ن م راشد - انتخاب و تعارف

فرخ منظور

لائبریرین
حَسَن کوزہ گر (٣)

حَسَن کوزہ گر (٣)

جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ___
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو او مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں ____

(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا ____
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا

جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟

اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے

مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
___مرے وجود سے بروں____
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی میری سہ نیم

زندگی میری سہ نیم

میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم
دوست داری، عشق بازی، روزگار
زندگی میری سہ نیم!
دوستوں میں دوست کچھ ایسے بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو رات دن کے ہم پیالہ، ہم نوالہ
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
دوستی کچھ دشمنی اور دشمنی کچھ دوستی
دوستی میری سہ نیم!

عشق محبوبہ سے بھی ہے اور کتنی اور محبوباؤں سے،
ان میں کچھ ایسی بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں
اور کچھ ایسی بھی ہیں جو عطرِ بالیں، نورِ‌بستر
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
اِن میں کچھ نگرانِ دانہ اور کچھ نگرانِ دام
عشق میں‌کچھ سوز ہے، کچھ دل لگی، کچھ "انتقام"
عاشقی میری سہ نیم!

روزگار اِک پارہء نانِ جویں کا حیلہ ہے
گاہ یہ حیلہ ہی بن جاتا ہے دستورِ حیات
اور گاہے رشتہ ہائے جان و دل کو بھول کر
بن کے رہ جاتا ہے منظورِ حیات
پارہء ناں کی تمنّا بھی سہ نیم
میں سہ نیم اور زنگی میری سہ نیم!‌
 

فرخ منظور

لائبریرین
ظلمِ‌رنگ

ظلمِ رنگ

"یہ میں ہوں!"
"اور یہ میں ہوں!" ۔۔۔۔۔۔۔
یہ دو میں‌ ایک سیمِ‌نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق وغرب کے مانند،
لیکن مِل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار ان کے درمیاں‌حائل!

مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کے جواں سورج کی تابانی
کبھی اِن نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں
کو چھو جائیں،

محبّت کی کمیں‌گاہوں کو چھو جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ناممکن! یہ ناممکن!
کہ "ظلمِرنگ" کی دیوار ان کے درمیاں حائل!

"یہ میں‌ہوں!"
انا کے زخم خوں آلودہ، ہر پردے میں،
ہر پوشاک میں‌عریاں،
یہ زخم ایسے ہیں‌جو اشکِ ریا سے سِل نہیں سکتے
کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیں‌سکتے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
حرفِ ناگفتہ

حرفِ ناگفتہ

حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو
کوئے و برزن کو،
دروبام کو،
شعلوں کی زباں چاٹتی ہو،
وہ دہن بستہ و لب دوختہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے گنہ گار سے ہشیار رہو!

شحنہء شہر ہو، یا بندہء سلطاں ہو
اگر تم سے کہے: "لب نہ ہلاؤ"
لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ
دست و بازو بھی ہلاؤ،
دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ
ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے،
اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!

اِن کے لمحات کے آفاق نہیں -
حرفِ ناگفتہ سے جو لحظہ گزر جائے
شبِ وقت کا پایاں ہے وہی!
ہائے وہ زہر جو صدیوں کے رگ و پے میں سما جائے
کہ جس کا کوئی تریاق نہیں!
آج اِس زہر کے بڑھتے ہوئے
آثار سے ہشیار رہو
حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے وداع کر

مجھے وداع کر


مجھے وداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟

مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا

میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!

مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!

مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _______ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات

تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!

مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسہء گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____

مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____
 

فرخ منظور

لائبریرین
پہلی کرن

کوئی مجھ کو دُور زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دو
کوئی یہ سجھا دو کہ حاصل ہے کیا ہستیِ رائیگاں سے؟
کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر
عبث بن رہا ہہے ہمارا لہو مومیائی
میں اُس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے، نانِ
شبینہ نہیں ہے
اور اس پر بھی یہ قوم دل شاد ہے شوکتِ باستاں سے
اور اب بھی ہے امیدِ فردا کسی ساحرِ بے نشاں سے
مری جاں، شب و روز کی اس مشقت سے تنگ آ گیا ہوں
میں اس خشت کوبی سے اُکتا گیا ہوں
کہاں ہیں وہ دنیا کی تزئین کی آرزوئیں
جنھوں نے تجھے مجھ سے وابستہ تر کر دیا تھا؟
تری چھاتیوں کی جوئے شیر کیوں زہر کا اک سمندر نہ بن جائے
جسے پی کے سو جائے ننھی سی جاں
جو اِک چھپکلی بن کے چمٹی ہوئی ہے تیرے سینۂ مہرباں سے
جو واقف نہیں تیرے درد ِ نہاں سے؟
اسے بھی تو ذلت کی پایندگی کے لیے آلۂ کار بننا پڑے گا
بہت ہے کہ ہم اپنے ابا کی آسودہ کوشی کی پاداش میں
آج بے دست و پا ہیں
اس آئیندہ نسلوں کی زنجیر پا کو تو ہم توڑ ڈالیں

مگر اے مری تیرہ راتوں کی ساتھی
یہ شہنائیاں سُن رہی ہو؟
یہ شاید کسی نے مسرت کی پہلی کرن دیکھ پائی
نہیں، اس دریچے کے باہر تو جھانکو
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
اُسی ساحرِ بے نشاں کا
جو مغرب کا آقا تھا مشرق کا آقا نہیں تھا
یہ انسان کی برتری کے نئے دور کے شادیانے ہیں، سُن لو
یہی ہے نئے دور کا پرتوِ اولیں بھی
اٹھو اور ہم بھی زمانے کی تازہ ولادت کے اس جشن میں
مل کے دھومیں مچائیں
شعاعوں کے طوفاں میں بے محابا نہائیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
اجنبی عورت

ایشیا کے دورافتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں
کاش اک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار

چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غارتگر سے ہیں
زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں

کاش اک دیوارِ رنگ
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو
یہ سیہ پیکر راہرو
یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرِخند
یہ گزرگاہوں پہ دیو آسا جواں
جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک
مشتعل، بیباک مزدوروں کا سیلابِ عظیم
ارض ِ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم جسم

در پیش ہمیں
چشم و لب و گوش
کے پیرائے رہے ہیں

کل رات
جو ہم چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
غزلائے رہے ہیں
کس آس میں
کجلائے رہے ہیں؟

اس "میں" کو
جو ہم جسموں میں
محبوس ہے
آزاد کریں
کیسے ہم آزاد کریں؟
کون کرے؟ ہم؟
ہم جسم
ہم جسم کہ کل رات
اسی چاند میں
اس سبزے پہ
ان سایوں میں
خود اپنے کو
دہرائے رہے ہیں؟

کچھ روشنیاں
کرتی رہیں ہم سے
وہ سرگوشیاں
جو حرف سے
یا صوت سے
آزاد ہیں
کہہ سکتی ہیں
جو کتنی زبانوں میں
وہی بات، ہر اک رات
سدا جسم
جسے سننے کو
گوشائے رہے ہیں

ہم جسم بھی
کل رات کے
اک لمحے کو
دل بن کے
اسی بات سے
پھر سینوں میں
گرمائے رہے ہیں

اس "میں" کو
ہم آزاد کریں؟
رنگ کی، خوشبوؤں کی
اس ذات کو
دل بن کے
جسے ہم بھی
ہر اک رات
عزیزائے رہے ہیں؟
یا اپنے توہمات کی
زنجیروں میں
الجھائے رہے ہیں
اس ذات کو
جس ذات کے
ہم سائے رہے ہیں؟

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین

نارسائی

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے

کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں،
مگر ان میں ہر شاخ بزدل ہے
یا مبتلا خود فریبی میں شاید
کہ ان کرم خردہ جڑوں سے
وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے!

میں مہمان خانے کے سالون میں
ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا،
گرانی کے باعث وہاں دختران عجم تو نہ تھیں
ہاں کوئی بیس گز پر
فقط ایک چہرہ تھا جس کے
خد وخال کی چاشنی ارمنی تھی!

زمستاں کے دن تھے،
لگاتار ہوتی رہی تھی سر شام سے برفباری
دریچے کے باہر سپیدے کے انبار سے لگ گئے تھے
مگر برف کا رقص سیمیں تھا جاری،
وہ اپنے لباس حریری میں
پاؤں میں گلھاے نسریں کے زنگولے باندھے،
بدستور ایک بے صدا، سہل انگار سی تال پر ناچتی جا رہی تھی!
مگر رات ہوتے ہی چاروں طرف بے کراں خامشی چھا گئی تھی
خیاباں کے دو رویہ سرو و صنوبر کی شاخوں پہ
یخ کے گلولے، پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے،
زمیں ان کے بکھرے ہوےبال و پر سے
کفّ آلود سا ساحل بنتی چلی جا رہی تھی!

میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتا تھا،
بخاری میں افسردہ ہوتے ہوے رقص کو گھورتا تھا،
"اجازت ہے میں بھی ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے"
(زباں فارسی تھی تکلم کی شیرینیاں اصفہانی! )
"تمہیں شوق شطرنج سے ہے ؟"
(اٹھا لایا میں اپنے کمرے سے شطرنج جا کر )
بچو فیل____
اسپ سیاہ کا توخانہ نہیں یہ ____
بچاؤ وزیر____
اور لو یہ پیادے کی شہ لو __
اور اک اور شہ!
اور یہ آخری مات !
بس ناز تھا کیا اسی شاطری پر ؟"
میں اچھا کھلاڑی نہیں ہوں
مگر آن بھر کی خجالت سے میں ہنس دیا تھا !
"ابھی اور کھیلو گے ؟"
لو اور بازی ___
یہ اک اور بازی ...
یونہی کھیلتے کھیلتے صبح ہونے لگی تھی !
موذن کی آواز اس شہر میں زیر لب ہو چکی ہے
سحر پھر بھی ہونے لگی تھی !!
وہ دروازے جو سال ہاسال سے بند تھے
آج وا ہو گئے تھے !
میں کرتا رہا ہند و ایراں کی باتیں :


اور اب عہد حاضر کے ضحاک سے..."
رستگاری کا رستہ یہی ہے
کہ ہم ایک ہو جایں ،ہم ایشیائی !
وہ زنجیر ، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم
وہ اب سست پڑنے لگی ہے ،
تو آو کہ ہے وقت کا یہ تقاضا
کہ ہم ایک ہو جایں____ہم ایشیائی !"
میں روسی حکایات کے ہرزہ گو نو جوانوں کے مانند یہ بے محل وعظ کرتا رہا تھا !



اسے صبحدم اس کی منزل پہ جب چھوڑ کر آ رہا تھا ،
وہ کہنے لگی :
"اب سفینے پہ کوئی بھروسہ کرے کیا
سفینہ ہی جب ہو پر و بال طوفاں؟
یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے ،
مگر اس زمیں سے خدایا رہائی
خدایا دہائی!!
ٹھکاناہے لوطی گری،رہزنی کا !
یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں ،
فقط شاخساریں
ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں !
یہ بچپن میں ،میں نے پڑھی تھی کہانی
کہا ساحرہ نے :"کہ اےشہزادے
رہ جستجو میں
اگر اس لق و دق بیاباں میں
دیکھا پلٹ کر،
تو پتھر کا بت بن کے رہ جاے گا تو!
جہاں سب نگاہیں ہو ماضی کی جانب
وہاں راہرو ہیں فقط عازم نارسائی!""
تو دن بھر یہی سوچ تھی
کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے
کوئی رفعت نہیں ؟

کوئی منزل نہیں ہے ؟


(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
گداگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن گزرگاہوں پہ دیکھا ہے نگاہوں نے لُہو
یاسیہ عورت کی آنکھوں میں یہ سہم
کیا یہ اونچے شہر رہ جائیں گے بس شہروں کا وہم
مَیں گداگر اور مرا دریوزہ فہم!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہ پیمائی عصا اور عافیت کوشی گدا کا لنگِ پا

آ رہی ہے ساحروں کی، شعبدہ سازوں کی صبح
تیز پا، گرداب آسا، ناچتی، بڑھتی ہوئی
اک نئے سدرہ کے نیچے، اِک نئے انساں کی ہُو
تا بہ کے روکیں گے ہم کو چار سُو؟

۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہیں گے اُس نئے انساں سے ہم
ہم تھے کُچھ انساں سے کم؟
رنگ پر کرتے تھے ہم بارانِ سنگ
تھی ہماری ساز و گُل سے، نغمہ و نکہت سے جنگ
آدمی زادے کے سائے سے بھی تنگ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین

ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی
محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف
کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی
اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!
یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن
کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے
خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!
خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے
جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں
سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق
جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا
جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!
پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم
خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور
صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق
ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!
اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں
آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔۔۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں
حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم
رقص و رفتار میں ہم
نغمہ و صورت و اشعار میں ہم
کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!
عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم
دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں
اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں
تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں
کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

۔۔۔۔ 'آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی'
آپ ۔۔۔۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ
آپ ۔۔۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ
آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی
جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں
آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟
اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے
ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب
مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی
اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں
کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!
۔۔۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں
کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!
آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم
جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ
آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم
کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!
آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں
اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں
کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں
کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں
کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟
دہل و تار کہاں سے لائیں؟
چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟
جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے
ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں
نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس
اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!
لوگ حیرت سے پکار اٹھے: "یہ کیا لائے تم؟"
"وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟"
ہم ہنسے، ہم نے کہا: "دیوانو!
زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی
کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟"
لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:
"ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی
یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،
یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!"

۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم
محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!
درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں
اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!
ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں
رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح
ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے
روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے
اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں
اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے
دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟
ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!
اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟
اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے
جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،
اور سہی، اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا
شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد
(اپنی ہر"سعی" کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)
اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!
اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!
ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں
ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب
لیتنی کنت تُراب!
کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں
اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین

خود سے ہم دور نکل آئے ہیں

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا

ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے آوارہ، سراسیمہ طیّور
کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر
ان کی شاخوں میں اماں پاتے تھے، سستاتے تھے،
اور کبھی شوق کے ویرانوں کو اڑ جاتے تھے،
شوق، بے آب و گیاہ
شوق، ویرانۂ بے آب و گیاہ،
ولولے جس میں بگولوں کی طرح ہانپتے تھے
اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے تھے

ہم کہ اب میں سے بہت دور نکل آئے ہیں
دور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے
کروٹیں لیتے ہیں جس منزل میں
عشقِ گم گشتہ کے افسانوں کے خواب
ولولوں کے وہ ہیولے ہیں جہاں
جن کی حسرت میں تھے نقّاش ملول
جن میں افکار کے کہساروں کی روحیں
سر و روبستہ ہیں،
اوّلیں نقش ہیں ارمانوں کے آوارہ پرندوں کے جہاں
خواہشوں اور آمیدوں کے جنیں!

اپنی ہی ذات کے ہم سائے ہیں
آج ہم خود سے بہت دور نکل آئے ہیں!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین

زمانہ خدا ہے

"زمانہ خدا ہے، اسے تم برا مت کہو"

مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی
انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!

مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیارہ، اُس کی محبت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گزرا
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:
"لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں!
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہِ وصال؟"

مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!
جہاں یہ زمانہ َ۔۔۔۔۔ ہنوزِ زمانہ
فقط اِک گرہ ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین

تعارف

اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب،
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب،
نہ اہلِ کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!

بڑھو تُم بھی آگے بڑھو،
اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداؤ
نہ کشکولِ دیوزہ گردی چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو اِن پر نگاہِ کرم!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین

انتقام

اُس کا چہرہ، اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں کی سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں‌کا شور
اُن بتوں کی بے حِسی پر خشمگیں;
اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!


اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے ‘ہونٹوں‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھوں کے جال

آہ تیری مدبھری آنکھوں کے جال
میز کی سطحِ درخشندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سیمگوں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری روح، میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں

قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا دزدانہ ورود
عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بےچارہ شکار
تیرے ہاتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں؟)
کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں
خام و نو آموز ہے تُو ساحرہ
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
(اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصل نہیں
پھر بھی ہے تیرے فسوں کے سامنے مجھ کو شکست
میرے تخیلات، میری شاعری بیکار ہیں

اپنے سر پر قمقموں کے نور کا سیلاب دیکھ
جس سے تیرے چہرے کا سایہ ترے سینے پہ ہے
اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز
تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے
سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں

آہ تیری مدبھری آنکھوں کے جال
دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ
یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی
اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر
کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال
اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو
تو مری تصویر تھی
میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا
آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ
میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا
پابجولاں میرے جسم و روح تیرے سامنے
اور دل پر تیری آنکھوں کی گرفت ِ ناگزیر
ساحری تیری خداوندی تیری
عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر
یہ نگاہوں کا فسوں پایندہ ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
گماں کا ممکن ۔۔۔ جو تُو ہے میں ہوں


کریم سورج،
جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی دے رہا ہے
جو اپنی ہمواری دے رہا ہے ۔۔۔۔۔
(وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند
بھورے سبزوں میں
دور ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
سرشاری دے رہا ہے
۔۔۔ وہی مجھے جانتا نہیں
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے سے آ رہی ہے

یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر
ہزاروں انساں
افق کے متوازی چل رہے ہیں
افق کے متوازی چلے والوں کو پار لاتی ہیں
وقت لہریں ۔۔۔۔
جنہیں تمنا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انہی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہے
وقت لہریں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اِک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اس کے گیسو افق کی چھت سے لٹک رہے ہیں
پکارتا ہے : "اب آؤ، آؤ!
ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔۔۔
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی
مرے ہی متوازی چل رہے ہیں
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
اب آؤ، آؤ!
تمہارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے
ابد کے آغوش میں اتارا۔"
تمام ملاح اس کی آواز سے گریزاں
افق کی شاہراہِ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔۔۔
مگر سماوی خرام والے
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اس طناب ہی سے اتر رہے ہیں
اسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!

اسی طرح میں بھی ساتھ اَن کے اتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں
ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا ۔۔۔۔

مگر نجانے
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
جو رُک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں!

مگر یہ سچ ہے،
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں
نکل پڑا تھا
اُس ایک ممکن کی جستجو میں
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسے چہرے کو ڈھونڈتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں!

میں اس تعاقب میں
کتنے آغاز گن چکا ہوں
(میں اس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)
میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسموں سے ، گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،
کتنی اندھی شراب راتوں سے
کتنی بانہوں سے،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
گزر گیا ہوں
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،
کتنے ایماں کے گنبدوں سے
گرز گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں ۔۔۔
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
نہ کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے
فقط گزرتا ہوا زمانہ

تمام رستے، تمام بوجھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں ۔۔۔
"جواب ہم ہیں ۔۔۔ جواب ہم ہیں۔۔۔۔
ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں ۔۔۔۔"
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!
مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں
تمام، جیسے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں !

تمام کُندے (تو جانتی ہے)
جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کی تیرتے ہیں
یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،
کہ جس سے اِن کو،
(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے
تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بننا ۔۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اِک نہنگ شامل
نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)
نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بننا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
درخت کا دل درخت کا دل!)
تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطحِ دریا پہ جبر سے تیرتے ہیں
اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب اِن کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب ان کا انجام
ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا
اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔۔
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہوں گے
اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اتریں،
اور ان میں آیندہ
اُن کے رویا کے نقش بھر دے!

غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
بقائے موہوم کے جو رستے کھلے ہیں اب تک
ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن ۔۔۔۔
گماں کا ممکن، جو تُو ہے میں ہوں !
جو تُو ہے میں ہوں!

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
مریل گدھے



تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر
برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی
تلاش۔۔۔۔ مریل گدھے کے مانند
کس دریچے سے آ لگی ہے؟
غموں کے برفان میں بھٹک کر
تلاش زخمی ہے
رات کے دل پر اُس کی دستک
بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے
(گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں
میں برف کے گالے لرز رہے ہیں)
ہوا کے ہاتھوں میں تازیانہ
تمام عشقوں کو راستے سے
(تلاش کو بھی)
بھگا رہی ہے
(تلاش کو عشق کہہ رہی ہے!)


یہ رات ایسی ہے
حرف جس میں لبوں سے نکلیں
تو برف بن کر،
وہ برف پارے کہ جن کے اندر
ہزار پتھرائی، ہجر راتیں،
ہزار پتھرائی ہجر راتوں کے بکھرے پنجر
دبے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔
تلاش کیا کہہ رہی ہے؟
(دیکھو، مری کہانی میں رات کے تین بچ چکے ہیں
اگر میں بے وزن ہو چکی ہوں۔۔۔۔
اگر میں مریل گدھا ہوں
مجھ کو معاف کر دو۔۔۔۔)
تلاش ہی وہ ازل سے بوڑھا گدھا نہیں ہے
دھکیل کر جس کو برف گالے
گھروں کے دیوار و در کے نیچے
لِٹا رہے ہیں۔۔۔۔۔

گدھے بہت ہیں جہاں میں: (ماضی سے آنے والے
جہاز کا انتظار مثلاً ۔۔۔۔۔۔۔)
(اور ایسے مثلاً میں ثائے ساکن!)
یہ اجتماعی حکایتیں، ایّتیں، کشاکش،
یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوؤں کا ہجوم مثلاً۔۔۔۔
یہ الوؤں کی، گدھوں کی عفت پہ نکتہ چینی۔۔۔۔۔
یہ بے سرے راگ ناقدوں کے۔۔۔۔۔۔
یہ بے یقینی۔۔۔۔۔
یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً۔۔۔۔۔
تمام مریل گدھے ہیں۔۔۔۔
(مریل گدھے نہیں کیا؟)

دریچہ کھولو
کہ برف کی لے
نئے توانا گدھوں کی آواز
ساتھ لائے
تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!


(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھیں کالے غم کی


اندھیرے میں یوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی
جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا
آنے والے جابر کا!
سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے
سب کے ہونٹوں پر تالے
سب کے دلوں میں بھالے!

اندھیرے میں یوں چمکے میلے دانت بھی غم کے
جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے
سر پر ابنِ آدم کے!
غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا
یا جلتا بجھتا شرارا،
جو رستے میں آیا سو مارا!

غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے!
بستی والے بول اٹھے! "اے مالک! اے باری!
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری،
کب ہوگا فرماں جاری؟"

(ن م راشد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آرزو راہبہ ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
آرزو راہبہ ہے، عمر گزاری جس نے
انہی محروم ازل راہبوں، معبد کے نگہبانوں میں
ان مہ و سالِ یک آہنگ کے ایوانوں میں!
کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری
روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری

۔۔۔۔۔۔۔۔ راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
لڑکھڑاتی ہوئی، فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی!
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحرِ نو یہی قندیل بنے

۔۔۔۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر
خود میں کھوئے ہوئے، سہمے ہوئے، سرگوشی سے ڈرتے ہوئے
راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر
کس لیے راہبہ ہے بےکس و تنہا و حزیں!
راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند
بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں
جس میں اُگتے نہیں دل سوزئ انساں کے گلاب

راہبہ شمع لیے پھرتی ہے
یہ سمجھتی ہے کہ اس سے درِ معبد پہ کبھی
گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی
سنگریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی!

(ن م راشد)
 
Top