ویلنٹائن ڈے

یوسف-2

محفلین
گزشتہ دنوں میری ایک عزیزہ کافون آیا ۔اُس نے بتایا کہ وہ لوگ ویلنٹائن ڈے منانے لاہور آ رہے ہیں ۔ میں نے انتہائی شائستگی سے جواب دیا کہ اِس تہوار کا ہمارے دین سے کوئی تعلق ہے نہ اسلامی معاشرت سے ۔میں نے اُسے سمجھانے کی خاطر یہ کہا کہ ہمیں اسلامی اقدار اورکلچر کو فروغ دینا چاہیے کہ اِسی میں فلاح کی راہ نکلتی ہے ۔میری عزیزہ نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ میری سوچیں ابھی تک ہزاروں سال پہلے کے دَورِ جاہلیت میں گھوم رہی ہیں ، جبکہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے ۔تَب سے اب تک میں یہی سوچ رہی ہوں کہ ہم ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں یا تنزلی کی ؟۔معلوم تاریخ سے تو یہی پتہ چلتاہے کہ ابتدا میں معاشرے کا وجود تک نہیں تھا اور اقدار سے بے نیاز برہنہ انسانوں اور حیوانوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔

ہزاروں سالوں کی گردشِ لیل و نہار کے بعد معاشرہ وجود میں آیا ، مرد اور عورت کا فرق واضح ہوا اورنسوانی حیا کو جسم ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پھر حضرتِ انسان نے ’’ یُو ٹَرن‘‘ لیا اور آج یہ عالم ہے کہ یورپ و امریکہ کے سمندری ساحلوں پر ہمیں اُسی دَور کی جھلک نظر آتی ہے جسے ہم ’’پتھر کا زمانہ‘‘ کہتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا روشن خیالی کے نام پر منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے ہمیں ترقی کی جانب لے جا رہا ہے یا تنزلی کی؟

یوں تو طبقۂ اشرافیہ میں ویلنٹائن ڈے کافی عرصے سے منایا جا رہا ہے لیکن اِس کو عروج مشرف صاحب کے دَورِ حکومت میں ہوا اور 2000ء سے اب تک اِس تہوار کو پورے اہتمام سے ایسے منایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مقدس فریضہ ہو ۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ’’ ویلنٹائن ‘‘ کس بَلا کا نام ہے اور اِسے پورے اہتمام سے کیوں منایا جاتا ہے کیونکہ ہمیں تو بس اِس سے غرض ہے کہ ہلّا گُلّا ہو خواہ کیسے بھی ہو۔یوں تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگتے ہیں ’’(اے اللہ ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، نہ کہ اُن لوگوں کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا‘‘۔لیکن ہمارے اعمال اِس کی مطلق گواہی نہیں دیتے ۔یہی نہیں بلکہ ہمارے اعمال تو اُن گمراہوں جیسے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ہم نے وہ کلچر تو کب کا چھوڑ دیا جو میرے آقا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ اطہر کی خوشبوؤں سے معمور تھا ۔اب تو ہمیں وہ سارے تہوار اچھے لگتے ہیں جِن کا اسلامی معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ہم ہندوؤں جیسی مایوں ، مہندی کرتے ہیں ، پیلے بسنتی جوڑے پہنتے ہیں ، بسنت مناتے ہیں اور ویلنٹائن ڈے۔ یہ معصومانہ کوتاہی نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول اللہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شعوری نافرمانی اور اُن کے احکامات کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے ۔

ویلنٹائن ڈے ایسا تہوار ہے جس کے خلاف بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیموں میں بھی شدید ردِ عمل پایا جاتا ہے اوروہ بھی اِسے فحاشی اور ہندوانہ تہذیب کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتی ہیں اور عیسائی پادری بھی اِس دن کو مکروہ خیال کرتے ہیں ۔بنکاک میں ایک پادری نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ایسی دکانوں کو نذرِآتش کر دیا جہاں ویلنٹائن ڈے کے کارڈز اور گلدستے فروخت ہو رہے تھے۔یورپ و امریکہ کے الیکٹرانک میڈیا پربھی اِس دِن کے حوالے سے کوئی خصوصی پروگرام نہیں ہوتا لیکن ہمارے پاکستانی چینلز اِس دِن کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں ۔اِس دن کی مناسبت سے پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں اور سٹوڈیوز کو پھولوں اور غباروں سے بھر دیا جاتا ہے ۔عجیب بات ہے کہ جہاں سے یہ رسمِ بَد پھوٹی وہاں تو اتنا اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن ہم، ذہنی طور پر غلام ابنِ غلام ،اس دن کو ایسے ہی مناتے ہیں جیسے اپنے مذہبی تہواروں کو۔

14 فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو انسائکلوپیڈیا بُک آف نالج میں ’’محبوبوں کے لیے خاص دن‘‘ لکھا گیا ہے ۔روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کے عشق میں گرفتار ہوا ۔چونکہ عیسائیت میں راہبہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں تھا اِس لیے ویلنٹائن نے ایک کہانی گھڑی اور اپنی محبوبہ کو یہ بتایا کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگر 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کر لیے جائیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ویلنٹائن کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں نے کلیسا کی روایت کی دھجیاں اُڑا دیں ۔اِس گناہ کا پتہ چلنے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو ’’شہیدِ محبت ‘‘ کے درجے پر فائز کر دیا ۔آج بھی چرچ اسے جنسی بے راہروی کی تبلیغ قرار دیتا ہے جب کہ بے راہروی کے شکار یورپ کا نوجوان طبقہ اِس دن خوب ہَلّا گُلّا کرتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’یومِ محبت‘‘ نہیں ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے ۔

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اُنہی میں سے ہو گا ‘‘۔لیکن ہم اہلِ یورپ کی مکمل مشابہت اختیار کرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ۔پاکستان کے پوش علاقوں، انگلش میڈیم تعلیمی اداروں ، کلبوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں تہذیبِ مغرب کے غلام خاندانوں کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں ویلنٹائن ڈے پربڑے بڑے ہوٹلوں میں ’’ویلنٹائن ڈنر‘‘ کرتے ، موبائل فونوں پر محبت کے پیغامات بھیجتے ، ا پنے محبوب کو ویلنٹائن کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرتے ہیں ۔شہروں میں طلباء اور طالبات کی ٹولیاں دن بھر پھول خریدتی نظر آتی ہیں اور اکثر نوجوان لڑکے راہ چلتی لڑکیوں کو پھول پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہمارا معاشرہ بھی ’’مادر پِدر آزاد‘‘ ہو گیا ہے ۔اِس معاملے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔جونہی 14 فروری کا سورج طلوع ہوتا ہے چینلز پر محبت کے پیغامات کی بھرمار ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی یورپ کے حیا باختہ اور جنس پرست معاشرے کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتا ہو کیونکہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی چینل نے کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا ہو جو ہمارے نو جوانوں کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی اصلیت سے آگاہ کر سکے ۔

دینِ مبیں میں صحت مند تفریحات کی ہر گز ممانعت نہیں لیکن ایسی تفریحات اور ایسی مسرتوں کی ہر گز گنجائش نہیں جن سے ابلیسیت کی بُو آتی ہو ۔ میرا دین پاکیزہ اقدار کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے بے حیائی کی نہیں ۔رَبِّ کردگار نے حکمت کی عظیم ترین کتاب میں درج کر دیا کہ ’’یقیناََ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں بے حیائی پھیلے ، وہ دُنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ‘‘ (النور) ۔لیکن ہمارا معاشرہ محبت کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیتا چلا جا رہا ہے اور ہمارے سیکولر ذہن کے حامل اصحاب اسی عریانی ، فحاشی اور بے حیائی کو روشن خیالی کا لبادہ اوڑھا کر قابلِ قبول بنانے کی تگ و دَو میں ہیں ۔محبت توایک پاکیزہ جذبہ ہے جو اللہ اور اُس کے بندے کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے اور محبت وہی جواپنے رَبّ سے کی جائے ۔اُس محبوبِ حقیقی نے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر ا للہ کو محبوب رکھتے ہیں ‘‘۔محبوبِ حقیقی کی محبت کے بعد اُس کے بندوں سے محبت بہترین عمل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ محبت بھی اللہ کی رضا کی خاطر کی جاتی ہے۔اِس محبت کے حصول کا آسان ترین طریقہ باہمی سلام ہے ۔آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کا پتہ نہ دوں کہ جب تُم اس پر عمل کرنے لگوگے تو تُم میں محبت پیدا ہو جائے گی ۔یہ وہ ہے کہ آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ ‘‘۔لیکن ہم نے فحاشی کو محبت کے معنی دے کر اپنی روشن خیالی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔(قلم درازیاں از پروفیسر رفعت۔ روزنامہ نئی بات، 14 فروری 2014ء)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویلنٹائن ڈے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوس کو پُوجنے والے پُجاری آج نِکلیں گے
محبت کا تماشہ ہے مداری آج نِکلیں گے

لگیں گے نِرخ عِصمت کے جَمے گی ہر طرف بازی
حیا سے کھیلنے والے جواری آج نِکلیں گے

ہزاروں پھول سُولی پر چڑھیں گے آج پھر عابیؔ
خُدایا رحم گُلشن پہ شِکاری آج نِکلیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 

dxbgraphics

محفلین
اگر برادرم یوسف کو کوئی تحریر اچھی لگتی ہے اور وہ اس کو فورم پر مآخذ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو بطور محفلین ان کو پورا پورا حق ہے۔ اور اعتراض کرنے والوں کو بھی مدلل طریقے سے اس کا جواب دینے کا بھی حق ہے۔میرے نزدیک ان کو نا مناسب نام سے یاد کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔
 

زیک

مسافر
14 فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کو انسائکلوپیڈیا بُک آف نالج میں ’’محبوبوں کے لیے خاص دن‘‘ لکھا گیا ہے ۔روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کے عشق میں گرفتار ہوا ۔چونکہ عیسائیت میں راہبہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں تھا اِس لیے ویلنٹائن نے ایک کہانی گھڑی اور اپنی محبوبہ کو یہ بتایا کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ اگر 14 فروری کو جنسی تعلقات قائم کر لیے جائیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔راہبہ نے ویلنٹائن کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں نے کلیسا کی روایت کی دھجیاں اُڑا دیں ۔اِس گناہ کا پتہ چلنے پر دونوں کو قتل کر دیا گیا لیکن کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو ’’شہیدِ محبت ‘‘ کے درجے پر فائز کر دیا ۔آج بھی چرچ اسے جنسی بے راہروی کی تبلیغ قرار دیتا ہے جب کہ بے راہروی کے شکار یورپ کا نوجوان طبقہ اِس دن خوب ہَلّا گُلّا کرتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’یومِ محبت‘‘ نہیں ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے ۔
یہ کہانی کہاں سے آئی؟
 

یوسف-2

محفلین
کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ کے زیراثر ہمارے ہاں تو اتر سے ایک ایسا طبقہ پروان چڑھ رہا ہے جو تہذیب مغرب کادلدادہ بنا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو روشن خیال ،وسیع القلب اورماڈرن سمجھنے اور دکھانے کا انہوں نے واحد اسلوب ہی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل مغرب کے نقشِ قدم پر اس ہنگامہ آرائی میں دیوانہ وارشامل ہو جائیں۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آخر ان مغربی گل غباڑوں کا پس منظر کیا ہے؟ اس جدیدیت گزیدہ طبقہ کومغربی گل غباڑوں میں شریک ہونے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔ مغرب میں محبت کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے جس جذبے کو وہاں محبت (Love) کا نام دیا جاتا ہے وہ در حقیقت بوالہوسی(Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس اور جنسی باؤ لے پن کی تسکین کی خاطر مردوزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور رفق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ہر طرح کی شہوت رانی وہاں محبت ہی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ویلنٹائن جنسی بے راہ روی کوتقویت دینے والے حربے کے طور استعمال ہوتاہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں عورت کو جواحترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ مغرب میں یہ کام وہاں کی عورت کو خود کرنا پڑتا ہے اوربے حیائی وفحاشی اوربدکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے اوررومی وثنیت اور عیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے اور مسلمان کافروں کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے۔

گزشتہ کئی برس سے نہ جانے کہاں سے وبا آئی کہ اس خطے میں بھی بڑے اہتمام سے ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگاہے۔ مغربی تہذیب نے مشرق کا رخ کیا اور بے ہودگی و بے حیائی کا ایک سیلاب امڈتا چلا آیا۔ اب 14 فروری کے آتے ہی ویلنٹائن ڈے کی تیاری ہونے لگتی ہیں۔ اغیار کے زرخریدمیڈیا پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہوتے ہیں۔ نسلِ نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ شیطان بھی شرمسار ہوتا نظر آتا ہے۔ پہلے پہل یہ وباایک مخصوص طبقے تک محدود تھی ،آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیز بھی ختم ہو گئی اوراب ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا باقاعدہ سبق دیا جانے لگا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے سلف اور آبا و اجدا سے ناآشنائی کا عالم یہ ہے کہ ہم احساس ذمہ داری سے واضح طور پرغفلت برت رہے ہیں۔بدقسمتی سے غلط سلط اذہان کے حامل لوگ نام نہاد ترقی پسندیت کے قائل افراد اورانسان دشمن عناصر کے پیسوں پر پلنے والی این جی اوز ان تقریبات کو میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہی ہیں۔ ان کے مقاصد یہی ہیں کہ لوگ اپنی دینی تعلیمات سے دور ہو کر ایسے معاملات میں الجھ جائیں جو انہیں اخلاق اور شرافت سے دور کر دیں۔ موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں جو فتنے پیدا ہورہے ہیں ،آج اگر ہم اپنے ارد گرد اور خصوصا مسلم معاشرے پر اک طائرانہ نظر ڈالیں توان بے شمار فتنوں کے واضح آثار اور اثرات ہمیں مسلم امہ کی صفوں میں نظر آئیں گے۔ ان میں دورِ حاضر کا ایک تیزی سے پھیلنے والا فتنہ جسے ویلنٹاین ڈیے نام سے جانا جاتا ہے سرِفہرست ہے جس نے مسلمان نوجوان نسل کو اپنے شیطانی جال میں بری طرح جکڑ لیا ہے۔آج سے چند سال پیشتر مسلم ممالک کے عوام الناس کو اس فتنے کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ، مگر موجودہ دور میں ایک مذموم سازش کے تحت باقاعدہ اس فتنے کو نہ صرف اجاگر کیا گیا بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اسے امتِ مسلمہ میں متعارف کروا کر مسلم مرد وخواتین کے اخلاق پر کاری ضرب لگائی گئی اور ہمارے مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس سازش کا شکار بنے۔ یو ں تو ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہودگیوں سے آدم خورد تہذیب نے روایتی جنگ کی بجائے ثقافتی جنگ مسلمانوں پر مسلط کردی ہے اور اس کے لئے کروڑوں اربوں ڈالرمختص کرکے جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مادر پدر آزاد تہذیب وثقافت کو زیب وزینت کا لبادہ اوڑھا کر مسلم ممالک میں منتقل کر دیااور ذرائع ابلاغ،سیٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ کے ذریعے مسلم معاشرے میں اپنی عریاں ثقافت کا طوفان کھڑا کردیا۔رہی سہی کسرکئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز نے اس طرح پوری کردی کہ ان تہذیب دشمن ممالک کے پرگرام اپنے ممالک میں عام کرکے ہرناظر کی ان تک رسائی کو آسان کردیا۔ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے خصوصی پروگرام تیار کئے گئے۔ تجارتی کمپنیوں نے اپنا منافع بڑھانے کی غرض سے ان چینلز پر اس مناسبت سے اشتہارات کی بھر مار کردی اور ویلنٹاین ڈے کو یومِ محبت کے طور پرفروغ دیا۔نوجوانوں کویہ پیغام دیا گیا کہ یہ محبت کرنے والوں کے لئے ایک ایسا دن ہے جس میں وہ اس ہستی کو تحفے، کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرکے اپنے محبت اور چاہت کا اظہار کر سکتے ہیں جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔ یہود و نصاری اوراغیارکے تہوار وں کی بنیاد شرک اور بدعات پر مبنی ہوتی ہے۔اس لئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی رسومات،تہوار اوران کی روایات اپنانے سے منع کیا گیا ہے۔ویلنٹاین ڈے کو محبت کا دن قرار دے کرنوجوان نسل کویہ غیر اخلاقی پیغام دیا گیا ہے کہ اس دن غیراخلاقی طریقے سے محبت کی تقسیم کے اس عمل میں ہر رکاوٹ کو عبور کر جا پھر سال کے بقیہ دنوں میں چاہے ایک دوسرے کا خون پیتے رہو، ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو پامال کرومگر اس ایک دن کو صرف محبت کے بٹوارے کے لئے مختص کردو، جب کہ ہمارا پیارا دین مسلمانوں کو آپس میں شرعی قیود و حدود میں رہتے ہوئے سارا سال پیار و محبت، امن وآشتی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔جنسی بے راہ روی کے شکار لڑکے اور لڑکیاں، مرد و خواتین اس تہوار کو مناتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص اورشناخت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔

ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اوراسکا تاریخی پس منظر کیا ہے اور کس طرح یہ طویل سفر طے کرتا ہوا مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوا، اس کا اندازہ قارئین کو زیرِ نظر سطور کے مطالعے سے بخوبی ہوجائیگا۔گزشتہ چند سالوں میں اس فتنے نے مسلم معاشرے میں جس انداز میں شبِ خون مارا ہے اس نے مسلم مفکرین ، دانشوروں،علما کرام کی ذمے داریوں کو بڑھا دیا ہے اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کس طرح وہ خالص دین کی روشنی میں اس کا سدباب کرتے ہوئے متاثرہ جوان نسل کو خبردار کریں تاکہ دین کا صحیح تصور ان کے اذہان میں قائم ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار کون لوگ ہیں ؟اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں تہذیبی جارحیت کے ان زہرناک حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں حق فہمی کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ حق کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں۔ (از عبدالرافع رسول، روزنامہ نئی بات 15 فروری 2014 ء)
 

x boy

محفلین
اس بات کو لیکر انڈین پنجاب میں کچھ جگہہ اساتذہ پارکوں اور ایسے پوائنٹ میں جہاں ویلنٹائن ڈے کا ناجائز بچہ جنم لے سکتا ہے وہاں صبح سویرے کھڑے ہوجاتے ہیں
اور ہر اس لڑکے لڑکی آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ہیں اگر وہ پاتے ہیں ایسے لوگوں کو تو خوب دھنائی کرتے ہیں

ونلینٹائن ڈے کے لئے ،،، آعوذو باللہ منکم،،،
کیونکہ یہ شیطان کا من پسند کام ہے فخاشی پھیلانا
اور یہ شیطان کے چھتر سائےوالے ہیں۔
 

x boy

محفلین
انگریز برائی بھی کرتا ھے تو کم از کم سلیقے سے کرتا ھے،، اس کی برائی کا بھی ایک معیار ھے، اسٹینڈرڈ ھے،، شراب پیتا ھے تو بس اتنی ھی پیتا ھے جتنی سنبھال سکتا ھے اور اس کا بھی معیار ھے،، ھم اچھا کام بھی برے طریقے سے کرتے ھیں،، مگر برائی کی تو ھم مت ھی مار دیتے ھیں شیطان بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ھے،، کچی شراب پئیں گے تو اس میں تانبے کی تاریں ابال کر پئیں گے،، پھر درجنوں کے حساب سے مریں گے،، ! شادی میں کبھی کسی نے سنا ھو کہ انگریزوں نے فائرنگ کی اور اتنے گورے گورا قبرستان پہنچ گئے ؟ ھم عید میلاد النبی پر بھی فائرنگ کرتے ھیں،،میرے دو شاگرد میلاد والے دن گھر بیٹھے کھانا کھا رھے تھے لاھور،، گولیاں اندر آ کر لگی ھیں،، 15 سال والا جگہ پر ختم ھو گیا ھے اور 11 سال والا اسپتال میں پڑا تھا،، اس کی حالت بھی نازک تھی،پتہ نہیں بچا ھے یا نہیں !

اب یہ ایک لڑکی کے کمنٹس پڑھئے اوولٹین ( ویلنٹائن ) ڈے پر !

Was just reading this comment from a girl on a news item about Valentine Day celebration " Valentine day is very hard on us girls in Islamabad. All boys from god knows where come to forcibly give us ‘presents’ and feel that today they can freely touch and grope us freely like they stare at us on normal days. This day month is a nightmare for us. "...If this is how Valentine Day is celebrated in Pakistan, I totally condemn and denounce it. It seems that our youth are waiting 364 days of the year for this day so that they can express their vile and despicable desires

از: قاری حنیف ڈار ابوظہبی امارات
 

x boy

محفلین
آپ نے ضرور کسی کو پھول دینا ہوگا ، وش کرنا ہوگا شائد آئی لو یو بھی کہنا ہو ،سرخ رنگ کا کارڈ یا سرخ رومال ! آندا تیرے لیے میں ریشمی رومال تے اوتے تیرا ناں کیڈا میں بڑے ای چاواں نال آندا تیرے لئی !!
لیکن یہ پھول ، یہ وش یہ آئی لو یو کے معصوم جذبے کے اظہار کیلیے کسی کی ضرورت ہے کوئی دلربا ، کوئی دلنشین جس کے مخملیں ہاتھوں کا تصور ہی دل کی دھڑکن کو تیز کردیتا ہو۔ جس کے آنے سے قبل ہی اسکے وجود کی مہک کا احساس ہوجائے !
ایسا کون ہوسکتا ہے ؟ جو ویلنٹائن کو واقعی ہی ویلنٹائن بنادے ! ذرا سوچیے کوئی کزن کہ محلے دار ؟ کسی دوسرے محلے میں پائی جانی والی کوئی دلربا یا رات کی ساعتوں میں فون کے اوپر آنے والی ایک دلنشین آواز !
کزن ہے تو پھر خاندان کے کچھ اصول و ضوابط تو ضرور توڑے ہوں گئیں قابل فخر و قابل صد احترام انکل ، ماموں ، خالہ ، وغیرہ کی عزت سے تو ضرور کھلواڑ ہوگا ۔ چلو خیر ہے یہ اپنے ہیں انکی عزت کا خیال کرتے ہیں محلے میں نکلتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ہمسایہ ہو ! جس کی عزت کا رکھوالہ بننا تھا جو کے معاشرے کی پہلی اکائی ہے اسی پر نقب لگانی ہوگی ! پہلے کچھ اشارے ،اسکے گھر کے سامنے کچھ چکر ،فون نمبر لینے کی کوشش ، سکول یا کالج کے راستے میں کھڑا ہونا پھر کہیں جاکر ویلنٹائن ویلنٹائن بنے گا !
ہوسکتا ہے کے محلے میں کچھ خوف لاحق ہو یا کوئی پسند نہ ہو چلو اپنے محلے میں نہ سہی کسی دوسرے محلے میں گند ڈال لیتے ہیں ہوگا تو سارا کچھ یہی ! یا دوسرا شہر ,، دوسرا گاوں ، دوسرا قصبہ !! گند تو گند ہے جہاں کہیں مرضی ڈال لیں ! چاہے خاندان ، گلی ، محلے یا کسی دوست کے گھر !!
ویلنٹائن منانا ہے صرف پھول و رومال سے بات نہ چلے گی کوئی لینے والا بھی چاہیے کوئی دینے والا بھی چاہیے صرف ایک پھول ایک وش ، ایک رومال دینے کے لیے پورا معاشرہ درہم برہم کرنا پڑے گا ! پورے اصول توڑنے پڑیں گئیں ، خاندان ، محلہ ، گاوں ، قصبہ شہر سب کی عزت کو پائمال کرنا پڑے گا ۔ یہ ایک پھول نہیں ہے ، ایک وش نہیں ہے ، ایک رومال نہیں ہے پورا ایک کلچر ہے پورا ایک معاشرہ ہے
ویلنٹائن ہے آج آپ یہ معاشرہ بنایئے کل آپکے گھروالے بھی اسمیں شریک ہوں گئیں !!

از: ابو عبیداللہ دبئی امارات۔

 

شمشاد

لائبریرین
اگر کسی لڑکے سے پوچھو کہ تم نے کتنی لڑکیوں کو ویلنٹائین ڈے پر پھول دیئے تو بڑے فخر سے بتائے گا کہ اتنی لڑکیوں کو دیئے۔
اور اسی سے پوچھیں تمہاری بہن کو کتنے لڑکوں نے پھول دیئے تو لڑنے مرنے کو تیار ہو جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فیس بک پر محمد الطاف گوہر کا ایک مراسلہ

دانشمندی اور بہترین حکمت عملی ہی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے ، جو کام زورِ بازو اور اسلحہ کے کی طاقت سے سر انجام نہ پاسکے اسے دانشمندی سے ہی حل کیا جا سکتا ہے ؛
چین میں ویلنٹائن ڈے کے دن سنیما گھر میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فلم دیکھنے کا خواب دیکھنے والے کچھ جوڑوں کے رنگ میں بھنگ پڑ گیا اور ایسا ایک تنہا شخص کی جانب سے چلائی گئی مہم تھی۔
اس گمنام شخص شنگھائی میں ایک سنیما گھر میں طاق اعداد والی سیٹوں کے ٹکٹ خرید لیے۔ مقصد یہ تھا کہ جوڑے ایک ساتھ بیٹھ کر فلم نہ دیکھ سکیں۔
اس سینما میں بیجنگ لو اسٹوری نام کی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ جلد ہی کئی دوسرے اکیلے لوگ اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس سنیما گھر میں کوئی جوڑا ایک ساتھ بیٹھ کر فلم نہیں دیکھ پایا؛
 

شمشاد

لائبریرین
فیس بُک پر محب علوی کا مراسلہ

ٹویٹر پر ایک مزے کا ٹویٹ کچھ اس طرح سے

ویلنٹائن ڈے کے حق اور مخالفت میں کافی تحاریر آ چکی ہیں
میری مختصر سی گزارش ہے
جس کو ویلنٹائن پسند ہے وہ اپنے گھر کی خواتین کو بھی منانے دے
ماڈرن ہونا ہی ہے تو پھر اپنی گرل فرینڈ کی طرف جاتے ہوئے اپنی بہن کو اس کے بوائے فرینڈ کی طرف ڈراپ کرتے ہوئے جائیے
 

ظفری

لائبریرین
میں نے تو اپنی امی اور سسٹر اور اس کی فیملی کیساتھ ویلنٹائن ڈے ایک ریسٹورینٹ میں منایا ۔ ایک دوسرے کو تحائف دیئے ۔ پھول پیش کیئے ۔ اور آئندہ اسی طرح خوش و خرم ایک دوسرے کیساتھ رہنے کا عزم کیا ۔ اس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو ہوتی رہے کہ یہاں کچھ لوگوں کو عورت برہنہ اور فاحشہ ہی نظر آتی ہے ۔ انہیں کوئی اور رشتہ نظر ہی نہیں آتا یا پھر وہ بہن ، ماں، بیٹی اور بیوی کے رشتے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ عورت کاک شٹیل برقعے یا کچن سے باہر نکلی تو طوائف کا روپ دھار لیتی ہے ۔ تُف ہے ایسے لوگوں کی سوچ پر ۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
This day month is a nightmare for us.

اردو محفل کے ناظمین کیلیے بھی یہ دن کسی عفریت سے کم نہیں ہے۔ ہر سال میں دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ یہ دن خیر خیریت سے گزر جائے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ابھی کل ایک تھریڈ سے کچھ مواد صاف کیا جہاں ایک دوسرے کی بہنوں سے ہوتے ہوتے بات ایک دوسرے کی ولادت پر روشنی ڈالنا شروع ہو گئی تھی اور اب اللہ اکبر یہاں بھی یہی کچھ شروع ہو رہا ہے۔

جانے دو یارو، اب تک تو دنیا کے ہر کونے میں 14 فروری کا دن ختم ہو گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو محفل کے ناظمین کیلیے بھی یہ دن کسی عفریت سے کم نہیں ہے۔ ہر سال میں دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ یہ دن خیر خیریت سے گزر جائے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ابھی کل ایک تھریڈ سے کچھ مواد صاف کیا جہاں ایک دوسرے کی بہنوں سے ہوتے ہوتے بات ایک دوسرے کی ولادت پر روشنی ڈالنا شروع ہو گئی تھی اور اب اللہ اکبر یہاں بھی یہی کچھ شروع ہو رہا ہے۔
جانے دو یارو، اب تک تو دنیا کے ہر کونے میں 14 فروری کا دن ختم ہو گیا ہے۔
یوم غالب شروع ہو گیا اردو محفل والووووووو۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
اردو محفل کے ناظمین کیلیے بھی یہ دن کسی عفریت سے کم نہیں ہے۔ ہر سال میں دعائیں کرتا رہتا ہوں کہ یہ دن خیر خیریت سے گزر جائے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ابھی کل ایک تھریڈ سے کچھ مواد صاف کیا جہاں ایک دوسرے کی بہنوں سے ہوتے ہوتے بات ایک دوسرے کی ولادت پر روشنی ڈالنا شروع ہو گئی تھی اور اب اللہ اکبر یہاں بھی یہی کچھ شروع ہو رہا ہے۔

جانے دو یارو، اب تک تو دنیا کے ہر کونے میں 14 فروری کا دن ختم ہو گیا ہے۔
جب تک" مولانا " عبدالعزیز جیسے لوگ یہاں موجود ہیں ۔ آپ کو اس عفریت کو برداشت کرنا پڑے گا ۔ اب تو یہاں چھپے ہوئے لوگ بھی اپنے بلوں سے باہر نکل آئے اور طالبان " زندہ باد " کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔:notworthy:
 
Top