ن م راشد - انتخاب و تعارف

فرخ منظور

لائبریرین
اجنبی عورت


ایشیا کے دور افتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں
کاش اک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار
چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غارتگر سے ہیں
زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں

کاش اک "دیوارِ رنگ"
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ سیہ پیکر برہنہ راہرو
یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرِخند
یہ گزرگاہوں پہ دیو آسا جواں
جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک
مشتعل، بیباک مزدوروں کا سیلابِ عظیم
ارضَ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
انقلابی


مورخ، مزاروں کے بستر کا بارِ گراں
عروس اُس کی نارس تمناؤں کے سوز سے
آہ بر لب
جدائی کی دہلیز پر، زلف در خاک، نوحہ کناں
یہ ہنگام تھا، جب ترے دل نے اس غمزدہ سے
کہا، لاؤ اب لاؤ دریوزۂ غمزۂ جانستاں

مگر خواہشیں اشہبِ باد پیما نہیں
جو ہوں بھی تو کیا
کو جولاں گۂ وقت میں کس نے پایا ہے
کس کا نشاں؟

یہ تاریخ کے ساتھ چشمک کا ہنگام تھا؟
یہ مانا تجھے یہ گوارا نہ تھا
کہ تاریخ دانوں کے دامِ محبت میں پھنس کر
اندھیروں کی روحِ رواں کو اجالا کہیں
مگر پھر بھی تاریخ کے ساتھ
چشمک کا یہ کون ہنگام تھا؟

جو آنکھوں میں اُس وقت آنسو نہ ہوتے
تو یہ مضطرب جاں،
یہ ہر تازہ و نو بنو رنگ کی دلربا
تری اس پذیرائیِ چشم و لب سے
وفا کے سنہرے جزیروں کی شہزاد ہوتی
ترے ساتھ منزل بمنزل رواں و دواں
اسے اپنے ہی زلف و گیسو کے دامِ ازل سے
رہائی تو ملتی

مگر تُو نے دیکھا بھی تھا
دیوِ تاتار کا حجرۂ تار
جس کی طرف تو اسے کر رہا تھا اشارے
جہاں بام و دیوار میں کوئی روزن نہیں ہے
جہاں چار سُو باد و طوفاں کے مارے ہوئے راہگیروں
کے بے انتہا استخواں ایسے بکھرے پڑے ہیں
ابد تک نہ آنکھوں میں آنسو، نہ لب پر فغاں؟

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہرِ وجود اور مزار


یہ مزار،
سجدہ گزار جس پہ رہے ہیں ہم
یہ مزارِ تار۔۔۔۔ خبر نہیں
کسی صبحِ نو کا جلال ہے
کہ ہے رات کوئی دبی ہوئی؟
کسی آئنے کو سزا ملی، جو ازل سے
عقدۂ نا کشا کا شکار تھا؟
کسی قہقہے کا مآل ہے
جو دوامِ ذات کی آرزو میں نزاز تھا؟

یہ مزار خیرہ نگہ سہی،
یہ مزار، مہر بلب سہی،
جو نسیمِ خندہ چلے کبھی تو وہ در کھلیں
جو ہزار سال سے بند ہیں
وہ رسالتیں جو اسیر ہیں
یہ نوائے خندہ نما سنیں تو اُبل پڑیں!

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنی آنکھ کے سیم و زر
کسی روگ میں، کسی حادثے میں
گنوا چکے؟

انہیں کیا کہیں
کہ جو اپنے ساتھ کوئی کرن
سحرِعدم سے نہ لا سکے؟

مگر ایک وہ
کہ ہزار شمعوں کے سیل میں
کبھی ایک بار جو گم ہوئے
خبر اپنی آپ نہ پا سکے!
کبھی گردِ رہ، کبھی مہر و ماہ پہ سوار تھے
وہ کہانیوں کے جوان۔۔ کیسے گزر گئے!
وہ گزر گئے ہمیں خاکِ بے کسی جان کر
نہ کبھی ہماری صدا سنی
وہ صدا کہ جس کی ہر ایک لے
کبھی شعلہ تھی، کبھی رنگ تھی
کبھی دل ہوئی، کبھی جان بنی!

وہ نمی، وہ خلوتِ ترش بو
جو اجالا ہوتے ہی
قحبہ گاہوں میں آپ پائیں
وہی خامشیِ دراز مو، وہی سائیں سائیں
کہ جو بنک خانوں کے آس پاس
تمام رات ہے رینگتی
وہی اس مزار کی خامشی
جو ہماری ہست پہ حکمراں
جو ہماری بُود پہ خندہ زن!

مگر آرزوئیں،
وہ سائے عہدِ گزشتہ کے،
کبھی واردات کے بال و پر
کبھی آنے والے دنوں کا پرتوِ زندہ تر
وہ ہوائیں ہیں کہ سدا سے
آگ کے رقصِِ وحشی و بے زمام میں ہانپتی
کبھی گھر کے سارے شگاف و درز میں چیختی
کبھی چیختی ہیں پلک لگے
کبھی چیختی ہیں سحر گئے!

ابھی سامنے ہے وہ ثانیہ
جسے میرے خوابوں نے
شب کے ناخنِ تیز تر سے بچا لیا
اسی ثانیے میں وہ شیشے پیکر و جاں کے
پھر سے سمیٹ لوں
جو انہی ہواؤں کے زور سے
گرے اور ٹوٹ کے ماہ و سال کے رہ گزر
میں بکھر گئے
کہ نہیں ہیں اپنی بہا میں دیدۂ تر سے کم
جو مدار، حدِّ نظر سے کم!
میں ہوں آرزو کا۔۔۔
امید بن کے جو دشت و در میں
بھٹک گئی۔۔۔۔

میں ہوں تشنگی کا
جو کناتِ آب کا خواب تھی
کہ چھلک گئی ۔۔۔۔

میں کشادگی کا ۔۔۔
جو تنگ نائے نگاہ و دل میں
اتر گئی ۔۔۔۔
میں ہوں یک دلی کا ۔۔
جو بستیوں کی چھتوں پہ
دودِ سیاہ بن کے بکھر گئی ۔۔۔
میں ہوں لحنِ آب کا،
رسمِ باد کا، وردِ خاک کا نغمہ خواں!

یہ بجا کہ ہست ہزار رنگ سے جلوہ گر
مگر اک حقیقتِ آخریں
یہی آستانۂ مرگ ہے!
یہ بجا سہی
کبھی مرگ اپنی نفی بھی ہے
(وہی مرگ سال بہ سال آپ نے جی بھی ہے)
وہی ہولِ جاں کی کمی بھی ہے
یہی وہ نفی تھی کہ جس کے سایے میں
آپ (میرے مراقبے کی طرح)
برہنہ گزر گئے
یہ اسی کمی کی تھی ریل پیل
کہ آپ اپنی گرسنگی کی ندی
کے پار اتر گئے
کبھی آسماں و زمیں پہ (دورِ خزاں میں)
بوئے عبیر و گل کی سخاوتوں کی مثال
آپ بکھر گئے۔۔۔۔
ابھی تک (مرا یہ مشاہدہ ہے)
کہ اس مزار کے آس پاس
عبیر و گل کی لپٹ سے
زائروں، رہروؤں کے نصیب
جیسے دمک اٹھے
تو ہزار نام بس ایک نام کی گونج بن کے
جھلک اٹھے
تو تمام چہروں سے ایک آنکھ
تمام آنکھوں سے اک اشارہ
تمام لمحوں سے ایک لمحہ برس پڑا
تو پھر آنے والے ہزار قرنوں کی شاہراہیں
(جو راہ دیکھتے تھک گئی تھیں)
شرار بن کے چمک اٹھیں!

یہ بجا کہ مرگ ہے اک حقیقتِ آخریں
مگر ایک ایسی نگاہ بھی ہے
جو کسی کنوئیں میں دبی ہوئی
کسی پیرہ زن (کہ ہے مامتا میں رچی ہوئی)
کی طرح ہمیں
ہے ابد کی ساعتِ نا گزیر سے جھانکتی
تو اے زائرو،
کبھی نا وجود کی چوٹیوں سے اتر کے تم
اسی اک نگاہ میں کود جاؤ
نئی زندگی کا شباب پاؤ
نئے ابر و ماہ کے خواب پاؤ!
نہیں مرگ کو (کہ وہ پاک دامن و نیک ہے)
کسی زمزمے کو فسردہ کرنے سے کیا غرض؟
وہ تو زندہ لوگوں کے ہم قدم
وہ تو ان کے ساتھ
شراب و نان کی جستجو میں شریک ہے
وہ نسیم بن کے
گُلوں کے بیم و رجا میں
ان کی ہر آرزو میں شریک ہے
وہ ہماری لذتِ عشق میں،
وہ ہمارے شوقِِ وصال میں،
وہ ہماری ہُو میں شریک ہے
کبھی کھیل کود میں ہوں جو ہم
تو ہمارے ساتھ حریف بن کے ہے کھیلتی
کبھی ہارتی کبھی جیتتی۔۔۔۔۔
کسی چوک میں کھڑے سوچتے ہوں
کدھر کو جائیں؟
تو وہ اپنی آنکھیں بچھا کے راہ دکھائے گی۔۔۔
جو کتاب خانے میں جا کے کوئی کتاب اٹھائیں
تو وہ پردہ ہائے حروف ہم سے ہٹائے گی،
وہ ہماری روز کی گفتگو میں شریک ہے!

تو، مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو
مری آرزو کے درخت مجھ کو دکھا بھی دو
وہ گلی گلی جو گرا رہے ہیں دو رویہ
کتنے ہزار سال سے برگ و گل ۔۔۔۔
مجھے دیکھنے دو وہی سحر،
وہی دن کا چہرۂ لازوال،
وہ دھوپ
جس سے ہماری جلد سیاہ تاب ازل سے ہے
مجھے اس جنوں کی رہِ خرام پہ لے چلو
نہیں جس کے ہاتھ میں مو قلم
نہیں واسطہ جسے رنگ سے
فقط ایک پارۂ سنگ سے
ہے کمالِ نقش گرِ جنوں!

اے مرے وجود کے شہر
مجھ کو جگا بھی دو!
مرے ساتھ ایک ہجوم ہے
میں جہاں ہوں
زائروں کے ہجوم بھی ساتھ ہیں
کہ ہم آج
معنی و حرف کی شبِ وصلِ نو
کی برات ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو

مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طولِ المناکی ہے
ایک ہی رُوح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے

عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
اور کچھ واہمے آئندہ کے
پھر بھی اندیشہ وہ آئنہ ہے جس میں گویا
مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
کچھ نہیں دیکھتے ہیں
محورِ عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!

"دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی
ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت"
"مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے"
"چاند کے آنے پہ سائے آئے
سائے ہلتے ہوئے، گھُلتے ہوئے، کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں"۔۔۔ ۔
(مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
اپنی ہی ذات کی غربال میں چھَن جاتے ہیں!)
دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے
چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی

مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
آج جاں اِک نئے ہنگامے میں در آئی ہے
ماہِ بے سایہ کی دارائی ہے
یاد وہ عشرتِ خوں ناب کِسے؟
فرصتِ خواب کسے؟


(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ویب کی دنیا میں پہلی بار یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔

حسن کوزہ گر – 4

جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر ۔۔۔ اِک نئے شہر میں ۔۔۔ ۔
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )

جہاں زاد ۔۔۔ ۔۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!

جہاں زاد میں نے ۔۔۔ ۔۔ حَسَن کوزہ گر نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں ۔۔۔ ۔۔
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)

یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!

(ن م راشد)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
آگ کے پاس

پیرِ واماندہ کوئی
کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں
نوجوان بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں
(اِک رقابت کی سیاہ لہر بہت تیز
مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے)
جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی
مس و سیم کے کاسوں کی چمک!
اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے

کوئلے آگ میں جلتے ہوئے
کن یادوں کی کس رات میں
جل جاتے ہیں؟
کیا انہی کانوں کی یادوں میں جہاں
سال ہا سال یہ آسودہ رہے؟
انہی بے آب درختوں کے وہ جنگل
جنہیں پیرانہ سری بار ہوئی جاتی تھی؟
کوئلے لاکھوں برس دور کے خوابوں میں الجھ جاتے ہیں

آج شب بھی وہ بڑی دیر سے
گھر لوٹا ہے
اس کے الفاظ کو
ان رنگوں سے، آوازوں سے کیا ربط
جو اس غم زدہ گھر کے خس و خاشاک میں ہیں؟
اس کو اس میز پہ بکھری ہوئی
خوشبوؤں کے جنگل سے غرض؟
آج بھی اپنے عقیدے پہ بدستور
بضد قائم ہے!

وہ درختوں کے تنومند تنے
(اپنے آئندہ کے خوابوں میں اسیر)
گرد باد آ ہی گئے
ان کی رہائی کا وسیلہ بن کر
خود سے مہجورئ ناگاہ کا حیلہ بن کر
آئے اور چل بھی دیے
طولِ المناک کی دہلیز پہ
"رخصت" کہہ کر
اور وہ لاکھوں برس سوچ میں
آیندہ کے موہوم میں خوابیدہ رہے!

میرے بیٹے، تجھے کچھ یاد بھی ہے
میں نے بھی شور مچایا تھا کبھی
خاک کے بگڑے ہوئے چہرے کے خلاف؟
لحنِ بے رنگ ہوا سن کے
مری جاں بھی پکار اٹھّی تھی؟
میں کبھی ایک انا اور کبھی دو کا سہارا لیتا
اپنی ساتھی سے میں کہہ اٹھتا کہ "جاگو، اے جان!
ہر انا تیرہ بیاباں میں
بھٹکتے ہوئے پتوں کا ہجوم!
میرا ڈر مجھ کو نگل جائے گا"
میرے کانوں میں مرے کرب کی آواز
پلٹ آتی تھی
"تجھے بے کار خداؤں پہ یقیں
اب بھی نہیں؟
اب بھی نہیں؟

آج بھی اپنے ہی الحاد کی کرسی میں
پڑا اونگھتا ہوں
نوجواں بیٹے کے الفاظ پہ چونک اٹھتا ہوں:
"تو نے، بیٹے،
یہ عجب خواب سنایا ہے مجھے
اپنا یہ خواب کسی اور سے ہر گز نہ کہو!"
کبھی آہستہ سے دروازہ جو کھلتا ہے تو ہنس دیتا ہوں
یہ بھی اس رات کی صر صر کی
نئی چال، نیا دھوکا ہے!
"پھول یا پریاں بنانے کا کوئی نسخہ
مرے پاس نہیں ہے بیٹے
مجھے فرداؤں کے صحرا سے بھی
افسونِ روایت کی لہک آتی ہے
آگ میں کوئلے بجھنے کی تمنا نہ کرو
ان سے آیندہ کے مٹتے ہوئے آثار
ابھر آئیں گے
ان گزرتے ہوئے لمحات کی تنہائی میں
کیسا یہ خواب سنایا ہے مجھے تو نے ابھی
نہیں، ہر ایک سے،
ہر ایک سے یہ خواب کہو
اس سے جاگ اٹھتا ہے
سویا ہوا مجذوب
مری آگ کے پاس
ایسے مجذوب کو اک خواب بہت
خواب بہت۔۔۔ ۔۔ خواب بہت۔۔۔
ایسے ہر مست کو
اک خواب بہت!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے چارگی

میں دیوارِ جہنم کے تلے
ہر دوپہر، مفرور طالب علم کے مانند
آ کر بیٹھتا ہوں اور دزدیدہ تماشا
اس کی پراسرار و شوق انگیز جلوت کا
کسی رخنے سے کرتا ہوں!

معرّی جامِ خوں در دست، لرزاں
اور متبنّیٰ کسی بے آب ریگستاں
میں تشنہ لب سراسیمہ
یزید اِک قلّۂ تنہا پر اپنی آگ میں سوزاں
ابوجہل اژدہا بن کر
خجالت کے شجر کی شاخ پر غلطاں
بہأاللہ کے جسمِ ناتواں کا ہر
رواں اِک نشترِ خنداں
زلیخا، ایک چرخِ نور و رنگ آرا
سے پابستہ
وہیں پہیم رواں، گرداں
ژواں، حلّاج، سرمد
چرسی انسان کی طرح ژولیدہ مو، عریاں
مگر رقصاں

ستالن، مارکس، لینن روئے آسودہ
مگر نارس تمنّاؤں کے سوز و کرب سے شمع تہِ داماں
یہ سب منظور ہے یارب
کہ اس میں ہے وہ ہاؤ ہو، وہ ہنگامہ وہ سیمابی
کہ پائی جس سے ایسی سیمیائی صورتوں نے
روحِ خلاّقی کی بے تابی
مگر میرے خدا، میرے محمد کے خدا مجھ سے
غلام احمد کی برفانی نگاہوں کی
یہ دل سوزی سے محرومی
یہ بے نوری یہ سنگینی
بس اب دیکھی نہیں جاتی
غلام احمد کی یہ نا مردمی دیکھی نہیں جاتی

نیویارک ۔ 16، دسمبر 1953

(ن م راشد)
 
Top