الشفاء

لائبریرین
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍO
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہےo
سورۃ القمر ، آیت نمبر 17 ۔​
خاتم الانبیاء ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے

" خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "
تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔۔۔
( صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
جن دنوں لڑی "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ۔ اے ایمان والو !!!" کا سلسلہ چل رہا تھا اسی دوران کئی مرتبہ اس خیال نے سر ابھارا کہ ایک لڑی " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا ۔اے انکار کرنے والو !!!" کے موضوع پر بھی ہونی چاہیے کہ جس میں قرآن مجید کی ان آیات کا ذکر ہو جن میں کفر اور اس کے متعلقات کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ جو کہ نہ صرف انکار کرنے والوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سامان مہیا کرے بلکہ ہم جیسے عام مسلمانوں کی قرآنی معلومات سے آگاہی کا کام بھی دے۔ کیونکہ کئی مرتبہ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے کما حقہ آگاہی حاصل نہیں۔ جس کے نتیجے میں ذرا سے پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر کئی مسلمانوں کا کفر و زندقہ کے گڑھے میں گرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کامل مؤمنین اور منکرین کے علاوہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو قرآن کی بعض تعلیمات کو تو مانتا ہے لیکن بعض کا انکار کر دیتا ہے۔ یعنی کہ قرآن کے ہی الفاظ میں "نؤمن ببعض ونکفر ببعض" کا عملی پیکر بن کر مؤمنین و منکرین کے مابین کہیں جا ٹکتا ہے۔ اس لحاظ سے امید ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیات مؤمنین ، منکرین اور مابین، ہر ایک کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں گی۔
یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ چونکہ عمومی طور پر کفر سے مراد اسلامی تعلیمات یا احکامات کو نہ ماننا یا ان کا کلی یا جزوی طور پر انکار کرنا ہے۔ لہٰذا مختلف اشخاص کے کفریہ عقائد یا اعمال کے حساب سے مختلف درجات ہو سکتے ہیں۔ جن کا کسی فرد، گروہ یا فرقے کے حوالے سے تعین کرنا اس دھاگے کا مقصد ہر گز نہیں، اور نہ ہی ہم اس کے اہل ہیں۔ بلکہ موضوع کے حوالے سے قرآنی آیات کو حسب ضرورت سیاق و سباق کے ساتھ بیان کرکے اس سے وعظ و نصیحت حاصل کرنا ہمارا مقصد ہے۔ اور ویسے بھی قرآن کریم کی آیات کا علم حاصل کرنے کی فضیلت تو قرآن و حدیث کے حوالے سے ثابت شدہ ہے۔ جیسا کہ
ایک مرتبہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اصحاب صفّہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ صبح کو وادی بطحان یا عقیق جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت دو اونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ وقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو ؟" صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سب یہ چاہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :" تمہارا ہر روز مسجد جاکر دو آیتیں سیکھ لینا دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور تین آیتیں سیکھ لینا تین اونٹنیوں سے بہتر ہے اسی طرح جتنی آیتیں سیکھو گے اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہے"{ صحیح مسلم و ابو داؤد }
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اخلاص کی توفیق عنایت فرماتے ہوئے اس سلسلے کو سب کے لیے مفید اور نافع بنائے۔ آمین۔۔۔

یہی ہے آرزو تعلیم ِ قرآں عام ہو جائے
ہر اک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے


---​
 

الشفاء

لائبریرین
پکے کافر
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاًO أُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًاO
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں، اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے، اور کفر وایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں۔ اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیّا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی۔ (تفہیم القرآن)
سورۃ النساء ، آیت نمبر 151،150۔​
اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو ایک نبی کو بھی نہ مانے کافر ہے۔ یہودی سوائے حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہما کے باقی تمام نبیوں کو مانتے تھے۔ نصرانی افضل الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔ سامری یوشع علیہ السلام کے بعد کسی کی نبوت کے قائل نہ تھے۔۔۔ پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کی یعنی کسی نبی کو مانا، کسی سے انکار کر دیا، کسی الہٰی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی نفسانی خواہش، جوش، تعصب اور تقلید آبائی کی وجہ سے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک نبی کو نہ ماننے والا اللہ کے نزدیک تمام نبیوں کا منکر ہے، اس لیے کہ اگر اور انبیاء کو بوجہ ان کے نبی ہونے کے مانتا تو اس نبی کو ماننا بھی اسی وجہ سے اس پر ضروری تھا۔ پس ان کی شریعت ماننے، نہ ماننے کے درمیان کی ہے۔ یہ یقینی اور حتمی کافر ہیں۔ کسی نبی پر ان کا شرعی ایمان نہیں، بلکہ تقلیدی اور تعصبی ایمان ہے جو قابل قبول نہیں۔ پس ان کفار کو اہانت اور رسوائی والے عذاب ہوں گے۔۔۔ پھر اگلی آیت میں امت محمدیہ کی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھ کر تمام انبیاء علیہم السلام کو اور تمام آسمانی کتابوں کو بھی خدائی کتابیں تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ان کے لیے جو اجر جمیل اور ثواب عظیم اس نے تیار کر رکھا ہے اسے بھی بیان فرما دیا کہ ان کے ایمان کامل کے باعث انہیں اجر و ثواب عطا ہوں گے۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھی سرزد ہو گیا تو اللہ عزوجل اسے معاف فرما کر ان پر اپنی رحمت کی بارش برسائے گا۔۔۔(تفسیر ابن کثیر)

وَالَّذِينَ آمَنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُوْلَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO
اور جو لوگ اﷲ اور اس کے (سب) رسولوں پر ایمان لائے اور ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان (ایمان لانے میں) فرق نہ کیا تو عنقریب وہ انہیں ان کے اجر عطا فرمائے گا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo
سورۃ النساء، آیت نمبر 152۔​

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
2- لوگوں کو گمراہ کرنے والے قیامت کے دن اپنے عمل سے مکر جائیں گے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَO قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِينَO وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَO
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس (وحی) پر جو اس سے پہلے اتر چکی، اور اگر آپ دیکھیں جب ظالم لوگ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے (تو کیا منظر ہوگا) کہ ان میں سے ہر ایک (اپنی) بات پھیر کر دوسرے پر ڈال رہا ہوگا، کمزور لوگ متکبّروں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے۔متکبرّ لوگ کمزوروں سے کہیں گے: کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا اس کے بعد کہ وہ تمہارے پاس آچکی تھی، بلکہ تم خود ہی مُجرم تھے۔پھر کمزور لوگ متکبرّوں سے کہیں گے: بلکہ (تمہارے) رات دن کے مَکر ہی نے (ہمیں روکا تھا) جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور ہم اس کے لئے شریک ٹھہرائیں، اور وہ (ایک دوسرے سے) ندامت چھپائیں گے جب وہ عذاب دیکھ لیں گے اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے، اور انہیں اُن کے کئے کا ہی بدلہ دیا جائے گاo
سورۃ سبا، آیت نمبر 33-31

کافروں کی سرکشی اور باطل ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ گو قرآن کی حقانیت کی ہزارہا دلیلیں دیکھ لیں لیکن نہیں مانیں گے۔ بلکہ اس سے اگلی کتاب پر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ انہیں اپنے اس قول کا مزہ اس وقت آئے گا جب اللہ کے سامنے جہنم کے کنارے کھڑے کھڑے چھوٹے بڑوں کو اور بڑے چھوٹوں کو الزام دیں گے۔ ہر ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرائے گا۔ تابعدار اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ روکتےتو ہم ضرور ایمان لائے ہوئے ہوتے، وہ ان کو جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں روکا تھا؟ تم جانتے تھے کہ یہ سب بے دلیل ہے اور دوسری جانب دلیلوں کی برستی بارش تمہاری آنکھوں کے سامنے تھی۔ پھر تم نے اس کی پیروی چھوڑ کر ہماری کیوں مان لی۔ یہ تو تمہاری اپنی بے عقلی تھی۔ پھر یہ انہیں جواب دیں گے کہ تمہاری دن رات کی دھوکے بازیاں ، جعل سازیاں، فریب کاریاں ہی ہمارے ایمان سے رک جانے کا سبب ہوئیں۔ تم ہی آ آ کر ہمیں عقلی ڈھکوسلے سنا کر اسلام سے روگرداں کرتے تھے۔ دونوں الزام بھی دیں گے، براءت بھی کریں گے۔ لیکن دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ گمراہ کرنے والوں کے بھی اور گمراہ ہونے والوں کے بھی۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہو گا۔۔۔(ابن کثیر)۔
---
 

الشفاء

لائبریرین
3- قرآن کی آیات کا انکار کرنے اور مذاق اڑانے والوں کے پاس مت بیٹھو۔

بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًاO الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًاO وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًاO
منافقوں کو یہ خبر سنا دیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (یہ) ایسے لوگ (ہیں) جو مسلمانوں کی بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ (تعالٰی) کے لئے ہے۔ اور بیشک (اللہ نے) تم پر کتاب میں یہ (حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ (انکار اور تمسخر کو چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے۔
سورۃ النساء ، آیت نمبر 140-138​
منافقوں کے دلوں پر آخرکار مہر لگ جاتی ہے۔ پھر وہ مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں۔ اللہ عزوجل ان کے مقصود اصلی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو، یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو۔بگوش ہوش سنو کہ عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے۔ یعنی اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو خدا کے نیک بندوں کے ساتھ مل جاؤ۔ مسند امام حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لیے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادوں سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے، تو وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہوگا۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو، اس میں نہ بیٹھو۔ پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دسترخوان پر شراب نوشی ہو رہی ہو اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہیے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام منافقوں اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔۔۔(ابن کثیر)

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
4- قیامت کے دن کفار کا کوئی عذر کام نہ آئے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَO
اے کافرو! آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو، بس تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کرتے رہے تھے۔

سورۃ التحریم، آیت نمبر 7۔
قیامت کے دن کفار سے فرمایا جائے گا کہ آج تم بے کار عذر پیش نہ کرو۔ کوئی معذرت ہمارے سامنے نہ چل سکے گی۔ تمہارے کرتوت کا مزہ تمہیں چکھنا ہی پڑے گا۔(ابن کثیر) یعنی قیامت کے دن جب جہنم کا عذاب سامنے ہو گا، اس وقت منکروں سے کہا جائے گا کہ حیلے بہانے مت بتلاؤ۔ آج کوئی بہانہ چلنے والا نہیں۔ بلکہ جو کچھ کرتے تھے اس کی پوری پوری سزا بھگتنے کا دن ہے۔ ہماری طرف سے کوئی ظلم و زیادتی نہیں۔ تمہارے ہی اعمال ہیں جو عذاب کی صورت نظر آ رہے ہیں۔۔۔(تفسیر عثمانی)​

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
5۔ بعض آیات کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا۔

ثُمَّ أَنتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِّنْكُمْ مِّنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَّأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَO
پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کر رہے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے باہر نکال رہے ہو اور (مستزاد یہ کہ) ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے ساتھ (ان کے دشمنوں کی) مدد بھی کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پا س آجائیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (تاکہ وہ تمہارے احسان مند رہیں) حالانکہ ان کا وطن سے نکالا جانا بھی تم پر حرام کر دیا گیا تھا، کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔
سورۃ البقرۃ ، آیت 85۔

یثرب کے رہنے والوں میں مشرک بھی تھے اور یہودی بھی۔ یثرب کی مشرک آبادی دو قبیلوں اوس اور خزرج میں بٹی ہوئی تھی جو آپس میں لڑتے رہتے اور یہودی آبادی بھی دو قبیلوں بنو قریظہ اور بنی نضیر پر مشتمل تھی۔ جب اوس و خزرج برسر پیکار ہوتے تو بنی قریظہ اوس کے حلیف بن جاتے اور بنی نضیر خزرج کے۔ اور اس طرح یہ یہودی آپس میں ایک دوسرے کا گلا کاٹتے۔ اور جب جنگ ختم ہو جاتی اور مغلوب فریق کے اسیران جنگ کو فدیہ ادا کر کے آزاد کرانے کا مرحلہ درپیش ہوتا تو اس وقت یہ یہود تورات کی صفحہ گردانی کرتے اور اس کی آیات سے فدیہ دینے اور فدیہ لینے کے جواز پر استدلال کرتے۔ قرآن حکیم انہیں کہتا ہے کہ تورات تو تمہیں قتل و غارت کرنے سے اور کسی کو جلاوطن کرنے سے بھی روکتی ہے۔ وہ حکم تو تمہیں یاد نہ رہا اور جب روپیہ کے لین دین کا سوال پیدا ہوا تو تمہیں تورات پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ بھلا یہ بھی کوئی ایمان ہے کہ کتاب کے بعض حصے جو اپنی طبیعت کے موافق ہوئے ان پر تو عمل کر لیا اور کتاب کا وہ حصہ جس پر عمل کرنا نفس پر گراں معلوم ہوا یا جس پر عمل کرنے سے مادی نقصان کا اندیشہ ہوا ، اسے چھوڑ دیا۔ ہم قرآن پر ایمان رکھنے والوں کے لیے بھی اس میں درس عبرت ہے۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
6- کفار سے دوستی۔

لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُO
مسلمانوں کو چاہئے کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کے لئے اﷲ (کی دوستی میں) سے کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ تم ان (کے شر) سے بچنا چاہو، اور اﷲ تمہیں اپنی ذات (کے غضب) سے ڈراتا ہے، اور اﷲ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 28۔
یہ آیت وہ ستون ہے جس پر اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی کا دارومدار ہے۔ اپنی اس اہمیت کے پیش نظر یہ بہت غور و تدبر کی مستحق ہے۔۔۔ اولیاء جمع ہے ولی کی اور ولی مشتق ہے وِلایۃ یا وَلایۃ سے۔ علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں ، یعنی وِلایۃ کا معنی ہے مدد کرنا اور وَلایۃ کا معنی کسی کام کا ذمہ دار اور انچارج بننا ہے۔ علامہ قرطبی نے اس آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ اپنے اہم امور کے متعلق کفّار سے مشورہ کیا جائے اور اپنے تمام کام انہیں کے سپرد کر دیے جائیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ کفّار کے ساتھ ایسے دوستانہ مراسم کہ انہیں اپنے سیاہ و سپید کا مالک بنا دیا جائے اور ہر بات میں انہیں کے مشورہ پر اعتماد کیا جائے، اسے قرآن حکیم نے قطعاً ممنوع قرار دے دیا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنا کسی آزاد قوم اور آزاد حکومت کے شایان شان نہیں بلکہ حقیقت میں ذہنی غلامی کا یہ دوسرا نام ہے جسے غیرت اسلام برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ اگر ہم اپنے ایک مسلمان بھائی کے خلاف کسی کافر کی اعانت کر کے اسے شکست دے دیتے ہیں تو حقیقت میں ہم اپنے آپ کو کمزور کر رہے ہیں اور اپنے دشمن کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ جو آج تو اپنے اغراض ومقاصد کے پیش نظر ہماری خوشامد بھی کر رہا ہے اور طرح طرح کے سبز باغ بھی دکھا رہا ہے۔ لیکن کل جب اس کی اغراض ہمارے مفاد سے ٹکرائیں گی تو وہ ہمارا قلع قمع کرنے میں دریغ نہیں کرے گا۔ کہ ہم اس کے وہ مخلص دوست ہیں جنہوں نے اس کی خاطر اپنے دینی بھائیوں کا خون بہانے میں ذرا تامل نہ کیا تھا۔ جو لوگ اندلس کے زوال اور بربادی کی خونچکاں داستان سے واقف ہیں یا جنہوں نے سلطنت مغلیہ کے انحطاط کے دور میں بنگال اور جنوبی ہند کے مسلمان نوابوں کی غلط کاریوں کا جائزہ لیا ہے انہیں قدم قدم پر قرآن حکیم کے اس حکم کی اہمیت اور صداقت کے واضح ثبوت ملیں گے۔تفسیر المنار کی یہ عبارت بہت جامع ہے کہ یعنی کفار کے ساتھ ایسی دوستی ممنوع ہے جس سے تیرے دین کی رسوائی ہو، یا تیرے دینی بھائیوں کو اذیت پہنچے یا ان کے وقار اور مفاد کو نقصان پہنچے۔ لیکن غیر مسلم حکومتوں کے ساتھ تجارت کرنا یا عام انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون کرنا، یا عام میل جول اور معاشرت میں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور خندہ پیشانی سے پیش آنا قطعاً ممنوع نہیں۔ اس کا ثبوت قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ سے ملتا ہے۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔​
 

آورکزئی

محفلین
ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت بہترین ۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ خیر
ہمارے تو بچے یہودیوں کے ہاں پل رہے ہیں۔۔۔ تو ۔
 

الشفاء

لائبریرین
7- اللہ عزوجل کے ہاں بدتر لوگ کفّار ہیں۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَO

بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے (بھی) بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لاتے۔
سورۃ الانفال، آیت نمبر 55۔​

زمین پر جتنے بھی چلتے پھرتے ہیں ، ان سب سے بدتر ، اللہ کے نزدیک بے ایمان کافر ہیں جو عہد کر کے توڑ دیتے ہیں۔(ابن کثیر)
یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے فیصلے میں جانوروں سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے کفر پر سختی سے قائم ہیں، کسی صورت کفر چھوڑنے پر تیار نہیں اور جب بھی ان سے عہد کیا جائے تو وہ عہد توڑ دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کے علاوہ اور مقامات پر بھی کفّار کو جانوروں سے زیادہ بھٹکے ہوئے، جانوروں سے بدتر ، گمراہ بلکہ تمام مخلوق سے بدتر فرمایا گیا ہے۔۔۔ کفّار کو جانوروں سے بھی بدتر فرمائے جانے کی مفسرین نے کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ جانور اللہ تعالیٰ کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت سے خالی ہیں، اپنا نفع و نقصان پہچانتے ہیں اور اپنے مالک کی اطاعت کرتے ہیں، جبکہ کفّار اپنے اعضاء میں اللہ عزوجل کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت رکھنے کے باوجود ان سے کام نہیں لیتے، کفر اختیار کر کے خود اپنا نقصان کرتے ہیں اور اپنے مالک و مولیٰ عزوجل کے نافرمان ہیں اس لئے سب جانوروں سے بدتر ہیں۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔​
 

جاسمن

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اللہ سب مسلمانوں کا خاتمہ بالایمان کرے۔ کفر سے اور ہر طرح کے شرک سے ہمیں اور ہم سے جڑے سب لوگوں کو پناہ دے۔ آمین!
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
8- کبھی مؤمن ، کبھی کافر۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ آمَنُواْ ثُمَّ كَفَرُواْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہرگز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائےo
سورۃالنساء، آیت نمبر 137۔
ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے، پھر وہ مؤمن ہو کر کافر بن جائے، پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مر جائے، نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان نہ اس کا چھٹکارا، نہ فلاح، نہ اللہ اسے بخشے اور نہ راہ راست پر لائے۔(ابن کثیر)
جو لوگ اتنے ڈھلمل یقین ہوں کہ اسلام کی کوئی کامیابی دیکھی تو مسلمان ہو گئے، ذرا شدت کا زمانہ آیا تو جھٹ کفر اختیار کر لیا۔ پھر کوئی معجزہ دیکھا یا مسلمانوں کے غالب آنے کے آثار نمایاں ہوئے تو پھر اسلام قبول کر لیا۔ پھر کسی شیطان نے وسوسہ ڈالا یا مسلمان کسی آزمائش میں مبتلا ہو گئے تو اسلام سے رشتہ توڑ کر کفر سے ناطہ جوڑ لیا۔ ایسے مجرم ناقابل عفو ہیں اور توفیق خداوندی ان لوگوں کی دستگیری کرنے کے لیے بے چین نہیں جو گمراہی کے گڑھے میں گرنے کی قسم کھائے بیٹھے ہوں۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

 

الشفاء

لائبریرین
9-کفر پر مرنے والے کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَO
بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور حالتِ کفر میں ہی مر گئے سو ان میں سے کوئی شخص اگر زمین بھر سونا بھی (اپنی نجات کے لئے) معاوضہ میں دینا چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، انہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہو سکے گا۔
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 91۔​

وہ لوگ جو زندگی بھر کفر و طغیان کے راستہ پر گامزن رہے اور باز آنے اور نادم ہونے کے لیے جو مہلت انہیں دی گئی تھی اس سے انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہاں تک کہ موت کے جھونکے نے ان کی زندگی کی چراغ گل کر دیا۔ ان کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ اگر وہ بے انداز سونا بھی فدیہ کے طور پر ادا کرنا چاہیں گے تو رد کر دیا جائے گا۔ اور کوئی ان کی شفاعت بھی نہ کرے گا کیونکہ شفاعت گنہگار مؤمن کے لیے ہوا کرتی ہے اور کافر و مشرک شفاعت کا مستحق نہیں ہوا کرتا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
10- اللہ عزوجل وحدہ لا شریک ہے۔

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَآلُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO
بیشک ان لوگوں نے کفر کیا جو کہتے ہیں کہ یقیناً اﷲ مسیح ابن مریم ہی (تو) ہے، آپ فرما دیں: پھر کون (ایسا شخص) ہے جو اﷲ (کی مشیت میں) سے کسی شے کا مالک ہو؟ اگر وہ اس بات کا ارادہ فرمالے کہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں اور سب زمین والوں کو ہلاک فرما دے گا (تو اس کے فیصلے کے خلاف انہیں کون بچا سکتا ہے؟) اور آسمانوں اور زمین اور جو (کائنات) ان دونوں کے درمیان ہے (سب) کی بادشاہی اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلاَّ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ يَنتَهُواْ عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
بیشک ایسے لوگ (بھی) کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے، حالانکہ معبودِ یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور اگر وہ ان (بیہودہ باتوں) سے جو وہ کہہ رہے ہیں بازنہ آئے تو ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔
سورۃ المائدہ، آیت نمبر 17 اور آیت نمبر 73۔​

حضرت عیسیٰ کے الہٰ یعنی خدا ہونے کے عقیدہ کا بطلان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو وہ ہے کہ اگر وہ حضرت مسیح، ان کی والدہ بلکہ سب مخلوق کو آن واحد میں موت کی نیند سلانا چاہے تو کوئی دم نہ مار سکے۔ حضرت مسیح تو اپنی والدہ کی جان نہ بچا سکے۔ اور جب ان کا مقررہ وقت آئےگا تو وہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے موت کے پیغام کو قبول کر لیں گے۔ جب ان کی یہ حالت ہے تو وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔
تثلیث کے عنوان پر انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کی یہ عبارت مختصر بھی ہے اور جامع بھی۔
"The Christian doctrine of the trinity can be best expressed in the words, the father is god, the son is god and the holy ghost is god, and yet they are not three gods but one god".
Ency. Brittanica 479 vol 22.​
یعنی "مسیحیت کے عقیدہ تثلیث کو نہایت عمدگی سے اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ باپ بھی خدا ہے بیٹا بھی خدا ہے اور روح القدس بھی خدا ہے۔ بایں ہمہ وہ تین خدا نہیں بلکہ ایک خدا ہے"۔ ۔۔یہ معمّہ ہےسمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
11- کفّار کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَOقِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَO
اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ دوزخ کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اُس (جہنم) کے پاس پہنچیں گے تو اُس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے داروغے اُن سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیات پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں اِس دن کی پیشی سے ڈراتے تھے؟ وہ (دوزخی) کہیں گے: ہاں (آئے تھے)، لیکن کافروں پر فرمانِ عذاب ثابت ہو چکا ہوگا۔ اُن سے کہا جائے گا: دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، (تم) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، سو غرور کرنے والوں کا ٹھکانا کتنا برا ہے۔

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَO وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَO
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے انہیں (بھی) جنّت کی طرف گروہ در گروہ لے جایا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ اس (جنّت) کے پاس پہنچیں گے اور اُس کے دروازے (پہلے ہی) کھولے جا چکے ہوں گے تو اُن سے وہاں کے نگران (خوش آمدید کرتے ہوئے) کہیں گے: تم پر سلام ہو، تم خوش و خرّم رہو سو ہمیشہ رہنے کے لئے اس میں داخل ہو جاؤ۔ اور وہ (جنتی) کہیں گے: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں سرزمینِ جنت کا وارث بنا دیا کہ ہم (اِس) جنّت میں جہاں چاہیں قیام کریں، سو نیک عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا اجر ہے۔
سورۃ الزمر، آیت نمبر 74-71۔
عدالت عالیہ میں جن لوگوں کو جہنم رسید کرنے کا فیصلہ صادر ہوگا ان کو اس طرح ہانک کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ او جن خوش نصیبوں کے بارے میں بخش دینے کا فیصلہ ہو گا ان کو بڑی عزت و اکرام سے نعیم جنت کی طرف فرشتے لے جائیں گے۔ ان پاک نفس لوگوں کو گروہ در گروہ جنت میں داخل کیا جائے گا اور سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے۔ مسلم شریف کی حدیث ہے : انا اول من یقرع باب الجنۃ، یعنی حضور نے فرمایا: میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ دوزخی جہنم میں پھینک دیے جائیں گے اور اہل جنت فردوس بریں میں اقامت گزیں ہو جائیں گے۔ اس وقت نورانی ملائکہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے گرد حلقہ باندھے اپنے رب کریم کی حمدوثنا کے گیت گا رہے ہوں گے۔۔۔(ضیاءالقرآن)

باغِ جنت میں محمد مسکراتے جائیں گے
پھول رحمت کے گریں گے ہم اٹھاتے جائیں گے

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
12- کفّار کے لیے بھی سدھرنے اور آخرت کی ابدی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔

قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَهُواْ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينِO

آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ (اپنے کافرانہ اَفعال سے) باز آجائیں تو ان کے وہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں (کے عذاب در عذاب) کا طریقہ گزر چکا ہے (ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا)۔
سورۃ الانفال، آیت نمبر 38۔​

نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کافروں سے کہہ دیں کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائیں ، اسلام اور اطاعت قبول کر لیں اور اپنے رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے، سب معاف کر دیا جائے گا، کفر بھی ، خطا بھی، گناہ بھی۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانیں اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی حالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا۔(ابن کثیر)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر جب کفر سے باز آئے اور اسلام قبول کر لے تو اس کا پہلا کفر اور حالت کفر میں کئے گئے گناہ سب معاف ہو جاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب عمرو بن عاص اسلام قبول کرنے کے لیے بارگاہ رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور آپ کا دست اقدس تھام کر عرض کی کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کرتا ہوں کہ میری مغفرت کر دی جائے، تو رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنا سابقہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔(صراط الجنان)

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
13- پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَO

یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔
سورۃ الصف، آیت نمبر8۔
کفار سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام کا یہ روشن چراغ بجھ جائے، لیکن وہ کان کھول کر سن لیں کہ ان کی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ یہ نور حق اپنے شباب اور کمال کو پہنچے گا۔ اس کی تجلیات سے بحر و بر، دشت و جبل چمک اٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ کا یہ آخری پیغام دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچے گا۔ کافروں کو بے شک اسلام کی ترقی سخت ناپسند ہے۔ وہ اسلام کو ناکام کرنے کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیں گے لیکن انہیں بجز حسرت کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ یہ آیت کسی ایسے موقع پر نازل نہیں ہوئی جب اسلام کے پرچم تلے لشکر جرار جمع ہو چکے تھے یا مسلمانوں کی دھاک لوگوں کے دلوں پر بیٹھ چکی تھی یا مخالفت کی آندھیاں تھم گئی تھیں اور اسلام کی کامیابی کے آثار ہر شخص کو دکھائی دینے لگے تھے۔ بلکہ یہ آیت غزوہ اُحد کے بعد نازل ہوئی جبکہ مسلمانوں کو بڑی شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ میدان جنگ میں ان کا بڑا جانی نقصان ہوا تھا۔ حضرت حمزہ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما جیسے عظیم المرتبت بہادر جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ قرب و جوار میں بسنے والے بدّو قبائل کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب نہ رہا تھا۔ ان ناگفتہ بہ اور غیر یقینی حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور سب دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حرف بحرف پورا ہوا۔۔۔ اسلام چھپ چھپ کر وقت گزارنے کے لیے یا باطل سے مصالحت کر کے زندہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے شیروں کا دین ہے، یہ شمع حق کے پروانوں کا دین ہے۔ سارا کفروشرک اگر اپنی قوتوں کو یکجا بھی کر لے تب بھی وہ ان کو ہراساں نہیں کر سکتا، ان کو پسپا نہیں کر سکتا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
14- اسلام کی لہلہاتی کھیتی کافروں کے دل جلاتی ہے۔

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًاO
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں۔ وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔
(سورۃ الفتح، آیت نمبر 29)​
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کی ترکیب میں دو مشہور قول ہیں، 1-مُّحَمَّدٌ مبتدا اور رَّسُولُ اللَّهِ اس کی خبر- 2- مُّحَمَّدٌ موصوف اور رَّسُولُ اللَّهِ صفت، دونوں مل کر خبر۔ جس پر اللہ عزوجل کی گواہی کافی ہے۔
یہاں سے اختتام سورت تک اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی توصیف فرما رہا ہے۔ فرمایا کہ میرے رسول مکرم پر ایمان لانے والے اور اس کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے، کفاّر کے مقابلے میں بڑے بہادر ، بڑے طاقتور ہیں۔ یہ سر کٹا سکتے ہیں لیکن ظلم کے سامنے اسے جھکا نہیں سکتے۔ اشدّاء شدید کی جمع ہے اور لفظ شدت کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ ابن منظور نے لسان العرب اور علامہ زبیدی نے تاج العروس میں لکھا ہے ، الشدۃ : المنجدۃ وثبات القلب، والشدید : الشجاع والقوی من الرجال والجمع اشداء۔ (تاج العروس)۔ یعنی شدت قوت اور دل کی محکمی کا نام ہے اور الشدید، شجاع اور طاقتور مرد کو کہتے ہیں، اس کی جمع اشداء ہے۔ اشداء کا جب تک یہ مفہوم ذہن نشین نہ ہو عبارت کا حسن آشکار نہیں ہوتا۔ کفار کے مقابلے میں تو یہ فولاد کی چٹان ہیں جنہیں کوئی طوفان اپنی جگہ سے سر مو سرکا نہیں سکتا۔ لیکن اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ ان کا معاملہ بالکل دوسرا ہے، بڑے نرم، بڑے شفیق اور بڑے مہربان ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ مسلمانوں کی مثال باہمی محبت اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم، اگر اس کا کوئی عضو بیمار ہو جاتا ہے تو سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیند کافور ہو جاتی ہے۔
اپنے رب کریم کی عبادت میں ان کے ذوق و شوق کا یہ عالم ہے کہ جب بھی تم انہیں دیکھو گے ، انہیں اپنے رب کی عبادت میں مصروف پاؤ گے، کبھی حالت رکوع میں جھکے سبحان ربی العظیم کا ورد کر رہے ہوں گے، کبھی اس کی بارگاہ اقدس میں اپنی جبین نیاز رکھے سبحان ربی الاعلیٰ کہہ کر اپنی بندگی ، اپنی نیاز مندی اور اپنی عاجزی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اپنے مولا کریم کی بزرگی اور کبریائی کی گواہی دے رہے ہوں گے۔ ان تمام اعمال سے ان کی غرض کیا ہے، وہ چاہتے کیا ہیں؟ دنیا اور دنیا کی وابستگیوں کو تو انہوں نے اپنے دامن سے گرد و غبار کی طرح جھاڑ دیا ہے۔ وہ صرف اپنے خدا وند کریم کے فضل کے طلب گار ہیں اور اس کی رضا و خوشنودی کے متمنّی۔ اس کے سوا انہیں نہ کسی چیز سے سروکار ہے اور نہ کوئی خواہش و آرزو۔
سِيمَا کا معنی علامت ہے۔ یعنی قدوسیوں کی اس جماعت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ ان کے چہروں پر نور ایمان کے جلوے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھنے والا دیکھتے ہی انہیں پہچان لیتا ہے کہ یہ آغوش نبوت کے پروردہ ہیں ، یہ نگاہ رسالت کے فیض یافتہ ہیں۔ سِيمَا سے مراد وہ گٹا نہیں جو عام طور پر پیشانی پر نمودار ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عبارت یوں ہوتی: سیماھم فی جباھھہم۔ ان کی پیشانیوں پر نشانیاں۔ بلکہ اس سے مراد وہ نور باطن ہے جو ان کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے۔ ابتدا میں حضور سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا تھے، بعد میں صحابہ نے حضور کی دعوت کو قبول کیا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اسلام ایک تناور اور مضبوط درخت بن گیا۔ اسلام کے چمن کو ہرا بھرا دیکھ کر ، کشت ایمان کو سرسبز و شاداب دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا رسول خوش ہے کہ اس کی مساعی بار آور ہوئیں۔ ہر سمت توحید کا اجالا پھیلتا جا رہا ہے۔ بحرو بر میں لا الٰہ الا اللہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ استبداد اور تشدد کی جن آہنی زنجیروں میں انسان جکڑا ہوا تھا وہ ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ اللہ کا رسول یہ سہانا منظر دیکھ کر اور نورانی فرشتے اس بابرکت انقلاب کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں، لیکن کفّار کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ جو لوگ جبر و تشدد سے انسانیت کی تذلیل کیا کرتے تھے اور خوشی سے اس پر تالیاں بجایا کرتے تھے، اسلام کی کامیابی پر وہ آتش حسد میں جل رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔
آج بھی صحابہ کرام سے محبت و عقیدت ایمان کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہوتا ہے وہی ان پاکیزہ ہستیوں پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے ہیں جن کی تعریف میں قرآن کریم بھرا ہوا ہے۔ جن کے خلوص و ایمان کا عینی شاہد خود اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو علم تھا کہ ایک ایسا گروہ پیدا ہو گا جن کے دلوں میں صحابہ کرام کا بغض و عناد ہو گا۔ اس لیے حضور نے پہلے ہی اپنی امت کو اس گروہ کی شر انگیزیوں سے آگاہ کر دیا۔ اس بارے میں کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ " رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہا کرو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک پیمانہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا بلکہ نصف پیمانہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔(متفق علیہ)۔
اس سورت طیبہ کی بیشتر آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کے صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی ہے۔ آخر میں وعد اللہ کے کلمات طیبہ سے انہیں مغفرت اور اجر عظیم کا مژدہ جانفزا سنایا ہے۔ بڑا خوش نصیب ہے وہ گروہ جو ان خصوصی انعامات سے بہرہ ور ہوا اور بڑا ہی بلند اقبال ، صاحب یمن و کمال ہے وہ نبی جس کی سعی اور توجہ باطنی سے خاک کے ان ذروں کو مہر و ماہ کی تابانی نصیب ہوئی۔ صل اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 
Top