ویلنٹائن ڈے

آبی ٹوکول

محفلین
جب تک" مولانا " عبدالعزیز جیسے لوگ یہاں موجود ہیں ۔ آپ کو اس عفریت کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ اب تو یہاں چھپے ہوئے لوگ بھی اپنے بلوں سے باہر نکل آئے اور طالبان " زندہ باد " کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔:notworthy:
ظفری پائی تُسی و ؟؟؟؟ ہا ہائے فٹے منہ اس ویلنٹن ٹائنٹنٹن دا ساڈے کنے چنگے بھرا نوں وی اسے کم تے لا دتا سو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب تک" مولانا " عبدالعزیز جیسے لوگ یہاں موجود ہیں ۔ آپ کو اس عفریت کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ اب تو یہاں چھپے ہوئے لوگ بھی اپنے بلوں سے باہر نکل آئے اور طالبان " زندہ باد " کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔:notworthy:
ہر کوئی آپ جیسا بھی تو نہیں ہو سکتا۔جناب۔آپ کیا دنیا میں ایک جیسےلوگ دیکھنا چاہتے ہیں ؟
 

ظفری

لائبریرین
ہر کوئی آپ جیسا بھی تو نہیں ہو سکتا۔جناب۔آپ کیا دنیا میں ایک جیسےلوگ دیکھنا چاہتے ہیں ؟
یہ تبصرہ ان لوگوں کے لیئے ہے جو تسلسل میں میرے مراسلات پڑھتے رہے ہیں ۔ آپ کو میرا تبصرہ سمجھنا ہے تو پچھلے مراسلات پڑھیئے ۔ شکریہ
 
۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
ظفری بھائی کیوں نہ آپ کو "طالبان " زندہ باد " کا نظم سنایا جائے :)
۔

 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
اگر کسی لڑکے سے پوچھو کہ تم نے کتنی لڑکیوں کو ویلنٹائین ڈے پر پھول دیئے تو بڑے فخر سے بتائے گا کہ اتنی لڑکیوں کو دیئے۔
اور اسی سے پوچھیں تمہاری بہن کو کتنے لڑکوں نے پھول دیئے تو لڑنے مرنے کو تیار ہو جائے گا۔
یہ تو آپ نے میرے دل کی بات کہہ ڈالی۔
پہلے تو ان لوگوں کو عقل دی جائے کہ ویلنٹائن،،،، جو ویلن ٹائم ہے کس نے شروع کی،، کیا یہ ماں اور بیٹے کے درمیان شروع ہوا، کیا یہ بھائی بہن کے درمیان شروع ہوا، کیا یہ ماموں بھانجی کے درمیان شروع ہوا ، کیا یہ چچا بھتیجی کے درمیان شروع ہوا، کیا یہ دادا پوتی نے شروع کیا، کیا یہ نانا نواسی کے درمیان ہوا،، باپ بیٹی کے درمیان ہوا غرض کہ محرم سے محرم کے درمیان شروع ہوا، اگر نہیں تو یہ سراسر فخاشی ہے۔
 

x boy

محفلین
ویلنٹائن ڈے منانے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

پہلی بات:

ویلنٹائن ڈے رومانوی جاہلی دن ہے، اس دن کا جشن رومانیوں کے عیسائیت میں داخل ہونے کے بعد بھی جاری رہا، اس جشن کو ایک ویلنٹائن نامی پوپ سے جوڑا جاتا ہے جسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا تھا، کفار ابھی بھی اس دن جشن مناتے ہیں، اور برائی و بے حیائی عام کرتے ہیں۔

دوسری بات:

مسلمان کفار کے کسی بھی دن کو نہیں منا سکتا؛ اس لئے کہ تہوار منانا شریعت کا حصہ ہے، اس لئے شرعی نصوص کی پابندی ضروری ہوگی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"سالانہ دن منانا ایسا منہج ، مسلک اور شریعت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

( لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا )

ترجمہ: ہم نے ہر ایک کے لئے شریعت اور منہج بنا دیا ہے۔ المائدۃ/48

اسی طرح فرمایا:

( لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه )

ترجمہ: ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس پر وہ چلتے ہیں۔ الحج/ 67

جیسے قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ، چنانچہ انکے تہواروں میں یا دیگر عبادات میں شرکت کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لئے کہ کسی ایک تہوار میں انکی موافقت کرنا کفر پر موافقت ہے، اور چند جزئیات میں موافقت کفر کی بعض جزئیات میں موافقت شمار ہوگی، بلکہ تہواروں کی وجہ سے ہی مختلف شریعتوں میں امتیاز ہوتا ہے، اور اسی سے کسی شریعت کےشعائرکا اظہار ہوتا ہے، اس لئے تہواروں میں موافقت کفریہ شریعت اور واضح ترین کفریہ شعیرہ پر موافقت تصور ہوگی، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تہواروں میں موافقت آخر کارخالص کفر تک پہنچا سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر تہوار منانے کی کم از کم حیثیت ایک گناہ ہے، اور انہی خصوصی تہواروں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا: (ہر قوم کیلئے ایک تہوار ہے، اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے) چنانچہ "زنار" - اسلامی ریاست میں ذمی لوگوں کیلئے خاص لباس- وغیرہ اُنکی خاص علامات پہننا بد ترین مشابہت ہے؛ اس لئے کہ یہ علامات مسلم حکمرانوں کی طرف سے وضع کی گئی ہیں دین نے مقرر نہیں کیں، جسکا مقصد یہ ہے کہ مسلم اور کافر کے مابین فرق کیا جاسکے، جبکہ تہوار اور اسکے لوازمات ملعون کفار اور ملعون دین سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ ان کے امتیازی تہواروں میں موافقت کرنا اللہ تعالی کی ناراضگی اور سزا کا موجب بنتے ہیں" انتہی۔

"اقتضاء الصراط المستقيم" (1/207)

آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:

"مسلمانوں کیلئے کفار کے ساتھ مشابہت کرنا جائز نہیں کہ انکے مخصوص تہواروں میں کھانا پینا، لباس، نہانا دھونا، چراغاں کرنا جائز نہیں، کسی دن عبادت یا کاروبار سے عام تعطیل وغیرہ کی جائے،اس دن کھانے تیار کرنا، تحفے تحائف دینا، تہوار کے لوازمات کی خرید و فروخت کرنا، تہوار کے دن بچوں کو کھیل کود اور اچھا لباس زیب تن کروانا سب کچھ جائز نہیں ہے۔

مختصراً : مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے تہوار کے دن کوئی خاص کام کریں، بلکہ انکے تہوار مسلمانوں کے دیگر ایام کی طرح ہونے چاہئیں، مسلمان اسے کوئی اہمیت نہ دیں" انتہی

"مجموع الفتاوى" (25/329)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا کوئی خاص تہوار ہو، تو جس طرح کوئی مسلمان انکے مذہب اور قبلہ میں انکے ساتھ موافقت نہیں کرتا بعینہٖ کوئی مسلمان ان کے تہوار میں بھی شرکت نہ کرے"انتہی

ماخوذ از: "تشبه الخسيس بأهل الخميس" یہ مضمون مجلہ "الحکمۃ"(4/193) میں شائع ہوا۔

اور جس حدیث کی طرف شیخ الاسلام نے اشارہ کیا ہے بخاری (952) اورمسلم (892) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ کہتی ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور میرے پاس اس وقت انصاریوں کی دو بچیاں تھیں جو بُعاث کے دن انصار کی طرف سے کہے جانے والے اشعار گنگنا رہی تھیں، آپ کہتی ہیں کہ : وہ دونوں کوئی گلوکارہ بھی نہیں تھیں، انہیں سن کر ابو بکر نے کہا:کیا شیطانی بانسریاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں! یہ کام عید کے دن ہو رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو بکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے)

ابو داود نے (1134) میں روایت کی ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو دن تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ دو دن کیا ہیں؟) تو صحابہ کرام نے جواب دیا: ہم جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں؛ عید الاضحی اور عید الفطر) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عید تہوار کسی قوم کے ایسے خصائص میں سے ہے جن سے وہ دیگر اقوام سے امتیاز حاصل کرتی ہیں، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہلی اور مشرکوں کے تہوار کے دن جشن منانابھی جائز نہیں ہے۔

اور اہل علم نے ویلنٹائن ڈے منانے کے بارے میں حرام ہونے کا فتوی بھی دیا ہے:

1- شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ، جسکا متن یہ ہے:

" عہدِ قریب میں طالبات کے درمیان ویلنٹائن ڈے منانے کا بہت زیادہ رواج ہوگیا ہے، اور یہ عیسائیوں کا تہوار ہے، اس دن میں مکمل لباس سرخ پہنا جاتا ہے، کپڑے، جوتے سب کچھ سرخ ہوتا ہے، اور طالبات اس دن میں سرخ پھولوں کا آپس میں تبادلہ بھی کرتی ہیں، ہم فضیلۃ الشیخ سے اس تہوار کو منانے کا حکم جاننا چاہتے ہیں، اور آپ مسلمانوں کو اس قسم کے معاملات میں کیا نصیحتیں کرینگے، اللہ تعالی آپکی حفاظت اور نگہبانی فرمائے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

ویلنٹائن ڈے منانا متعدد وجوہات کی بنا پر جائز نہیں ہے:

پہلی وجہ: یہ ایک بدعتی تہوار ہے جسکی شریعت میں کوئی اجازت نہیں۔

دوسری وجہ: اسکی وجہ سے عشق اور دیوانگی جنم لیتی ہے۔

تیسری وجہ: اسکی بنا پر دل غیر اخلاقی چیزوں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو کہ طریقِ سلف صالحین کے بالکل مخالف ہے۔

اس لئے اس دن کھانے، پینے، پہناوے، اورتحائف وغیرہ عید کے کاموں میں سے کوئی کام نہیں ہونا چاہئے۔

اور ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اپنے دین پر کار بند رہے، اور ضعیف العقل بن کر ہر آواز لگانے کے پیچھے نہ چلے، میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے، اور ہماری راہنمائی فرمائے، اور توفیق بھی دے"انتہی

"مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين" (16/199)

2- دائمی کمیٹی برائے فتوی سے پوچھا گیا:

بعض لوگ ہر عیسوی سن کی چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے ((Valentine Day ))مناتے ہوئے سرخ پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں، اس دوران سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دیتے ہیں، جبکہ کچھ مٹھائیوں والے سرخ رنگ کی مٹھائیاں بنا کر سرخ رنگ کے دل بنا کر پیش کرتے ہیں، جبکہ کچھ تو اس دن سے متعلق خاص مصنوعات بھی پیش کرتے ہیں اور اعلانات کئے جاتے ہیں، تو مندرجہ ذیل نقاط کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے:

پہلا: اس دن تہوار منانے کا کیا حکم ہے؟

دوسرا: دکانوں سے اس دن کیلئے خریداری کا کیا حکم ہے؟

تیسرا: اس دن کو نہ منانے والے بعض افراد کی جانب سے اس تہوار میں تحفۃً دی جانے والی کچھ چیزیں فروخت کرنا۔

تو انہوں نے جواب دیا:

"کتاب و سنت کی صریح دلیلیں ہیں ، اور ان پر سلف صالحین کا اجماع بھی ہےکہ اسلام میں صرف دو ہی تہوار ہیں اور وہ: عید الفطر، اور عید الاضحی ہیں، انکے علاوہ تمام تہوار چاہے وہ کسی شخص سے متعلق ہوں، یا جماعت سے ، یا کسی واقعے یا خوشی سے یہ تمام تہوار بدعت ہیں مسلمانوں کےلئے یہ تہوار منانا ، کوئی منائے تو خاموش رہنا، یا اس تہوار میں اظہارِ خوشی کرنا، یا کسی بھی انداز سے اس تہوار کے منانے میں مدد کرنا، درست نہیں ، چونکہ یہ اللہ کی حدود سے تجاوز ہے، اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔

اور اگر کوئی خود ساختہ تہوار کفار کا بنایا ہوا ہوتو یہ گناہ در گناہ ہے، کیونکہ اس میں انکے ساتھ مشابہت ، اور دل لگی کی ایک قسم پائی جاتی ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مؤمنوں کو ان سے مشابہت اور دل لگی سے منع فرمایا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہے)۔

اور ویلنٹائن ڈے بھی مذکورہ جنس میں سے ہے، کیونکہ یہ عیسائیت کے تہواروں میں سے ہے، اس لئے اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان کیلئے یہ منانا، یا اسکا اقرار کرنا، اور مبارک باد دیناجائز نہیں ، بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے احکام کی پاسداری کرتے ہوئے اس سے بچنا، اور ترک کرنا ضروری ہے، تا کہ اللہ تعالی کو ناراض کرنے والے اسباب سے دور رہ سکے۔

ویلنٹائن ڈے اور اسی طرح کے دیگر ناجائز تہواروں پر ایک مسلمان کی طرف سے کسی بھی شکل میں معاونت بھی حرام ہے، چاہے کھانے پینے، خرید و فروخت، مصنوعات، تحائف، خطوط، اعلانات، وغیرہ ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ سب گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتا ہے، اور اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

( وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان واتقوا الله إن الله شديد العقاب )

ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ، بیشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے"

ایک مسلمان کیلئے ہر وقت کتاب و سنت پر کار بند رہنا انتہائی ضروری ہے، خاص طور پر جب فتنے بہت زیادہ ہوں، اور گناہوں کی بھرمار ہو، یہ بھی ضروری ہے کہ غضب ، گمراہی ، اور فسق و فجور والے لوگوں کی غلطیوں میں مت پڑےاورسمجھداری سے کام لے، یہ لوگ اللہ تعالی سے عزت ، وقار کی امید نہیں رکھتے، اور اسلام کی وجہ سے اپنا سر بلند نہیں کرتے۔

اسی طرح ایک مسلمان پر ضروری ہے کہ اللہ تعالی سے گڑگڑا کر ہدایت اور اس پر ثابت قدمی مانگے، کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور ثابت قدم کرنے والا بھی وہی ہے، اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں اور سلامتیں نازل فرمائے" انتہی

3- شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:

"نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں ایک ویلنٹائن ڈے کا تہوار بہت پھیل رہا ہے، "ویلنٹائین" ایک عیسائی راہب کا نام ہے، جس کی عیسائی لوگ تعظیم کرتے ہوئے ہر سال چودہ فروری کو یہ دن مناتے ہیں، اس دن میں وہ لوگ تحائف، اور سرخ پھول پیش کرتے ہیں، اورساتھ ساتھ سرخ لباس بھی زیب تن کرتے ہیں، تو اس تہوار کے منانے کا ، یا اس دن تحائف کا تبادلہ ، اور اظہار خوشی کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

پہلی بات:

اس طرح کے بدعتی تہواروں کو منانا جائز نہیں ہے؛کیونکہ یہ بدعت ہے، اور شریعت میں اسکی کوئی اجازت نہیں ، چنانچہ تہوار عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں داخل ہوتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے) یعنی ایجاد کرنے والے پر مردود ہے۔

دوسری بات:

اس تہوار کے منانے میں کفار کی مشابہت اور انکی تقلید ہے، کہ اُس کی تعظیم کی جائے گی جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں، اور انکے تہواروں اور تقاریب کا اس میں احترام پایا جاتا ہے، اور ان کی مذہبی رسوم میں مشابہت بھی ہے، جبکہ حدیث میں ہےکہ : (جس نے جس قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے)۔

تیسری بات:

اس کے منانے پر لہو ولعب، گانا بجانا، بے پردگی، مرد وخواتین کا اختلاط، خواتین کا مردوں کے سامنے آنا ، مفاسد، حرام کام اور گناہ وغیرہ مرتب ہوتے ہیں، یا کم از کم بے حیائی اور اسکے ابتدائی وسائل و آثار رونما ہوتے ہیں۔

اسکے لئے کوئی اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو صرف تفریح ہے، کیونکہ یہ غلط ہے، چنانچہ جو اپنے لئے خیر چاہتا ہے، اسکے لئے ضروری ہے کہ گناہوں ، اور گناہوں کے وسائل سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے"

پھر انہوں نے کہا:

مذکورہ بالا بیان کے باعث ایسے تحائف اور پھولوں کی خریدو فروخت منع ہے، جن کو خریدار اس قسم کے تہواروں کیلئے استعمال کر سکتا ہے، تا کہ فروخت کرنے والا اس بدعت کی ترویج میں شامل نہ ہو جائے، واللہ اعلم۔ " انتہی

واللہ اعلم .
 

زیک

مسافر
گلوبلائزیشن جتنی بھی ہو جائے کلچرز میں فاصلے رہتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی ویلنٹان ڈے کا مطلب یہ نہیں سمجھتا کہ لڑکیوں اور خواتین کو ہراساں کرنا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں یہ روز کا کام ہے
 
ہم مسلمان اور ویلنٹائن ڈے کی حقیقت

ویلنٹائن ڈے کیا ہے اور کب شروع ہوا اور اس کی ابتداء کیسے ہوئی اس موضوع پر میں لاتعداد بار قلم آزمائی کرچکا ہوں لیکن پھر بھی ہمارے ان پاکستانی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور نہیں جاگ پارہا ہے اب تو حکومت وقت بھی ویلنٹائن ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کرنے لگی ہے کہ یہ ایک قومی تہوار کے طور پر جانا جانے لگا ہے .
ویلنٹائن ڈے پر تو انسائیکلوپیڈیا اور ویک پیڈیا تک خاموش ہیں کیوں اس کی تاریخ ہی نہیں ہے اگر ہے تو اتنی مختصراور واہیات کے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ اس قسم کی تاریخ رکھنے والا تہوار مسلم معاشرہ میں پایا ہی نہیں جاتا اس لئے تو اسلام میں عیدالفطر جییا خوبصورت تحفہ اور پھر اس پر عیدالقربیٰ اور ان سے پہلے شب معراج اور شب قدر جیسی مبارک راتیں اور پھر ویلنٹائن ڈے کیوں ہم پر مسلط کیا جارہا اور اس پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے اپنی آنکھیں بند کررکھیں ہیں. میرا ان سے سوال ہے کہ آپ نے کبھی ویلنٹائن ڈے کے بار ے میں کبھی عوام کو آگاہی دی ہے جواب نہیں میں کسی چینل نے یہ زحمت تک نہیں کی کہ وہ اس بارے میں عوام کو آگاہ کریں ، کریں بھی تو کیوں ان کے بزنس کو نقصان ہوتا ہے کمپنیاں اس دن جتنا بزنس ان کو دیتی ہیں ان کو ملتا ہی نہیں ہے . آئے ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں÷
ویلنٹائن ڈے کیا ہے ویلنٹائن اس دور کے پادری کا نام ہے جب روم میں آگ لگی ہوئی تھی اور یورپ جنگوں کی زد میں تھا نفسا نفسی کا دور تھا تو اس وقت چونکہ ہر طرف جنگ ہی جنگ ہی تھی تو اس وقت کے بادشاہ وقت نے شادیوں پر پابندی لگادی تھی اور ہر نوجوان کو فوجی ٹریننگ لازمی کردی تھی کہ افراد کی کمی کو دور کیا جاسکے اور محاذ پر تازہ دم فوجی دستے روانہ کرسکیں اور یہ اعلان کردیا گیا کہ جوبھی شادی کرے گا اور کروائے گا اس کو سزائے موت دی جائے گے تو اس وقت پادری ویلنٹائن ان میں ایک تھا جس نے بادشاہ کے حکم کی خلاف آواز اٹھائی لیکن بادشاہ وقت نے اس کا ایک نہ چلنے دی یو کچھ عرصہ تک خاموشی رہی ایک لڑکی اس دوران ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی اور اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی اس کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر کسی طرح حکومت کے ہرکارے کو یا بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچ جائے گی اس کی اور اس لڑکے کی جان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے تو چنانچہ اس لڑکی نے بھاگ کر ویلنٹائن کے پاس پناہ لی . ویلنٹائن جو کہ بادشاہ کے مخالف تھا اور شادی کے حق میں تھا اس کو پناہ دی پتہ نہیں اس لڑکے کا کیا ہوا بہرحال قصہ مختصر کہ یہ لڑکی ویلنٹائن کی پناہ میں رہی اوراسی دوران ویلنٹائن کو اس سے محبت ہوگئی اور اس کے ساتھ اس نے ایک رات صحبت کرڈالی جس کی بناء پر کسی نہ کسی طور بادشاہ وقت کو خبر ہوگئئ اوراس نے پادری کو گرفتار کرلیا اوربادشاہ وقت کے گرفتار کرنے پر اس نے بتایا کہ ہاں میں نے یہ کام کیا ہے اور کرتا رہوں محبت کرنا جرم نہیں ہے تو بادشاہ نے اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ابھی بھی وقت ہے باز آجاؤ لیکن ویلنٹائن نہ مانا اور اپنی بات پر قائم رہا اس پر حاکم وقت نے اس کو موت کی سزادے دی اور چار دیواری اور جب یہ گرفتارہ ہوکر موت کی سزا کے بعد لوگوں نے اس پر پھول نچھاور کیے اور تنہیتی کارڈ ڈالے پھر اس کے ایک سال بعد جب اس کی برسی کا دن آیا تو کچھ منچلوں نے اس کی قبر پر پھول چڑھائے اور اس کی یاد میں اپنےمحبت کرنے والوں کو کارڈ بھیجے ویلنٹائن کی یا د میں یہ ساری کہانی ویلنٹائن کی اب ایک ایسا تہوار جو اسلامی اور اخلاقی طور پر ہر مذہب میں جائز نہیں ہے کیسے قبول کیا جائے جس میں اخلاقیات سمیت اسلام کے شرعی اصولوں کی دھجیاں اڑادی گئیں ہوں.
 

زیک

مسافر
یہ کہانی آپ نے گھڑی ہے یا کسی اور سے نقل کی ہے؟

فرض کر لیں کہ یہ جھوٹی تاریخ جو آپ نے سنائی وہ سچ ہے تو کیا ہوا؟ ہر تہوار کی تاریخ عجیب و غریب ہوتی ہے۔ آپ نے عید الاضحی کا ذکر کیا کہنے والے کہیں گے کہ مسلمان ایک باپ کی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی کوشش کو مناتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
ہم مسلمان اور ویلنٹائن ڈے کی حقیقت

ویلنٹائن ڈے کیا ہے اور کب شروع ہوا اور اس کی ابتداء کیسے ہوئی اس موضوع پر میں لاتعداد بار قلم آزمائی کرچکا ہوں لیکن پھر بھی ہمارے ان پاکستانی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ شعور نہیں جاگ پارہا ہے اب تو حکومت وقت بھی ویلنٹائن ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کرنے لگی ہے کہ یہ ایک قومی تہوار کے طور پر جانا جانے لگا ہے .
ویلنٹائن ڈے پر تو انسائیکلوپیڈیا اور ویک پیڈیا تک خاموش ہیں کیوں اس کی تاریخ ہی نہیں ہے اگر ہے تو اتنی مختصراور واہیات کے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ اس قسم کی تاریخ رکھنے والا تہوار مسلم معاشرہ میں پایا ہی نہیں جاتا اس لئے تو اسلام میں عیدالفطر جییا خوبصورت تحفہ اور پھر اس پر عیدالقربیٰ اور ان سے پہلے شب معراج اور شب قدر جیسی مبارک راتیں اور پھر ویلنٹائن ڈے کیوں ہم پر مسلط کیا جارہا اور اس پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے اپنی آنکھیں بند کررکھیں ہیں. میرا ان سے سوال ہے کہ آپ نے کبھی ویلنٹائن ڈے کے بار ے میں کبھی عوام کو آگاہی دی ہے جواب نہیں میں کسی چینل نے یہ زحمت تک نہیں کی کہ وہ اس بارے میں عوام کو آگاہ کریں ، کریں بھی تو کیوں ان کے بزنس کو نقصان ہوتا ہے کمپنیاں اس دن جتنا بزنس ان کو دیتی ہیں ان کو ملتا ہی نہیں ہے . آئے ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں÷
ویلنٹائن ڈے کیا ہے ویلنٹائن اس دور کے پادری کا نام ہے جب روم میں آگ لگی ہوئی تھی اور یورپ جنگوں کی زد میں تھا نفسا نفسی کا دور تھا تو اس وقت چونکہ ہر طرف جنگ ہی جنگ ہی تھی تو اس وقت کے بادشاہ وقت نے شادیوں پر پابندی لگادی تھی اور ہر نوجوان کو فوجی ٹریننگ لازمی کردی تھی کہ افراد کی کمی کو دور کیا جاسکے اور محاذ پر تازہ دم فوجی دستے روانہ کرسکیں اور یہ اعلان کردیا گیا کہ جوبھی شادی کرے گا اور کروائے گا اس کو سزائے موت دی جائے گے تو اس وقت پادری ویلنٹائن ان میں ایک تھا جس نے بادشاہ کے حکم کی خلاف آواز اٹھائی لیکن بادشاہ وقت نے اس کا ایک نہ چلنے دی یو کچھ عرصہ تک خاموشی رہی ایک لڑکی اس دوران ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی اور اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی اس کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر کسی طرح حکومت کے ہرکارے کو یا بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچ جائے گی اس کی اور اس لڑکے کی جان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے تو چنانچہ اس لڑکی نے بھاگ کر ویلنٹائن کے پاس پناہ لی . ویلنٹائن جو کہ بادشاہ کے مخالف تھا اور شادی کے حق میں تھا اس کو پناہ دی پتہ نہیں اس لڑکے کا کیا ہوا بہرحال قصہ مختصر کہ یہ لڑکی ویلنٹائن کی پناہ میں رہی اوراسی دوران ویلنٹائن کو اس سے محبت ہوگئی اور اس کے ساتھ اس نے ایک رات صحبت کرڈالی جس کی بناء پر کسی نہ کسی طور بادشاہ وقت کو خبر ہوگئئ اوراس نے پادری کو گرفتار کرلیا اوربادشاہ وقت کے گرفتار کرنے پر اس نے بتایا کہ ہاں میں نے یہ کام کیا ہے اور کرتا رہوں محبت کرنا جرم نہیں ہے تو بادشاہ نے اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ابھی بھی وقت ہے باز آجاؤ لیکن ویلنٹائن نہ مانا اور اپنی بات پر قائم رہا اس پر حاکم وقت نے اس کو موت کی سزادے دی اور چار دیواری اور جب یہ گرفتارہ ہوکر موت کی سزا کے بعد لوگوں نے اس پر پھول نچھاور کیے اور تنہیتی کارڈ ڈالے پھر اس کے ایک سال بعد جب اس کی برسی کا دن آیا تو کچھ منچلوں نے اس کی قبر پر پھول چڑھائے اور اس کی یاد میں اپنےمحبت کرنے والوں کو کارڈ بھیجے ویلنٹائن کی یا د میں یہ ساری کہانی ویلنٹائن کی اب ایک ایسا تہوار جو اسلامی اور اخلاقی طور پر ہر مذہب میں جائز نہیں ہے کیسے قبول کیا جائے جس میں اخلاقیات سمیت اسلام کے شرعی اصولوں کی دھجیاں اڑادی گئیں ہوں.
او کاکا ویلنٹائن!
اپنی سطروں کے اختتام پر ختمہ ڈالنا سیکھ لے بھئی۔ ایک ہی سانس میں جھاگ اڑاتے ساری تقریر کر ڈالی ہے کیا ؟
 

یوسف-2

محفلین
ہم نے یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناکر آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدتوں کا بھر پور اظہار کیا ۔یومِ قائد پر بھی ہم لہک لہک کر گاتے رہے ’’اے قائدِ اعظم ! تیرا احسان ہے ، احسان‘‘۔ جب یومِ اقبال رح آیا توفکرِ اقبال کے اسرار و رموز پر محفلیں سجائیں اور یومِ دفاع پر فضائیں ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ جیسے ترانوں سے گونجتی رہیں۔پھر ہمیں خیال آیا کہ کہیں اہلِ مغرب ہمیں’’رجعت پسند‘‘ ہی نہ سمجھ بیٹھیں اِس لیے توازن قائم رکھنے کی خاطر ہم نے 14 فروری کوروم کے پادری ’’ویلنٹائن ‘‘ کا دن بھی ایسی دھوم دھام سے منایا جیسے ویلنٹائن بھی عالمِ اسلام کی کوئی بَر گزیدہ ہستی ہو ۔شہروں میں سُرخ گلاب ختم ہو گئے اور شنید ہے کہ سُرخ گلاب کا ایک ایک پھول سو سے دو سو روپے تک فروخت ہوتا رہا ۔ ہمارا باغیچہ تو سُرخ گلابوں سے اَٹا پڑا ہے ،اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کسی ’’گُل فروش‘‘ سے سودا ہی مار لیتی ۔جوں جوں یہ دِن گزرتا گیا، میرا غصّہ بھی بڑھتا گیا ۔یہ غصّہ کسی اور پر نہیں ، اپنے سُرخ گلابوں پر آ رہا تھا جنہوں نے ہمیں بَر وقت بتلایا ہی نہیں کہ آج کے دن اُن کے نرخ ایسے ہی بڑھ جاتے ہیں جیسے موجودہ دَورِ حکومت میں بجلی کے۔خیرہم نے بھی طے کر لیا ہے کہ اگلے سال پہلے سے بندوبست کرکے رکھیں گے تاکہ ہمیں ایک دفعہ پھر نہ کہنا پڑے کہ’’اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ ۔ اگر اگلے سال ڈھیروں ڈھیر پیسے اکٹھے ہو گئے تو ہم بھی ’’ویلنٹائن زندہ باد‘‘ کے نعرے اُسی طرح لگائیں گے جس طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے لگاکر خوب ہاتھ رنگے۔ ویلنٹائن ڈے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان ’’ بستی ہے دِل والوں کی‘‘ اور ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ ہماری اسمبلیوں کی روشن خیال خواتین بھی ماشاء اللہ بہت ’’دِل والیاں‘‘ ہیں ۔اُس دِن پنجاب اسمبلی بھی مارے حیا کے اُس وقت سُرخ ہو گئی جب ہماری خواتین ایم پی ایز سُرخ لباس پہن کر اسمبلی میں تشریف لائیں اور مرد حضرات نے بھی ’’حسبِ توفیق‘‘ سَروں پر سُرخ ٹوپیاں اور جیبوں میں سُرخ رومال سجائے ۔اتنے’’ سُرخ لباس‘‘تو کبھی بیاہ شادیوں میں نظر نہیں آئے جتنے پنجاب اسمبلی میں نظر آ رہے تھے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ’’ہماری رہنماؤں‘‘کو سُرخ رنگ بہت بھا گیا ہو۔ہمیںیقین ہے کہ پادری ویلنٹائن کی روح اِنہیں دیکھ دیکھ کر ’’صدقے واری‘‘ جاتی رہی ہو گی ۔ ویسے سُرخ رنگ تو خون کا بھی ہوتا ہے جِس کی پاکستان میں بہت اَرزانی ہے اور جو ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی کونے میں بہتا ہی رہتا ہے ۔ویلنٹائن ڈے پر الیکٹرانک میڈیا بھی خوب مزے اُڑا تا رہا ۔عاشقوں نے محض پانچ روپے کے ایس ایم ا یس کے ذریعے اپنے محبوب کوپیغام بھیجا اور الیکٹرانک میڈیا نے اُسے چوم کر نشر کر دیا۔میں نے جب بھی ٹی وی آن کیا ، مجھے محبتوں کے پیغام ہی نظر آئے ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورے پاکستان پر’’ مجنوں‘‘ کے خاندان نے قبضہ کر لیا ہو ۔اگر پاکستان کا مطلب ’’عشق و عاشقی‘‘ہے تو پھر ہم درست سمت میں جا رہے ہیں لیکن اگر لا اِلٰہ الا اللہ ہے تو پھر بصد ادب مجھے یہ کہنے دیجئے کہ تمام تر خوں ریزی کے باوجود طالبان سچے ہیں اور اِن حالات میں پاکستان کو اگرکوئی طاقت بچا سکتی ہے تو صرف نفاذِ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کو بہت سے ٹی وی ٹاک شوز میں سُنا اور ہر ٹاک شو کے بعد میر ا یہ تاثر بڑھتا ہی چلا گیا کہ مولانا صا حب بہت ضد ی اور ہٹ دھر م ہیں۔ جب مولا نا کو یہ بتلایا جاتا کہ آئین میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالےٰ کی ہے اور ہمارا کوئی بھی قانون قُرآن و سنت کے متضاد نہیں بَن سکتا تو ہمیشہ اور ہر ٹی وی چینل پر اُن کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ’’میں آئین کو نہیں ، قُرآن و سنت کو مانتا ہوں ‘‘۔مولانا صاحب کی اِس ہٹ دھرمی پر بہت غصّہ آتا لیکن آج کے ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کی خرافات نے یہ سارا غصّہ ٹھنڈا کر دیا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مولانا صاحب درست کہتے ہیں کیونکہ جب 1973ء سے اب تک کسی بھی حکومت نے آئین پر عمل ہی نہیں کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نظر کی جاتی رہی ہیں تو پھر ایسے آئین کا کیا فائدہ؟۔

اگر بقول ضیاء الحق مرحوم آئین محض سو صفحات کی فضول سی کتاب ہے جسے زور آور جب جی چاہے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے تو پھر ایسا آئین ’’بگڑی نسلوں‘‘ کے سدھار کا سبب بھی نہیں بن سکتا۔ہمارا دین تو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہم احکاماتِ الٰہی میں اپنی پسند و نا پسند کو بھی شامل کر لیں لیکن ہم تو قُرآن و سُنت کے صرف ایسے احکامات کو ہی تسلیم کرتے ہیں جو ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ہوں ۔اِن رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ہم نے سینکڑوں ایسی
NGO\’s بنا رکھی ہیں جو غیر ملکی فنڈز پر چلتی ہیں اور جن کا کام ہی دینی رکاوٹوں کے خلاف زہر اُگلنا ہے ۔ایسی NGO\’s پہ ہمارا آئین کوئی پابندی لگاتا ہے ، نہ قانون۔سُلگتاسوال مگر یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بندۂ خُدا آئین کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پاکستان میں شریعت کا نفاذِ کر بھی دیتا ہے تو کیا بگڑی نسلیں سُدھر جائیں گی؟شائد نہیں کیونکہ جِس قوم کے مقدر میں بلاول زرداری جیسے لیڈر لکھ دیئے جائیں اُس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔بلوچستان کے سابقہ وزیرِ اعلیٰ نے ایک بار کہا کہ ’’ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے ، خواہ وہ اصلی ہو یا جعلی‘‘ ۔ہم نے اِس جملے پر اُن کا خوب مذاق اُڑایا اور ایک عرصے تک اِس جملے سے لوگ محظوظ بھی ہوتے رہے ۔اب نوجوان بلاول زرداری کہتا ہے کہ ’’بلاول ، بلاول ہوتا ہے ۔ خواہ وہ بلاول بھٹی ہو یا بلاول زرداری‘‘۔لیکن کوئی اِس جملے سے محظوظ ہونے والا ہے ، نہ مذاق اُڑانے والا کیونکہ آکسفورڈ کا پڑھا بلاول زرداری ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بینظیر شہید کا بیٹا ہے ۔ شنید ہے کہ محترم آصف زرداری اپنے وارث کی اِن ’’حرکات‘‘ پر بہت نالاں ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ انٹرنیٹ کی پیداوار یہ نسلِ نَو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے میں اتنی مَگن ہے کہ اُسے کسی کی بات سُننے کی فُرصت ہی نہیں ۔یہ انٹر نیٹ بھی ایسی عجیب شے ہے جو بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے ۔ مشرف صاحب اِسی انٹر نیٹ پر اپنے چاہنے والوں کے پیغامات پڑھ کر پاکستان آئے اور ’’کِڑّکی‘‘ میں بُرے پھنسے ۔ محترم عمران خاں کی ’’سونامی‘‘ بھی اِسی انٹرنیٹ پر دو تہائی بلکہ تین چوتھائی اکثریت سے جیت گئی لیکن میدانِ عمل میں اُس کے حصّے میں ’’کَکھ‘‘ نہ آیا۔

اُسے محض خیبرپختونخواہ کی حکومت پر گزارا کرنا پڑا اور وہ بھی نواز لیگ کی مہربانی سے ۔تحریکِ انصاف چونکہ انٹرنیٹ پر بے مثال کامیابی حاصل کر چکی تھی اِس لیے اُسے یہ غیر متوقع شکست ہضم نہیں ہو رہی اور وہ تا حال دھاندلی کا شور مچا رہی ہے ۔اُسے سوتے جاگتے صرف دھاندلی ہی کے خواب نظر آتے ہیں ۔پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر جب نجم سیٹھی کو چیئر مین بنایا گیا تو تحریکِ انصاف نے کہا کہ نجم سیٹھی نے عام انتخابات میں نواز لیگ کی پینتیس سیٹوں کو ’’پنکچر‘‘ لگائے اور نواز لیگ نے محنتانے کے طور پر نجم سیٹھی کو پی سی بی کی چیئرمینی سونپ دی ۔حقیقت اللہ جانے یا نجم سیٹھی ، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اِس انٹرنیٹ نے گھر گھر ’’سیاپا‘‘ ڈال دیا ہے ۔ اب بلاول بھی اِسی انٹرنیٹ کا سہارا لے کر پاکستان فتح کرنے چلا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی بار سندھ کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل جائے۔(قلم درازیاں از پروفیسر رفعت۔ روزنامہ نئی بات، 16 فروری 2014ء)
 
ہم نے یومِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناکر آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدتوں کا بھر پور اظہار کیا ۔یومِ قائد پر بھی ہم لہک لہک کر گاتے رہے ’’اے قائدِ اعظم ! تیرا احسان ہے ، احسان‘‘۔ جب یومِ اقبال رح آیا توفکرِ اقبال کے اسرار و رموز پر محفلیں سجائیں اور یومِ دفاع پر فضائیں ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ جیسے ترانوں سے گونجتی رہیں۔پھر ہمیں خیال آیا کہ کہیں اہلِ مغرب ہمیں’’رجعت پسند‘‘ ہی نہ سمجھ بیٹھیں اِس لیے توازن قائم رکھنے کی خاطر ہم نے 14 فروری کوروم کے پادری ’’ویلنٹائن ‘‘ کا دن بھی ایسی دھوم دھام سے منایا جیسے ویلنٹائن بھی عالمِ اسلام کی کوئی بَر گزیدہ ہستی ہو ۔شہروں میں سُرخ گلاب ختم ہو گئے اور شنید ہے کہ سُرخ گلاب کا ایک ایک پھول سو سے دو سو روپے تک فروخت ہوتا رہا ۔ ہمارا باغیچہ تو سُرخ گلابوں سے اَٹا پڑا ہے ،اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کسی ’’گُل فروش‘‘ سے سودا ہی مار لیتی ۔جوں جوں یہ دِن گزرتا گیا، میرا غصّہ بھی بڑھتا گیا ۔یہ غصّہ کسی اور پر نہیں ، اپنے سُرخ گلابوں پر آ رہا تھا جنہوں نے ہمیں بَر وقت بتلایا ہی نہیں کہ آج کے دن اُن کے نرخ ایسے ہی بڑھ جاتے ہیں جیسے موجودہ دَورِ حکومت میں بجلی کے۔خیرہم نے بھی طے کر لیا ہے کہ اگلے سال پہلے سے بندوبست کرکے رکھیں گے تاکہ ہمیں ایک دفعہ پھر نہ کہنا پڑے کہ’’اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ ۔ اگر اگلے سال ڈھیروں ڈھیر پیسے اکٹھے ہو گئے تو ہم بھی ’’ویلنٹائن زندہ باد‘‘ کے نعرے اُسی طرح لگائیں گے جس طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے لگاکر خوب ہاتھ رنگے۔ ویلنٹائن ڈے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان ’’ بستی ہے دِل والوں کی‘‘ اور ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ ہماری اسمبلیوں کی روشن خیال خواتین بھی ماشاء اللہ بہت ’’دِل والیاں‘‘ ہیں ۔اُس دِن پنجاب اسمبلی بھی مارے حیا کے اُس وقت سُرخ ہو گئی جب ہماری خواتین ایم پی ایز سُرخ لباس پہن کر اسمبلی میں تشریف لائیں اور مرد حضرات نے بھی ’’حسبِ توفیق‘‘ سَروں پر سُرخ ٹوپیاں اور جیبوں میں سُرخ رومال سجائے ۔اتنے’’ سُرخ لباس‘‘تو کبھی بیاہ شادیوں میں نظر نہیں آئے جتنے پنجاب اسمبلی میں نظر آ رہے تھے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ’’ہماری رہنماؤں‘‘کو سُرخ رنگ بہت بھا گیا ہو۔ہمیںیقین ہے کہ پادری ویلنٹائن کی روح اِنہیں دیکھ دیکھ کر ’’صدقے واری‘‘ جاتی رہی ہو گی ۔ ویسے سُرخ رنگ تو خون کا بھی ہوتا ہے جِس کی پاکستان میں بہت اَرزانی ہے اور جو ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی کونے میں بہتا ہی رہتا ہے ۔ویلنٹائن ڈے پر الیکٹرانک میڈیا بھی خوب مزے اُڑا تا رہا ۔عاشقوں نے محض پانچ روپے کے ایس ایم ا یس کے ذریعے اپنے محبوب کوپیغام بھیجا اور الیکٹرانک میڈیا نے اُسے چوم کر نشر کر دیا۔میں نے جب بھی ٹی وی آن کیا ، مجھے محبتوں کے پیغام ہی نظر آئے ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورے پاکستان پر’’ مجنوں‘‘ کے خاندان نے قبضہ کر لیا ہو ۔اگر پاکستان کا مطلب ’’عشق و عاشقی‘‘ہے تو پھر ہم درست سمت میں جا رہے ہیں لیکن اگر لا اِلٰہ الا اللہ ہے تو پھر بصد ادب مجھے یہ کہنے دیجئے کہ تمام تر خوں ریزی کے باوجود طالبان سچے ہیں اور اِن حالات میں پاکستان کو اگرکوئی طاقت بچا سکتی ہے تو صرف نفاذِ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کو بہت سے ٹی وی ٹاک شوز میں سُنا اور ہر ٹاک شو کے بعد میر ا یہ تاثر بڑھتا ہی چلا گیا کہ مولانا صا حب بہت ضد ی اور ہٹ دھر م ہیں۔ جب مولا نا کو یہ بتلایا جاتا کہ آئین میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالےٰ کی ہے اور ہمارا کوئی بھی قانون قُرآن و سنت کے متضاد نہیں بَن سکتا تو ہمیشہ اور ہر ٹی وی چینل پر اُن کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ’’میں آئین کو نہیں ، قُرآن و سنت کو مانتا ہوں ‘‘۔مولانا صاحب کی اِس ہٹ دھرمی پر بہت غصّہ آتا لیکن آج کے ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کی خرافات نے یہ سارا غصّہ ٹھنڈا کر دیا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مولانا صاحب درست کہتے ہیں کیونکہ جب 1973ء سے اب تک کسی بھی حکومت نے آئین پر عمل ہی نہیں کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نظر کی جاتی رہی ہیں تو پھر ایسے آئین کا کیا فائدہ؟۔

اگر بقول ضیاء الحق مرحوم آئین محض سو صفحات کی فضول سی کتاب ہے جسے زور آور جب جی چاہے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے تو پھر ایسا آئین ’’بگڑی نسلوں‘‘ کے سدھار کا سبب بھی نہیں بن سکتا۔ہمارا دین تو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہم احکاماتِ الٰہی میں اپنی پسند و نا پسند کو بھی شامل کر لیں لیکن ہم تو قُرآن و سُنت کے صرف ایسے احکامات کو ہی تسلیم کرتے ہیں جو ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ہوں ۔اِن رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ہم نے سینکڑوں ایسی
NGO\’s بنا رکھی ہیں جو غیر ملکی فنڈز پر چلتی ہیں اور جن کا کام ہی دینی رکاوٹوں کے خلاف زہر اُگلنا ہے ۔ایسی NGO\’s پہ ہمارا آئین کوئی پابندی لگاتا ہے ، نہ قانون۔سُلگتاسوال مگر یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بندۂ خُدا آئین کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پاکستان میں شریعت کا نفاذِ کر بھی دیتا ہے تو کیا بگڑی نسلیں سُدھر جائیں گی؟شائد نہیں کیونکہ جِس قوم کے مقدر میں بلاول زرداری جیسے لیڈر لکھ دیئے جائیں اُس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔بلوچستان کے سابقہ وزیرِ اعلیٰ نے ایک بار کہا کہ ’’ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے ، خواہ وہ اصلی ہو یا جعلی‘‘ ۔ہم نے اِس جملے پر اُن کا خوب مذاق اُڑایا اور ایک عرصے تک اِس جملے سے لوگ محظوظ بھی ہوتے رہے ۔اب نوجوان بلاول زرداری کہتا ہے کہ ’’بلاول ، بلاول ہوتا ہے ۔ خواہ وہ بلاول بھٹی ہو یا بلاول زرداری‘‘۔لیکن کوئی اِس جملے سے محظوظ ہونے والا ہے ، نہ مذاق اُڑانے والا کیونکہ آکسفورڈ کا پڑھا بلاول زرداری ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بینظیر شہید کا بیٹا ہے ۔ شنید ہے کہ محترم آصف زرداری اپنے وارث کی اِن ’’حرکات‘‘ پر بہت نالاں ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ انٹرنیٹ کی پیداوار یہ نسلِ نَو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے میں اتنی مَگن ہے کہ اُسے کسی کی بات سُننے کی فُرصت ہی نہیں ۔یہ انٹر نیٹ بھی ایسی عجیب شے ہے جو بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے ۔ مشرف صاحب اِسی انٹر نیٹ پر اپنے چاہنے والوں کے پیغامات پڑھ کر پاکستان آئے اور ’’کِڑّکی‘‘ میں بُرے پھنسے ۔ محترم عمران خاں کی ’’سونامی‘‘ بھی اِسی انٹرنیٹ پر دو تہائی بلکہ تین چوتھائی اکثریت سے جیت گئی لیکن میدانِ عمل میں اُس کے حصّے میں ’’کَکھ‘‘ نہ آیا۔

اُسے محض خیبرپختونخواہ کی حکومت پر گزارا کرنا پڑا اور وہ بھی نواز لیگ کی مہربانی سے ۔تحریکِ انصاف چونکہ انٹرنیٹ پر بے مثال کامیابی حاصل کر چکی تھی اِس لیے اُسے یہ غیر متوقع شکست ہضم نہیں ہو رہی اور وہ تا حال دھاندلی کا شور مچا رہی ہے ۔اُسے سوتے جاگتے صرف دھاندلی ہی کے خواب نظر آتے ہیں ۔پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر جب نجم سیٹھی کو چیئر مین بنایا گیا تو تحریکِ انصاف نے کہا کہ نجم سیٹھی نے عام انتخابات میں نواز لیگ کی پینتیس سیٹوں کو ’’پنکچر‘‘ لگائے اور نواز لیگ نے محنتانے کے طور پر نجم سیٹھی کو پی سی بی کی چیئرمینی سونپ دی ۔حقیقت اللہ جانے یا نجم سیٹھی ، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اِس انٹرنیٹ نے گھر گھر ’’سیاپا‘‘ ڈال دیا ہے ۔ اب بلاول بھی اِسی انٹرنیٹ کا سہارا لے کر پاکستان فتح کرنے چلا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی بار سندھ کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل جائے۔(قلم درازیاں از پروفیسر رفعت۔ روزنامہ نئی بات، 16 فروری 2014ء)
بہت خوب زبردست
 
Top