٭٭٭ چارپائی ٭٭٭

گل بانو

محفلین


عدم سے وجود میں آئے تو آنکھ ایک چارپائی پر کھلی ۔اماں کی گود کے بعد ایک چارپائی ہی تو ایسی تھی جس نے ہمیشہ اپنی محبت کی گود میں سُلایا جبھی سے اِسے ہم اپنی ساری دنیا سمجھنے لگے ۔اماں ہماری ننھی سی جان کو ا،س کے حوالے کر کے ہانڈی روٹی اور گھر کے کاموں میں جُت جاتیں اور ہم اِس پر پڑے ہوئے اسے گیلا ،پیلا کرتے اماں کے کے کاموں میں اضافہ کرتے رہتے اور خوشی سے قلقاریاں مارتے ۔ جب چلبلی عادتوں نے سر ابھارا تو اماں ہوشیار ہو گئیں ۔اور ہم ’چارپائی سے گِرا ۔۔۔۔۔۔۔جھولے میں اٹکا کی مثال پر صادق آئے اور اس کے بعد ہمارے دن چارپائی سے نیچے اور، راتیں چار پائی کے اوپر بسر ہونے لگیں جیسے جیسے زندگی اپنی رفتار بڑھا رہی تھی ویسے ویسے ہم چارپائی کے نزدیک آتے جا رہے تھے دن بھر کی مصروفیات اور تکان کے بعد یہ ہماری واحد جائے پناہ تھی جو کھلے دِل اور بندھے مونجھ کے ساتھ ہمیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی اور یہ آغوش ہمیں اتنی نرم گرم اور بھلی لگتی کہ صبح اٹھ کر اسے چھوڑنا اور اسکول جانا ہمیں بہت بار گزرتا ۔۔۔ :( وقت کے ساتھ ساتھ اس سے ہماری محبت فزوں تر ہوتی جا رہی تھی جہاں اماں نے ذرا ڈانٹا ہم بھاگ کر چارپائی میں جا پڑے اور اس کی درز میں ناک گھسیڑ کر بھوں بھوں کرتے سارا دن گزار دیتے اور کام سے بھی جان چھوٹ جاتی گھر گرِہستی کے کھیل شروع کئے تو چارپائی کا ساتھ کسی ہمجولی کا سا تھا دیوار سے کچھ فاصلے پر کھڑا کیا کپڑا ڈالا لو جی جھٹ پٹ کمرا تیار ، اور ہنڈکلیا میں تو ہمارا کوئی ثانی نہ تھا پر بعد میں اماں نے جب بھی کھانا پکانے کو کہا ہم نے ذرا کان نہ دھرے ۔
دیوار کے ساتھ کھڑی چارپائی نہ صرف چھت پر جانے بلکہ لڑکوں بالوں کو کرفیو کے اوقات میں ( جو اماں اکثر لگا دیاکرتی تھیں ) بھری دوپہر گھر سے فرار ہونے میں مدد کرتی اور لڑکے بالے گھر کی دیوارپھاندیہ جا وہ جا ۔۔!!!
ہمارے بچپن کا پسندیدہ تھیٹر پتلی تماشہ بھی اسی چارپائی کا مرہونِ منت تھااس کے بغیر پتلی تماشہ نا مکمل ہوتا پاٹے خان ، شہزادہ سلیم اور انار کلی کے کردار آج تک ذہن کے کسی اندرونی خانے میں منجمد پڑے ہیں اور جب بھی یادوں کے دریچے سے جھانکو زندہ نظر آنے لگتے ہیں یوں جیسے پلکیں جھپکتے ہی چھم سے سامنے آکھڑے ہوں گے اور ہاتھ اونچے کئے ناچنے لگیں گے ۔
دو پڑوسنوں میں کمیونیکیشن کا واحد ذریعہ یہی چارپائی ہوا کرتی وہ اسے دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے سیڑھی کا کام لیتیں اور ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا وقت بچا کر دو ،دو گھنٹے اس چارپائی کی بدولت ساری باتیں کر لیا کرتیں ، آج کیا پکائیں سے لے کر ،منّے کے ابا کے دکھڑے اور ساس نندوں کی چٹپٹی باتیں سب یہیں ہو جاتیں اس سے اُن میں ذہنی عدم توازن کی شکایات کا ازالہ ہو جاتا۔
ان سب کاموں سے چارپائی کا حلیہ خراب ہو جاتا اور اس کی مونجھ ڈھیلی پڑجاتی تو ہم بچوں کو اور بھلی لگتی اور ہم بشمول تمام محلے کے بچے اس جھلنگے میں خود کو گرا کر جھولے لیا کرتے اور دعا کرتے کہ ابا کو فرصت ہی نہ ملے کہ وہ اس کی ادوائن کس کے دوبارہ قابل استعمال بنائیں ۔
چارپائی سے ہماری محبت کے قصے عام ہونا شروع ہوئے تو اماں نے سوچا جھٹ پٹ ہماری شادی کر دی جائے کہیں لوگ بیٹی کو سُست اور کاہل نہ سمجھ بیٹھیں مگر انھیں کیا معلوم تھا اس کی چاہ میں ہم کہیں کے نہ رہے تھے شادی کے بعد اتنے بڑے سُسرال میں ہمیں اس چارپائی نے بڑا سہارا دیا دس جنوں میں ہم اکلوتی بہو پہنچے تو گویا ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی لیکن باوجود اس کے بھی ہم چارپائی کی محبت کونہ بھول پائے ، بوڑھی ساس نے ہمیں دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا مگر ہم نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ ان کی زندگی میں تبدیلی ہرگز نہ آنے دیں گے اور بلا وجہ ان کے پہلے سے چلتے کامو ں میں خلل نہ ڈالیں گے تو جو جیسا تھا ویسا ہی رہنے دیا تاکہ سب خوش رہیں اور ہم بھی ۔۔۔۔:)
ویسے بھی باورچی خانہ چھوٹا تھا اتناکہ اس میں دو افراد کے کھڑے ہونے کی جگہ تو تھی پر ہم نہیں چاہتے تھے کہ دمے کی مریضہ ساس کے لئے مسئلہ کھڑا کریں اور ان کے لئے مزید گھٹن کا باعث بنیں نہ بھئی ہم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے تھے اور ویسے بھی ہمیں چارپائی کی محبت نے باورچی خانے سے دور ہی رکھا تھا سو وہاں بھی دور ہی رہے ۔۔۔۔ :)
شادی کے بعد ہماراسارا دن ہمارا چارپائی پر گزرتا یا پھر اپنے ملنے ملانے والوں کے ساتھ باتوں میں آخر اخلاق بھی کوئی چیزہے ۔۔۔ :)
جیسے ہی شوہر کے آنے کا وقت ہوا اور ادھر ہم جھٹ اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑ رہے۔ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس محاورے کو جلدبھلادیا جائے جو ہمیں اکثر اماں کی یاد دلاتا تھا ۔۔۔۔ و ہ ہمیں اکثر کوسنوں سے نوازا کرتی تھیں اور اٹواٹی کھٹواٹی پر لیکچر بھی ایسا جھاڑتیں کہ کیا کوئی پروفیسر جھاڑے گا بلکہ میں تو کہتی ہوں پروفیسروں کو کچھ سبق اماؤں سے بھی لینا چاہیے وہ زیادہ اچھا لیکچر دیتی ہیں ۔ اب پتا نہیں چارپائی سے ہماری محبت میں زیادہ شدت اسی موئے لیکچر سے شروع ہوئی یا کچھ دخل ہماری سُست طبیعت کا بھی تھا بہر حال جو بھی تھا ہمارے حق میں تو اچھا ہی تھا ۔۔۔ :)
پرانی فلموں میں بھی چاپائی کا بڑا عمل دخل تھا ہیرو اور ہیروئن کسی دور جزیرے پر جا پہنچتے اتنے میں رات ہو جاتی اور وہاں کچھ اور ہو نہ ہو بس ایک چارپائی ضرورہوتی اور وہ اسے درمیان میں کھڑا کرتے گانا گاتے اور سوجاتے ، اگر باہمی تعاون سے کام لیتے تو خود بھی خوش رہتے اور ناظرین بھی سُکھ کا سانس لیتے اور خوش باش گھروں کو لوٹتے ۔۔۔۔ :)
ہم نے جانا کہ سو مسئلوں کا حال صرف ایک چارپائی ہے ۔۔۔ ہے بھلا اس سے بڑھ کر کوئی کام کی چیزتو بتلائیں ۔۔۔۔!!!

گُل بانو
9اپریل 2013
 
36907646.jpg

پتہ نہیں بہت دن ہوئے چارپائی پر ایک انشائیہ پطرس بخاری کا یا پھررشید احمد صدیقی کا کہیں پڑھا تھا وہ بھی کافی دلچسپ تھا ۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
گنگا، جمنا، راوی، چناب، ستلج ،سابرمتی، نربدا، تاپتی اور گومتی جیسے ہندوستان کے سبھی دریا ہندی میں ندی کہلاتے ہیں۔ لفظِ دریا اُردو میں مذکر ہے لیکن ندی اردو ہندی دونوں میں مونث ہے۔ اہل ہنود(یعنی ہندو دھرم کے ماننے والے) ان ندیوں کو دیوی ماں کا درجہ دیتے، انہیں گنگا میا اور جمنا میا کہہ کر پکارتے اور ان کی پوجا بھی کرتے ہیں۔گجرات کےلوگ گنگا ماتا، جمنا ماتا اور نرمدا ماتاکہہ کر ندیوں کی پوجا کرتے ہیں۔گویا ہندوستا ن کی ساری ندیاں مونث ہیں لیکن ایک ندی ایسی بھی جو مونث نہیں بلکہ مذکر ہے۔ جسے ندی نہیں بلکہ ند (مذکر) کہا جاتا ہے، جس کا نام ہے، برہمپترا(برہم+پُت+رَا)۔
چارپائی کو بھی ہندی میں کھاٹ اور اگر چھوٹی ہو تو کھٹیا کہتے ہیں۔ لیکن بڑی کھاٹ یا بڑی چارپائی کے لیے ہمارے یہاں اُردو میں تو کوئی لفظ ہمارے علم میں تو نہیں، البتہ ہمارے شہر میں چار سے چھ چارپائیوں جتنی بڑی کوچارپائی یا کھاٹ نہیں بلکہ کھاٹلا کہا جاتا ہے۔ شہر احمدآباد کے جمالپور میں ایک محلہ ناڈیا واڑ کےنام سے مشہور ہے، جہاں چھیپا (کپڑارنگنے اور چھاپنے کا کام کرنے والی) قوم کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں بڑی چارپائی چھیپا قوم کی تہذیب کا ایک شِعار، ایک شناخت اور پہچان بن چکی ہے۔ بلکہ (Khaatla Culture) کے نام سے مقامی اخبارات میں ان کے بارے میں آرٹیکل تک شائع ہو چکے ہیں۔
یہ کھاٹلے (یعنی بڑی چارپائیاں)بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے ہر موقع پر کمییونیٹی سینٹر کا کام دیتے ہیں۔ بچہ کی پیدائش، ختنہ اور بسم اللہ جیسی تقریبات اسی کھاٹلے پر ہوتی ہیں۔بچہ ذرا بڑا ہوا تو اسے کس مدرسے یا اِسکول میں داخلہ دِلایا جائے، کس پرائیوٹ اِسکول میں کتنا ڈونیشن دینے پر داخلہ ملے گا؟ کس بڑے اِنٹر نیشنل اِسکول میں کس مقامی لیڈر یا صنعت کار کی سفارِش سے داخلہ مل سکتا ہے؟ اس نوعیت کے سارے مشورے یہاں مفت دستیاب ہوتے ہیں؟حتیٰ کہ بچوں کے داخلہ فارم، حاجیوں کے حج فارم، ریلوے ٹکٹ کے ریزرویشن فارم جیسے مقامی انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن اور حکومت کے سارے فارم کے بارے میں نہ صرف مفید مشورے بلکہ فارم پر کرنے کی خدمات بھی یہاں مفت دستیاب ہو جاتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کے رشتے بھی یہاں طے ہوتے ہیں، میاں بیوی کے جھگڑوں کے فیصلے بھی یہیں ہوتے ہیں۔ نکاح ، طلاق، ملکتوں اور آراضیوں نیز صنعتی کارخانوں اور فیکٹریوں کی خریدو فروخت کے فیصلے بھی یہیں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج اسی نوے سال کی عمر ہونے تک اسی کھاٹلے کی رونق بنے ہوئے ہیں۔اور ان کا تو کہنا ہے کہ ہمارا تو جنازہ بھی یہیں سے اُٹھے گا۔
 
گنگا، جمنا، راوی، چناب، ستلج ،سابرمتی، نربدا، تاپتی اور گومتی جیسے ہندوستان کے سبھی دریا ہندی میں ندی کہلاتے ہیں۔ لفظِ دریا اُردو میں مذکر ہے لیکن ندی اردو ہندی دونوں میں مونث ہے۔ اہل ہنود(یعنی ہندو دھرم کے ماننے والے) ان ندیوں کو دیوی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور ان کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ ہندوستان کی ساری ندیوں میں ایک ندی ایسی بھی جسے ندی نہیں بلکہ ند (مذکر) کہا جاتا ہے، جس کا نام ہے، برہمپترا(برہم+پُت+رَا)۔
چارپائی کو بھی ہندی میں کھاٹ اور اگر چھوٹی ہو تو کھٹیا کہتے ہیں۔ لیکن بڑی کھاٹ یا بڑی چارپائی کے لیے ہمارے یہاں اُردو میں تو کوئی لفظ ہمارے علم میں تو نہیں، البتہ ہمارے شہر میں چار سے چھ چارپائیوں جتنی بڑی کوچارپائی یا کھاٹ نہیں بلکہ کھاٹلا کہا جاتا ہے۔ شہر احمدآباد کے جمالپور میں ایک محلہ ناڈیا واڑ کےنام سے مشہور ہے، جہاں چھیپا (کپڑارنگنے اور چھاپنے کا کام کرنے والی) قوم کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں بڑی چارپائی چھیپا قوم کی تہذیب کا ایک شِعار، ایک شناخت اور پہچان بن چکی ہے۔ بلکہ (Khaatla Culture) کے نام سے مقامی اخبارات میں ان کے بارے میں آرٹیکل تک شائع ہو چکے ہیں۔
یہ کھاٹلے (یعنی بڑی چارپائیاں)بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے ہر موقع پر کمییونیٹی سینٹر کا کام دیتے ہیں۔ بچہ کی پیدائش، ختنہ اور بسم اللہ جیسی تقریبات اسی کھاٹلے پر ہوتی ہیں۔بچہ ذرا بڑا ہوا تو اسے کس مدرسے یا اِسکول میں داخلہ دِلایا جائے، کس پرائیوٹ اِسکول میں کتنا ڈونیشن دینے پر داخلہ ملے گا؟ کس بڑے اِنٹر نیشنل اِسکول میں کس مقامی لیڈر یا صنعت کار کی سفارِش سے داخلہ مل سکتا ہے؟ اس نوعیت کے سارے مشورے یہاں مفت دستیاب ہوتے ہیں؟حتیٰ کہ بچوں کے داخلہ فارم، حاجیوں کے حج فارم، ریلوے ٹکٹ کے ریزرویشن فارم جیسے مقامی انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن اور حکومت کے سارے فارم کے بارے میں نہ صرف مفید مشورے بلکہ فارم پر کرنے کی خدمات بھی یہاں مفت دستیاب ہو جاتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کے رشتے بھی یہاں طے ہوتے ہیں، میاں بیوی کے جھگڑوں کے فیصلے بھی یہیں ہوتے ہیں۔ نکاح ، طلاق، ملکتوں اور آراضیوں نیز صنعتی کارخانوں اور فیکٹریوں کی خریدو فروخت کے فیصلے بھی یہیں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج اسی نوے سال کی عمر ہونے تک اسی کھاٹلے کی رونق بنے ہوئے ہیں۔اور ان کا تو کہنا ہے کہ ہمارا تو جنازہ بھی یہیں سے اُٹھے گا۔

بھائی جان اس کو ذرا اور پھیلا دیجئے تو ایک مکمل انشائیہ ہو جائے گا اچھا جا رہا ہے ۔
 
اب تو چارپائی یعنی کھاٹ دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔ حالانکہ ابھی کچھ عرصہ قبل تک گھر گھر میں چارپائی نظر آتی تھی۔ تب دیوان ،پلنگ ،فولڈگ پلنگ اور چوکی کا رواج کم تھا۔ پلنگ ہوتے تھے، وہ بھی کپڑے کی نواڑ والے۔ہاں، بان سے بني چارپائی ضرور ہر گھر میں ہوتی تھی۔چارپائی بچوں کے کھیلنے کا بھی ذریعہ تھی۔ اگر کھڑی کر دی تو بچے اس کے پائے پر لٹك كر کرتب دکھانے کی کوشش کرتے۔ دس سال تک کے بچے بچھی چارپائی کے نیچے چھپتے اور کھیلتے تھے۔ اس کے نیچے بچے جمع ہوکر گھر گھر کھیلنے میں گھنٹوں مشغول رہتے۔مجھے یاد پڑتا ہے میرے گاوں میں ایک بوڑھے سراج صاھب ہوا کرتے تھے ۔بڑی نفاست سے بنتے تھے چرپائی ۔میری نانی جان نے کئی چارپائیاں ان سے بنوائی تھیں ۔پتہ نہیں اب تو وہ اس دنیا میں ہو نگے بھی نہیں ۔ہائے زمانہ کتنا بدل گیا ۔غور کیا جائے تو ایک ایک چیز کو سوچنے سے عجیب سا لگتا ہے ۔اب نہ وہ چارپائی ،نہ چارپائی پر بیٹھنے والے لوگ ۔زمانہ کیسے کروٹیں بدلتا ہے اب لوگ سوفا اور موٹے موٹے اسفنج و گدے لگے ہوئے پلنگ استعمال کرتے ہیں ۔پھر بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انھیں نیند ہی نہیں آتی۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
چارپائی پر بہت اچھی تحریریں ہیں۔

چارپائی پر ایک مضمون جو مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے، اس کے بعد کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی۔
 

مہ جبین

محفلین
واہ ، کیا خوب تحریر لکھی ہے گل بانو :heehee:
چارپائی سے ایسی محبت بھی مثالی ہے :D
گینیز بک کے ریکارڈ میں یہ ریکارڈ بھی شامل ہونا چاہئے :laugh:

اور ماؤں کے لئے اپنی بیٹیوں کو مثال پیش کرنے میں آسانی ہوگی کہ " اسکو دیکھو کیسی محبت ہے چارپائی سے ، کچھ سبق سیکھو اس سے " :p
 
گو کہ جدید دور نے جہاں بہت سی پرانی ثقافتوں کو بتدریج ختم کر دیا وہیں چارپائی کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ شہروں میں اسکا رجحان تقریباَ ختم ہو کر رہ گیا ہے مگر دیہی علاقوں میں یہ اب بھی اپنی خاص شناخت رکھتی ہے ۔
بانو آپا ہماری ثقافت کی ترجمانی کرنے والی چار پائی پر بہت عمدہ مضمون لکھا آپ نے :)
 

گل بانو

محفلین

گل بانو

محفلین
گو کہ جدید دور نے جہاں بہت سی پرانی ثقافتوں کو بتدریج ختم کر دیا وہیں چارپائی کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ شہروں میں اسکا رجحان تقریباََ ختم ہو کر رہ گیا ہے مگر دیہی علاقوں میں یہ اب بھی اپنی خاص شناخت رکھتی ہے ۔
بانو آپا ہماری ثقافت کی ترجمانی کرنے والی چار پائی پر بہت عمدہ مضمون لکھا آپ نے :)
شکریہ مدیحہ ڈئیر :)
 

گل بانو

محفلین
واہ ، کیا خوب تحریر لکھی ہے گل بانو :heehee:
چارپائی سے ایسی محبت بھی مثالی ہے :D
گینیز بک کے ریکارڈ میں یہ ریکارڈ بھی شامل ہونا چاہئے :laugh:

اور ماؤں کے لئے اپنی بیٹیوں کو مثال پیش کرنے میں آسانی ہوگی کہ " اسکو دیکھو کیسی محبت ہے چارپائی سے ، کچھ سبق سیکھو اس سے " :p
ہے نا :p
 

گل بانو

محفلین
اب تو چارپائی یعنی کھاٹ دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔ حالانکہ ابھی کچھ عرصہ قبل تک گھر گھر میں چارپائی نظر آتی تھی۔ تب دیوان ،پلنگ ،فولڈگ پلنگ اور چوکی کا رواج کم تھا۔ پلنگ ہوتے تھے، وہ بھی کپڑے کی نواڑ والے۔ہاں، بان سے بني چارپائی ضرور ہر گھر میں ہوتی تھی۔چارپائی بچوں کے کھیلنے کا بھی ذریعہ تھی۔ اگر کھڑی کر دی تو بچے اس کے پائے پر لٹك كر کرتب دکھانے کی کوشش کرتے۔ دس سال تک کے بچے بچھی چارپائی کے نیچے چھپتے اور کھیلتے تھے۔ اس کے نیچے بچے جمع ہوکر گھر گھر کھیلنے میں گھنٹوں مشغول رہتے۔مجھے یاد پڑتا ہے میرے گاوں میں ایک بوڑھے سراج صاھب ہوا کرتے تھے ۔بڑی نفاست سے بنتے تھے چرپائی ۔میری نانی جان نے کئی چارپائیاں ان سے بنوائی تھیں ۔پتہ نہیں اب تو وہ اس دنیا میں ہو نگے بھی نہیں ۔ہائے زمانہ کتنا بدل گیا ۔غور کیا جائے تو ایک ایک چیز کو سوچنے سے عجیب سا لگتا ہے ۔اب نہ وہ چارپائی ،نہ چارپائی پر بیٹھنے والے لوگ ۔زمانہ کیسے کروٹیں بدلتا ہے اب لوگ سوفا اور موٹے موٹے اسفنج و گدے لگے ہوئے پلنگ استعمال کرتے ہیں ۔پھر بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انھیں نیند ہی نہیں آتی۔۔۔ ۔۔
سادا زندگی میں بہت سکون ہوتا ہے چاہے شہر میں ہو یا دیہات میں ، وقت بہت کچھ بدل دیتا ہے یہ تبدیلی مثبت ہو تو رونق لاتی ہے ۔ خوش رہیئے
 
Top