وکی لیکس کے بانی جولین اسانژ لندن میں گرفتار

ہندو

محفلین
بی بی سی منگل 7 دسمبر

امریکی سفارتی دستاویزات کو افشاء کرکے دنیا میں ہلچل مچا دینے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولین اسانژ کو لندن میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انتالیس سالہ جولین کو جو آسٹریلیا کے شہری ہیں، لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے گرفتار کیا۔ ان پر سویڈن میں دو خواتین پر جنسی حملے کا الزام ہے جس سے اسانژ انکار کرتے ہیں۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے کہ مسٹر اسانژ کو گرفتاری کے یورپی وارنٹ کے تحت منگل کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ پہلے سے طے شدہ وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے لندن کے ایک تھانے میں پولیس کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے آئے۔

بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ اسانژ کو گرفتاری کے چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں سویڈن کے حوالے کرنے کا عمل شروع ہوگا۔

جولین اسانژ پر سویڈن کے حکام کا الزام ہے کہ انھوں نے دو خواتین پر جنسی حملہ کیا۔ ان پر ریپ کا بھی الزام ہے۔ یہ تمام الزامات اگست سنہ دو ہزار کے مبینہ واقعات سے متعلق ہیں۔

مسٹر اسانژ کے بارے میں خیال ہے وہ برطانیہ میں روپوش ہیں جولین اسانژ کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کیس سیاسی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔

گزشتہ روز لندن میں جولین اسانژ کے وکیل مارک سٹیفنز نے کہا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا اور وہ رضاکارانہ طور پر ان کی پولیس سے ملاقات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مسٹر اسانژ کی گرفتاری کے یورپی وارنٹ سویڈن کی اعلٰی عدالت کے اس فیصلے کے بعد جاری کیے گئے ہیں جس کے تحت ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
 

ذوالفقار

محفلین
امريکہ کا اس کی گرفتاری کے ساتھ کوئ تعلق نہیں ہے۔ 30 نومبر 2010ء کو سويڈن کے پبلک پرسکيوشن آفس نے آسانج کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کيے تھے۔ گرفتاری کے جاری کردہ وارنٹ کی روشنی میں برطانوی پولیس نے منگل کے روز وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو مبينہ زنا کے الزام ميں گرفتار کیا تھا۔ سویڈش حکام کی طرف سے ملزم پر ایک کاونٹ زنا اور دو اکاونٹ جنسی زیادتی کے الزامات ہیں ہے ان جرائم کا ارتکاب اس نے اگست 2010 ء ميں کيا ہے۔

جہاں تک رہا تعلق خفيہ دستاويزات کی اشاعت کا تو ہم نے ناجائز طور پر قومی سلامتی کے بابت شائع کی جانے والی خفيہ دستاويزات کی پر زور مزمت کی ہے۔ وکی ليکس نے چوری شدہ خفيہ دستاويزات کی اشاعت کر کے کئ انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں شائع کی جانی والی امريکی حکومتی دستاويزات ايک قانونی جرم ہے دستاويزات کی اشاعت کے سلسلے میں امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے وکی لیکس کے بانی جولين اسانج کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنے کے ليے غوروفکر کررہے ہیں ۔

ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov
 

عثمان

محفلین
وکی ليکس نے چوری شدہ خفيہ دستاويزات کی اشاعت کر کے کئ انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہے۔

مثلاً ؟ کونسی جانیں؟ کہاں کی ؟


ہزاروں کی تعداد ميں شائع کی جانی والی امريکی حکومتی دستاويزات ايک قانونی جرم ہے دستاويزات کی اشاعت کے سلسلے میں امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے وکی لیکس کے بانی جولين اسانج کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنے کے ليے غوروفکر کررہے ہیں ۔

امریکہ کا قانون ساری دنیا پر لاگو ہے ؟ مقدمہ کہاں درج ہوگا؟
آزادی صحافت کے نعرے بند کریں۔ یا یہ ڈرامے بند کریں۔
 

arifkarim

معطل
جہاں تک رہا تعلق خفيہ دستاويزات کی اشاعت کا تو ہم نے ناجائز طور پر قومی سلامتی کے بابت شائع کی جانے والی خفيہ دستاويزات کی پر زور مزمت کی ہے۔ وکی ليکس نے چوری شدہ خفيہ دستاويزات کی اشاعت کر کے کئ انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں شائع کی جانی والی امريکی حکومتی دستاويزات ايک قانونی جرم ہے دستاويزات کی اشاعت کے سلسلے میں امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے وکی لیکس کے بانی جولين اسانج کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنے کے ليے غوروفکر کررہے ہیں ۔
اور جو امریکہ کر رہا ہے، وہ غیر قانونی نہیں ہے؟ اوہ سوری، یاد آیا قانون تو حضرت امریکہ نے خود ہی تخلیق کیا ہے اپنے فائدہ کیلئے :)
نیز آپکے امریکہ حضور کو اسانج خلاف مقدمہ کرتے وقت سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ آپ دیکھنا وہ کس انداز میں انکو دہشت گرد قرار دیکر امریکہ امپورٹ کرتے ہیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
جی ہاں
اگر ہمت ہے تو امپورٹ کریں اور گوانتامو بے میں رکھیں، قانون سارے پاکستانیوں کے لیے ہی ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو صرف گرفتار ہوا ہے اور اسکی ضمانت یا رہائی کے لیے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔

اگر یہ بندہ پاکستانی ہوتا اور پاکستان میں ہوتا تو اب تک اس کے ساتھ کیا کچھ ہو چکا ہوتا؟
 

ابو لبابہ

محفلین
بالکل سب کیلکو لیٹڈ گیم ہے۔ امریکہ مداری کی ڈگڈگی پر بچہ جمہورا ناچ رہا تھا۔ کھیل ختم تو بچے کا کردار بھی ختم۔
پبر کسی روز کوئی نیا تماشہ اور نیا بچہ جمہورا۔ لیکن مداری ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے ہاں اس کا ظالری چہرہ بدل جاتا ہے۔
 

ذوالفقار

محفلین
ميں يہ واضع کرنا چاہوں گا کہ جولين اسانج کی گرفتاری برطانیہ اور سوئیڈن کا معاملہ ہے امر يکی حکومت اس معاملے میں ملوث نہیں ہے۔ ہم اس بات کی تحقیقات کر رہے ہيں يہ دستاويزات کيسے لیک ہوئيں۔ ہم يہ بھی تحقيق کر رہے ہيں کہ امريکی

قانون کے مطابق 250000 خفيہ دستاويزات کو حکومت کے اندر سے باہر کے کسی غير سرکاری شخص تک کيسے پہنچايا گيا۔ جو اس کا زمہ دار کا ہے امريکی حکومت اس سے جواب طلبی ضرور کرے گی۔ ہم نے جولین اسانج پر واضع کيا تھا کہ امريکی قانون کے مطابق ان خفيہ دستاويزات کو شائع نا کيا جاے بلکہ ہميں واپس لوٹايا جائے۔

ہم پريس کی آزادی پر يقین رکھتے ہيں ليکن امریکی حکومت کی چرائ ہوئ خفيہ دستاويزات کو شائع کرنا ایک قانونی جرم ہے جس کی بنا پر مجرمانہ الزامات عائد کيے جا سکتے ہیں۔ پريس کی آزادی اور چرائ ہوئ خفيہ دستاويزات کو شائع کرنے میں واضع فرق ہے۔

اس کے علاوہ ہم نے سابق يوايس انٹيليجنس تجزیہ نگاربريڈلی ميننگ جس نے خفيہ دستاويزات کو چرايا ، کے خلاف بھی قانونی کاروائ کی ۔ اس کے خلاف خفيہ دستاويزات کی ناجائز ترسیل کےالزامات لگائے گے۔ آپ اس لنک پر تمام الزامات ديکھ سکتے ہیں۔



http://www.boingboing.net/2010/07/06/us-will-press-crimin.html





ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov
 

mfdarvesh

محفلین
شکریہ ذوالفقار، کہ صرف کہنے کی بات ہے، عافیہ صدیقی صرف اقدام قتل کو بھگت رہی، اگر یہ بندہ پاکستانی ہوتا تو پھر دیکھتے اب تک منتقل ہو جاتا، ابھی تو آپ کے پر جلتے ہیں نا
 

ذوالفقار

محفلین
جناب حودکلامی صاحب،

معصوم جانوں کو کس طرح خطرہ ہے؟
بہت سے افراد اور تنظيمیں انسانی حقوق اور جمہوريت جيسے ايشوزپر امريکی حکومت کے ساتھ دانستہ طور پر تبادلہ خيالات کرتے ہيں۔ يہ امريکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے نام اور شناخت کو پوشیدہ رکھیں لیکن خفيہ دستاويزات کی اشاعت کی وجہ سے ان کی شناخت پوشيدہ نہيں رہے سکے گی۔
ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

ہندو

محفلین
بریڈلی میننگ پر قید میں ’سختی‘

قید خانےمیں بریڈلی کی صحت خراب ہوتی جارہی ہے

وکی لیکس کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیےگئے بریڈلی میننگ کے وکیل کے علاوہ جو واحد شخص ان سے ملاقات کرتے رہے ہیں ان کے مطابق ان کی صحت خراب ہوتی جارہی ہے۔

امریکی فوجی پیٹ میننگ وریجینیا میں کوانٹیکو کی فوجی قید تنہائی کاٹ رہے ہیں۔

امریکی صحافی ڈیوڈ ہاؤس، جو ستمبر سے ان سے ملنے جاتے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کی حالت بہت خراب ہے۔

مسٹر ہاؤس نے بی بی سی کو بتایا ’انہیں ایک طرح سےمقدمے کی ابتداء سے ہی سزا یافتہ قیدی کی طرح ہی رکھا گيا ہے اور ظاہر ہے اس سے ان کی اعصابی قوت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔‘

ان مہینوں میں ہم نے ان کی حالت گرتی ہوئی دیکھی ہے۔ اب انہیں ایک موضوع پر توجہ سے بات کرنے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں کے نیچے حلقے آگئے ہیں اور وہ بہت کمزور دیکھتے ہیں۔

ڈیوڈ ہاؤس

جبکہ پینٹاگان نے اس بات کی ترید کی ہے کہ میننگ کے ساتھ کوئی برا سلوک کیا جارہا ہے۔ ایک فوجی ترجمان کے مطابق فوج انہیں محفوظ اور سلامت رکھے ہوئے ہے جو مقدمہ کے لیے تیار ہے۔

بریڈلی میننگ اگر قصوروار پائےگئے تو راز کو افشاں کرنے کے جرم میں انہیں پچاس برس تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

تئیس سالہ میننگ کو اس برس کے اوائل میں گرفتار کیا گيا تھا اور ان پر خفیہ معلومات چرانے کے مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔

ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ دوہزار سات میں اپاچی ہیلی کاپٹر نے بغداد میں جن بارہ عراقی شہریوں کو ہلاک کیا تھا اس کی ویڈیو بھی انہوں نے وکی لیکس کو فراہم کی تھی۔

لیکن صحافی ڈیوڈ ہاؤس کے مطابق ان کے خلاف ابھی نا تو باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی اور نا ہی مقدمہ چلانے کی کوئی تاریخ مقرر کی گئي ہے۔

ڈیوڈ ہاؤس کے مطابق بریڈلی میننگ دن کے تئیس گھنٹے اپنے سیل میں ہی قید رہتے ہیں۔ انہیں ورزش کرنے یا ذرائع ابلاغ تک کی رسائی کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ان کی نگرانی پر معمور گارڈ ہر پانچ منٹ میں، یہاں تک کہ رات میں بھی ان کی تلاشی لیتے ہیں اور جب وہ سوتے ہیں تو لائٹ جلی رکھی جاتی ہے۔

میننگ نے ڈیوڈ ہاؤس سے گزشتہ ہفتے شکایت کی تھی کہ انہیں جو کمبل دیےگئے ہیں وہ اتنے بھاری ہیں کہ جیسے وہ قالین اوڑھے ہوئے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی وہ میننگ سے ملاقات کے لیے جاتے تو وہ ایک ایسے کمرے میں ملتے ہیں جہاں آس پاس گارڈز بھی کھڑے ہوتے ہیں اور امریکی حکومت ان کی بات چيت ریکارڈ کرتی ہے۔

جب پہلی بار سمتبر کے مہینے میں ان سے ملنے گے تو ذہنی طور پر وہ بہت ہی چاک و چوبند اور جسمانی طور پر اچھی صحت میں تھے۔

ان کا کہنا تھا ’ان مہینوں میں ہم نے ان کی حالت گرتی ہوئی دیکھی ہے۔ اب انہیں ایک موضوع پر توجہ سے بات کرنے میں بھی مشکل آتی ہے۔ ان کی آنکھوں کے نیچے حلقے آگئے ہیں اور وہ بہت کمزور دکھتے ہیں۔‘

بی بی سی نے ان سے جب یہ پوچھا کہ وکی لکیس کے بانی جولین اشانژ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پینٹاگان ان پر ان کے خلاف بولنے کے لیے دباؤ ڈال رہا تو اس بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ اس پر مسٹر ہاؤس نے کہا کہ انہیں ایسا نہیں لگا کہ وہ تفتیش کاروں سے تعاون کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بریڈلی میننگ کو اس بات پر بھی افسوس نہیں کہ میڈیا نے جولین اشانژ کی قسمت پر زیادہ توجہ دی اور ان کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر فوکس نہیں کیا۔

جولین اشانژ اس وقت برطانیہ میں جیل پر رہا ہیں۔
 
Top