمت نہیں ہاری اور کہنے لگا کہ رؤف مجھے ایک بات بتاؤ جس دن بینظیر بھٹو اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو سے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے پھانسی گھاٹ سے آخری ملاقات کر رہی ہونگی تو کیا کبھی انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ تقدیر ان کے باپ کو ان کے رستے سے اس لیے ہٹا رہی تھی کہ ایک دن اس نے خود مسلم ورلڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم بننا ہے۔ اگرکوئی اس وقت بینظیر کو یہ بات کرتا بھی تو اس نے ایسے شخص کو کتنا سنگدل اور ظالم سمجھنا تھا کہ اس کے باپ کو پھانسی لگ رہی تھی اور وہ اسے دس سال بعد وزیراعظم بننے کی خوشخبریاں سنا رہا تھا ! میں چپ تھا ۔ رانا اعجاز نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ پھر بولا تقدیر کے اپنے فیصلے اور اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں چلو بینظیر بھٹو کی مثال چھوڑو فاروق لغاری کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ 1988ء میں نواز شریف کے مقابلے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ وہ کتنے دنوں تک پنجاب میں بھاگ دوڑ کرتے رہے اور بڑے پُرامید تھے کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے وہ ہر رات اپنے آپ کو وزیراعلیٰ کا پروٹوکول دیکر سوتے تھے لیکن وہ نواز شریف سے ہار گئے۔ اب بھلا مجھے بتاؤ ایک فاروق لغاری جیسے فیوڈل لارڈ کو نواز شریف جیسے شہری بابو سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہار کرجسے ابھی سیاست میں آئے کچھ دن ہوئے تھے، کیا محسوس ہوا ہو گا۔ کیا لغاری کو ایسے محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ اس کی زندگی کے سارے خواب اور منزلیں بکھر گئی تھیں۔ شکست کے احساس نے اسے کئی راتوں تک سونے نہیں دیا ہوگا۔ میں ابھی بھی بیزاری سے رانا اعجاز کی گفتگو سن رہا تھا کہ بھلا فاروق لغاری کے نواز شریف سے وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہارنے کا میری اپنی ناکامی سے کیا تعلق تھا۔ میں ابھی رانا کو ٹوکنے ہی والا تھا کہ وہ بولا کہ بھلا ان بے خواب راتوں میں فاروق لغاری نے کیا سوچا ہوگا کہ صرف پانچ سال بعد وہ اس ملک کا صدر بنے گا۔

ایک ہی لمحے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ذہن اور کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ رانا اعجاز نے محض چند لمحوں میں میرا زندگی کے بارے میں سوچنے کے رخ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا تھا کہ ناکامیوں سے ہی بڑے رستے نکلتے ہیں۔ میں نے اپنے قریب لیٹے وسیم کو جھنجھوڑ کر اٹھایا اور اسے کہا کہ چلو انار کلی تک پیدل چل کر ربڑی دودھ پی کر آتے ہیں۔ ایک حیران و پریشان میرے ذہنی توازن پر شک کرتا ہوا چپ چاپ میرے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ رانا اعجاز کی اس مختصر سی گفتگو نے میری سوچ کے رخ کو کچھ ایسا بدلا کہ اس کے بعد مجھے اپنی زندگی میں کسی بھی ناکامی نے ڈیپریس نہیں کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ خدا اور تقدیر کسی سے بے انصافی نہیں کرتے۔ ہر کسی کو وہی کچھ ملتا ہے جتنا اس کا حصہ اور حق بنتا ہے لیکن ہم محض ناکامیوں کو اپنے دل پر لیکر ایک ناکام شخص کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے جہنم میں بغیر کچھ انتظار کیے جلتے رہتے ہیں۔ آج میں اپنی زندگی سے کتنا خوش اور مطمئن ہوں کہ میں فوجی یا بیوروکریٹ نہیں بنا۔ اسد کے والد کے قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تھی۔ میری نظریں جہانزیب کے برتھ ڈے کارڈ سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اگر جہانزیب بھی میری طرح فوج کے ابتدائی ٹیسٹ سے ہی ناکام گھر لوٹتا تو وہ کتنے عرصے تک ڈیپریشن، اداسیوں اور تنہائیوں کا شکار رہتا۔ حتیٰ کہ وہ دوست گھر والے یا بہن بھائی جو یہ کارڈ یہاں چھوڑ گئے تھے وہ بھی اسے ایک ناکام مرد سمجھتے کیونکہ ہمارے ہاں کامیابی صرف وہی سمجھی جاتی ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تقدیر نے ہمارے یا ہمارے بچوں کیلئے کیا سوچ رکھا ہے۔ ہم تو انہیں وہی بنانا چاہتے ہیں جسکا خواب ہم نے دیکھا ہوتا ہے۔

قبرستان خالی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ایک ایسے لڑکے کی قبر سے دور جانے کی سکت نہیں تھی جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا لیکن پتہ نہیں ایک عجیب سی تکلیف اور درد اپنے سینے میں محسوس کیا جو اپنی بائیسویں سالگرہ سے پہلے ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے پاتے کسی جنگی طیارے کے کریش میں شہید ہو کر اس قبر میں آ لیٹا تھا۔ ایک دن مرنا تو سب نے ہوتا ہے اور ہر کسی کو موت کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ میں نے قبر میں لیٹے اس نوجوان سے ایک عجیب سا تعلق محسوس کیا جو اپنا خواب پا کر بھی قبر میں آ لیٹا تھا اور میں اس جیسے ایک خواب کی تلاش میں ناکام ہو کر اس قبر کے کونے پر کھڑا تھا ! میں نے قبرستان سے نکلنے سے پہلے آخری بار برتھ ڈے کارڈ پر لکھی تحریر "Wishing you a happy life like roses" پڑھنے کی دوبارہ کوشش کی لیکن گیلی آنکھوں سے کچھ نہیں پڑھا گیا۔ ڈھلتی شام میں قبرستان میں ہرسو پھیلی ایک عجیب سی اداسی کے درمیان انسان کے خوابوں اور تقدیر کی زور آوریوں کی ایک دوسرے کے درمیان صدیوں سے جاری اس عجیب کشمکش کے بارے میں سوچتا ہوا باہر نکل آیا!!!
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: کزن کہانی - رؤف کلاسرہ (روزنامہ جنگ ، 15 مئی 2008 )

سر! میرا نام ماہ رخ چوہدری ہے۔ میں نے نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ میں نے جنگ اخبار میں 4 مئی 2008ء کو آپ کا کالم "A happy life like roses" پڑھا۔ آپ کا یہ کالم ایک پائلٹ راجہ جہانزیب شہید کے بارے میں تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا میں آپ کو اس پر سیلوٹ کرتی ہوں کیونکہ آپ نے ایک ایسے لڑکے کو اتنی بڑی عزت دی جسے آپ نہیں جانتے تھے۔ آپ اس سے کبھی نہیں ملے اور سب سے بڑھ کر آپ کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کتنا بڑا کام کیا تھا۔ 2/اپریل2008ء کو اس کی بائیسویں برتھ ڈے تھی اور ہم سب کزن مل کر پی اے ایف راولپنڈی کے قبرستان گئے تھے۔ ہم سب نے برتھ ڈے کارڈ اور گلاب کے پھول اس کی قبر پر رکھے تھے اور اسے وش کیا تھا۔ ہم اپنے اس کزن کو کبھی نہیں بھول سکیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم سب کتنی بے چینی سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے کہ جب وہ پائلٹ بنے گا اور اس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوگی۔ 22 جنوری 2008ء کا دن ہماری زندگیوں کا ایک عجیب ترین دن تھا۔ اسی دن ہی ہمیں بے پناہ خوشی ملی اور شام تک وہ ساری خوشی ایک بہت بڑے غم میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اسی دن راجہ جہانزیب کو نہ صرف اس دنیا میں عزت ملی بلکہ اس کا اگلے جہان میں بھی بہت بڑا رتبہ بنا۔ یہ دن ہمارے لیے اس وجہ سے بہت دکھ بھرا دن تھا کہ اس دن ہم نے راجہ جہانزیب کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھو دیا لیکن جیسا میں نے پہلے کہا کہ وہ دن ہمارے لیے بہت زیادہ خوشی کا دن تھا کیونکہ اس دن راجہ جہانزیب نے ہم سب کو اپنے آپ پر فخر کرنے کا بہت بڑا موقع فراہم کیا۔ اس دن راجہ جہانزیب کا طیارہ صوابی میں واقع غلام اسحاق خان یونیورسٹی کے احاطے میں کریش ہو گیا تھا۔ راجہ جہانزیب نے اپنی جان پر کھیل کر یونیورسٹی کے ہزاروں اسٹوڈنٹس کی جان بچائی۔ اس نے زمین کی طرف تیزی سے گرتے ہوئے اپنے طیارے کو بڑی مشکل سے یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس سے بھرے کلاس رومز سے بچا کر دور جا ٹکرایا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے خاندان کے لڑکے کو اتنا بڑا مقام دیا اور ہمیں اس قابل بنایا کہ اس کی بدولت اتنی ساری جانیں بچ گئیں۔ جب ہم نے اس کی شہادت کے بارے میں سنا تو لگا کہ ساری دنیا ختم ہو گئی تھی لیکن پھر جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ اس نے بہت سارے لوگوں کی جان بچائی ہے تو دل کو ایک سکون ہوا کہ ایک جان کے جانے سے باقی ہزاروں جانیں بچ گئی تھیں،کئی گھروں کے چراغ روشن رہے، بہت سے گھر صف ماتم بچھنے سے بچ گئے۔ اس یونیورسٹی کے طالب علموں نے بہت پیار دیا۔ جہاں جہانزیب کا جہاز کریش ہوا تھا وہاں اس کی ایک یادگار بھی بنوائی گئی ہے۔ راجہ جہانزیب اپنی فیملی کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی اور بہن ہیں۔ اس کے باپ نے بڑی محنت سے اس کو پڑھایا تھا۔

وہ آج جس مقام پر پہنچا تھا وہ سب اس کے والدین کی وجہ سے تھا۔ ایک ماں کا خواب، ایک باپ کا سہارا، ایک بہن کی عزت اور ایک بھائی کا ساتھ سب کچھ بس چند لمحوں میں چھوٹ گیا۔ اب بس اس کی یادیں ہیں جن کے سہارے ہم لوگ جی رہے ہیں۔ وہ ہر پل ہر جگہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے اور رب کا بھی فرمان ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا، بس ہم اسے دیکھ نہیں پاتے۔ بس ایک خلا ہے ہماری زندگیوں میں جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ جب میں آپ کا کالم پڑھ رہی تھی تو ہم سب گھر والے رو رہے تھے۔ اس کی ایک ایک بات ہمارے سامنے ایک اسٹوری کی طرح آ رہی تھی۔ سب باتیں، سب یادیں۔ اس کی ٹریننگ کے پہلے دن سے لیکر اس کی شہادت تک سب باب ہمارے سامنے کھلتے جا رہے تھے۔

جب اس کی میت پی اے ایف بیس چکلالہ پر لائی گئی تو وہ وقت ہم پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا اور جب ہم نے کچھ دیر بعد اسے قبرستان کی مٹی کے سپرد کر دیا تو یہ بات حقیقت میں بدل گئی کہ انسان کچھ بھی نہیں فانی ہے چاہے وہ جو مرضی کر لے۔ پھر ہم کیوں نہیں اس دنیا کے بارے میں سوچتے جہاں ہم نے ساری زندگی رہنا ہے۔ ہم کیوں اس دنیا کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیوں فتنہ فساد میں پڑے ہوئے ہیں۔ انسان کیا کیا خواب دیکھتا ہے جیسا کہ راجہ جہانزیب نے بھی دیکھا اور ہم سب نے بھی نہ جانے اس کیلئے کیا کیا خواب دیکھے تھے۔ اس کے والدین کے خواب کا کیا ہوا جو وہ اس کے پاسنگ آؤٹ کے بعد اس کی شادی کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن خدا کو کیا منظور تھا کون کیا کہہ سکتا ہے کہ یہ خواب ایک منٹ میں چکنا چور ہو جائیں گے مگر ہم سب اللہ کی مصلحتیں اور اس کے فیصلے کے آگے خوش اور چپ ہیں۔ ہمیں خدا سے کوئی گلہ نہیں اس نے جو کیا وہ اچھا ہی کیا ہو گا۔ اس کی بہت یادیں اور باتیں ہیں جو میں آپ کو بتانا شروع کروں تو شاید بہت سے پیپرز بھی کم پڑ جائیں۔

22 جنوری 2008ء کی وہ رات جب پوری دنیا سکون کی نیند سو رہی تھی میں پی اے ایف بیس میں اپنے کزن کی میت کا انتظار کر رہی تھی۔ ہم سب ایک دوسرے کو سہارا دے رہے تھے اور صبر کی تلقین کر رہے تھے تاکہ ہم راجہ جہانزیب کی ماں کو سہارا دے سکیں۔ اس مشکل وقت کو بخوبی نبھا سکیں اور پھر رات دس بجے ہم اسے قبر میں اتار کر واپس آ گئے۔ اس کی یادیں اور باتیں اب ہماری ساری زندگی کا سہارا ہیں۔ میں بس اتنا کہوں گی کہ We all wish him a happy life like roses !!!
راجہ جہانزیب شہید کی کزن ماہ رخ چوہدری، راولپنڈی
 

جیا راؤ

محفلین
حوالہ: کزن کہانی - رؤف کلاسرہ (روزنامہ جنگ ، 15 مئی 2008 )
جب ہم نے اس کی شہادت کے بارے میں سنا تو لگا کہ ساری دنیا ختم ہو گئی تھی لیکن پھر جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ اس نے بہت سارے لوگوں کی جان بچائی ہے تو دل کو ایک سکون ہوا کہ ایک جان کے جانے سے باقی ہزاروں جانیں بچ گئی تھیں،کئی گھروں کے چراغ روشن رہے، بہت سے گھر صف ماتم بچھنے سے بچ گئے۔
راجہ جہانزیب شہید کی کزن ماہ رخ چوہدری، راولپنڈی

شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: اگر وہ بھی زندہ رہتا، رؤف کلاسرہ (روزنامہ جنگ، 23 مئی 2008 )

شاید اگر کسی بڑے ہدایتکار کے ہاتھ راجہ جہانزیب کے آخری پچیس سیکنڈوں کی انسانی کشمکش اور جذبات سے بھری ہوئی کہانی چڑھ جاتی تو ٹائی ٹینک سے بھی بڑا شاہکار وجود میں آتا۔ میں ابھی ابھی راجہ جہانزیب کے گھر سے لوٹا ہوں۔ میں شاید یہ تیسرا کالم اس پائلٹ پر نہ لکھتا لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میں نے اس بائیس سالہ نوجوان کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننا ہے۔ دوسری طرف ای میل کا ایک سلسلہ ہے جو رکنے میں نہیں آ رہا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے 4 مئی کے کالم "A happy life like roses" کا اتنا بڑا رسپانس آئے گا۔ اس کالم کا سب سے بڑا پیغام یہ تھا کہ ہر بڑی ناکامی سے کامیابی کے ہی راستے نکلتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کچھ دن صبر کرنا سیکھ لے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ کالم پڑھنے کے بعد انہیں لمبے عرصے تک کسی ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ آئی ایس پی آر کے دوست کرنل عتیق کا میسج سب سے پہلے آیا تھا کہ یہ کیسے ہم سب لوگوں کی ایک ہی کہانی تھی۔ میرے بعض پڑھنے والوں کو یہ حیرانگی ہوئی ہے کہ میں نے اپنی ناکامیوں خود ہی دوسروں کو بتا دی ہیں حالانکہ یہاں تو ہر بندہ ایسے پوز کرتا ہے جیسے وہ بچپن سے ہی سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوا تھا۔ اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو ماہ رخ چوہدری کے کزن کہانی والے کالم نے سب کو بہت متاثر کیا ۔ راجہ جہانزیب کے ماں باپ میرے گھر آنا چاہ رہے تھے کہ میں نے ان کے شہید بیٹے کی قربانی کو اپنے کالم کا موضوع بنایا تھا۔ لیکن بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک شہید کے والدین میرے گھر تشریف لائیں لہذا میں خود ہی چلا گیا۔ میں چپ چاپ اپنے اوپر شدید ضبط کیے دکھی ماں باپ اور افسردہ چھوٹے بھائی اور بہن کو دیکھتا رہا جو مجھے جہانزیب کے بچپن سے لیکر آخری دن تک کی باتیں سناتے رہے۔ میں انہیں خاموش بیٹھا دیکھتا رہا کہ آخر خدا انسانوں کو اتنا بڑا صدمہ دیکر اس کے سہنے کی بھی طاقت دے دیتا ہے لیکن جھکے کندھوں کے ساتھ ایک باپ نے سرگوشی کی کہ اب صبر نہیں ہوتا۔ ایک ماں بولتی رہی کہ کیسے جہانزیب بچپن میں ہر وقت اس کا پلو پکڑ کر چلتا رہتا اور کبھی اپنا ہاتھ نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ حیران ہوتی رہی کہ جب اس کے انسٹرکٹر نے اسے کہا کہ تم اب فضا میں اپنے بے قابو طیارے سے اپنے آپ کو ایجیکٹ کر لو اور اپنی زندگی بچاؤ تو اس نے اس کا وہ حکم ماننے سے اس لیے انکار کیا کیونکہ اس نے ایک فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے نیچے ضلع صوابی میں واقع غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ کی بلڈنگ میں پڑھنے والے طالبعلموں کی زندگیوں کو ہر گز داؤ پر نہیں لگائے گا۔ اسے انسٹرکٹر دور سے بیٹھا ہدایات دیتا رہا کہ وہ اپنے آپ کو ایجیکٹ کرے لیکن جہانزیب کا حوصلہ نہ پڑا کہ وہ خود طیارے سے کود جائے اور سینکڑوں گھروں کو آناً فاناً ماتم میں تبدیل کر دے۔ جہانزیب کے پاس صرف پچیس سیکنڈ تھے جس کے دوران اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے ایجیکٹ کرنا ہے یا ایک ہیرو کی طرح طیارے کو کسی ایسی جگہ لینڈ کرنے کی کوشش کرنی ہے جہاں پر کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ ٹائی ٹینک کے کپتان کی طرح جہانزیب نے بھی اپنے طیارے کو اکیلا تباہ ہونے سے انکار کر دیا اور پھر جہانزیب نے ایک ناممکن کارنامہ کر دکھایا جب اس نے اپنا طیارہ طالبعلموں سے بھرے کلاس رومز سے پڑے جا ٹکرایا اور اکیلا شہید ہوا۔میرے سامنے GIK کے طالبعلموں کے بھیجے ہوئے سینکڑوں شکریے کے کارڈز پڑے ہوئے تھے جن میں انہوں نے جہانزیب کے والدین کو خراج تحسین پیش کیا تھا کہ ان کے بیٹے نے کیسے ان سب کی زندگیاں بچائی تھیں۔

مزید پڑھیں۔۔
 

طالوت

محفلین
میرے فوجی جواں جراتوں کے نشاں !

جہاں یہ تحریر اس عظیم سرفروش کر خراج عقیدت پیش کرتی ہے وہیں مجھ سے کمزور اور متزلزل ارادوں کے مالک ، ناکامیابیوں پر مایوسیوں میں گھرے افراد کے لیئے ٹانک بھی ہے ۔۔۔
شکریہ رؤف کلاسرہ ! شکریہ نبیل !
وسلام
 
Top